حکومت کا خوش آیند فیصلہ
احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے عوام کو ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے تاکہ ملکی معیشت کا پہیہ رواں ہوسکے۔
یہ خبر مژدہ جانفزا سے کم نہیں کہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے پندرہ مارچ سے ملک بھر میں شادی کی تقریبات، مزارات، سنیما ہالز کھولنے کی اجازت کے ساتھ ہی دفاتر میں50 فیصد حاضری کی پابندی، تجارتی سرگرمیوں اور تفریحی پارکوں کے لیے وقت کی حد بھی ختم کر دی ہے، اعلان میں مزید میں بتایا گیا ہے کہ ماسک پہننے، سماجی فاصلے کی پابندی اور اسمارٹ لاک ڈاؤن پر عمل درآمد جاری رہے گا جب کہ پاکستان سپرلیگ (پی ایس ایل) کے چھٹے سیزن میں شائقین کی تعداد 20 فیصد سے 50 فیصد تک کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل وکرم سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے، ایمرجنسی کے بجائے اب ملک میں نارمل صورت حال سامنے آ رہی ہے جو ملکی معیشت کی بحالی کے لیے ازحد ضروری ہے۔ ادھر وفاقی وزیر تعلیم نے ملک بھر میں یکم مارچ سے تعلیمی ادارے معمول کے مطابق کھولنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اپنے ٹوئٹ میں وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا تھا کہ ملک بھر کے تعلیمی ادارے یکم مارچ سے ہفتے میں 5 روز کھل جائیں گے۔ کورونا کی وجہ سے بڑے شہروں میں اسکولوں پر کلاسز کو چھوٹے گروہوں میں تقسیم کر کے پڑھانے کی پابندی کا اطلاق 28 فروری سے ختم ہو رہا ہے۔
تعلیم کے حوالے سے یہ بہت خوش آیند بات ہے کہ تعلیمی سرگرمیاں بحال ہونے جا رہی ہیں۔ یادش بخیر، گزشتہ برس فروری سے ملک میں کورونا کے باعث تعلیمی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا تھا۔ سندھ میں 26 فروری کو پہلا کیس سامنے آنے کے بعد سے 15 مارچ سے ملک کے تمام تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے تھے۔ تعلیمی اداروں کو 15 ستمبر کو دوبارہ کھولا گیا تاہم وبا کی دوسری لہر کے باعث انھیں 26 نومبر کو دوبارہ بند کر دیا گیا تھا۔ یکم فروری سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں سرگرمیاں بحال کی گئیں اور حکومت نے تعلیمی اداروں میں کورونا ایس او پیز پر عملدرآمد لازمی قرار دیا تھا۔
پاکستان کی معیشت کو بھی دنیا بھر کی طرح اس وبا نے مشکل میں ڈال دیا تھا، ملک میں کورونا وائرس کا پہلا مریض 26 فروری 2020کو سامنے آیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے ایک مہینے میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تھی۔ اس صورت حال کے پیش نظر ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کرنے کے ساتھ ہر شخص کے لیے ماسک پہننے، 6 فٹ کا سماجی فاصلہ رکھنے اور ہاتھ ملانے سے گریز کرنے کو ضروری قرار دیا گیا۔ وزیر اعظم کے لیے ملک میں لاک ڈاؤن یا شٹ ڈاؤن کا فیصلہ کرنا آسان نہ تھا۔
دیہاڑی دار مزدور اور وہ لوگ جن کا رزق روزمرہ کے معاشی معمولات پر موقوف تھا ان کے پیشِ نظر تھا۔ معاشرے کا ایک بڑا حصہ معیشت کے ان معمولات سے روزی روٹی کا بندوبست کرتا ہے جس کا تعلق روز کمانے اور کھانے سے ہوتا ہے۔ مزدور، دکان دار، سیلزمین، ڈسٹری بیوٹرز، ٹرانسپورٹر اور پھیری لگانے والے اور جانے کن کن صورتوں میں اقتصادی مشین کے کل پرزے کے طور پر اپنے اپنے حصے کا رزق کماتے ہیں۔
ڈر تھا کہ ان لوگوں کے یہاں فاقے نہ ہو جائیں۔ زندگی اور موت کی اسی کشمکش میں کورونا وائرس نے ملک میں شب وروز چلنے والی معاشی مشینوں کا پہیہ جام کر دیا۔ خوش آیند امر یہ تھا کہ حکومت پاکستان کے لیے ابتدا میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ کام یابی کی پہلی سیڑھی ثابت ہوا جس کو پوری دنیا میں سراہا گیا تھا۔ کورونا کو پہلے تو انسانی صحت کا مسئلہ سمجھا گیا، لیکن جلد ہی اس کے معاشی اور سماجی مضمرات بھی سامنے آئے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت نے پچھلے مالی سال 2019-20 میں معیشت کے استحکام کے لیے جو کاوش اور محنت کی تھی اس ناگہانی آفت سے ان کو شدید جھٹکا لگا۔
اس مشکل وقت میں عوام کی زندگی کا تحفظ حکومت کی اولین ترجیح تھی، جس کے لیے ایسے فیصلے اور اقدامات اٹھائے گئے جن سے لوگوں کی زندگی اور ذریعہ معاش کم سے کم متاثر ہو۔ طویل لاک ڈاؤن، ملک بھر میں کاروبار کی بندش، سفری پابندیوں اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے نتیجے میں معاشی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں، جس کی وجہ سے جی ڈی پی کی شرحِ نمو اور سرمایہ کاری پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور بے روزگاری بڑھنے سے ملکی سطح پر غربت میں مزید اضافہ ہوا۔
کورونا وائرس کے منفی اثرات سے جہاں ایک جانب ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں تو وہیں دوسری جانب زندگی کے تمام شعبہ جات وبا سے متاثر ہوئے ہیں، صاحب حیثیت افراد کے گھروں میں کام کاج کرکے اپنے اور بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنیوالی خواتین بھی کورونا وائرس کے منفی اثرات کی زد میں آگئی ہیں۔
کورونا وائرس کے تیزی سے پھیلاؤ اور حالات کے پیش نظر لوگوں نے اپنے گھروں میں کام کاج کے لیے آنے والی خواتین کو گھروں میں آنے سے روک دیا تھا۔ گھروں میں کام کرنے والی خواتین نان و شبینہ کی محتاج ہوگئی تھیں۔صاحب حیثیت لوگ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر اور احتیاطی تدابیر کے باعث خواتین کو گھروں میں آنے نہیں دے رہے تھے ، ایسے میں احساس کفالت پروگرام کے تحت بارہ ہزار روپے کی رقم حکومت نے فراہم کی جو ایک مستحسن اور بروقت اقدام ہے۔
مالی سال 2019-20 کے دوران پاکستان پر کورونا وائرس کے جو فوری اثرات ظاہر ہوئے، اس کے چند مندرجات کو دیکھا جائے تو وہ کچھ یوں ہیں کہ تقریبا تمام صنعتیں اور کاروبار بری طرح متاثر ہوئے۔ جی ڈی پی میں انداز اً 3,300 ارب روپے کی کمی ہوئی جس سے اس کی شرح نمو 3.3 فی صد سے کم ہو کر0.4 فی صد تک رہ گئی۔ مجموعی بجٹ خسارہ جو جی ڈی پی کا7.1فی صد تک تھا،9.1 فی صد تک بڑھ گیا۔ ایف بی آر کے محصولات میں کمی کا اندازہ 900 ارب روپے ہے۔ وفاقی حکومت کا نان ٹیکس ریونیو102 ارب روپے کم ہوا ہے۔ برآمدات اور ترسیلاتِ زر بری طرح متاثر ہوئیں۔ بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔
رواں سال کے دوران پاکستان میں غذائی اشیا کی مہنگائی کی شرح میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ حکومت مکمل طور پر اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے پر قابو پانے میں ناکام نظر آرہی ہے، یہی وجہ ہے کہ عام آدمی مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہوچکا ہے۔
ان غذائی اشیا کی تیاری سے لے کر مارکیٹ میں آنے تک ہونے والے انفرااسٹرکچر میں کوئی بہتری لائی ہی نہیں گئی ہے ہمارے نظام میں آڑھتی آج بھی زیادہ اثر و رسوخ رکھتا ہے، حکومتی سطح پر اس نظام کو توڑنے کی کوئی عملی حکمت عملی ہمیں نظر نہیں آرہی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی سہ ماہی رپورٹ کے مطابق مہنگائی کے محاذ پر گزشتہ سہ ماہی کی نسبت مالی سال 2021 کی پہلی سہ ماہی میں عمومی مہنگائی مزید بڑھ گئی جسے غذائی مہنگائی سے منسوب کیا گیا ہے۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر مہنگائی کی شرح 10.7 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی۔
اس وقت حکومت کے سامنے بیرون ملک مقیم لاکھوں بے روزگار پاکستانیوں کی وطن واپسی معیشت کے لیے بڑا چیلنج بن چکی ہے، جب کہ ملک کے اندر بھی لاکھوں افراد بے روزگار ہوچکے ہیں، اس ضمن میں لازمی ہے کہ پبلک سیکٹر کے کاروباری اداروں کے نقصانات کم کیے جائیں اور اس کے ساتھ توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کم کرنے کے ساتھ ہی مالیاتی خسارے پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔ اگرچہ 2021 کے اختتام تک کئی ایک ویکسین دستیاب ہو جائیں گی لیکن حکومت کی طرف سے درکار فنڈنگ کے فقدان اور نجی شعبے کی منافع خوری کی وجہ سے زیادہ تر پاکستانی انھیں حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اس لیے کورونا کے پھیلاؤ اور اس کی اثر انگیزی میں تیزی کا خطرہ موجود رہے گا، اس کے صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ مالی سال 2020-21 میں زیادہ فوکس مختلف فنون اور ہنر کی تعلیم کے فروغ پر رکھا گیا ہے، جو نوجوانوں کے لیے نتیجہ خیز روزگار کے مواقعے فراہم کرے گا۔ پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا مُلک ہے، جس کی اس وقت مجموعی آبادی 21 کروڑ سے زاید ہے، جب کہ آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ2030 تک یہ 28 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ کیا ہم نے شرح آبادی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے کوئی منصوبہ بندی کی ہے تو اس کا جواب بھی نفی میں ہے۔
کورونا وائرس کی وجہ سے ملکی معیشت گرداب میں پھنسی ہوئی ہے، تا ہم آگے چل کر معاشی سرگرمیوں میں بتدریج بہتری کے امکانات ہیں، کیونکہ حکومت نے بڑے پیمانے پر پابندیوں میں نرمی کا اعلان کیا ہے اور بیش تر شعبوں میں سرگرمیاں جاری ہونے کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں رسدی لحاظ سے بحالی آسکتی ہے، تاہم مالی سال 2021 کے دوران حقیقی جی ڈی پی کا 2.1 فی صد کا ہدف حاصل کرنے کے لیے متوازی بہتری درکار ہو گی۔ عوام کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کورونا وائرس کی شدت میں صرف کمی آئی ہے، یہ وبا مکمل طور ختم نہیں ہوئی ہے لہٰذا احتیاطی تدابیر کا ترک کرنا انتہائی نقصان دہ ثابت ہوگا، احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے عوام کو ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا ہے تاکہ ملکی معیشت کا پہیہ رواں ہوسکے۔