چیلنجز کا حصار

سوالات، خدشات، توقعات اور امکانات کے اجتماع کے آئینہ میں جمہوریت کی صورت نہیں پہچانی جاتی۔

سوالات، خدشات، توقعات اور امکانات کے اجتماع کے آئینہ میں جمہوریت کی صورت نہیں پہچانی جاتی۔ فوٹو: فائل

ملکی سیاسی، سیکیورٹی اور اقتصادی صورتحال کا منظر نامہ ناقابل بیان ہے، سوالات، خدشات، توقعات اور امکانات کے اجتماع کے آئینہ میں جمہوریت کی صورت نہیں پہچانی جاتی، واقعات کی تیز رفتاری مبصرین کے لیے حیرت کا باعث ہونے کے ساتھ ساتھ اس جانب بھی اشارہ کرتی ہے کہ خطے میں سیاسی ومعاشی حقائق کی تفہیم کے لیے ارباب اختیارکو زمینی حقائق کے تمام ڈائنامکس کو نہایت باریک بینی سے دیکھنا ہوگا کیونکہ واقعات جس رفتار سے رونما ہورہے ہیں اسی تناسب سے واقعات کے استنباط اور تقابلی جائزے کی شدت سے آیندہ دنوں میں ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔

ماہرین نے درست کہا ہے کہ پاکستان کو تاریخ کے اعصاب شکن چیلنجزکا سامنا ہے تاہم یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ ارباب اختیار حقائق کے ادراک کی اسی دور اندیشی، پیشہ ورانہ مہارت اور سفارتی بصیرت سے کوئی صائب حل تلاش بھی کرلیں گے، یوں بھی علاقائی مسابقت خواہ وہ سیاسی حالات کے بہاؤکا نتیجہ ہو یا ریاستی، تزویراتی، سماجی و تجارتی کشمکش کے کسی نئے گرینڈ پلان سے اسے کوئی نسبت ہو، بہرکیف سیاسی و عسکری قیادت کے لیے معاصرانہ چشمک زنی سے جمہوری سفینہ کو منزل مراد تک لانے کے لیے دور اندیشی اور دانش مندانہ حکمت عملی کے باب میں غیر روایتی سیاسی بریک تھروکی موثرکوششوں کا ثبوت دینا ہوگا۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ حکومت اسی سمت میں صائب پیش قدمی کا عندیہ دے رہی ہے لہٰذا معاشی اور تجارتی معاملات کی مد میں اقتصادی استحکام اور داخلی سیاسی و معاشی چیلنجز سے نمٹنے میں اب بھی ضرورت اس منفرد سیاسی فیئر پلے، گلوبل وژن اور داخلی سیاسی، خیرسگالی اور وسعت نظرکی ہے جس کا ساری قوم بے تابی سے منتظر ہے۔

اس وقت کوشش ہونی چاہیے کہ سیاست، سفارت، کثیرجہتی دوستانہ روابط اور جارحانہ ڈپلومیسی کو خاردار جھاڑیوں سے نکالتے ہوئے دشمن کو چاروں شانے چت کرنے کی فیصلہ کن لڑائی میں حکمراں فتح یاب ہوں، یہ سیاسی سرخروئی کی صبر آزما صورتحال ہے۔ عالمی اور علاقائی حریف قوتوں کی برپا کی ہوئی جنگ ہے جس میں ملکی جمہوریت کو ہر قیمت پرکامیابی دلانا حکمرانوں کے لیے اولین چیلنج ہے، حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ سیاسی کشمکش اور سیاسی درجہ حرارت میں کمی لائے، اوپن مکالمہ کا درکھلا رہنے دے۔

سیاسی اور عدالتی خیر سگالی کی فضا اور اہداف کو مکمل کرنے میں عوام کی طمانیت و تحمل میں اضافہ کرے، مستقبل کے سیاسی منظر نامے میں امید افزا امکانات کو بڑھاوا دے کر منظر نامہ کی یاسیت کو بدل کر رکھ دے، جس کے لیے داخلی کشمکش اور chaos کا ہر قیمت پر خاتمہ اشد ضروری ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ ارباب اختیار صورتحال کی نزاکت اور عوام کو درپیش گوناں گوں مسائل کے حل پر سیاست کی باگ موڑ لیں گے، کیونکہ معاشی تصویر نوشتہ دیوار ہے۔

مبصرین کے مطابق پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری سست روی کا شکار ہوگئی، ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور کورونا کے عالمی معاشی اثرات کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی دیکھی جارہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے اعدادوشمارکے مطابق نئے سال کے آغاز پر پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری 85فیصد کم رہی۔

جنوری میں سرمایہ کار ی24کروڑ ڈالر تک محدود رہی۔ گزشتہ سال جنوری میں ایک ارب 60 کروڑ97لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔ جنوری 2020میں غیرملکی بانڈز میں سرمایہ کاری کا حجم ایک ارب 38کروڑ73لاکھ ڈالر رہا تاہم جنوری 2021 میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری 19کروڑ27لاکھ ڈالر رہی۔ جنوری 2021ء میں غیرملکی سرمایہ کاری 4کروڑ ڈالر تک محدود رہی۔ رواں مالی سال کے پہلے 7 ماہ میں یہ سرمایہ کاری 2ارب 68کروڑ ڈالر کم رہی۔ جولائی تا جنوری کے دوران سرمایہ کاری گزشتہ سال کے مقابلے میں 78فیصد کم رہی۔ براہ راست سرمایہ کاری 27.4فیصد کمی سے ایک ارب 14کروڑ53لاکھ ڈالر کم رہی۔ جولائی تا جنوری اسٹاک مارکیٹ سے 23کروڑ63لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری نکالی گئی۔

غیرملکی نجی سرمایہ کاری 43فیصد گھٹ کر 90کروڑ 84لاکھ ڈالر کم ہوگئی، سیکریٹری توانائی ڈویژن نے بتایا ہے گردشی قرضہ 2کھرب 30ارب روپے ہوچکا ہے۔ توانائی ڈویژن نے پارلیمانی پینل کو مطلع کیا کہ گزشتہ ماہ ملک گیر بلیک آوٹ کی تفتیش کرنے والی کمیٹی نے گدو تھرمل پاور پلانٹ کے چند اہلکاروں کو ذمے دار قراردیا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ یہ خرابی چند اہلکاروں کی غفلت کے باعث ہوئی، جنھوں نے مروجہ طریقہ اختیار نہیں کیا۔ واضح رہے 9 جنوری کی رات بریک ڈاؤن کے باعث ملک اندھیرے میں ڈوب گیا تھا۔

سینٹرل پاور جنریشن کمپنی نے مبینہ غفلت پر 7 اہلکاروں کو معطل کردیا تھا۔ انکوائری کمیٹی نے تجویز دی کہ ایسے اقدامات کیے جائیں تاکہ ایک پلانٹ کی ناکامی سے پورا نظام ٹرپ نہ کرجائے۔ کے الیکٹرک حکام نے بتایا کراچی میں نقصانات 36فیصد سے کم ہوکر 19فیصد رہ گئے۔75 فیصد شہر لوڈ شیڈنگ سے پاک ہے جب کہ جلد95 فیصد لوڈ شیڈنگ سے پاک ہوجائے گا، مئی میں900میگاواٹ یونٹ فعال ہوجائے گا۔ پارلیمانی پینل نے بجلی صارفین پر سرچارج عائد کرنے کے کلی اختیارات توانائی ڈویژن کو دینے سے انکار کرتے ہوئے نیپرا ایکٹ میں ترامیم موخر کرنے کا فیصلہ کیا۔ بل میں حکومت کو سرچارجز لگانے کا اختیار دینے کی تجویز دی گئی ہے۔


اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی گزشتہ روز جاری کردہ رپورٹ کے مطابق جنوری میں تجارتی خسارہ جنوری 2020 کے مقابلے میں 55 فیصد اور دسمبر 2020 کی نسبت 65 فیصد کم ہے۔ مرکزی بینک کے مطابق جنوری کے مہینے میں معیشت کے مختلف شعبوں جیسے بجلی اور ٹیلی کام کے منصوبوں میں سرمایہ کاری 192.7 ملین ڈالر کی سطح پر رہی، جب کہ سال گزشتہ کے اسی مہینے میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری کا حجم 219.6 ملین ڈالر رہا تھا۔

ایک خبرکے مطابق وزیر اعظم عمران خان سے پشاور میں پی ٹی آئی کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی نے ملاقات کی۔ ملاقات کے موقعے پر خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے 14ایم این ایز اور 6 ایم پی ایز غیر حاضر رہے جن میں کابینہ سے فارغ کیے جانے والے دونوں سابق وزراء سلطان محمد خان اورلیاقت خٹک بھی شامل تھے۔

سلطان محمد خان اور لیاقت خٹک کو دعوت نہیں دی گئی تھی۔ صوبائی وزیر شوکت یوسفزئی نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ جو ارکان اسمبلی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے انھوں نے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کو پہلے سے مطلع کررکھا تھا اور ان کی اجازت ہی سے وہ اپنی مختلف مصروفیات کے باعث اجلاس میں نہیں آئے تاہم وہ سب رابطے میں ہیں اور پارٹی ڈسپلن کے پابند بھی ہیں۔

دو ارکان بیرون ملک ہونے کی وجہ سے اجلاس میں شریک نہیں ہوسکے۔ گورنر ہاؤس پشاور میں ارکان اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے واضح کیا کہ سینیٹ انتخابات میں سب کو پارٹی پالیسی اور ڈسپلن کی پابندی کرتے ہوئے اپنے پارٹی امیدواروں کو ووٹ دینا ہوگا، جس نے بھی پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ بین السطور میں جو انتباہ موجود ہے اس میں سیاسی اضطراب کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔

علاوہ ازیں ارباب اختیارکو اس کنفیوژن پر بھی ایک اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالنی چاہیے جس میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر میں کورونا وائرس سے ایک دن میں مزید 41 افراد جاں بحق ہوگئے جب کہ ایک ہزار سے زائد مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 33 ہزار 978 کورونا ٹیسٹ کیے گئے، جس کے بعد مجموعی کووڈ 19 ٹیسٹس کی تعداد 87 لاکھ 52 ہزار 533 ہوگئی ہے۔

گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں مزید ایک ہزار پچاس مثبت کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، اس طرح پاکستان میں کورونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد 5 لاکھ 73 ہزار 384 ہوگئی ہے۔ کورونا وائرس کے خلاف یہ احتیاطی تدابیر اختیارکرنے سے اس وبا کے خلاف جنگ جیتنا آسان ہوسکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صبح کا کچھ وقت دھوپ میں گزارنا چاہیے، کمروں کو بند کرکے نہ بیٹھیں بلکہ دروازے کھڑکیاں کھول دیں اور ہلکی دھوپ کو کمروں میں آنے دیں۔

بند کمروں میں اے سی چلا کر بیٹھنے کے بجائے پنکھے کی ہوا میں بیٹھیں۔ سورج کی شعاعوں میں موجود یو وی شعاعیں وائرس کی بیرونی ساخت پر ابھرے ہوئے ہوئے پروٹین کو متاثر کرتی ہیں اور وائرس کو کمزور کردیتی ہیں۔ درجہ حرارت یا گرمی کے زیادہ ہونے سے وائرس پر کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن یو وی شعاعوں کے زیادہ پڑنے سے وائرس کمزور ہوجاتا ہے۔ پا نی گرم کرکے تھرماس میں رکھ لیں اور ہر ایک گھنٹے بعد آدھا کپ نیم گرم پانی نوش کریں۔

وائرس سب سے پہلے گلے میں انفیکشن کرتا ہے اور وہاں سے پھیپھڑوں تک پہنچ جاتا ہے، گرم پانی کے استعمال سے وائرس گلے سے معدے میں چلا جاتا ہے، جہاں وائرس ناکارہ ہوجاتا ہے۔ معاون خصوصی ڈاکٹر فیصل سلطان نے بھی کورونا ویکسین لگوا لی ہے۔ ڈاکٹر فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ ویکسین کے بارے افواہوں سے لوگ کنفیوژ ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا کی جو ویکسین دستیاب ہو وہ لگوا لینی چاہیے۔

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاقے پنجگور میں سیکیورٹی فورسز پر ہونے والے ایک حملے کم از کم چار اہلکار ہلاک ہو گئے۔ ضلع انتظامیہ کے ایک اہلکار نے اس واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ یہ حملہ ضلع کے علاقے گوران میں کیا گیا۔ بلوچستان کو دہشت گردی کا نیا وار تھیٹر بنانے کی سازش ہورہی ہے، پنجگور میں غیر قانونی پٹرول کی فروخت کے حوالے سے ایک اطلاع گشت کر رہی ہے مگر سیکیورٹی ذرایع نے اس کی تصدیق نہیں کی، اسی طرح ایک اہم خبر ایف اے ٹی ایف کے پیرس اجلاس کی ہے جس میں پاکستان کے گرے لسٹ میں رہنے یا نکالے جانے کے حوالے سے قوم بے چینی سے فیصلہ کی منتظر ہے۔
Load Next Story