مشکوک انتخابات جمہوری نظام کے لیے زہرِ قاتل
اب بھی وقت ہے کہ پارلیمنٹ ایک جامع انتخابی اصلاحات کرے۔
PESHAWAR:
سیالکوٹ ڈسکہ کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 کے ضمنی انتخابات میں جو کچھ ہوا، اس کا نظارہ ملک کے شہریوں نے ٹیلی ویژن اسکرینز پر دیکھا ہے۔ ڈسکہ میں اس دن خاصی ہنگامہ آرائی ہوئی۔ فائرنگ سے دو افراد جاں بحق ہوئے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے اعلامیہ میں کہا کہ پولنگ ختم ہونے کے بعد گنتی کا عمل شروع ہوا مگر پھر 20 پریزائیڈنگ افسران لاپتہ ہوگئے اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے دفتر نہیں پہنچے۔
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر نے 20 لاپتہ پریزائیڈنگ افسران کے بارے میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو آگاہ کیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے ڈسکہ انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر چیف الیکشن کمشنرکا ٹیلیفون کسی نے نہیں اٹھایا۔ بہرحال چیف الیکشن کمشنر چیف سیکریٹری پنجاب سے ٹیلیفون پر رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئے تو انھیں یقین دہانی کرائی گئی کہ یہ پریزائیڈنگ افسران جلد ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچ جائیں گے۔ یہ پریزائیڈنگ افسران ہفتہ کی صبح 6:00 بجے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچے۔
یوں ان کے انتخابی نتائج مشکوک ہوچکے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے حلقہ این اے 75 کے نتائج معطل کر دیے اور تحقیقات کا حکم دیا۔ ڈسکہ کے ان لاپتہ ہونے والے پریزائیڈنگ افسروں کے حلقہ میں ووٹنگ کی شرح 80فیصد کے قریب ظاہر کی گئی جب کہ باقی حلقوں میں یہ شرح 30 فیصد کے قریب تھی۔
2018 کے انتخابات میں الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کو شفاف بنانے اور جلد از جلد نتائج کی ترسیل کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پہلی دفعہ حساس پولنگ اسٹیشنوں پر کیمرے نصب کیے گئے تھے اور پریزائیڈنگ افسروں کو اسمارٹ فون کے ذریعہ فوری نتائج ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچانے کے لیے RTS کا نظام قائم کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے عملے نے پورے ملک میں پریزائیڈنگ افسروں کو اس نظام کے استعمال کی تربیت دی تھی مگر جب انتخابات ہوئے تو یہ نظام کام نہ کرسکا۔ پریزائیڈنگ افسروں نے پرانے نظام کی مدد سے نتائج ریٹرننگ افسر کے دفتر میں جمع کرائے۔ یوں بڑے شہروں کے قومی اسمبلی کے حلقوں کے نتائج 18گھنٹے اور بعض اوقات 24 گھنٹے بعد ریٹرننگ افسروں تک پہنچ پائے۔
نادرا کے حکام نے وضاحت کی کہ RTSکا نظام ناکارہ نہیں ہوا تھا۔ آج کی اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا تھاکہ ملک کے مختلف علاقوں میں پولنگ افسروں کو گنتی کے وقت پولنگ اسٹیشن سے نکال دیا گیا تھا۔ بعض پولنگ ایجنٹوں کو Counting Sheet کی نقل نہیں دی گئی۔
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف شور مچایا مگر ان جماعتوں نے ماضی کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اس دھاندلی کی عدالتی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرنے کے بجائے پارلیمانی تحقیقات کا مطالبہ کیا، یوں پارلیمنٹ میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم ہوئی مگر یہ کمیٹی مہینوں بعد بھی Terms of reference نہیں بناسکی۔ تحریک انصاف نے 2013 کے انتخابات کے فوراً بعد انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک چلائی تھی۔
اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ جب سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو اپنے وعدے بھول جاتی ہیں۔ معزز چیف جسٹس گلزار نے سینیٹ کے اوپن بیلٹ کے مقدمہ میں سماعت کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے میثاق جمہوریت پر اتفاق اور سینٹ کے اوپن بیلٹ کے وعدہ پر عمل نہ کرنے کا ذکر کیا۔
اسی طرح تحریک انصاف نے بھی جامع انتخابی اصلاحات کا وعدہ کیا تھا مگر برسر اقتدار آنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت اس وعدہ کو بھول گئی اور ان کے دور میں انتخابی مینڈیٹ کو چرانے کے پرانے طریقہ پر عملدرآمد سے نیا پاکستان کا مفہوم عملی طور پر ختم ہوگیا۔ اس ملک میں جمہوری نظام کے مستحکم نہ ہونے کی جہاں ایک وجہ میں 33 سالہ آمریت ہے وہاں ایک اور اہم وجہ انتخابی عمل کا غیر شفاف ہونا ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد50ء کی دہائی میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں دھاندلی کی روایت قائم ہوئی۔ لاہور سے کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار مرزا ابراہیم کو ہرایا گیا، یوں جھرلو پھیرنے کی اصطلاح رائج ہوئی۔
جنرل ایوب خان نے ایک منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ اور تحریک پاکستان کی رہنما فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں دھاندلی کے ذریعہ ہروایا جس سے مشرقی پاکستان کے عوام کا اعتماد مجروح ہوا۔ پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 میں انتخابات کرائے۔
وزیر اعظم چاروں وزراء اعلیٰ اور معروف وزراء بلامقابلہ منتخب ہوئے، یوں حزب اختلاف کو انتخابی دھاندلی کا الزام لگانے کا موقع ملا۔ جنرل ضیاء الحق کو عوام نے ریفرنڈم میں ووٹ نہیں دیے تھے مگر انتخابی نتائج کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے کل ووٹوں کے 90فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس طرح 1985 سے 1999 تک منعقد ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگے۔ ان میں سے بیشتر الزامات درست تھے۔
جنرل پرویز مشرف بھی ایک جعلی ریفرنڈم کے ذریعہ صدر منتخب ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002 کے انتخابات کو خوبصورتی سے ریگولیٹ کیا تھا۔ عمران خان خود تمام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے رہے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت کے نکات کے تحت آزاد الیکشن کمیشن قائم ہوا مگر 2013اور 2018کے انتخابات میں انتخابی دھاندلیوں کی نئی صورتیں سامنے آئیں۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخابات ملک میں انتخابی دھاندلیوںکے الزامات کا نیا طوفان اٹھایا دیا ہے۔
2021 میں ایسا ہونا اس ملک کے لیے المیہ ہے۔ یہ المیہ وزیر اعظم عمران خان کو ماضی کے حکمرانوں کی صف میں کھڑا کردے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ پارلیمنٹ ایک جامع انتخابی اصلاحات کرے۔ ان اصلاحات کے تحت تمام اداروں کو الیکشن کمیشن کی بالادستی کا پابند کیا جائے ورنہ یہ ملک اس صورتحال میں بھی تضادات کا شکار رہے گا۔ مشکوک انتخابات جمہوری نظام کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔
سیالکوٹ ڈسکہ کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 کے ضمنی انتخابات میں جو کچھ ہوا، اس کا نظارہ ملک کے شہریوں نے ٹیلی ویژن اسکرینز پر دیکھا ہے۔ ڈسکہ میں اس دن خاصی ہنگامہ آرائی ہوئی۔ فائرنگ سے دو افراد جاں بحق ہوئے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنے اعلامیہ میں کہا کہ پولنگ ختم ہونے کے بعد گنتی کا عمل شروع ہوا مگر پھر 20 پریزائیڈنگ افسران لاپتہ ہوگئے اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے دفتر نہیں پہنچے۔
ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر نے 20 لاپتہ پریزائیڈنگ افسران کے بارے میں چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو آگاہ کیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے ڈسکہ انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر چیف الیکشن کمشنرکا ٹیلیفون کسی نے نہیں اٹھایا۔ بہرحال چیف الیکشن کمشنر چیف سیکریٹری پنجاب سے ٹیلیفون پر رابطہ کرنے میں کامیاب ہوئے تو انھیں یقین دہانی کرائی گئی کہ یہ پریزائیڈنگ افسران جلد ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچ جائیں گے۔ یہ پریزائیڈنگ افسران ہفتہ کی صبح 6:00 بجے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچے۔
یوں ان کے انتخابی نتائج مشکوک ہوچکے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے حلقہ این اے 75 کے نتائج معطل کر دیے اور تحقیقات کا حکم دیا۔ ڈسکہ کے ان لاپتہ ہونے والے پریزائیڈنگ افسروں کے حلقہ میں ووٹنگ کی شرح 80فیصد کے قریب ظاہر کی گئی جب کہ باقی حلقوں میں یہ شرح 30 فیصد کے قریب تھی۔
2018 کے انتخابات میں الیکشن کمیشن نے انتخابی عمل کو شفاف بنانے اور جلد از جلد نتائج کی ترسیل کے لیے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ پہلی دفعہ حساس پولنگ اسٹیشنوں پر کیمرے نصب کیے گئے تھے اور پریزائیڈنگ افسروں کو اسمارٹ فون کے ذریعہ فوری نتائج ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کے دفتر پہنچانے کے لیے RTS کا نظام قائم کیا تھا۔
الیکشن کمیشن کے عملے نے پورے ملک میں پریزائیڈنگ افسروں کو اس نظام کے استعمال کی تربیت دی تھی مگر جب انتخابات ہوئے تو یہ نظام کام نہ کرسکا۔ پریزائیڈنگ افسروں نے پرانے نظام کی مدد سے نتائج ریٹرننگ افسر کے دفتر میں جمع کرائے۔ یوں بڑے شہروں کے قومی اسمبلی کے حلقوں کے نتائج 18گھنٹے اور بعض اوقات 24 گھنٹے بعد ریٹرننگ افسروں تک پہنچ پائے۔
نادرا کے حکام نے وضاحت کی کہ RTSکا نظام ناکارہ نہیں ہوا تھا۔ آج کی اپوزیشن جماعتوں نے الزام لگایا تھاکہ ملک کے مختلف علاقوں میں پولنگ افسروں کو گنتی کے وقت پولنگ اسٹیشن سے نکال دیا گیا تھا۔ بعض پولنگ ایجنٹوں کو Counting Sheet کی نقل نہیں دی گئی۔
پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں نے انتخابی دھاندلیوں کے خلاف شور مچایا مگر ان جماعتوں نے ماضی کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے اس دھاندلی کی عدالتی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرنے کے بجائے پارلیمانی تحقیقات کا مطالبہ کیا، یوں پارلیمنٹ میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اراکین پر مشتمل ایک کمیٹی قائم ہوئی مگر یہ کمیٹی مہینوں بعد بھی Terms of reference نہیں بناسکی۔ تحریک انصاف نے 2013 کے انتخابات کے فوراً بعد انتخابی دھاندلیوں کے خلاف تحریک چلائی تھی۔
اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ جب سیاسی جماعتیں اقتدار میں آتی ہیں تو اپنے وعدے بھول جاتی ہیں۔ معزز چیف جسٹس گلزار نے سینیٹ کے اوپن بیلٹ کے مقدمہ میں سماعت کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے میثاق جمہوریت پر اتفاق اور سینٹ کے اوپن بیلٹ کے وعدہ پر عمل نہ کرنے کا ذکر کیا۔
اسی طرح تحریک انصاف نے بھی جامع انتخابی اصلاحات کا وعدہ کیا تھا مگر برسر اقتدار آنے کے بعد تحریک انصاف کی حکومت اس وعدہ کو بھول گئی اور ان کے دور میں انتخابی مینڈیٹ کو چرانے کے پرانے طریقہ پر عملدرآمد سے نیا پاکستان کا مفہوم عملی طور پر ختم ہوگیا۔ اس ملک میں جمہوری نظام کے مستحکم نہ ہونے کی جہاں ایک وجہ میں 33 سالہ آمریت ہے وہاں ایک اور اہم وجہ انتخابی عمل کا غیر شفاف ہونا ہے۔ ملک کی آزادی کے بعد50ء کی دہائی میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں دھاندلی کی روایت قائم ہوئی۔ لاہور سے کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار مرزا ابراہیم کو ہرایا گیا، یوں جھرلو پھیرنے کی اصطلاح رائج ہوئی۔
جنرل ایوب خان نے ایک منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کے بانی بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ اور تحریک پاکستان کی رہنما فاطمہ جناح کو صدارتی انتخاب میں دھاندلی کے ذریعہ ہروایا جس سے مشرقی پاکستان کے عوام کا اعتماد مجروح ہوا۔ پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے 1977 میں انتخابات کرائے۔
وزیر اعظم چاروں وزراء اعلیٰ اور معروف وزراء بلامقابلہ منتخب ہوئے، یوں حزب اختلاف کو انتخابی دھاندلی کا الزام لگانے کا موقع ملا۔ جنرل ضیاء الحق کو عوام نے ریفرنڈم میں ووٹ نہیں دیے تھے مگر انتخابی نتائج کے مطابق جنرل ضیاء الحق نے کل ووٹوں کے 90فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ اس طرح 1985 سے 1999 تک منعقد ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگے۔ ان میں سے بیشتر الزامات درست تھے۔
جنرل پرویز مشرف بھی ایک جعلی ریفرنڈم کے ذریعہ صدر منتخب ہوئے۔ جنرل پرویز مشرف نے 2002 کے انتخابات کو خوبصورتی سے ریگولیٹ کیا تھا۔ عمران خان خود تمام انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دیتے رہے۔ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے درمیان ہونے والے میثاق جمہوریت کے نکات کے تحت آزاد الیکشن کمیشن قائم ہوا مگر 2013اور 2018کے انتخابات میں انتخابی دھاندلیوں کی نئی صورتیں سامنے آئیں۔ ڈسکہ کے ضمنی انتخابات ملک میں انتخابی دھاندلیوںکے الزامات کا نیا طوفان اٹھایا دیا ہے۔
2021 میں ایسا ہونا اس ملک کے لیے المیہ ہے۔ یہ المیہ وزیر اعظم عمران خان کو ماضی کے حکمرانوں کی صف میں کھڑا کردے گا۔ اب بھی وقت ہے کہ پارلیمنٹ ایک جامع انتخابی اصلاحات کرے۔ ان اصلاحات کے تحت تمام اداروں کو الیکشن کمیشن کی بالادستی کا پابند کیا جائے ورنہ یہ ملک اس صورتحال میں بھی تضادات کا شکار رہے گا۔ مشکوک انتخابات جمہوری نظام کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔