سینیٹ الیکشن معرکہ حکومت اور اپوزیشن کی بڑی جنگ میں تبدیل
ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کی جیت حکومت کیلئے ’’الارمنگ‘‘ اور’’وارننگ‘‘ ہے۔
ملکی سیاست ایک پراسرار اور غیر معمولی طلاطم کا شکار ہے، ایک جانب ضمنی انتخابات کے نتائج نے حکومت کو پریشان کر رکھا ہے اور ڈسکہ میں این اے 75 میں تحریک انصاف کی ''چالاکیاں'' الٹا گلے پڑی ہوئی ہیں تو دوسری جانب سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن ٹف ٹائم دے رہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا مقابلہ''آر یا پار'' جیسی صورت اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں ایسی ہی صورتحال لاہور کے حلقہ این اے 122 کے ضمنی الیکشن میں بام عروج پر پہنچ گئی تھی جب تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عبدالعلیم خان نے سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے خلاف الیکشن کو اس انتہا تک پہنچا دیا تھا کہ اس وقت وزیرا عظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلی میاں شہباز شریف کو نہ صرف خود میدان میں آنا پڑا تھا بلکہ وفاقی وصوبائی وزراء کی فوج ظفر موج نے حلقہ میں ڈیرے ڈال دیئے تھے۔
علیم خان اس قدر برتری حاصل کر رہے تھے کہ انہیں الیکشن میں شکست دینے کیلئے اس حلقہ میں ووٹوں کی مشکوک منتقلی سمیت مسلم لیگ کو تحریک انصاف کے ہی ایک اہم رہنما کو ساتھ ملانا پڑا تھا۔ سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی اور حفیظ شیخ کا مقابلہ اس وقت ملکی سیاست کا سب سے بڑا میچ بن چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پوری طاقت کے ساتھ یہ مقابلہ جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اپوزیشن بھی نہایت پر اعتماد دکھائی دے رہی ہے اور ان کے اس اعتماد کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی''یقین دہانی'' ضرور موجود ہے۔
پیپلزپارٹی کی سیاست کا جائزہ لیں تو انہوں نے کبھی کسی خوش فہمی کا شکار ہو کر پیش قدمی نہیں کی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے پیپلز پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور شاید پیپلز پارٹی کے ساتھ''مفاہمت'' ہی وہ رکاوٹ ہے جس نے ابھی تک مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کو''ریڈ لائن'' عبور کرنے سے روک رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے بعد مسلم لیگ(ن) کے رہنما بھی اب یہ بیان دے رہے ہیں کہ بظاہر یہی معلوم ہو رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ،سینٹ الیکشن میں غیر جانبدار ہے۔
سیاست میں سماجی میل جول ، وضع داری اور متوازن ہونا اشد ضروری ہوتا ہے۔ حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی دو مختلف طرز کے امیدوار ہیں۔ یوسف رضا گیلانی ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، وزیر اعظم سمیت کئی اہم ترین عہدوں پر براجمان رہے ہیں اور جب بھی پیپلز پارٹی اقتدار میں رہی یوسف رضا گیلانی اپوزیشن ارکان کے کام آتے رہے ہیں،گیلانی صاحب کو ایک بھرپور سوشل سیاستدان قرار دیا جاتا ہے۔
ان کی رشتے داری پیر پگاڑہ، مخدوم احمد محمود اور جہانگیر ترین کے ساتھ ہے، آصف زرداری ان پر غیر معمولی انحصار کرتے ہیں چنانچہ یہ تمام عوامل یوسف رضا گیلانی کی پوزیشن کو بہت مضبوط بنا دیتے ہیں، پیپلز پارٹی کی قیادت گزشتہ کئی روز سے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے اور ان کا یہ ''دھرنا'' کوئی نہ کوئی رنگ ضرور دکھا سکتا ہے ۔
دوسری جانب عبدالحفیظ شیخ کو ایک ''ٹیکنو کریٹ'' تصور کیا جاتا ہے ان کی سیاسی بنیاد نہیں ہے ،مختلف ادوار حکومت میں مختلف سیاسی حکمران انہیں اپنے ساتھ شامل کرتے رہے ہیں ،عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ حفیظ شیخ کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی اداروں کی خصوصی حمایت اور سپورٹ حاصل ہے جس کی وجہ سے ہر حکومت انہیں کابینہ میں شامل کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
جس طرح سے زیادہ تر معاشی ماہرین خشک مزاج ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی حفیظ شیخ بھی زیادہ سماجی میل جول نہیں رکھتے، تحریک انصاف سمیت حکومتی وزراء کی ایک نمایاں تعداد حفیظ شیخ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے اور کہا جاتا ہے کہ عمران خان اور ان کی حکومت کو شدید ترین مہنگائی اور معاشی مسائل کی وجہ سے جس تنقید کا سامنا ہے اس کے ذمہ دار شیخ صاحب ہیں۔ کئی طاقتور وزراء بھی حفیظ شیخ کے مخالف ہیں لیکن عمران خان کی ناراضگی کے ڈر سے اعلانیہ مخالفت سے گریز کیا جاتا ہے۔سیاسی حلقوں کے مطابق اس وقت حفیظ شیخ کی انتخابی مہم میں کئی ایسے لوگ دکھائی دے رہے ہیں جو خود ماضی میں حفیظ شیخ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
عمران خان، ایسے ہی رہنماوں اور ارکان اسمبلی سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں یہ ''روٹھے'' لوگ خفیہ ووٹنگ کے دوران حفیظ شیخ کے ساتھ''دغا'' نہ کر جائیں۔چند روز قبل جب حفیظ شیخ نے اپنے الیکشن میں تعاون مانگنے کیلئے جہانگیر ترین کو فون کیا تو سیاسی حلقوں میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ شاید جہانگیر ترین دوبارہ ''آن بورڈ'' ہو چکے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ۔
جہانگیر ترین کی وفاداری اور محبت عمران خان کے ساتھ آج بھی اسی طرح وابستہ ہے جیسی چینی سکینڈل آنے سے پہلے تھی اور کپتان بھی عشق ترین میں پہلے کی طرح مغلوب ہے ورنہ اینٹی ترین لابی نے جہانگیر ترین کو گرفتار کرنے کی اجازت مانگنے کیلئے جتنا دباو ڈالا اور جتنی سازشیں کیں ان سے بچنا ممکن نہیں تھا۔
عمران خان اور جہانگیر ترین ایکدوسرے کے ساتھ واٹس ایپ کے ذریعے رابطے میں بھی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی آپس میں کوئی ملاقات بھی مستقبل قریب میں ہو جائے یا پھر شاید ماضی قریب میں ہو چکی ہو،کسے کیا خبر لیکن فی الوقت سینیٹ الیکشن میں حفیظ شیخ کو کامیاب کروانے کیلئے جہانگیر ترین اس طرح سے متحرک نہیں ہیں جیسا کہ وہ اپنے دوست عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے یا پھر پنجاب میں حکومت کی تشکیل کیلئے تھے۔
اس وقت گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور حفیظ شیخ کی انتخابی مہم کو لیڈ کر رہے ہیں ،چوہدری سرور زمینی حقائق کے مطابق سیاسی منصوبہ بندی کرنے والے فرد ہیں اور انہیں جوڑ توڑ کی سیاست بھی آتی ہے اور برادری ازم کی سائنس بھی بخوبی سمجھتے ہیں لہذا انہیں معلوم ہے کہ کس رکن اسمبلی کو کس طرح سے منانا ہے۔
دوسری جانب پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے کابینہ اجلاس میں یہ عمدہ تجویز دی ہے کہ سینیٹ الیکشن کیلئے وزراء کی کمیٹیاں تشکیل دے دی جائیں تا کہ ہر کسی کو اپنی ذمہ داری کا بخوبی علم ہو۔سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوتے ہیں تو اپوزیشن کو سیاسی برتری حاصل ہو جائے گی اور پہلے سے کمزور حکومت مزید کمزور ہو گی ۔
ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کی جیت حکومت کیلئے ''الارمنگ'' اور''وارننگ'' ہے ،بڑھتی ہوئی مہنگائی، معاشی ابتری اور ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی ناراضگی میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے، ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کو فائدہ ہوا ہے اورحکومت کی ساکھ مجروح ہوئی ہے۔
این اے75 ہمیشہ مسلم لیگ(ن) کا مضبوط گڑھ رہا ہے اور تمام غیر جانبدار تجزیوں میں مسلسل اس حلقے میں ن لیگ کی کامیابی کا قوی امکان ظاہر کیا جاتا رہا ہے لیکن تحریک انصاف اور حکومت نے جس انداز میں اس ضمنی الیکشن کو مس ہینڈل کیا ہے وہ اپنے پاوں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے اور آنے والے وقت میں ڈسکہ الیکشن ایک بڑا سیاسی ایشو بننے والا ہے، ڈسکہ الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے الفاظ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ حکومت کیلئے سب اچھا نہیں رہا۔ سیاسی اور انتظامی حلقوں کے مطابق سینیٹ الیکشن کے بعد اہم ترین سیاسی اور انتظامی تبدیلیوں کا امکان ہے۔
بعض فیصلے ہو چکے ہیں لیکن سینیٹ الیکشن کی وجہ سے ان پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا اور جیسے ہی سینیٹ الیکشن مکمل ہوگا تو ساتھ ہی مرحلہ وار تبدیلیوں کا آغاز بھی متوقع ہے۔مسلم لیگ(ن) کی رہنما مریم نواز کو نجانے ادراک ہے یا نہیں لیکن بیرون ملک سرجری کی بات کر کے انہوں نے اپنی سیاسی ساکھ کو کمزور کیا ہے بالخصوص ان کی پارٹی کے رہنما اور کارکن یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا ایک دفعہ پھر سے کوئی ڈیل ہونے والی ہے اور ایک مرتبہ پھر ان کی قیادت انہیں چھوڑ کر بیرون ملک چلی جائے گی۔ مریم نواز کو چاہئے کہ اس تاثر کو دور کرے ویسے بھی انہیں سیانوں کے اس قول پر غور کرنا چاہئے کہ بات کرنے سے پہلے سوچو، پھر تولو اور اس کے بعد بولو۔
وفاقی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا مقابلہ''آر یا پار'' جیسی صورت اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے دور حکومت میں ایسی ہی صورتحال لاہور کے حلقہ این اے 122 کے ضمنی الیکشن میں بام عروج پر پہنچ گئی تھی جب تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عبدالعلیم خان نے سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کے خلاف الیکشن کو اس انتہا تک پہنچا دیا تھا کہ اس وقت وزیرا عظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلی میاں شہباز شریف کو نہ صرف خود میدان میں آنا پڑا تھا بلکہ وفاقی وصوبائی وزراء کی فوج ظفر موج نے حلقہ میں ڈیرے ڈال دیئے تھے۔
علیم خان اس قدر برتری حاصل کر رہے تھے کہ انہیں الیکشن میں شکست دینے کیلئے اس حلقہ میں ووٹوں کی مشکوک منتقلی سمیت مسلم لیگ کو تحریک انصاف کے ہی ایک اہم رہنما کو ساتھ ملانا پڑا تھا۔ سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی اور حفیظ شیخ کا مقابلہ اس وقت ملکی سیاست کا سب سے بڑا میچ بن چکا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان پوری طاقت کے ساتھ یہ مقابلہ جیتنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اپوزیشن بھی نہایت پر اعتماد دکھائی دے رہی ہے اور ان کے اس اعتماد کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی''یقین دہانی'' ضرور موجود ہے۔
پیپلزپارٹی کی سیاست کا جائزہ لیں تو انہوں نے کبھی کسی خوش فہمی کا شکار ہو کر پیش قدمی نہیں کی ہے۔ پچھلے کچھ عرصہ سے پیپلز پارٹی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں نمایاں بہتری آئی ہے اور شاید پیپلز پارٹی کے ساتھ''مفاہمت'' ہی وہ رکاوٹ ہے جس نے ابھی تک مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کو''ریڈ لائن'' عبور کرنے سے روک رکھا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کے بعد مسلم لیگ(ن) کے رہنما بھی اب یہ بیان دے رہے ہیں کہ بظاہر یہی معلوم ہو رہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ،سینٹ الیکشن میں غیر جانبدار ہے۔
سیاست میں سماجی میل جول ، وضع داری اور متوازن ہونا اشد ضروری ہوتا ہے۔ حفیظ شیخ اور یوسف رضا گیلانی دو مختلف طرز کے امیدوار ہیں۔ یوسف رضا گیلانی ایک منجھے ہوئے سیاستدان ہیں، وزیر اعظم سمیت کئی اہم ترین عہدوں پر براجمان رہے ہیں اور جب بھی پیپلز پارٹی اقتدار میں رہی یوسف رضا گیلانی اپوزیشن ارکان کے کام آتے رہے ہیں،گیلانی صاحب کو ایک بھرپور سوشل سیاستدان قرار دیا جاتا ہے۔
ان کی رشتے داری پیر پگاڑہ، مخدوم احمد محمود اور جہانگیر ترین کے ساتھ ہے، آصف زرداری ان پر غیر معمولی انحصار کرتے ہیں چنانچہ یہ تمام عوامل یوسف رضا گیلانی کی پوزیشن کو بہت مضبوط بنا دیتے ہیں، پیپلز پارٹی کی قیادت گزشتہ کئی روز سے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے بیٹھی ہے اور ان کا یہ ''دھرنا'' کوئی نہ کوئی رنگ ضرور دکھا سکتا ہے ۔
دوسری جانب عبدالحفیظ شیخ کو ایک ''ٹیکنو کریٹ'' تصور کیا جاتا ہے ان کی سیاسی بنیاد نہیں ہے ،مختلف ادوار حکومت میں مختلف سیاسی حکمران انہیں اپنے ساتھ شامل کرتے رہے ہیں ،عمومی تاثر پایا جاتا ہے کہ حفیظ شیخ کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی اداروں کی خصوصی حمایت اور سپورٹ حاصل ہے جس کی وجہ سے ہر حکومت انہیں کابینہ میں شامل کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
جس طرح سے زیادہ تر معاشی ماہرین خشک مزاج ہوتے ہیں بالکل ویسے ہی حفیظ شیخ بھی زیادہ سماجی میل جول نہیں رکھتے، تحریک انصاف سمیت حکومتی وزراء کی ایک نمایاں تعداد حفیظ شیخ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہے اور کہا جاتا ہے کہ عمران خان اور ان کی حکومت کو شدید ترین مہنگائی اور معاشی مسائل کی وجہ سے جس تنقید کا سامنا ہے اس کے ذمہ دار شیخ صاحب ہیں۔ کئی طاقتور وزراء بھی حفیظ شیخ کے مخالف ہیں لیکن عمران خان کی ناراضگی کے ڈر سے اعلانیہ مخالفت سے گریز کیا جاتا ہے۔سیاسی حلقوں کے مطابق اس وقت حفیظ شیخ کی انتخابی مہم میں کئی ایسے لوگ دکھائی دے رہے ہیں جو خود ماضی میں حفیظ شیخ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
عمران خان، ایسے ہی رہنماوں اور ارکان اسمبلی سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں یہ ''روٹھے'' لوگ خفیہ ووٹنگ کے دوران حفیظ شیخ کے ساتھ''دغا'' نہ کر جائیں۔چند روز قبل جب حفیظ شیخ نے اپنے الیکشن میں تعاون مانگنے کیلئے جہانگیر ترین کو فون کیا تو سیاسی حلقوں میں یہ بحث شروع ہو گئی کہ شاید جہانگیر ترین دوبارہ ''آن بورڈ'' ہو چکے ہیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ۔
جہانگیر ترین کی وفاداری اور محبت عمران خان کے ساتھ آج بھی اسی طرح وابستہ ہے جیسی چینی سکینڈل آنے سے پہلے تھی اور کپتان بھی عشق ترین میں پہلے کی طرح مغلوب ہے ورنہ اینٹی ترین لابی نے جہانگیر ترین کو گرفتار کرنے کی اجازت مانگنے کیلئے جتنا دباو ڈالا اور جتنی سازشیں کیں ان سے بچنا ممکن نہیں تھا۔
عمران خان اور جہانگیر ترین ایکدوسرے کے ساتھ واٹس ایپ کے ذریعے رابطے میں بھی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان کی آپس میں کوئی ملاقات بھی مستقبل قریب میں ہو جائے یا پھر شاید ماضی قریب میں ہو چکی ہو،کسے کیا خبر لیکن فی الوقت سینیٹ الیکشن میں حفیظ شیخ کو کامیاب کروانے کیلئے جہانگیر ترین اس طرح سے متحرک نہیں ہیں جیسا کہ وہ اپنے دوست عمران خان کو وزیر اعظم بنوانے یا پھر پنجاب میں حکومت کی تشکیل کیلئے تھے۔
اس وقت گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور حفیظ شیخ کی انتخابی مہم کو لیڈ کر رہے ہیں ،چوہدری سرور زمینی حقائق کے مطابق سیاسی منصوبہ بندی کرنے والے فرد ہیں اور انہیں جوڑ توڑ کی سیاست بھی آتی ہے اور برادری ازم کی سائنس بھی بخوبی سمجھتے ہیں لہذا انہیں معلوم ہے کہ کس رکن اسمبلی کو کس طرح سے منانا ہے۔
دوسری جانب پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان نے کابینہ اجلاس میں یہ عمدہ تجویز دی ہے کہ سینیٹ الیکشن کیلئے وزراء کی کمیٹیاں تشکیل دے دی جائیں تا کہ ہر کسی کو اپنی ذمہ داری کا بخوبی علم ہو۔سینیٹ الیکشن میں یوسف رضا گیلانی کامیاب ہوتے ہیں تو اپوزیشن کو سیاسی برتری حاصل ہو جائے گی اور پہلے سے کمزور حکومت مزید کمزور ہو گی ۔
ضمنی انتخابات میں اپوزیشن کی جیت حکومت کیلئے ''الارمنگ'' اور''وارننگ'' ہے ،بڑھتی ہوئی مہنگائی، معاشی ابتری اور ترقیاتی کام نہ ہونے کی وجہ سے عوام کی ناراضگی میں نمایاں اضافہ ہو چکا ہے، ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ(ن) کو فائدہ ہوا ہے اورحکومت کی ساکھ مجروح ہوئی ہے۔
این اے75 ہمیشہ مسلم لیگ(ن) کا مضبوط گڑھ رہا ہے اور تمام غیر جانبدار تجزیوں میں مسلسل اس حلقے میں ن لیگ کی کامیابی کا قوی امکان ظاہر کیا جاتا رہا ہے لیکن تحریک انصاف اور حکومت نے جس انداز میں اس ضمنی الیکشن کو مس ہینڈل کیا ہے وہ اپنے پاوں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے اور آنے والے وقت میں ڈسکہ الیکشن ایک بڑا سیاسی ایشو بننے والا ہے، ڈسکہ الیکشن کے حوالے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز کے الفاظ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ حکومت کیلئے سب اچھا نہیں رہا۔ سیاسی اور انتظامی حلقوں کے مطابق سینیٹ الیکشن کے بعد اہم ترین سیاسی اور انتظامی تبدیلیوں کا امکان ہے۔
بعض فیصلے ہو چکے ہیں لیکن سینیٹ الیکشن کی وجہ سے ان پر عملدرآمد روک دیا گیا تھا اور جیسے ہی سینیٹ الیکشن مکمل ہوگا تو ساتھ ہی مرحلہ وار تبدیلیوں کا آغاز بھی متوقع ہے۔مسلم لیگ(ن) کی رہنما مریم نواز کو نجانے ادراک ہے یا نہیں لیکن بیرون ملک سرجری کی بات کر کے انہوں نے اپنی سیاسی ساکھ کو کمزور کیا ہے بالخصوص ان کی پارٹی کے رہنما اور کارکن یہ سوچ رہے ہیں کہ کیا ایک دفعہ پھر سے کوئی ڈیل ہونے والی ہے اور ایک مرتبہ پھر ان کی قیادت انہیں چھوڑ کر بیرون ملک چلی جائے گی۔ مریم نواز کو چاہئے کہ اس تاثر کو دور کرے ویسے بھی انہیں سیانوں کے اس قول پر غور کرنا چاہئے کہ بات کرنے سے پہلے سوچو، پھر تولو اور اس کے بعد بولو۔