منظم طریقے سے انارکی پھیلائی جارہی ہے

سیاست سے ان کا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر پاکستان کے ہر معاملے سے باخبر رہنا اور رکھنا ان کی پرانی عادت ہے۔

raomanzar@hotmail.com

پروفیسر صاحب نے واک کے دوران باتوں باتوں میں پوچھا کہ ملکی حالات کیا ہیں؟ سوال میرے لیے حددرجہ عجیب سا تھا۔ کیونکہ پروفیسر صاحب، بنیادی طور پر Genetics کے اُستاد ہیں۔ امریکا کی ایک انتہائی معتبر یونیورسٹی میں تدریس کا کام کرتے ہیں۔ سال میں ایک بار پاکستان ضرور آنا ہوتا ہے۔ سیاست سے ان کا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ مگر پاکستان کے ہر معاملے سے باخبر رہنا اور رکھنا ان کی پرانی عادت ہے۔

پروفیسر صاحب نے کہنا شروع کیا۔ ڈاکٹر، اس دنیا میں تاحال سُپرپاور ایک ہی ہے۔ وہ ہے امریکا، تیس برس سے وہاں رہ رہا ہوں۔ وہاں کے لوگوں اور اداروں کے کام کرنے کے طریقہ کار سے بخوبی واقف ہوں۔ اچھا بتاؤ۔ لیبیا، عراق اور افغانستان کو امریکا نے ریزہ ریزہ کر دیا۔ مگر ایک کام اس نے نہ خود کیا اور نہ ہی ہونے دیا۔ میں سمجھ نہیں پایا۔

پروفیسر صاحب نے سوال کو نظرانداز کر کے بیان جاری رکھا۔ امریکا نے ان تباہ شدہ ممالک کی جغرافیائی حیثیت کو برقرار رکھا۔ دو لیبیا، تین عراق اور چار پانچ افغانستان ہرگز ہرگز نہیں بننے دیے۔ حالانکہ یہ ان کے لیے حددرجہ آسان تھا اور آج بھی ہے۔ ہر ملک کے لیے انھوں نے الگ الگ حکمتِ عملی بنائی ہوئی ہے۔ مگر ملکی سالمیت کو ختم نہیں کرتے۔

خاموشی سے پروفیسر صاحب کی باتیں سن رہا تھا۔ امریکا کے پاس اتنی طاقت اور قوت موجود ہے کہ وہ کسی بھی کمزور ملک میں جو چاہے، کروا سکتا ہے۔ پاکستان کو اقتصادی طور پر اتنا کمزور کر دیا گیا ہے کہ اس کے لیے مضبوطی سے چلنا ناممکن ہو چکا ہے۔ سوال کیا کہ پاکستان کو تو اس کے کرپٹ حکمران کھا گئے۔ اس کا امریکا یا ان کے کسی ریاستی ادارے سے کیا واسطہ۔ پروفیسر صاحب نے قہقہہ لگایا۔

پوچھا، کہ حکمران طبقہ کے پیسے اور جائیدادیں کہاں موجود ہیں۔ لازم ہے کہ مغربی ممالک میں۔ کیا برطانیہ، آسٹریلیا، فرانس، سنگاپور کی حکومتوں کو معلوم نہیں کہ پاکستانی حکمران طبقہ کا تمام پیسہ، عوام سے چوری شدہ ہے۔ پھر انھیں تحفظ کس کے حکم پر دیا جاتا ہے۔ خاموشی دیکھ کر پروفیسر صاحب دل کھول کر ہنسے۔

امریکی اداروں کی مرضی کے بغیر مغربی ممالک کوئی بڑا فیصلہ نہیں کرتے۔ ہمارے حکمران طبقے کو یقین ہے کہ ان کا سرمایہ غیرملکی بینکوں میں مکمل طور پر حفاظت سے ہے۔ یہ تحفظ سُپرپاور کے بغیرکوئی نہیں دے سکتا۔ ہاں، جب کسی موجودہ یا سابقہ حکمران کی ضرورت ختم ہو جاتی ہے تو مغربی ممالک میں ان کے پیسے بھی ضبط ہو جاتے ہیں۔ بین الاقوامی ادارے بھی اس شخص کی بیخ کنی میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

عدالتیں بھی حرکت میں آجاتی ہیں۔ اور کئی بار ان استعمال شدہ قائدین کو نشانِ عبرت بنانے کے لیے آبائی ملکوں کے حوالے بھی کر دیا جاتا ہے۔ تاکہ کمزور ممالک کے حکمران دبک کے بیٹھ جائیں۔ انھیں پتہ چل جائے کہ ان کا انجام کیا ہو سکتا ہے۔ یہ حکمتِ عملی حددرجہ کامیاب ہے۔ کسی کمزور ملک کے پاس اس کا توڑ نہیں ہے۔ پاکستان میں یہ کھیل، اس وقت عروج پر ہے اور اس خطرناک ترین گیم کا اختتام کیا ہو گا، اس کے متعلق سوچنے سے بھی ڈر لگتا ہے۔


پروفیسر صاحب نے دوبارہ میرے ساتھ واک شروع کر دی۔ گزارش کی کہ حضور، ملک کے متعلق آپ اتنی منفی باتیں کیوں کر رہے ہیں۔ مسکراتے ہوئے جواب ملا کہ جنھوں نے ملک کو مکمل طور پر یعنی اقتصادی، معاشی، سفارتی، سماجی طور پر برباد کر دیا، آج بھی اپنا جرم قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ آج بھی جھوٹ کے سہارے دوبارہ مسلط ہونے کے امکانات پیدا کر رہے ہیں۔

آج بھی بین الاقوامی قوتوں سے سہارا مانگنے کے لیے شدید محنت کر رہے ہیں۔ تو بتاؤ، کہ کافی کچھ جانتے ہوئے میں حقیقت پسندانہ رویہ کیوں نہ رکھوں۔ گزشتہ بیس تا تیس برس کے حالات کو غور سے پرکھو۔ پہلے بین الاقوامی طاقتوں نے ہر سیاستدان کو دوسرے سیاستدان کے خلاف استعمال کیا۔ سیاستدانوں نے ایک دوسرے کو مکمل طور پر بے توقیر کر دیا۔ اسی کی دہائی کے آخر اور نوے کی دہائی کا بیشتر حصہ صرف اور صرف دو چار سیاستدانوں کی باہمی کشمکش، مارپیٹ اور ایک دوسرے کے لیے عذاب بننے کا ہے۔ ان دس برسوں میں دونوں سیاسی فریقین امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جتن نہیں کر رہے تھے۔ پروفیسر صاحب کی بات بالکل درست نظر آئی۔

جب ہردم کشمکش کے تحت سیاسی فریقین عوامی اعتماد کھو بیٹھے، تو پھر پرویز مشرف کے ذریعے متبادل نظام کی داغ بیل ڈلوائی گئی۔ پرویز مشرف کے ابتدائی تین سال ہر لحاظ سے ملک کے لیے بہتر تھے۔ مگر دوبارہ جنرل پرویز مشرف کو دباؤ میں رکھا گیا اور ایک عجیب وغریب جمہوری نظام کو سامنے لایا گیا۔ جس میں بذاتِ خود عدم استحکام موجود تھا۔ جیسے ہی کوئی چہرہ عوام میں غیرمقبولیت اختیارکرتا تھا تو متبادل گھوڑا فوری طور پر سامنے لایا جاتا تھا۔ شخصیات کو بدل بدل کر ملک کو بتدریج کمزور کرنے کا کام مسلسل جاری رکھا گیا۔

بالخصوص دس بارہ سال سے پاکستان غیرملکی منفی قوتوں کے سامنے روزبروز نحیف کیا جا رہا ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کے قائدین جب ملکی خزانے کو لوٹ کر مغربی ممالک میں منتقل کر رہے تھے۔ تو کیا ان قوتوں کو اس کا علم نہیں تھا۔ بالکل تھا۔

لیکن انھوں نے آنکھیں بند کر لی تھیں تاکہ سیاسی فریقین کھل کر کھیل سکیں۔ ریاستی اداروں کو بھی خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔ اس پورے عرصے میں وہ انڈیا کو بھی استعمال کرتے رہے۔ جب چاہا، ہندوستان سے جنگ کی دھمکی دلوا دی، جب چاہا امن مذاکرات شروع کروا دیے۔ مقصد صرف یہ کہ پاکستان کو دباؤ میں رکھا جائے۔ یہ حکمتِ عملی بھی کامیاب رہی۔ سیاستدانوں کو مزے کرنے کی بھرپور اجازت دی گئی۔ ملک کو منظم طریقے سے اقتصادی طور پر دیوالیہ بنانے پر بھی کام ہوتا رہا۔

پاناما کیس کا کسی کو پتہ نہیں تھا۔ یہ معلومات کس نے عیاں کیں۔ اس کا بھی علم نہیں۔ مگر دنیا کے متعدد حکمران اس گرداب کی نذر ہو گئے۔ ہمارے معروف سیاستدان بھی اس میں ڈوب گئے۔ مگر پاکستان کے ریاستی ادارے اس گیم کو سمجھ چکے تھے۔ لہذا ایک ایماندار شخص کو اقتدار منتقل کر دیا گیا۔ ہاں الیکشن کے ذریعے کام ہوا۔ سب کو معلوم ہے کہ ہمارے ملک میں مکمل طور پر منصفانہ الیکشن کا کوئی رواج نہیں ہے۔ نہ تھا اور نہ ہو گا۔ اس لیے الیکشن میں مختلف طاقتیں جس میں سیٹھ بھی شامل ہیں۔ نئے نئے طریقوں سے ہر الیکشن میں اپنی مرضی کے نتائج لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

بہرحال موجودہ حالات میں کسی ایسے بندے کو جیتنے کی اجازت دی گئی جس میں بین الاقوامی اقتصادی اداروں سے اعتمادسے بات کرنے کی ہمت ہو۔ مگر منفی غیرملکی اشاروں پر کلیدی جگہوں پر وہ بندے لائے گئے جنکی اس ملک سے کوئی وابستگی نہ ہو۔ موجودہ سیاسی ٹیم بین الاقوامی طاقتوں کے منصوبہ کو وقت پر بھانپ نہ سکی۔ لہذاعوامی لحاظ سے ہر منفی اور مشکل فیصلہ انھی سیاسی لوگوں سے کروایا گیا۔ ان کی غیرمقبولیت کو بتدریج بڑھنے دیا گیا۔ اور اب انتہائی ذہانت سے ملک کو عدم استحکام کی طرف لیجایا جا رہا ہے۔

ریاستی اداروں پر بھرپور طریقے سے وار کیا جا رہا ہے۔ المناک بات یہ ہے کہ عدم استحکام جمہوریت کے خوبصورت نام پر پھیلایا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ ملک کو انارکی کی طرف لے جا چکا ہے۔ ہر آئینی ادارے کو دوسرے سے دست وگریباں کروا دیا گیا ہے۔ اس کا انجام کتنا بُرا ہو سکتا ہے، اس کا یقین کرنا ابھی ممکن نہیں۔ واک ختم ہوئی۔ پروفیسر صاحب کی باتیں بھی۔ مگر اُس وقت سے سوچ رہا ہوں کہ کہیں پروفیسرسچ تونہیں بول رہا؟ کیا واقعی ہم اَنارکی کے دہانے پر ہیں؟
Load Next Story