کینسر کو شکست دینے والی خاتون جو پہلے سویلین خلائی مشن پر جائیں گی

ہیلی ابتدا میں یہ جان کر کافی خوش ہوئیں لیکن انھیں یہ بات اپنے تک رکھنے کا کہا گیا۔

ہیلی ابتدا میں یہ جان کر کافی خوش ہوئیں لیکن انھیں یہ بات اپنے تک رکھنے کا کہا گیا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

ہڈیوں کے کینسر کو شکست دے کر خلاباز بننے والی پہلی شخصیت، خلا میں جانے والی پہلی شخص جن کی ٹانگوں میں مصنوعی ہڈیاں ہیں۔

زمین کے گرد چکر لگانے والی سب سے کم عمر امریکی شخصیت29 سالہ ہیلی آرسینل جلد اس طرح کی شہ سرخیاں بنا سکتی ہیں۔ جنوری میں اس اسسٹنٹ فزیشیئن کو دنیا کے پہلے سویلین خلائی مشن پر جانے کے لیے چْنا گیا ہے۔

ہیلی ابتدا میں یہ جان کر کافی خوش ہوئیں لیکن انھیں یہ بات اپنے تک رکھنے کا کہا گیا۔ انھوں نے بتایا ہے 'میں نے ڈیڑھ ماہ تک اپنی زندگی کا سب سے بڑا راز چھپائے رکھا۔ اب مجھے اجازت ملی ہے کہ میں اسے دنیا کو بتا سکتی ہوں۔'

میمفس میں سینٹ جوڈ چلڈرن ریسرچ ہسپتال نے اعلان کیا کہ اس تاریخی مشن کے لیے ہیلی کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یہاں ہیلی آرسینل پہلے کینسر کی مریضہ تھیں اور اب ملازمت کرتی ہیں۔ رواں سال کے اواخر میں دنیا کی امیر ترین شخصیات میں سے ایک ایلون مسک کی کمپنی سپیس ایکس کے بنائے گئے فیلکن نائن راکٹ کے ساتھ وہ بھی اڑان بھریں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ 'مجھے لگتا ہے کہ یہ مشن لوگوں کو کئی طریقوں سے متاثر کرے گا۔ یہ انھیں بتائے گا کہ کچھ بھی ممکن ہے۔'

اس خلائی مشن میں کوئی پیشہ ور خلاباز موجود نہیں ہو گا بلکہ ہیلی کے ساتھ ایک مقابلے کے دو فاتح ہوں گے۔ 38 سالہ فلائٹ کمانڈر جیرڈ آئزیکمین ایک ارب پتی ہیں جو پورے مشن کی امداد کر رہے ہیں۔ یہ مشن آئزیکمین کا پائلٹ پروجیکٹ ہے۔

انھوں نے یکم فروری کو اعلان کیا کہ انھوں نے یہ راکٹ لانچ خرید لی ہے۔ اس پرواز کے ذریعے آئزیکمین کا مقصد ہے کہ وہ سینٹ جوڈ ہسپتال کے لیے 20 کروڑ ڈالر کا عطیہ جمع کریں۔ اس میں سے آدھی رقم وہ خود عطیہ کریں گے۔ خلائی مشن میں چار سیٹیں تھیں اور ان میں سے ایک سیٹ کی پیشکش ہسپتال کے عملے کو کی گئی تھی۔

آئزیکمین کہتے ہیں کہ 'شروع سے میں چاہتا تھا کہ عملے کا ایک رکن مشن مشن کا حصہ بنے جو اس کے ذریعے امید کا جذبہ بڑھائے۔ اس کے لیے ہیلی سے بہتر کوئی نہیں جو ذمہ داری پر پورا اتر سکے۔' ہیلی کے لیے یہ خلائی مشن ایک احساس سے بڑھ کر ہے۔ انھیں لگتا تھا کہ ایسا کبھی ممکن نہیں ہو گا۔

10 سال کی عمر میں ہیلی سینٹ جوڈ میں ایک ہڈیوں کے کینسر کی مریضہ تھیں۔ علاج کے دوران ان کی کیمو تھراپی ہوئی اور سرجری کے دوران کی ٹانگوں میں اصل کی جگہ مصنوعی ہڈیاں نصب کر دی گئیں۔ ایک الگ دور میں اس کے بعد ہیلی کبھی خلا باز نہ بن پاتیں۔

امریکی خلائی ایجنسی ناسا کی سخت طبی شرائط کی وجہ سے ان کے خلاباز بننے کے خواب ادھورے رہ جاتے لیکن گذشتہ برسوں کے دوران نجی طور پر خلائی مشنز ہونے سے بہت سے لوگوں کی امیدیں پھر سے جاگ اْٹھی ہیں۔ وہ اب ستاروں کے قریب پہنچنے کا دوبارہ سوچ سکتے ہیں۔ ہیلی کہتی ہیں کہ 'اس مشن سے پہلے تک میں کبھی خلاباز نہیں بن سکتی تھی۔ اس مشن کے ساتھ ایسے لوگوں کے لیے خلائی سفر کا راستہ کھل رہا ہے جن میں جسمانی طور پر کوئی کمی ہے۔'


ہیلی کا گھر امریکی ریاست ٹینیسی میں ہے۔ انھیں 5 جنوری کو اچانک کال آئی کہ آیا وہ اس خلائی مشن پر جانا چاہتی ہیں۔ ان کا جواب: 'میں نے فوراً کہا 'ہاں، ہاں۔ پلیز'۔'

انھوں نے اپنے خاندان سے پوچھا کہ کیا وہ اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کے بھائی اور بھابھی ایئرو سپیس انجینیئرز ہیں جنھوں نے بتایا کہ 'خلائی سفر بہت محفوظ ہے۔' اس کے بعد انھوں نے یہ مشن جوائن کرلیا۔

آئزیکمین مارچ میں دیگر دو ممبران کا انتخاب کریں گے اور ان کے نام بتائیں گے۔ ان میں سے ایک اس مقابلے کا فاتح ہوگا جس سے جمع ہونے والی رقم سینٹ جوڈ ہسپتال میں عطیہ کی جائیں گی۔ دوسرا ممبر ایک اور مقابلے کا فاتح ہو گا۔ اس میں نوجوان

پروگرامرز سے کہا گیا ہے کہ آئزیکمین کی پے منٹ ٹیکنالوجی کمپنی شفٹ فور کا سافٹ ویئر استعمال کرتے ہوئے ایک آن لائن سٹور بنائیں۔

انتخاب کے بعد ان ممبران کو سخت ٹریننگ سے گزارا جائے گا جو کئی مہینوں تک چلے گی۔ صفر گریویٹی کے ساتھ اس مشن کو زمین پر آزمایا جائے گا۔

اس فلائٹ میں ہیلی میڈیکل آفیسر ہوں گی۔ انھوں نے ابھی سے اپنا سپیس سوٹ پہن کر دیکھ لیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ 'یہ بہت کمال کا ہے۔' لیکن یہ ان کی امید سے زیادہ بھاری ہے۔ امکان ہے کہ ہیلی کو اس سپیس سوٹ کی عادت ہو جائے گی۔ ان کا راکٹ سنہ 2021 کے اواخر میں فلوریڈا کے کینیڈی سپیس سینٹر سے اڑان بھرے گا۔ ہیلی نے کئی دنوں تک یہ سپیس سوٹ پہنا ہوگا۔ اس دوران سپیس ایکس کا ڈریگن کیپسول زمین کے چکر لگا رہا ہوگا۔ مشن کے آخر میں ڈریگن کیپسول زمین کے ماحول میں داخل ہوگا۔ یہ امریکہ کے مشرقی ساحل پر پانی میں لینڈ کرے گا۔

کیا ہیلی ڈری ہوئی ہیں؟

ہیلی کہتی ہیں کہ 'میں بالکل ڈری ہوئی نہیں۔ میں نے مشن کی تیاری کے لیے لیڈ انجینیئرز سے ملاقات کی ہے۔ مجھے ان پر اعتماد ہے۔' جو کچھ ان پر بچپن میں بیتی، اس کے مقابلے خلائی سفر کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ 'میں کینسر کے مریضوں اور اسے شکست دینے والوں کی نمائندگی کروں گی جو بڑے اعزاز کی بات ہے۔ یہ اتنی پرانی بات نہیں جب میں بھی ان کے جیسی صورتحال سے دوچار تھی۔'

'کینسر کے علاج کے دوران آپ کا دھیان روزمرہ کی سرگرمیوں پر ہوتا ہے۔ مستقبل کا سوچنا کافی مشکل ہوتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس مشن سے یہ لوگ بھی اپنے مستقبل کے بارے میں سوچ سکیں گے۔'

( بشکریہ بی بی سی )
Load Next Story