احتجاجی اساتذہ اور تشدد
اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج سیکڑوں اساتذہ پر آزاد کشمیر پولیس کی جانب سے بہیمانہ تشدد کیا گیا
میرا خاندانی پیشہ درس و تدریس ہے۔ کئی نسلوں سے ہمارا خاندان پیشہ معلمی سے وابستہ ہے۔ عربی، فارسی، فلسفہ اور حساب کے ماہرین ہمارے خاندان میں گزرے ہیں۔ وہ الگ بات ہے مجھے ماسٹری کچھ زیادہ نہیں بھائی اور میں صحافت میں آگیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے گھر میں اگر کسی کو وی وی آئی پروٹوکول دیا جاتا ہے تو وہ ہیں استاد۔ یہی احترام میرے گاؤں کو بھی پاکستان بھر کے علاقوں سے ممتاز کرتا ہے، کیونکہ میرے گاؤں میں 1970 کے بعد سے آج تک شرح خواندگی سو فیصد ہے۔
استاد قوم کا معمار کہلاتا ہے، قوموں کی تقدیر سنوارتا ہے، معاشروں کی تعمیر کرتا ہے، اخلاقیات کی بنیادیں رکھتا ہے۔ استاد کو بھی ہر مذہب اور معاشرے میں یکساں مقام دیا جاتا ہے۔ لیکن دور جدید، جس کی بنیاد بھی اساتذہ نے رکھی، اسی دور میں آزاد کشمیر کے اساتذہ اپنے وقار، عزت و آبرو کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر کے 6 ہزار اساتذہ نے ریاست میں شرح خواندگی 85 فیصد تک پہنچادی ہے۔ اس وقت آزاد ریاست میں پرائمری اور جونیئر درجوں میں 5 لاکھ طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ لیکن بدقسمتی کے ساتھ ان پانچ لاکھ طلبا و طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے 6 ہزار اساتذہ کو ان کا جائز مقام نہیں مل رہا، جس کے باعث وہ گزشتہ دو ہفتوں سے سراپا احتجاج ہیں۔ انہوں نے تدریسی عمل کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور اپنے مطالبات کی منظوری تک اس احتجاج کو جاری رکھنے پر مصر ہیں۔
گزشتہ سال اے آئی جی آزاد کشمیر سید ریاض حیدر بخاری نے تمام تھانوں کے نام ایک مراسلہ جاری کیا، جس میں انہوں نے پولیس فورس کو ہدایت جاری کی کہ وہ اساتذہ کرام کے احترام کا خیال رکھیں۔ مجھ سمیت آزاد کشمیر کے ہر فرد نے اس امر کو سراہا۔ ریاض حیدر بخاری جو کہ خود ایک معلم کے فرزند ہیں، ان کی جانب سے جاری مراسلے نے آزاد کشمیر پولیس کو عوام میں مقبول بنادیا۔ لیکن یہ مقبولیت، احترام اور محبت کا رشتہ محض چند دن ہی چل سکا۔ 5 جنوری کو اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج سیکڑوں اساتذہ پر آزاد کشمیر پولیس کی جانب سے بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کے باعث درجنوں اساتذہ زخمی ہوئے۔ بعدازاں مظفرآباد سے شروع ہونے والا احتجاج ریاست بھر میں پھیل گیا۔ پرائمری اور جونیئر اساتذہ نے تدریسی عمل کا بائیکاٹ کردیا جو کہ تاحال جاری ہے۔
ان اساتذہ کے مطالبات سے پہلے ان کی کہانی آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ سال 2009 میں قومی تعلیمی پالیسی کا اجرا ہوا، جس کے تحت پرائمری اور جونیئر مدرسین کےلیے تعلیمی قابلیت بی اے بی ایڈ رکھی گئی۔ ساتھ ہی پرائمری ٹیچر کو گریڈ 7 سے 14 جبکہ جونیئر کو 9 سے 16 دینے کے احکامات صادر کیے گئے۔ یہی نہیں بلکہ ٹیچرز کی تقرری کےلیے این ٹی ایس ٹیسٹ لازمی قرار دے دیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان میں اساتذہ کو اپ گریڈ کیا گیا، لیکن آزاد کشمیر کے اساتذہ کی تقدیر نہیں بدل سکی۔ انہیں تقرری کےلیے بی اے بی ایڈ کی شرط پوری کرنا ہوتی ہے مگر ان کا اسکیل اپ گریڈ نہیں کیا گیا۔ اس وقت ریاست میں ایف اے پاس کلرک نویں گریڈ میں ہے جبکہ دیگر محکموں کے ملازمین کو بھی اپ گریڈ کردیا گیا ہے مگر صرف اساتذہ ہیں جو اپ گریڈیشن سے محروم ہیں۔ اساتذہ کے مطابق انہیں پیسوں سے غرض ہے اور نہ ہی انکریمنٹس کی فکر، انہیں قومی تعلیمی پالیسی کے تحت جو عزت و احترام دیا گیا ہے، وہ اس کی بحالی چاہتے ہیں۔
صرف پرائمری اور جونیئر کلاسز کے اساتذہ بھی سراپا احتجاج نہیں ہیں بلکہ دورجدید میں 26 ہزار طلبا و طالبات کو انفارمیشن ٹیکنالوجی پڑھانے والے 456 اساتذہ بھی اس وقت سڑکوں پر موجود ہیں، جنہیں گزشتہ 8 ماہ سے تنخواہ ادا نہیں کی جارہی۔ کورونا وبا کے دوران جہاں ایک سال سے زائد عرصہ تک تعلیمی عمل رک گیا تھا۔ دوبارہ سے تدریسی عمل کا آغاز ہوا، لیکن اساتذہ کے احتجاج کے باعث ایک بار پھر بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔
تعلیمی اداروں میں امتحانات سر پر ہیں۔ 5 لاکھ طلبا و طالبات کے والدین بچوں کے مستقبل کو لے کر خاصے فکرمند دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن آزاد کشمیر حکومت معاملے کی سنگینی سے بے خبر دکھائی دے رہی ہے۔ حیران ہوں کہ ایک کلرک کو اپ گریڈ کرنے کےلیے قومی خزانے کا بوجھ نہیں بڑھا، چوکیدار اور مالی جو کہ اکثر ناخواندہ ہوتے ہیں، ان کی پروموشن کےلیے بجٹ کے مسائل آڑے نہیں آئے۔ کون سا ایسا طوفان ہے، مسائل کا ایسا کون سا کوہ ہمالیہ ہے جو اساتذہ کے اسکیل کو اپ گریڈ کرنے میں رکاوٹ بن چکا ہے۔ اگر چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں قومی تعلیمی پالیسی کے تحت اساتذہ کو اپ گریڈ کیا جاسکتا ہے تو آزاد کشمیر میں تاخیری حربے کیوں استعمال کیے جارہے ہیں؟ وزیراعظم آزاد کشمیر، وزیر خزانہ، وزیر تعلیم اور سیکریٹری تعلیم کو قوم کا مستقبل بچانے کےلیے آگے آنا ہوگا۔ ایک سال سے بند تعلیمی اداروں میں جو چند ایام تک رونقیں دکھائی دی تھیں، انہیں بحال کرنا ہوگا۔ اساتذہ کے ساتھ مل بیٹھ کر انہیں دیگر صوبوں کے برابر حقوق دینے کےلیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
گو کہ سروس رولز کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم ہڑتال نہ کرنے کا حلف دیتا ہے، اسے سرکار کی پالیسیز کا احترام کرنا ہوتا ہے۔ مگر موجودہ حالات میں جب کم تعلیم یافتہ افراد اعلیٰ گریڈز لے کر اساتذہ کے سامنے اپنی برتری ظاہر کرتے ہیں تو آخرکار اساتذہ کے سامنے ایسا کون سا راستہ ہے جو وہ اپنے مسائل حل کرنے کےلیے اختیار کریں؟ یہ بھی مانا کہ دو ہفتوں سے طلبا وطالبات کا تعلیمی حرج ہورہا ہے، جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ گزشتہ گیارہ سال سے اساتذہ کا جو نقصان ہورہا ہے، اس کا ازالہ کون کرے گا؟ حکومت کی یہ بات بھی ایک لمحے کو مان لیتے ہیں کہ انہوں نے وزارت خزانہ کو سمری ارسال کردی ہے اور جلد ہی اس پر عملدرآمد ہوگا۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران جو 18 سمریاں وزارت خزانہ کی ردی کی ٹوکریوں میں پڑی ہیں، ان کا جواب کون دے گا؟
اساتذہ کے شکوے جائز ہیں، مدرسین کی شکایات بجا ہیں۔ انہیں آئین پاکستان، مذہب اور معاشرہ احترام کا حق دیتا ہے۔ لیکن کیا صرف زبان سے احترام سے تکریم کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
استاد قوم کا معمار کہلاتا ہے، قوموں کی تقدیر سنوارتا ہے، معاشروں کی تعمیر کرتا ہے، اخلاقیات کی بنیادیں رکھتا ہے۔ استاد کو بھی ہر مذہب اور معاشرے میں یکساں مقام دیا جاتا ہے۔ لیکن دور جدید، جس کی بنیاد بھی اساتذہ نے رکھی، اسی دور میں آزاد کشمیر کے اساتذہ اپنے وقار، عزت و آبرو کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ریاست جموں و کشمیر کے 6 ہزار اساتذہ نے ریاست میں شرح خواندگی 85 فیصد تک پہنچادی ہے۔ اس وقت آزاد ریاست میں پرائمری اور جونیئر درجوں میں 5 لاکھ طلبا وطالبات زیر تعلیم ہیں۔ لیکن بدقسمتی کے ساتھ ان پانچ لاکھ طلبا و طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے والے 6 ہزار اساتذہ کو ان کا جائز مقام نہیں مل رہا، جس کے باعث وہ گزشتہ دو ہفتوں سے سراپا احتجاج ہیں۔ انہوں نے تدریسی عمل کا بائیکاٹ کر رکھا ہے اور اپنے مطالبات کی منظوری تک اس احتجاج کو جاری رکھنے پر مصر ہیں۔
گزشتہ سال اے آئی جی آزاد کشمیر سید ریاض حیدر بخاری نے تمام تھانوں کے نام ایک مراسلہ جاری کیا، جس میں انہوں نے پولیس فورس کو ہدایت جاری کی کہ وہ اساتذہ کرام کے احترام کا خیال رکھیں۔ مجھ سمیت آزاد کشمیر کے ہر فرد نے اس امر کو سراہا۔ ریاض حیدر بخاری جو کہ خود ایک معلم کے فرزند ہیں، ان کی جانب سے جاری مراسلے نے آزاد کشمیر پولیس کو عوام میں مقبول بنادیا۔ لیکن یہ مقبولیت، احترام اور محبت کا رشتہ محض چند دن ہی چل سکا۔ 5 جنوری کو اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج سیکڑوں اساتذہ پر آزاد کشمیر پولیس کی جانب سے بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کے باعث درجنوں اساتذہ زخمی ہوئے۔ بعدازاں مظفرآباد سے شروع ہونے والا احتجاج ریاست بھر میں پھیل گیا۔ پرائمری اور جونیئر اساتذہ نے تدریسی عمل کا بائیکاٹ کردیا جو کہ تاحال جاری ہے۔
ان اساتذہ کے مطالبات سے پہلے ان کی کہانی آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ سال 2009 میں قومی تعلیمی پالیسی کا اجرا ہوا، جس کے تحت پرائمری اور جونیئر مدرسین کےلیے تعلیمی قابلیت بی اے بی ایڈ رکھی گئی۔ ساتھ ہی پرائمری ٹیچر کو گریڈ 7 سے 14 جبکہ جونیئر کو 9 سے 16 دینے کے احکامات صادر کیے گئے۔ یہی نہیں بلکہ ٹیچرز کی تقرری کےلیے این ٹی ایس ٹیسٹ لازمی قرار دے دیا گیا۔ اس پالیسی کے تحت چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان میں اساتذہ کو اپ گریڈ کیا گیا، لیکن آزاد کشمیر کے اساتذہ کی تقدیر نہیں بدل سکی۔ انہیں تقرری کےلیے بی اے بی ایڈ کی شرط پوری کرنا ہوتی ہے مگر ان کا اسکیل اپ گریڈ نہیں کیا گیا۔ اس وقت ریاست میں ایف اے پاس کلرک نویں گریڈ میں ہے جبکہ دیگر محکموں کے ملازمین کو بھی اپ گریڈ کردیا گیا ہے مگر صرف اساتذہ ہیں جو اپ گریڈیشن سے محروم ہیں۔ اساتذہ کے مطابق انہیں پیسوں سے غرض ہے اور نہ ہی انکریمنٹس کی فکر، انہیں قومی تعلیمی پالیسی کے تحت جو عزت و احترام دیا گیا ہے، وہ اس کی بحالی چاہتے ہیں۔
صرف پرائمری اور جونیئر کلاسز کے اساتذہ بھی سراپا احتجاج نہیں ہیں بلکہ دورجدید میں 26 ہزار طلبا و طالبات کو انفارمیشن ٹیکنالوجی پڑھانے والے 456 اساتذہ بھی اس وقت سڑکوں پر موجود ہیں، جنہیں گزشتہ 8 ماہ سے تنخواہ ادا نہیں کی جارہی۔ کورونا وبا کے دوران جہاں ایک سال سے زائد عرصہ تک تعلیمی عمل رک گیا تھا۔ دوبارہ سے تدریسی عمل کا آغاز ہوا، لیکن اساتذہ کے احتجاج کے باعث ایک بار پھر بچوں کا مستقبل داؤ پر لگ چکا ہے۔
تعلیمی اداروں میں امتحانات سر پر ہیں۔ 5 لاکھ طلبا و طالبات کے والدین بچوں کے مستقبل کو لے کر خاصے فکرمند دکھائی دے رہے ہیں۔ لیکن آزاد کشمیر حکومت معاملے کی سنگینی سے بے خبر دکھائی دے رہی ہے۔ حیران ہوں کہ ایک کلرک کو اپ گریڈ کرنے کےلیے قومی خزانے کا بوجھ نہیں بڑھا، چوکیدار اور مالی جو کہ اکثر ناخواندہ ہوتے ہیں، ان کی پروموشن کےلیے بجٹ کے مسائل آڑے نہیں آئے۔ کون سا ایسا طوفان ہے، مسائل کا ایسا کون سا کوہ ہمالیہ ہے جو اساتذہ کے اسکیل کو اپ گریڈ کرنے میں رکاوٹ بن چکا ہے۔ اگر چاروں صوبوں اور گلگت بلتستان میں قومی تعلیمی پالیسی کے تحت اساتذہ کو اپ گریڈ کیا جاسکتا ہے تو آزاد کشمیر میں تاخیری حربے کیوں استعمال کیے جارہے ہیں؟ وزیراعظم آزاد کشمیر، وزیر خزانہ، وزیر تعلیم اور سیکریٹری تعلیم کو قوم کا مستقبل بچانے کےلیے آگے آنا ہوگا۔ ایک سال سے بند تعلیمی اداروں میں جو چند ایام تک رونقیں دکھائی دی تھیں، انہیں بحال کرنا ہوگا۔ اساتذہ کے ساتھ مل بیٹھ کر انہیں دیگر صوبوں کے برابر حقوق دینے کےلیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
گو کہ سروس رولز کے تحت کوئی بھی سرکاری ملازم ہڑتال نہ کرنے کا حلف دیتا ہے، اسے سرکار کی پالیسیز کا احترام کرنا ہوتا ہے۔ مگر موجودہ حالات میں جب کم تعلیم یافتہ افراد اعلیٰ گریڈز لے کر اساتذہ کے سامنے اپنی برتری ظاہر کرتے ہیں تو آخرکار اساتذہ کے سامنے ایسا کون سا راستہ ہے جو وہ اپنے مسائل حل کرنے کےلیے اختیار کریں؟ یہ بھی مانا کہ دو ہفتوں سے طلبا وطالبات کا تعلیمی حرج ہورہا ہے، جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ گزشتہ گیارہ سال سے اساتذہ کا جو نقصان ہورہا ہے، اس کا ازالہ کون کرے گا؟ حکومت کی یہ بات بھی ایک لمحے کو مان لیتے ہیں کہ انہوں نے وزارت خزانہ کو سمری ارسال کردی ہے اور جلد ہی اس پر عملدرآمد ہوگا۔ مگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران جو 18 سمریاں وزارت خزانہ کی ردی کی ٹوکریوں میں پڑی ہیں، ان کا جواب کون دے گا؟
اساتذہ کے شکوے جائز ہیں، مدرسین کی شکایات بجا ہیں۔ انہیں آئین پاکستان، مذہب اور معاشرہ احترام کا حق دیتا ہے۔ لیکن کیا صرف زبان سے احترام سے تکریم کے تقاضے پورے ہوسکتے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔