جنرل الارڈ کا گم نام مقبرہ یا کڑی باغ

فرانسیسی حکومت کی مہربانی اور فرانسیسی قونصل خانے کے فنڈز سے اس کی بحالی پایۂ تکمیل کو پہنچی۔


فرانسیسی حکومت کی مہربانی اور فرانسیسی قونصل خانے کے فنڈز سے اس کی بحالی پایۂ تکمیل کو پہنچی۔ فوٹو: فائل

یہ قصہ شروع ہوتا ہے 1815 سے جب موجودہ یورپی ملک بیلجیئم میں واقع ''واٹرلو'' کے مقام پر نپولین بوناپارٹ کی قیادت میں لڑنے والی فرانسیسی افواج کو برطانوی افواج نے شکست دی اور وہ تتر بتر ہوگئیں۔

نپولین کو تو سینٹ ہیلینا میں قید کر دیا گیا لیکن اس کے بہت سے بہترین جنرل بے روزگاری سے تنگ آ کر نوکری کی غرض سے مراکش، مصر، فارس و روم سمیت مختلف خطوں میں پھیل گئے، جن میں سے ایک جنرل فرانسس الارڈ بھی تھا۔

جنرل فرانسس الارڈ (Jean Francois Allard)1785 میں فرانس کے شہر سینٹ ٹروپز (Saint Tropez) میں پیدا ہوا۔ وہ نپولین کے دور میں اٹلی اور اسپین کی جنگوں میں بھی لڑا۔ سیاسی جلاوطنی سے ڈر کر وہ فرانس سے فارس (موجودہ ایران) جا پہنچا جہاں اسے جنرل ونتورا کا ساتھ ملا جو خود فرانس سے یہاں آیا تھا۔ یہاں فارسی سیکھنے کے ساتھ ساتھ دونوں جنرل شاہی دربار سے منسلک ہوگئے، لیکن برطانیہ نے شاہ فارس کو بھاری امداد کے بدلے فرانسیسی سپاہیوں کو گرفتار کرنے کا کہا تو وہ وہاں سے بھاگ نکلے (ایک جگہ یہ بھی لکھا ہے کہ بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کے بیٹوں کی باہمی دشمنی سے تنگ آ کر دونوں فارس چھوڑگئے)۔

1822 میں یہ کابل پہنچے اور وہاں سے درہ خیبر پار کر کہ پشاور کے راستے پنجاب بھاگ نکلے اور مہاراجا رنجیت سنگھ کے دربار میں پیش ہوئے۔

مہاراجا پہلے پہل تو انہیں دیکھ کہ برطانوی جاسوس سمجھا اور اس نے انہیں دو تین ماہ سخت نگرانی میں رکھا۔ چوںکہ رنجیت سنگھ کو برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی سے شدید خطرات لاحق تھے، اس لیے وہ اپنی افواج کو ان کے ہم پلہ کرنا چاہتا تھا، چناں چہ ان جنرلوں کی طرف سے تسلی کرلینے کے بعد رنجیت سنگھ نے انہیں اپنی افواجِ خاص کی یورپی طرز پر بہترین ٹریننگ کا کام سونپا۔ جنرل الارڈ کو گھڑسوار فوج جب کہ جنرل ونتورا کو پیدل فوج کا سربراہ بنایا گیا۔ اس فوج کی وردی بالکل نپولین کی فرانسیسی افواج کی طرز پر بنائی گئی تھی۔ بہترین لوگوں کو بھرتی کیا گیا اور فوج کے لیے شان دار گھوڑوں کا بھی انتظام کیا گیا۔ خالصہ فوج کی اتنی بہترین ٹریننگ کی گئی کہ انڈیا کا برطانوی جنرل، ایڈورڈ بھی اسے ''ایشیا کی بہترین لڑاکا فوج'' کہنے پہ مجبور ہو گیا۔ شاید اسی وجہ سے پنجاب وہ آخری خطہ تھا جو برطانیہ کے زیرِتسلط آیا۔

الارڈ نے ہر طریقے سے مہاراجا کا وفادار رہ کر پنجاب کی سرحدوں کی نگرانی کی پھر چاہے وہ 1825 میں پشاور اور ڈیرہ جات میں مسلم قبائل کو ہرانا ہو یا 1827 اور 30 میں سید احمد شہید بریلوی کے جہاد کو دبانا۔ یہ سب کچھ انہیں مہاراجا کے اور قریب لے آیا۔

رنجیت سنگھ کے دور میں جنرل الارڈ کو تنخواہ کے ساتھ ساتھ مختلف جاگیریں بھی عطا کی گئیں۔ الارڈ اور ونتورا نے لوئر مال پر بہترین قیام گاہیں بنوائیں اور اپنا صدر دفتر بھی وہیں بنایا۔ 1847 میں اسی دفتر پر انگریز افسر ''ہینری لارنس'' نے قبضہ کرلیا اور آج یہ پنجاب کے چیف سیکرٹری کا دفتر ہے، جسے ہم سول سیکرٹریٹ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس سیکرٹریٹ کی کئی عمارتیں فرانسیسیوں کی بنائی گئی ہیں۔

تاریخ بتاتی ہے کہ جنرل الارڈ نے مہاراجا کی بھتیجی ''بانو'' سے شادی کی (مقبرے کے باہر لگی تختی کے مطابق الارڈ کی بیوی چمبہ کے شاہی خاندان کی شہزادی تھی) اور سیکرٹریٹ بلڈنگ کے باہر منتقل ہوگئے، یہی علاقہ آگے چل کر چھاؤنی بنا اور پھر چھاؤنی کو دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔

اس جگہ جنرل الارڈ نے ایک بڑا باغ تعمیر کروایا جس کے بیچ میں اس کی رہائش گاہ بھی تھی۔ 1827 میں جنرل کی ایک بیٹی میری شارلٹ (Marie Charlotte) کم عمری میں ہی مرگئی اور اس نے اسے وہیں باغ میں دفنانے کا فیصلہ کیا۔ تب سے اس جگہ کا نام مقامی زبان میں ''کڑی آلا باغ'' رکھ دیا گیا جو پھر کُڑی باغ یا Daughter's_garden# کہلایا۔

1834 میں جنرل الارڈ لمبی چھٹی پر فرانس واپس گیا جہاں اسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ فرانسیسی حکومت نے جنرل کی اہلیت کو دیکھتے ہوئے اسے پنجاب کی سکھ حکومت میں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجنے کا فیصلہ کیا اور 1836 میں جنرل اپنے خاندان کو فرانس چھوڑ کہ مہاراجا کی خدمت میں پیش ہوا۔ مہاراجا نے اسے جنرل ونتورا کی مدد کرنے قبائلی علاقوں میں بھیجا۔ تاہم وہ وہاں جاتے ہی بیمار ہو گیا اور 1839 میں پشاور میں اس کا آخری وقت آن پہنچا۔ اس کے تابوت کو پشاور سے لاہور مکمل فوجی اعزاز سے لایا گیا اور راستے میں ہر بڑے شہر میں سلامی دی گئی۔

جنرل الارڈ کو اپنی بیٹی کے ساتھ کڑی باغ میں ہی دفن کیا گیا جہاں مہاراجا نے سکھ طرزتعمیر کا ایک خوب صورت مقبرہ بنانے کا حکم دیا۔یہ باغ پرانی انارکلی میں ایف بی آر کے دفتر کے پاس واقع ہے جہاں ایک زمانے میں ''کپورتھلہ ہاؤس'' ہوا کرتا تھا (بعد میں جس کی جگہ فلیٹس و دفاتر کھڑے کر دیے گئے) ماضی میں کڑی باغ کے نام سے مشہور یہ جگہ اب صرف جنرل الارڈ اور اس کی بیٹی کا مقبرہ ہے۔

آج کڑی باغ انارکلی کی بلند و بالا عمارتوں کے ہجوم میں سہما اور سمٹا ہوا ایک چھوٹا سا گھاس کا قطعہ ہے جس کے وسط میں سرخ اینٹوں کا ایک بڑا سا چبوترہ موجود ہے۔ اس چبوترے پر سرخ اینٹوں کا ہی ایک اور ایک ہشت پہلو چبوترہ ہے جس پر خوب صورت سفید گنبد والا مقبرہ بنا ہے۔ اس پر آٹھ چوکور درمیانے سائز کے مینار بھی ہیں۔

مقبرے کے اندر دو سنگ مرمر کی قبریں ہیں جن کے پیچھے دیوار کے بیچ ایک کُتبہ لگا ہوا ہے۔اس کتبے پر فرانسیسی کے یہ الفاظ درج ہیں؛

"Cette tombe a ete construite en 1827 sur l'ordre du chevalier general Allard sahib bahadur pour sa fille Marie Charlotte que dieu lui aporte sa benediction an paradis."

''یہ قبر 1827 میں جنرل الارڈ صاحب بہادر کے حکم پر ان کی بیٹی میری شارلٹ کے لیے بنائی گئی۔ خدا اسے جنت میں میں جگہ دے۔''

ہماری ازلی بے حسی کی بدولت یہ جگہ بھی ابتری کا شکار تھی لیکن فرانسیسی حکومت کی مہربانی اور فرانسیسی قونصل خانے کے فنڈز سے اس کی بحالی پایۂ تکمیل کو پہنچی اور یہ تاریخی جگہ آج ہمارے سامنے بہترین حالت میں موجود ہے۔

تحریر کے اختتام پر میں محکمہ آثارِقدیمہ پنجاب کے ڈائریکٹر مقصود احمد صاحب کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جن کی بدولت یہ مقبرہ اندر سے دیکھنا نصیب ہوا کیوںکہ آج کل یہ زیادہ تر مقفل رہتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں