بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔
کچھ 'خاکے' کچھ شکاروشکاری اور 'تذکرۂ ملکہ الزبتھ!'
راشد اشرف نے 'زندہ کتابیں' سلسلے کے تحت جم کاربٹ کی تین کتب ''میرا ہندوستان، جنگل کہانی اور ٹری ٹوپس'' یک جا کی ہیں۔۔۔ تینوں کتب کے موضوعات ایک دوسرے سے بالکل جداگانہ ہیں۔ یہ کتابیں 1950ء کی دہائی میں شایع ہوئیں۔ 'میرا ہندوستان' کے مترجم منصور قیصرانی ہیں، اسے پڑھیے، تو اس میں لکھے گئے مضامین پر بالکل اردو کے خاکوں کا سا گماں گزرتا ہے، اب جانے اس میں کتنا مترجم کا کمال ہے اور کتنا لیکھک کا۔۔۔ تاہم کتاب میں سماج کے بہت سے چھوٹے چھوٹے کرداروں کو نہایت گہرائی اور گیرائی کے ساتھ اس طرح قلم بند کیا گیا ہے کہ قاری کے تخیل میں ان کی مجسم صورت واضح ہونے لگتی ہے۔ بالخصوص 'بھائی'، 'بدھو'، 'لالہ جی'، اور 'چماری' جیسے عنوانات ایسے ہی کچھ کرداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔
مصنف نے خود سے جُڑنے والے عام لوگوں کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کیا۔۔۔ اور باوجود خود ان سے مختلف ہونے کے، نہایت خوب صورتی سے انھیں لفظوں کا روپ دینے کی ایک کام یاب کوشش کی ہے۔۔۔ اِسے پڑھتے ہوئے بعض اوقات آپ ششدر رہ جاتے ہیں، تو کبھی آپ کی پلکیں ڈَبڈَبا جاتی ہیں۔۔۔ بالخصوص برصغیر کے روایتی نظام میں پھنسے ہوئے نچلے طبقے کے لوگوں کی زندگی کے کشٹ اور ان کے مسائل کا خوب بیان ہوتا ہے، یہ کتاب اس جلد کے ابتدائی 155 صفحات تک دراز ہے۔
دوسری کتاب 'جنگل کہانی' اگلے 125 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔۔۔ بغیر عنوان درجن بھر ابواب پر استوار یہ کتاب جنگل کی ایک ایسی کہانی ہے، جس میں فقط شکار، شکاری اور جنگل نہیں، بلکہ ایک سفرنامے کے طرز پر لکھنے والے کی جانب سے قاری کو مختلف واقعات سے روشناس کرایا گیا ہے، جس میں جم کوربٹ کی عادت کے مطابق جانوروں کی عادات واطوار سے لے کر ان کی آوازوں کے مطالب تک سمجھنے کا ذکر خصوصی طور پر شامل ہے۔
اس جلد میں شامل تیسری کتاب 'ٹری ٹوپس ' ہے، جس کے مترجم سمیع محمد خان ہیں، جو تقریباً 24 صفحات تک وسیع ہے۔۔۔ پانچ ابواب کی اس مختصر سی کتاب میں بھی ہمیں جانور اور شکار کے حوالے ملتے ہیں، اس کتاب کے تعارف میں سر میلکم لکھتے ہیں کہ اگر یہ کتاب نہ ہوتی تو، اس وقت کی شاہ زادی اور آج کی ملکہ الزبتھ کے اس سفر کی روداد سنانے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ 312 صفحاتی 'سہ جہتی جلد' کی قیمت 500 روپے اور ناشر فضلی سنز (0335-3252374) ہے۔
کلاسیکی 'ادب اطفال' کی یادگار ترتیب
'دل پسند کہانیاں' محمدی بیگم کی جمع کی گئی وہ مخصوص کہانیاں ہیں، جو دلی کے گھرانوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنائی جاتی تھیں۔۔۔ اس لیے اس میں اگر آپ کہانی کے لغوی معنی کے تحت 'کہانی پن' کھوجیں، تو شاید کہیں کچھ مایوسی ہو، بلکہ شاید یہاں ایسا کہنا ہی مبنی برانصاف نہ ہوگا، کیوں کہ دراصل یہ تو اردو کا وہ تاریخی 'زبانی ادب' اور ثقافتی ورثہ ہے، جن کا لکھنے والا یا انھیں بُننے والے نہ جانے کس زمانے کے افراد، مائیں یا آیائیں رہی ہوں گی۔۔۔ اس لیے فقط یہ تو تجسس کو راہ دینے والے وہ 'مکالمے' ہیں، جو ننھے ذہنوں کے تخیل کو ایک پروازِبلند عطا کرتے ہیں۔۔۔
ان کے ذہن کے کورے کاغذ پر کچھ آڑھی ترچھی لکیریں بناتے ہیں، ان کے ذخیرۂ الفاظ کی بڑھوتری اور خیالات کو مہمیز کرتے ہیں۔۔۔ اور پھر جب یہ اردو کا غیر تحریری ادب ہے، تو پھر اس میں ہم سنانے والیوں کے منفرد لب ولہجے کو تو کسی طرح منضبط اور محفوظ کر ہی نہیں سکتے ناں۔۔۔ اپنے بچپن میں سکون سے لیٹ کر یا نیم دراز ہو کر کہانیاں سننے والے شاید آج اس کا کچھ تصور کر سکتے ہوں کہ ان لفظوں کا طرزِ بیان اپنے میں کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔۔۔
ورنہ گفتار کا سپاٹ پَن ننھے ذہنوں کو بھلا اتنی آسانی سے کہاں تسخیر کر سکتا ہے۔۔۔ تبھی تو بچے کہا کرتے تھے، فلاں سے کہانی سننے میں لطف آتا ہے اور فلاں سے نہیں۔۔۔ اس کتاب میں شامل پودنے کی کہانی، چڑیا کی کہانی اور شیخ چلی کی کہانیوں کے عنوان اس قدر عام ہوئے کہ بعد میں لاتعداد کہانیاں انھی عنوان تلے لکھی جاتی رہیں۔
یہ کتاب 1906ء میں پہلی بار شایع ہوئی، یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج اس کتاب کے ذریعے ہم نے اپنے دادا، دادی اور نانا، نانی یا ان کے بھی بزرگوں کے بچپن اور ان سے پہلے کے زمانے کو بازیافت کیا۔۔۔ زبان وبیان کو دیکھیے تو دلّی کی خاص بولی کا جلوہ نمایاں ہے اور ''اِتّے میں'' اور ''اُن نے'' جیسی منفرد تراکیب ملتی ہیں۔۔۔ کہیں کہیں فارسی آمیز زبان بھی پائی جاتی ہے، جو یقیناً اس زمانے کے بچوں کے لیے کافی سہل رہی ہوگی۔۔۔ لیکن آج کے اردو پڑھنے والے کے لیے شاید آسان نہیں رہی، بقول ناشر انھوں نے 'محمدی بیگم' کی اس محنت کو مزید ایک صدی کے لیے محفوظ کر لیا ہے، اور اب اس سے اگلے 100 برس کی فکر، آنے والے جانیں۔۔۔ اس کتاب کی قیمت 390 روپے ہے، یہ پیش کش 'اٹلانٹس' پبلی کیشنز (021-32581720, 0300-2472238) کی ہے۔
ترقی پسندی اور 'ممنوعہ کتاب'
ترقی پسند ادب اور بمبئی (پروفیسر صاحب علی) 2010ء میں شایع ہوئی، جب کہ دوسری کتاب انگارے۔ ایک جائزہ' (شبانہ محمود) 1988ء میں منصۂ شہود پر آئی۔۔۔ جسے راشد اشرف نے سلسلے 'زندہ کتابیں' کے تحت ایک جلد میں شایع کرایا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں شمار ہونے والے بمبئی کو ہم شمالی اور جنوبی ہند کے مابین ایک پل سے تعبیر کر سکتے ہیں۔
اس لیے ہم اس کتاب میں دیکھتے ہیں کہ ہمیں اس میں اردو کے ساتھ مراٹھی، گجراتی، کنڑی، ملیالم اور تیلگو وغیرہ کی بازگشت بھی برابر ملتی ہے۔۔۔ اور اس کے مندرجات میں سجاد ظہیر، رفعت سروش، پروفیسر عبدالستار دلوی، پروفیسر یونس اگاسکر، ڈاکٹر خورشید نعمانی، کیفی اعظمی، سلطانہ جعفری، جاوید اختر، شبانہ اعظمی اور دیگر کے مضامین شامل ہیں۔۔۔ دوسری کتاب 'انگارے' کا جائزہ ہے، جو 1932ء میں لکھنئو سے شایع ہوئی، یہ سجاد ظہیر کی پانچ، احمد علی اور رشید جہاں کی دو، دو اور محمود الظفر کی ایک کہانی پر مشتمل تھی۔
جس میں بیرونی سامراج کے ساتھ اپنے سماج کے زوال پذیر اقدار پر کھل کر تنقید کی گئی، جس کے سبب برطانوی حکومت نے ہندوستان میں فوراً اس کتاب پر پابندی عائد کر دی تھی۔ 'انگارے ایک جائزہ' میں چاروں مصنف کے کام پر الگ الگ ابواب باندھے گئے ہیں اور ساتھ حوالوں کا اہتمام بھی ہے۔ 'انگارے' کی اشاعت سے پیدا ہونے والی صورت حال، فتوے اور نقادوں کے محاذ کے ساتھ کہانیوں کے مندرجات کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔۔۔ اور ساتھ لکھنے والوں کے حالات زندگی اور نظریات وغیرہ کا بھی ضبطِ تحریر کیے گئے ہیں۔ دونوں کتب کی ایک جلد ضخامت 304 صفحات اور قیمت 600 روپے ہے۔ اشاعت کا اہتمام 'بزمِ تخلیق ادب' (0321-8291908) کی جانب سے کیا گیا ہے۔
اسمِ 'پاکستان' کے بانی سے تعارف کی ایک کوشش
''چوہدری رحمت علی ایک تاریخ ساز شخصیت'' محمد شریف بقا کے مختلف مطبوعہ مضامین کا مجموعہ ہے۔۔۔ 188 صفحاتی کتاب میں چوہدری رحمت علی کے مختلف سیاسی اور مذہبی نظریات اور کچھ پیش گوئیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
مختلف مضامین کے کتابی صورت میں یک جا ہونے کے باعث قاری کو اس میں تکرار کا احساس بار بار ہوتا ہے۔۔۔ جیسے مسلم قومیت کی جداگانیت، ہندوستان کو 'ہندوستان' کہنے کا مطلب ہندوئوں کا ملک لینا، (اسے وہ 'انڈیا' کے جواب میں 'دینیہ' قرار دیا کرتے تھے، یعنی بہت سے 'ادیان' کا خطہ۔۔۔) اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذرا سی تدوین کے ذریعے کتاب کو مزید جامع اور مختصر کیا جا سکتا تھا۔ اس کتاب میں اُس زمانے کی تُرک صحافی خالدہ ادیب خانم کے چوہدری رحمت علی کے انٹرویو کی بازگشت بھی ملتی ہے اور اُن کا مشہور زمانہ پمفلٹ 'اب یا کبھی نہیں' بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔
پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چوہدری رحمت علی نے ابتداً ہندوستان میں 'پاکستان' سمیت سات مسلم ریاستوں کا تصور پیش کیا تھا اور بارہا ہندوستان میں 'مسلم اقلیت پرستی' کو ایک المیے سے تعبیر کیا، لیکن جب انھی کے 1933ء کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے بٹوارے کے ہنگام میں ہندوستان کی مسلمان اقلیت کا ایک بہت بڑا حصہ وہیں رہ گیا، تو اس حوالے سے ان کا موقف کیا تھا، اس کی تشنگی ہمیں یہاں بھی محسوس ہوتی ہے، جب کہ وہ اپنے تجویز کردہ 'پاکستان' کے 'ک' یعنی کشمیر کو اس ریاست میں نہ لینے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی تاریخ کے طالب علموں میں ایک تشنگی کا سا احساس ہوتا ہے کہ آخر انھوں نے اپنی پچھلی تجویز کردہ سات مختلف ریاستوں پاکستان (موجودہ پاکستان مع کشمیر)، عثمانستان (دکن میں)، صدیقستان (بندھیل کھنڈ اور مالوہ میں)، فاروقستان (بہار اور اڑیسہ میں)، حیدرستان (آگرہ، اوَدھ اور یوپی وغیرہ میں)، معینستان (راجستھان میں) اور ماپلستان (مدراس میں) شامل تھا، سے کیوں کر علاحدگی اختیار کی، یا اُن کا موقف صرف 'پاکستان' تک کیوں محدود ہوگیا۔۔۔؟ جب کہ وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ علامہ اقبال کے 1930ء کے 'تصورِ ریاست' کے حامی نہیں۔ کتاب میں کئی جگہوں پر چوہدری رحمت علی کے (متحدہ ہندوستان میں) مسلمانوں کے اقلیت کے طور پر حالات کے استدلال میں ہندوستان کے مسلمانوں کے موجودہ حالات کی مثال دی گئی ہے، جو کہ ظاہر ہے 'غیرمنقسم ہندوستان' کا نہیں، بلکہ بٹوارے کے بعد کا منظرنامہ اور ایک مختلف صورت حال ہے، جب کہ چوہدری رحمت علی متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار کے خدشات مذکور کر رہے ہیں۔ اس کتاب کی قیمت 500 روپے ہے، جب کہ اس کی اشاعت کا اہتمام مکتبہ جمال (0322-4786128)لاہور سے کیا گیا ہے۔
اشتیاق احمد کے تین ناول
اردو میں بچوں کے عہد ساز ادیب اشتیاق احمد کو دنیا سے گزرے ہوئے پانچ برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، لیکن ان کے نئے ناولوں کی اشاعت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔۔۔ بقول ناشر اشتیاق احمد کے نئے ناولوں کے ذخیرے میں سے ہر سال ایک دو ناول شایع کیے جاتے رہیں گے۔
حال ہی میں ان کے نئے ناول ''نواب پور کا محل'' سمیت تین ناول شایع کیے گئے ہیں۔۔۔ جس میں سے دو ناول 'احمق کہیں کا' اور 'مصنف کہیں کا' یہ ناول 30 برس قبل 'جیبی سائز' میں شایع ہوئے ہیں اور اب دست یاب نہیں۔ نئے ناول 'نواب پور کا محل' میں اشتیاق احمد کی 'دوباتیں' پرانی دی گئی ہیں یا اس ناول کے لیے لکھی گئی ہیں، یہ واضح نہیں، البتہ اس میں انھوں نے بوڑھے ہونے اور زندگی کے عجیب ہونے کا تذکرہ بھی خوب کیا ہے۔183 صفحاتی اس ناول کی قیمت 350 روپے ہے۔ اس ناول میں جدید ذرایع موبائل فون اور ایس ایم ایس کے تذکرے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔
یہ ایک پراسرار حویلی تسخیر کرنے کا ماجرا ہے۔۔۔ جس کے بارے میں بہت سی باتیں مشہور تھیں اور پھر انسپکٹر جمشید اینڈ کمپنی کے پہنچنے کے بعد حسب دستور اس فسوں خیز قصے کا اَنت ہوتا ہے۔۔۔ تقریباً 50 صفحات پر مشتمل 'احمق کہیں کا' میں انسپکٹر جمشید اور دیگر کرداروں کی اشتیاق احمد سے 'ملاقات' کا واقعہ ہے۔۔۔ یہ بچوں کے رسالے 'چاند ستارے' کے کہانی نمبر کے ساتھ مفت پیش کیا گیا تھا۔۔۔ تاہم اب اس کی دوبارہ اشاعت کی گئی ہے۔
مکرر شایع ہونے والے دوسرے ناول 'مصنف کہیں کا' میں بھی اشتیاق احمد بہ نفس نفیس خود ایک کردار کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں، ایسا اگرچہ ان کے ناولوں کی عام رِِیت نہیں ہے، لیکن اس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اِن دونوں پرانے ناولوں کے 'پسِ ورق' پر اشاعت اول کے سرورق کی اشاعت کی گئی ہے۔۔۔ تینوں ناول 'انسپکٹر جمشید سیریز' کے ہیں، ناشر 'اٹلانٹس' پبلشر (021-32581720, 0300-2472238) کراچی ہے، قیمت فی ناول 140 روپے ہے۔
غالب کو کھوجنے کی ایک اور کوشش۔۔۔
''قومی زبان''کا غالب نمبر
غالب کا صرف شاعر ہونا تو کہیں بہت پیچھے رہ گیا، اب تو وہ اردو تہذیب وثقافت کا ایک اساطیری کردار بن چکا ہے، ایک دیومالا۔۔۔جو لاشعور میں رچ بس جاتی ہے، محاوروں میں ابھرتی ہے، روزمرہ کا حصہ بنتی ہے، ثقافتی مظاہر میں نمایاں ترین جگہ پاتی ہے، حیران کیے رکھتی ہے ششدر کیے جاتی ہے۔
عبدالرحمٰن بجنوری کا ''دیوان غالب'' کو ہندوستان کی الہامی کتاب کہنا خود ایک الہامی پیش گوئی محسوس ہوتا ہے۔ اپنے دور کے دواوین کے مقابل اختصار میں ''کتابچے'' کی حیثیت رکھنے والے اس مجموعے کے ظہور کو لگ بھگ دو صدیاں گزر گئیں مگر اس کے شعروں کی پرتیں ہیں کہ ختم ہونے ہی کو نہیں آتیں۔ اور پھر خود صاحب دیوان۔۔۔۔جس کے ''بلی ماراں'' سے ''ڈومنی'' تک اور پینشن کے مسائل سے رنجشوں اور مناقشوں تک تمام سروکار بحث، تحقیق اور گفتگو کا موضوع بنتے ہیں، لیکن اس کی جہتیں اور زندگی کے گوشے جاننے اور سمجھنے کا سلسلہ ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔ ماہ نامہ ''قومی زبان'' کا فروری 2021 کا شمارہ اردو کی پہچان بن جانے والے اس سخن ور کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ غالب کو مزید کھوجنے کی ایک کوشش بھی ہے۔
''قومی زبان'' کی غالب پر 262 صفحات پر مشتمل اس خصوصی اشاعت کی خاص بات اس کا تنوع ہے۔ شمارے میں محبان غالب کے لیے مرزا اسد اللہ کے کلام اور زندگی مختلف پہلوؤں کو احاطۂ تحریر میں لیے مضامین شامل ہیں، جن میں سے تقریباً ہر نگارش مختصر، تازگی لیے ہوئے اور دل چسپ ہے۔ خصوصی شمارے کا اپنی طرف کھینچتا دیدہ زیب سرورق غالب کے شایان شان ہے، جس پر صاحب شمارہ کا لفظوں سے بنا خاکہ غالب کی صحیح تصویر کشی کررہا ہے۔
یہ شمارہ قومی زبان کی مدیر ڈاکٹر ثروت رضوی اور نائب مدیر ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی نے جس لگن، محنت اور محبت سے مرتب کیا ہر ورق اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس کا اداریہ ڈاکٹریاسمین سلطانہ فاروقی کے قلم سے نکلا ہے۔ اس مختصر تبصرے میں زیادہ کہنے کی گنجائش نہیں، چناں چہ ہم شمارے میں شامل مضامین کی فہرست پیش کیے دیتے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس میں غالب کے گوناگوں پہلوؤں کا کس طرح احاطہ کیا گیا ہے:
غالب اور معارضۂ کلکتہ(پروفیسر ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی)، مطالعاتِ غالبؔ میں ایک قیمتی اضافہ (پروفیسر حکیم سیّد ظل الرحمن)، غالبؔ کا معذرت نامہ... ایک تجزیہ(ڈاکٹر یونس حسنی)، غالبؔ کی تمثیل نگاری: ایک نیا مطالعاتی زاویہ(ڈاکٹر معین الدین عقیل)، غالبؔ کے ایک محقق و نکتہ چیں...ڈاکٹر سید عبداللطیف (پروفیسر ڈاکٹر مظفر علی شہ میری)، غالبؔ کی فارسی نعت میں اسمِ محمدؐ کی تجلیات (ڈاکٹر شبیر احمد قادری)، ہماری قومی یک جہتی اور غالبؔ (ڈاکٹر رضا حیدر)، غالبؔ کی شاعری پر مابعدالطبیعیاتی نظر (محمود شام)، تنقیدی تھیوری اور تفہیم غالبؔ (جلیل عالی)، غالبؔ...ہر عصر کا شاعر (ڈاکٹر انواراحمد)، کلامِ غالبؔ میں حروفِ ظرف کی معنویت (ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط)، مشاہدۂ حق کا شاہد...غالبؔ (کرامت اللہ غوری)، غالبؔ کے اہم ممدوح الیہ...دیوان محمد علی: آثار و کوائف (ڈاکٹر صغیر افراہیم)، غالبؔ کی شاعری اور فن کے عناصرِ ترکیبی (ڈاکٹر نجیب جمال)، کلامِ غالبؔ کا نعتیہ رنگ (اکرم کنجاہی)، اردو غزل کا ہندوستانی مجدد... غالب ؔ(ڈاکٹر ابوبکرعباد)،
غالبؔ کی چار غیرمردّف غزلیں(ڈاکٹر رئیسہ بیگم ناز)، شیوۂ غالبؔ (مبین مرزا)، غالبؔ اور دل عدوے فراغ (فاروق عادل)،نابغۂ روزگار شاعر اور ادیب...مرزاغالبؔ (نسیم انجم)، اردو اور مقامِ غالبؔ (نجمہ عالم)، غالبؔ اور راجستھان: ایک تحقیق (معین الدین شاہین)، غالبؔ کے خطوط میں بیانیے کا عمل (غضنفر اقبال)، ہماری مشترکہ تہذیب اور غالب (محضر رضا)، غالبؔ کا تصورِانسان دوستی: ایک مطالعہ (نزاکت حسین)، غالبؔ کی شاعری میں حسن و جمال کا تذکرہ (ڈاکٹر روبینہ شاہین/ڈاکٹر انتل ضیا)، گنجینۂ معنی کا طلسم اور غالبؔ کی معنٰی آفرینی(خالد معین)، غالبؔ کے خطوط میں تاریخی مصوری(ڈاکٹر صالحہ صدیقی)، ڈراما ''اس شکل سے گزری غالبؔ'' کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ (ابراہیم افسر)، غالب کا نفسیاتی مطالعہ (خالد محمود سامٹیہ)، مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کے خطوط کی انفرادیت (عروسہ نعیم قریشی)، غالبؔ کی بازگشت...حسرتؔ موہانی (احسان الحق)، غالب کے عہد کا عکّاس...غالب انسٹی ٹیوٹ کا ''غالب میوزیم'' (محمد تسلیم)۔
(تبصرہ نگار: محمد عثمان جامعی)
راشد اشرف نے 'زندہ کتابیں' سلسلے کے تحت جم کاربٹ کی تین کتب ''میرا ہندوستان، جنگل کہانی اور ٹری ٹوپس'' یک جا کی ہیں۔۔۔ تینوں کتب کے موضوعات ایک دوسرے سے بالکل جداگانہ ہیں۔ یہ کتابیں 1950ء کی دہائی میں شایع ہوئیں۔ 'میرا ہندوستان' کے مترجم منصور قیصرانی ہیں، اسے پڑھیے، تو اس میں لکھے گئے مضامین پر بالکل اردو کے خاکوں کا سا گماں گزرتا ہے، اب جانے اس میں کتنا مترجم کا کمال ہے اور کتنا لیکھک کا۔۔۔ تاہم کتاب میں سماج کے بہت سے چھوٹے چھوٹے کرداروں کو نہایت گہرائی اور گیرائی کے ساتھ اس طرح قلم بند کیا گیا ہے کہ قاری کے تخیل میں ان کی مجسم صورت واضح ہونے لگتی ہے۔ بالخصوص 'بھائی'، 'بدھو'، 'لالہ جی'، اور 'چماری' جیسے عنوانات ایسے ہی کچھ کرداروں کا احاطہ کرتے ہیں۔
مصنف نے خود سے جُڑنے والے عام لوگوں کا نہایت باریک بینی سے مشاہدہ کیا۔۔۔ اور باوجود خود ان سے مختلف ہونے کے، نہایت خوب صورتی سے انھیں لفظوں کا روپ دینے کی ایک کام یاب کوشش کی ہے۔۔۔ اِسے پڑھتے ہوئے بعض اوقات آپ ششدر رہ جاتے ہیں، تو کبھی آپ کی پلکیں ڈَبڈَبا جاتی ہیں۔۔۔ بالخصوص برصغیر کے روایتی نظام میں پھنسے ہوئے نچلے طبقے کے لوگوں کی زندگی کے کشٹ اور ان کے مسائل کا خوب بیان ہوتا ہے، یہ کتاب اس جلد کے ابتدائی 155 صفحات تک دراز ہے۔
دوسری کتاب 'جنگل کہانی' اگلے 125 صفحات کا احاطہ کرتی ہے۔۔۔ بغیر عنوان درجن بھر ابواب پر استوار یہ کتاب جنگل کی ایک ایسی کہانی ہے، جس میں فقط شکار، شکاری اور جنگل نہیں، بلکہ ایک سفرنامے کے طرز پر لکھنے والے کی جانب سے قاری کو مختلف واقعات سے روشناس کرایا گیا ہے، جس میں جم کوربٹ کی عادت کے مطابق جانوروں کی عادات واطوار سے لے کر ان کی آوازوں کے مطالب تک سمجھنے کا ذکر خصوصی طور پر شامل ہے۔
اس جلد میں شامل تیسری کتاب 'ٹری ٹوپس ' ہے، جس کے مترجم سمیع محمد خان ہیں، جو تقریباً 24 صفحات تک وسیع ہے۔۔۔ پانچ ابواب کی اس مختصر سی کتاب میں بھی ہمیں جانور اور شکار کے حوالے ملتے ہیں، اس کتاب کے تعارف میں سر میلکم لکھتے ہیں کہ اگر یہ کتاب نہ ہوتی تو، اس وقت کی شاہ زادی اور آج کی ملکہ الزبتھ کے اس سفر کی روداد سنانے والا اور کوئی نہیں ہوتا۔ 312 صفحاتی 'سہ جہتی جلد' کی قیمت 500 روپے اور ناشر فضلی سنز (0335-3252374) ہے۔
کلاسیکی 'ادب اطفال' کی یادگار ترتیب
'دل پسند کہانیاں' محمدی بیگم کی جمع کی گئی وہ مخصوص کہانیاں ہیں، جو دلی کے گھرانوں میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنائی جاتی تھیں۔۔۔ اس لیے اس میں اگر آپ کہانی کے لغوی معنی کے تحت 'کہانی پن' کھوجیں، تو شاید کہیں کچھ مایوسی ہو، بلکہ شاید یہاں ایسا کہنا ہی مبنی برانصاف نہ ہوگا، کیوں کہ دراصل یہ تو اردو کا وہ تاریخی 'زبانی ادب' اور ثقافتی ورثہ ہے، جن کا لکھنے والا یا انھیں بُننے والے نہ جانے کس زمانے کے افراد، مائیں یا آیائیں رہی ہوں گی۔۔۔ اس لیے فقط یہ تو تجسس کو راہ دینے والے وہ 'مکالمے' ہیں، جو ننھے ذہنوں کے تخیل کو ایک پروازِبلند عطا کرتے ہیں۔۔۔
ان کے ذہن کے کورے کاغذ پر کچھ آڑھی ترچھی لکیریں بناتے ہیں، ان کے ذخیرۂ الفاظ کی بڑھوتری اور خیالات کو مہمیز کرتے ہیں۔۔۔ اور پھر جب یہ اردو کا غیر تحریری ادب ہے، تو پھر اس میں ہم سنانے والیوں کے منفرد لب ولہجے کو تو کسی طرح منضبط اور محفوظ کر ہی نہیں سکتے ناں۔۔۔ اپنے بچپن میں سکون سے لیٹ کر یا نیم دراز ہو کر کہانیاں سننے والے شاید آج اس کا کچھ تصور کر سکتے ہوں کہ ان لفظوں کا طرزِ بیان اپنے میں کس قدر اہمیت رکھتا ہے۔۔۔
ورنہ گفتار کا سپاٹ پَن ننھے ذہنوں کو بھلا اتنی آسانی سے کہاں تسخیر کر سکتا ہے۔۔۔ تبھی تو بچے کہا کرتے تھے، فلاں سے کہانی سننے میں لطف آتا ہے اور فلاں سے نہیں۔۔۔ اس کتاب میں شامل پودنے کی کہانی، چڑیا کی کہانی اور شیخ چلی کی کہانیوں کے عنوان اس قدر عام ہوئے کہ بعد میں لاتعداد کہانیاں انھی عنوان تلے لکھی جاتی رہیں۔
یہ کتاب 1906ء میں پہلی بار شایع ہوئی، یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج اس کتاب کے ذریعے ہم نے اپنے دادا، دادی اور نانا، نانی یا ان کے بھی بزرگوں کے بچپن اور ان سے پہلے کے زمانے کو بازیافت کیا۔۔۔ زبان وبیان کو دیکھیے تو دلّی کی خاص بولی کا جلوہ نمایاں ہے اور ''اِتّے میں'' اور ''اُن نے'' جیسی منفرد تراکیب ملتی ہیں۔۔۔ کہیں کہیں فارسی آمیز زبان بھی پائی جاتی ہے، جو یقیناً اس زمانے کے بچوں کے لیے کافی سہل رہی ہوگی۔۔۔ لیکن آج کے اردو پڑھنے والے کے لیے شاید آسان نہیں رہی، بقول ناشر انھوں نے 'محمدی بیگم' کی اس محنت کو مزید ایک صدی کے لیے محفوظ کر لیا ہے، اور اب اس سے اگلے 100 برس کی فکر، آنے والے جانیں۔۔۔ اس کتاب کی قیمت 390 روپے ہے، یہ پیش کش 'اٹلانٹس' پبلی کیشنز (021-32581720, 0300-2472238) کی ہے۔
ترقی پسندی اور 'ممنوعہ کتاب'
ترقی پسند ادب اور بمبئی (پروفیسر صاحب علی) 2010ء میں شایع ہوئی، جب کہ دوسری کتاب انگارے۔ ایک جائزہ' (شبانہ محمود) 1988ء میں منصۂ شہود پر آئی۔۔۔ جسے راشد اشرف نے سلسلے 'زندہ کتابیں' کے تحت ایک جلد میں شایع کرایا ہے۔ جنوبی ہندوستان میں شمار ہونے والے بمبئی کو ہم شمالی اور جنوبی ہند کے مابین ایک پل سے تعبیر کر سکتے ہیں۔
اس لیے ہم اس کتاب میں دیکھتے ہیں کہ ہمیں اس میں اردو کے ساتھ مراٹھی، گجراتی، کنڑی، ملیالم اور تیلگو وغیرہ کی بازگشت بھی برابر ملتی ہے۔۔۔ اور اس کے مندرجات میں سجاد ظہیر، رفعت سروش، پروفیسر عبدالستار دلوی، پروفیسر یونس اگاسکر، ڈاکٹر خورشید نعمانی، کیفی اعظمی، سلطانہ جعفری، جاوید اختر، شبانہ اعظمی اور دیگر کے مضامین شامل ہیں۔۔۔ دوسری کتاب 'انگارے' کا جائزہ ہے، جو 1932ء میں لکھنئو سے شایع ہوئی، یہ سجاد ظہیر کی پانچ، احمد علی اور رشید جہاں کی دو، دو اور محمود الظفر کی ایک کہانی پر مشتمل تھی۔
جس میں بیرونی سامراج کے ساتھ اپنے سماج کے زوال پذیر اقدار پر کھل کر تنقید کی گئی، جس کے سبب برطانوی حکومت نے ہندوستان میں فوراً اس کتاب پر پابندی عائد کر دی تھی۔ 'انگارے ایک جائزہ' میں چاروں مصنف کے کام پر الگ الگ ابواب باندھے گئے ہیں اور ساتھ حوالوں کا اہتمام بھی ہے۔ 'انگارے' کی اشاعت سے پیدا ہونے والی صورت حال، فتوے اور نقادوں کے محاذ کے ساتھ کہانیوں کے مندرجات کا بھی تجزیہ کیا گیا ہے۔۔۔ اور ساتھ لکھنے والوں کے حالات زندگی اور نظریات وغیرہ کا بھی ضبطِ تحریر کیے گئے ہیں۔ دونوں کتب کی ایک جلد ضخامت 304 صفحات اور قیمت 600 روپے ہے۔ اشاعت کا اہتمام 'بزمِ تخلیق ادب' (0321-8291908) کی جانب سے کیا گیا ہے۔
اسمِ 'پاکستان' کے بانی سے تعارف کی ایک کوشش
''چوہدری رحمت علی ایک تاریخ ساز شخصیت'' محمد شریف بقا کے مختلف مطبوعہ مضامین کا مجموعہ ہے۔۔۔ 188 صفحاتی کتاب میں چوہدری رحمت علی کے مختلف سیاسی اور مذہبی نظریات اور کچھ پیش گوئیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
مختلف مضامین کے کتابی صورت میں یک جا ہونے کے باعث قاری کو اس میں تکرار کا احساس بار بار ہوتا ہے۔۔۔ جیسے مسلم قومیت کی جداگانیت، ہندوستان کو 'ہندوستان' کہنے کا مطلب ہندوئوں کا ملک لینا، (اسے وہ 'انڈیا' کے جواب میں 'دینیہ' قرار دیا کرتے تھے، یعنی بہت سے 'ادیان' کا خطہ۔۔۔) اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ذرا سی تدوین کے ذریعے کتاب کو مزید جامع اور مختصر کیا جا سکتا تھا۔ اس کتاب میں اُس زمانے کی تُرک صحافی خالدہ ادیب خانم کے چوہدری رحمت علی کے انٹرویو کی بازگشت بھی ملتی ہے اور اُن کا مشہور زمانہ پمفلٹ 'اب یا کبھی نہیں' بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔
پاکستان کا نام تجویز کرنے والے چوہدری رحمت علی نے ابتداً ہندوستان میں 'پاکستان' سمیت سات مسلم ریاستوں کا تصور پیش کیا تھا اور بارہا ہندوستان میں 'مسلم اقلیت پرستی' کو ایک المیے سے تعبیر کیا، لیکن جب انھی کے 1933ء کے مطالبے کو پورا کرتے ہوئے بٹوارے کے ہنگام میں ہندوستان کی مسلمان اقلیت کا ایک بہت بڑا حصہ وہیں رہ گیا، تو اس حوالے سے ان کا موقف کیا تھا، اس کی تشنگی ہمیں یہاں بھی محسوس ہوتی ہے، جب کہ وہ اپنے تجویز کردہ 'پاکستان' کے 'ک' یعنی کشمیر کو اس ریاست میں نہ لینے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی تاریخ کے طالب علموں میں ایک تشنگی کا سا احساس ہوتا ہے کہ آخر انھوں نے اپنی پچھلی تجویز کردہ سات مختلف ریاستوں پاکستان (موجودہ پاکستان مع کشمیر)، عثمانستان (دکن میں)، صدیقستان (بندھیل کھنڈ اور مالوہ میں)، فاروقستان (بہار اور اڑیسہ میں)، حیدرستان (آگرہ، اوَدھ اور یوپی وغیرہ میں)، معینستان (راجستھان میں) اور ماپلستان (مدراس میں) شامل تھا، سے کیوں کر علاحدگی اختیار کی، یا اُن کا موقف صرف 'پاکستان' تک کیوں محدود ہوگیا۔۔۔؟ جب کہ وہ یہ کہتے رہے ہیں کہ وہ علامہ اقبال کے 1930ء کے 'تصورِ ریاست' کے حامی نہیں۔ کتاب میں کئی جگہوں پر چوہدری رحمت علی کے (متحدہ ہندوستان میں) مسلمانوں کے اقلیت کے طور پر حالات کے استدلال میں ہندوستان کے مسلمانوں کے موجودہ حالات کی مثال دی گئی ہے، جو کہ ظاہر ہے 'غیرمنقسم ہندوستان' کا نہیں، بلکہ بٹوارے کے بعد کا منظرنامہ اور ایک مختلف صورت حال ہے، جب کہ چوہدری رحمت علی متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار کے خدشات مذکور کر رہے ہیں۔ اس کتاب کی قیمت 500 روپے ہے، جب کہ اس کی اشاعت کا اہتمام مکتبہ جمال (0322-4786128)لاہور سے کیا گیا ہے۔
اشتیاق احمد کے تین ناول
اردو میں بچوں کے عہد ساز ادیب اشتیاق احمد کو دنیا سے گزرے ہوئے پانچ برس سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، لیکن ان کے نئے ناولوں کی اشاعت کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔۔۔ بقول ناشر اشتیاق احمد کے نئے ناولوں کے ذخیرے میں سے ہر سال ایک دو ناول شایع کیے جاتے رہیں گے۔
حال ہی میں ان کے نئے ناول ''نواب پور کا محل'' سمیت تین ناول شایع کیے گئے ہیں۔۔۔ جس میں سے دو ناول 'احمق کہیں کا' اور 'مصنف کہیں کا' یہ ناول 30 برس قبل 'جیبی سائز' میں شایع ہوئے ہیں اور اب دست یاب نہیں۔ نئے ناول 'نواب پور کا محل' میں اشتیاق احمد کی 'دوباتیں' پرانی دی گئی ہیں یا اس ناول کے لیے لکھی گئی ہیں، یہ واضح نہیں، البتہ اس میں انھوں نے بوڑھے ہونے اور زندگی کے عجیب ہونے کا تذکرہ بھی خوب کیا ہے۔183 صفحاتی اس ناول کی قیمت 350 روپے ہے۔ اس ناول میں جدید ذرایع موبائل فون اور ایس ایم ایس کے تذکرے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔
یہ ایک پراسرار حویلی تسخیر کرنے کا ماجرا ہے۔۔۔ جس کے بارے میں بہت سی باتیں مشہور تھیں اور پھر انسپکٹر جمشید اینڈ کمپنی کے پہنچنے کے بعد حسب دستور اس فسوں خیز قصے کا اَنت ہوتا ہے۔۔۔ تقریباً 50 صفحات پر مشتمل 'احمق کہیں کا' میں انسپکٹر جمشید اور دیگر کرداروں کی اشتیاق احمد سے 'ملاقات' کا واقعہ ہے۔۔۔ یہ بچوں کے رسالے 'چاند ستارے' کے کہانی نمبر کے ساتھ مفت پیش کیا گیا تھا۔۔۔ تاہم اب اس کی دوبارہ اشاعت کی گئی ہے۔
مکرر شایع ہونے والے دوسرے ناول 'مصنف کہیں کا' میں بھی اشتیاق احمد بہ نفس نفیس خود ایک کردار کی صورت میں دکھائی دیتے ہیں، ایسا اگرچہ ان کے ناولوں کی عام رِِیت نہیں ہے، لیکن اس میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اِن دونوں پرانے ناولوں کے 'پسِ ورق' پر اشاعت اول کے سرورق کی اشاعت کی گئی ہے۔۔۔ تینوں ناول 'انسپکٹر جمشید سیریز' کے ہیں، ناشر 'اٹلانٹس' پبلشر (021-32581720, 0300-2472238) کراچی ہے، قیمت فی ناول 140 روپے ہے۔
غالب کو کھوجنے کی ایک اور کوشش۔۔۔
''قومی زبان''کا غالب نمبر
غالب کا صرف شاعر ہونا تو کہیں بہت پیچھے رہ گیا، اب تو وہ اردو تہذیب وثقافت کا ایک اساطیری کردار بن چکا ہے، ایک دیومالا۔۔۔جو لاشعور میں رچ بس جاتی ہے، محاوروں میں ابھرتی ہے، روزمرہ کا حصہ بنتی ہے، ثقافتی مظاہر میں نمایاں ترین جگہ پاتی ہے، حیران کیے رکھتی ہے ششدر کیے جاتی ہے۔
عبدالرحمٰن بجنوری کا ''دیوان غالب'' کو ہندوستان کی الہامی کتاب کہنا خود ایک الہامی پیش گوئی محسوس ہوتا ہے۔ اپنے دور کے دواوین کے مقابل اختصار میں ''کتابچے'' کی حیثیت رکھنے والے اس مجموعے کے ظہور کو لگ بھگ دو صدیاں گزر گئیں مگر اس کے شعروں کی پرتیں ہیں کہ ختم ہونے ہی کو نہیں آتیں۔ اور پھر خود صاحب دیوان۔۔۔۔جس کے ''بلی ماراں'' سے ''ڈومنی'' تک اور پینشن کے مسائل سے رنجشوں اور مناقشوں تک تمام سروکار بحث، تحقیق اور گفتگو کا موضوع بنتے ہیں، لیکن اس کی جہتیں اور زندگی کے گوشے جاننے اور سمجھنے کا سلسلہ ہے کہ ختم ہونے ہی میں نہیں آتا۔ ماہ نامہ ''قومی زبان'' کا فروری 2021 کا شمارہ اردو کی پہچان بن جانے والے اس سخن ور کو خراج عقیدت پیش کرنے کے ساتھ غالب کو مزید کھوجنے کی ایک کوشش بھی ہے۔
''قومی زبان'' کی غالب پر 262 صفحات پر مشتمل اس خصوصی اشاعت کی خاص بات اس کا تنوع ہے۔ شمارے میں محبان غالب کے لیے مرزا اسد اللہ کے کلام اور زندگی مختلف پہلوؤں کو احاطۂ تحریر میں لیے مضامین شامل ہیں، جن میں سے تقریباً ہر نگارش مختصر، تازگی لیے ہوئے اور دل چسپ ہے۔ خصوصی شمارے کا اپنی طرف کھینچتا دیدہ زیب سرورق غالب کے شایان شان ہے، جس پر صاحب شمارہ کا لفظوں سے بنا خاکہ غالب کی صحیح تصویر کشی کررہا ہے۔
یہ شمارہ قومی زبان کی مدیر ڈاکٹر ثروت رضوی اور نائب مدیر ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی نے جس لگن، محنت اور محبت سے مرتب کیا ہر ورق اس کا منہ بولتا ثبوت ہے، جس کا اداریہ ڈاکٹریاسمین سلطانہ فاروقی کے قلم سے نکلا ہے۔ اس مختصر تبصرے میں زیادہ کہنے کی گنجائش نہیں، چناں چہ ہم شمارے میں شامل مضامین کی فہرست پیش کیے دیتے ہیں جس سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس میں غالب کے گوناگوں پہلوؤں کا کس طرح احاطہ کیا گیا ہے:
غالب اور معارضۂ کلکتہ(پروفیسر ڈاکٹر ظفر احمد صدیقی)، مطالعاتِ غالبؔ میں ایک قیمتی اضافہ (پروفیسر حکیم سیّد ظل الرحمن)، غالبؔ کا معذرت نامہ... ایک تجزیہ(ڈاکٹر یونس حسنی)، غالبؔ کی تمثیل نگاری: ایک نیا مطالعاتی زاویہ(ڈاکٹر معین الدین عقیل)، غالبؔ کے ایک محقق و نکتہ چیں...ڈاکٹر سید عبداللطیف (پروفیسر ڈاکٹر مظفر علی شہ میری)، غالبؔ کی فارسی نعت میں اسمِ محمدؐ کی تجلیات (ڈاکٹر شبیر احمد قادری)، ہماری قومی یک جہتی اور غالبؔ (ڈاکٹر رضا حیدر)، غالبؔ کی شاعری پر مابعدالطبیعیاتی نظر (محمود شام)، تنقیدی تھیوری اور تفہیم غالبؔ (جلیل عالی)، غالبؔ...ہر عصر کا شاعر (ڈاکٹر انواراحمد)، کلامِ غالبؔ میں حروفِ ظرف کی معنویت (ڈاکٹر سیّد یحییٰ نشیط)، مشاہدۂ حق کا شاہد...غالبؔ (کرامت اللہ غوری)، غالبؔ کے اہم ممدوح الیہ...دیوان محمد علی: آثار و کوائف (ڈاکٹر صغیر افراہیم)، غالبؔ کی شاعری اور فن کے عناصرِ ترکیبی (ڈاکٹر نجیب جمال)، کلامِ غالبؔ کا نعتیہ رنگ (اکرم کنجاہی)، اردو غزل کا ہندوستانی مجدد... غالب ؔ(ڈاکٹر ابوبکرعباد)،
غالبؔ کی چار غیرمردّف غزلیں(ڈاکٹر رئیسہ بیگم ناز)، شیوۂ غالبؔ (مبین مرزا)، غالبؔ اور دل عدوے فراغ (فاروق عادل)،نابغۂ روزگار شاعر اور ادیب...مرزاغالبؔ (نسیم انجم)، اردو اور مقامِ غالبؔ (نجمہ عالم)، غالبؔ اور راجستھان: ایک تحقیق (معین الدین شاہین)، غالبؔ کے خطوط میں بیانیے کا عمل (غضنفر اقبال)، ہماری مشترکہ تہذیب اور غالب (محضر رضا)، غالبؔ کا تصورِانسان دوستی: ایک مطالعہ (نزاکت حسین)، غالبؔ کی شاعری میں حسن و جمال کا تذکرہ (ڈاکٹر روبینہ شاہین/ڈاکٹر انتل ضیا)، گنجینۂ معنی کا طلسم اور غالبؔ کی معنٰی آفرینی(خالد معین)، غالبؔ کے خطوط میں تاریخی مصوری(ڈاکٹر صالحہ صدیقی)، ڈراما ''اس شکل سے گزری غالبؔ'' کا تحقیقی و تنقیدی تجزیہ (ابراہیم افسر)، غالب کا نفسیاتی مطالعہ (خالد محمود سامٹیہ)، مرزا اسد اللہ خاں غالبؔ کے خطوط کی انفرادیت (عروسہ نعیم قریشی)، غالبؔ کی بازگشت...حسرتؔ موہانی (احسان الحق)، غالب کے عہد کا عکّاس...غالب انسٹی ٹیوٹ کا ''غالب میوزیم'' (محمد تسلیم)۔
(تبصرہ نگار: محمد عثمان جامعی)