مشرف کیس معاشرے کو تقسیم کرسکتا ہے سمجھداری دکھانا ہوگی
نواز شریف مک مکا کے الزامات سے بچنے کیلیے فوج، مڈل کلاس کو نظرانداز کر رہے ہیں۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکلاکے مطابق وہ آج غداری کیس میں عدالت پیش نہیں ہونگے جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ دنوں غداری کیس پر اہم بیان دیتے ہوئے پاکستان کے دورے پر آنے والے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ سعودالفیصل کو اشارہ دیا ہے کہ وہ اس معاملہ پر کوئی بات نہیں سننا چاہتے اور ثابت قدم ہیں اور یہ بیان 'سمجھوتے' کے تاثر کو زائل کرنے کیلیے ایک نپا تلا سیاسی ابلاغ بھی ہے۔
یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت کچھ حلقوں کی طرف سے سمجھوتے یا مک مکا کے الزامات پر بہت توجہ دے رہی ہے مگر خطرہ یہ ہے کہ کچھ 'مخصوص آوازوں' کو سننے سے فوج، سول سوسائٹی اور پڑھی لکھی مڈل کلاس سمیت سیاسی محاذ نظرانداز ہوجائیگا جس میں متنوع قسم کی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور اس سارے عمل کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ جب ایک حکومت منتخب ہوتی ہے تو وہ پارٹی لائن اور سپورٹ بیس پر چلتی ہے، وہ ریاست اور معاشرے کی محافظ بن جاتی ہے اور انھیں مشترکہ مستقبل کی تلاش میں سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوتا ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں قیادت کی خوبیاں واضح ہوتی ہیں۔ نواز شریف کی شہرت اور عوامی رابطہ تاریخ نے ثابت کیا، اب ان کے سامنے ڈلیوی کا چیلنج ہے، انکی طرف سے کوئی غلط فیصلہ انہیں معاشرے کی تقسیم کے غلط راستے پر لے جاسکتا ہے جو ان اور پاکستان کیلیے خطرناک ہوگا۔
نواز حکومت کا مشرف کیخلاف 1999ء کے مارشل لا کے بجائے نومبر 2007 کی ایمرجنسی کا مقدمہ چلانا صرف پنڈورا بکس نہ کھولنے کیلیے ہی نہیں ہے بلکہ اس سے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ داتی دشمنی پر یقین نہیں رکھتی اور یہ سب آئینی اور قانونی معاملہ ہے جس کا نواز شریف نے گزشتہ دنوں بھی یہ کہتے ہوئے اعادہ کیا ہے کہ مشرف کیخلاف مقدمے میں ریاست اور آئین مدعی ہیں مگر بدقسمتی سے حکومت کے یہ دلائل نہ تو نقادوں کو قائل کررہے ہیں اور نہ ہی اپنے حامیوں کو۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ دسمبر 2000ء میں نواز شریف کو کیسے خاندان سمیت سعودی عرب بھیجا گیا تھا جس کے بعد وہ 2005 اور 2006 میں لندن اور 2007 میں پاکستان واپس آگئے، بینظیر بھٹو نے امریکیوں اور جنرل کیانی کے تعاون سے مشرف کے ساتھ این آر او کیا، یہ سب سیاسی فیصلے تھے اور مختلف اطراف کی طرف سے سمجھوتے کیے گئے۔
اسی وکل تحریک بھی ہے، افتخار چوہدری کو مسلم لیگ(ن) کی سیاسی جدوجہد اور کیانی کے تعاون سے بحال کرایا گیا، یہ تمام سیاسی فیصلے عدالتی عمل سے بہت بڑھے ہوتے ہیں، آج ہم جہاں کھڑے ہیں، اس کے تمام فوائد اور استحکام اور ایک بہتر مستقبل کے وعدے تمام ایک طویل سیاسی جدوجہد کا نتیجہ ہے جس میں ن لیگ، پیپلزپارٹی، فوج، امریکا اور سعودی عرب سمیت تمام اطراف سے سمجھوتے کئے گئے۔ اس کے بعد اچانک بالکل گھوم جانا اور دلائل دینا کہ پاکستان کی سیاسی تقسیم سے متعلق اہم اور پیچیدہ مسئلے کا فیصلہ صرف سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی طرف سے بنائی گئی خصوصی عدالت کرے گی، غیرمناسب اور غیردانشمندانہ ہے۔ غداری کیس کے دو اصل مقاصد سامنے آتے ہیں پہلا انتقام اور دوسرا فوج پر اپنی اخلاقی برتری ثابت کرنا۔ انتقام کی خواہش کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ 1999ء میں کس طرح دو بار کے منتخب وزیراعظم اور اس کے کچھ ساتھیوں کی تضحیک کی گئی تاہم نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی برداشت اور دوبارہ عروج حاصل کرنے کو تاریخ نے ثابت کردیا ہے اور فوج کو پیغام جاچکا ہے، کسی کو بھی مصر سے آگے سوچنے کی ضرورت نہیں۔
اگر نواز شریف 'مخصوص آوازیں' سننے سے بچیں تو انھیں احساس ہوگا کہ ن لیگ کے حامیوں، مشرف سے عناد رکھنے والے وکلا اور صحافیوں کے علاوہ پڑھی لکھی مڈل کلاس، تاجر طبقے اور مذہبی اقلیتوں میں بہت سے ایسے پاکستانی ہیں جو مشرف کیخلاف اقدامات سے کسی حد تک مطمئن نہیں ہیں ۔ اب چیلنج یہ ہے کہ پرانے حساب برابر کرنے کے بجائے ہر کسی کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا اور اسے ہی پختہ سیاست کہتے ہیں۔ فیصلہ ساز اکثر خوشامدیوں میں گھرے رہتے ہیں اور ایسے حالات میں مخلص نقاد بھی دشمن لگتے ہیں مگر قیادت کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ عقلمندانہ نصیحت کو سنے اور مشکلات کا حل نکالے۔واضح رہے ڈاکٹرمعید پیرزادہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے تجزیہ کار ہیں ۔
یہ واضح ہوتا ہے کہ حکومت کچھ حلقوں کی طرف سے سمجھوتے یا مک مکا کے الزامات پر بہت توجہ دے رہی ہے مگر خطرہ یہ ہے کہ کچھ 'مخصوص آوازوں' کو سننے سے فوج، سول سوسائٹی اور پڑھی لکھی مڈل کلاس سمیت سیاسی محاذ نظرانداز ہوجائیگا جس میں متنوع قسم کی آوازیں اٹھ رہی ہیں اور اس سارے عمل کو شکوک و شبہات کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ جب ایک حکومت منتخب ہوتی ہے تو وہ پارٹی لائن اور سپورٹ بیس پر چلتی ہے، وہ ریاست اور معاشرے کی محافظ بن جاتی ہے اور انھیں مشترکہ مستقبل کی تلاش میں سب کو ساتھ لیکر چلنا ہوتا ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں قیادت کی خوبیاں واضح ہوتی ہیں۔ نواز شریف کی شہرت اور عوامی رابطہ تاریخ نے ثابت کیا، اب ان کے سامنے ڈلیوی کا چیلنج ہے، انکی طرف سے کوئی غلط فیصلہ انہیں معاشرے کی تقسیم کے غلط راستے پر لے جاسکتا ہے جو ان اور پاکستان کیلیے خطرناک ہوگا۔
نواز حکومت کا مشرف کیخلاف 1999ء کے مارشل لا کے بجائے نومبر 2007 کی ایمرجنسی کا مقدمہ چلانا صرف پنڈورا بکس نہ کھولنے کیلیے ہی نہیں ہے بلکہ اس سے یہ تاثر بھی دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ داتی دشمنی پر یقین نہیں رکھتی اور یہ سب آئینی اور قانونی معاملہ ہے جس کا نواز شریف نے گزشتہ دنوں بھی یہ کہتے ہوئے اعادہ کیا ہے کہ مشرف کیخلاف مقدمے میں ریاست اور آئین مدعی ہیں مگر بدقسمتی سے حکومت کے یہ دلائل نہ تو نقادوں کو قائل کررہے ہیں اور نہ ہی اپنے حامیوں کو۔ لوگوں کو یاد ہوگا کہ دسمبر 2000ء میں نواز شریف کو کیسے خاندان سمیت سعودی عرب بھیجا گیا تھا جس کے بعد وہ 2005 اور 2006 میں لندن اور 2007 میں پاکستان واپس آگئے، بینظیر بھٹو نے امریکیوں اور جنرل کیانی کے تعاون سے مشرف کے ساتھ این آر او کیا، یہ سب سیاسی فیصلے تھے اور مختلف اطراف کی طرف سے سمجھوتے کیے گئے۔
اسی وکل تحریک بھی ہے، افتخار چوہدری کو مسلم لیگ(ن) کی سیاسی جدوجہد اور کیانی کے تعاون سے بحال کرایا گیا، یہ تمام سیاسی فیصلے عدالتی عمل سے بہت بڑھے ہوتے ہیں، آج ہم جہاں کھڑے ہیں، اس کے تمام فوائد اور استحکام اور ایک بہتر مستقبل کے وعدے تمام ایک طویل سیاسی جدوجہد کا نتیجہ ہے جس میں ن لیگ، پیپلزپارٹی، فوج، امریکا اور سعودی عرب سمیت تمام اطراف سے سمجھوتے کئے گئے۔ اس کے بعد اچانک بالکل گھوم جانا اور دلائل دینا کہ پاکستان کی سیاسی تقسیم سے متعلق اہم اور پیچیدہ مسئلے کا فیصلہ صرف سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی طرف سے بنائی گئی خصوصی عدالت کرے گی، غیرمناسب اور غیردانشمندانہ ہے۔ غداری کیس کے دو اصل مقاصد سامنے آتے ہیں پہلا انتقام اور دوسرا فوج پر اپنی اخلاقی برتری ثابت کرنا۔ انتقام کی خواہش کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ 1999ء میں کس طرح دو بار کے منتخب وزیراعظم اور اس کے کچھ ساتھیوں کی تضحیک کی گئی تاہم نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کی برداشت اور دوبارہ عروج حاصل کرنے کو تاریخ نے ثابت کردیا ہے اور فوج کو پیغام جاچکا ہے، کسی کو بھی مصر سے آگے سوچنے کی ضرورت نہیں۔
اگر نواز شریف 'مخصوص آوازیں' سننے سے بچیں تو انھیں احساس ہوگا کہ ن لیگ کے حامیوں، مشرف سے عناد رکھنے والے وکلا اور صحافیوں کے علاوہ پڑھی لکھی مڈل کلاس، تاجر طبقے اور مذہبی اقلیتوں میں بہت سے ایسے پاکستانی ہیں جو مشرف کیخلاف اقدامات سے کسی حد تک مطمئن نہیں ہیں ۔ اب چیلنج یہ ہے کہ پرانے حساب برابر کرنے کے بجائے ہر کسی کو ساتھ لیکر چلنا ہوگا اور اسے ہی پختہ سیاست کہتے ہیں۔ فیصلہ ساز اکثر خوشامدیوں میں گھرے رہتے ہیں اور ایسے حالات میں مخلص نقاد بھی دشمن لگتے ہیں مگر قیادت کی خوبی ہوتی ہے کہ وہ عقلمندانہ نصیحت کو سنے اور مشکلات کا حل نکالے۔واضح رہے ڈاکٹرمعید پیرزادہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے تجزیہ کار ہیں ۔