WASHINGTON:
غزل
سوز و گداز و نم سمیٹ، کر دے شکستہ پا مجھے
میں تیرا ٹوٹا خواب ہوں جلدی ذرا بجھا مجھے
مقبرہ ٔ بدن پہ ہے راکھ جمی ہوئی مرے
پھر سے اٹھا مری بِنا، پھر سے ذرا بنا مجھے
میری نسوں میں بھر چکا دکھ کا غبار دوستا
مت میری سوچ میں دھڑک، اتنا نہ یاد آ مجھے
تیری طلب کا لفظ میں، حرف غلط تَو مت بنا
تیرے جنوں کا دور ہوں کرتا ہے کیوں فنا مجھے
حرفِ یقین مٹ چکا، گردِ شعور جھڑ چکی
باقی بچی ہے بے بسی، جس سے گریز تھا مجھے
اس کی گلی کے حاشیے ازبر ہوئے ہیں ذہن کو
جس نامراد نے کہیں کا بھی نہیں رکھا مجھے
(عبدالرحمان واصف ۔کہوٹہ)
۔۔۔
غزل
شاہ زادے، کرو یقیں میرا
جی نہیں لگ رہا کہیں میرا
تیرے دل کے نگار خانے میں
نقش باقی ہے کیاکہیں میرا؟
لوگ جتنا مرے خلاف ہوئے
خود پہ بڑھتا گیا یقیں میرا
یعنی میں کام یاب ہو گئی ہوں
کتنا حیراں ہے نکتہ چیں میرا
اس کو کیسے قضا کیا جائے
وہ تو ہے فرضِ اولیں میرا
غم کا آسیب ڈھونڈھتا ہے مجھے
جیسے میں گھر ہوںوہ مکیں میرا
زخم میرے بہت انوکھے ہیں
یونہی لہجہ نہیں حسیں میرا
(بلقیس خان۔ میانوالی)
۔۔۔
غزل
ترے جنوں کے کہیں حوصلے نہ گھٹ جائیں
اے دوست کیوں نہ ابھی راستے سے ہٹ جائیں
ترے خمار میں آئے ہیں ایسی نہج پہ ہم
جو تیرا خواب نہ دیکھیں تو آنکھیں پھٹ جائیں
ہم ایسے لوگ جنہیں خامشی نے مارا ہے
صدا لگاتے ہوئے خوف سے سمٹ جائیں
میں رفتگان کو رکھتا ہوں یاد اس لیے بھی
مجھے یہ ڈر ہے مرے رابطے نہ کٹ جائیں
ہمارے پاس خسارے ہیں اور کچھ بھی نہیں
انہیں بتا دو ابھی وقت ہے پلٹ جائیں
(طارق جاوید۔کبیروالا)
۔۔۔
غزل
باغ ِ فریب سے گزر پھولوں کا قتل ِ عام کر
خوشبو مگر ملے کہیں جھک کر اسے سلام کر
کوئی امید کوئی خواب آنکھوں کی جھیل میں گرا
چارہ گری کے واسطے کوئی تو انتظام کر
تیری پسند اور ہے میری پسند اور ہے
مجھ سے نہ دوستی بڑھا مجھ سے نہ تُوکلام کر
تیرا فقط گمان ہے دوری کے داغ جائیں گے
جتنی تُو دوڑ دوڑ لے، جتنا بھی اہتمام کر
ایسا نہ ہو کہ وسط میں دریا کے شام آ پڑے
ساحل کی آس مت لگا کشتی کو تیز گام کر
حالانکہ کہ تو وہیں پہ تھا ہم کو نہیں ملا مگر
پردہ ٔ غیب سے سہی تھوڑا سا تو کلام کر
تجھ کو پسند ہوں اگر اس کو پسند کیوں نہیں
شکل میں اپنی لا مجھے اس کو مرا غلام کر
کیسی مہیب رات ہے ،وحشت میں کائنات ہے
ساعت ِ اضطراب ہے رک جا،ذرا قیام کر
(حنا عنبرین، لیہ)
۔۔۔
غزل
کچھ حوصلہ ہمیں دلِ ناشاد چاہیے
اپنے بچاؤ کے لیے امداد چاہیے
محسوس ہو رہی ہیں عجب حاجتیں ہمیں
ہم کو خدا کے بعد خدا داد چاہیے
سچ جھوٹ ماپنے کے بھی پیمانے آ چکے
اب اس سے بڑھ کے کچھ نئی ایجاد چاہیے
اربابِ نقد بیج لگا کر نہ بیٹھ جائیں
ذہنوں کو علم و فکر کی بھی کھاد چاہیے
شہرت کی بھوک کتنے عقیدے نگل گئی
خوفِ خدا پہ بھی ہمیں اب داد چاہیے
(توحید زیب ۔بہاولپور)
۔۔۔
غزل
بے بسی، رنج، رائیگانی کا
سُرخ کردار اس کہانی کا
وہ جسے انتظار کہتے ہیں
تلخ لمحہ ہے زندگانی کا
میرے ہونٹوں پہ دفن ہوتا ہے
سلسلہ آنکھ اور پانی کا
میری آواز چھین لیتا ہے
ماجرہ شہر بے زبانی کا
وقت سے پہلے کر گیا بوڑھا
عشق اور وہ بھی نوجوانی کا
توڑتی ہے یقین کے دھاگے
کیا کروں تیری بدگمانی کا
خود کشی کر لی دیو نے باقیؔ
وہ جو عاشق تھا ایک رانی کا
(اسد علی باقی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
صبر بیکار کر رہی ہوں میں
کس کا انکار کر رہی ہوں میں
اک تماشا ہے خامشی کا فسوں
سرِ بازار کر رہی ہوں میں
ریت مُٹھی میں لے کے آئی ہوں
اور دیوار کر رہی ہوں میں
زندگی کیوں ترے بھروسے پر
مرنا دشوار کر رہی ہوں میں
ایک مدت سے دھڑکنیں بینشؔ
تیز رفتار کر رہی ہوں میں
(بینش باقی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
بچھڑ گئے تو حکایت یہ دل نشیں ہوگی
ہمارے نام پہ پھولوں کی سرزمیں ہوگی
ہم آسماں سے اتارے ہوئے صحیفے ہیں
ہماری کوئی بھی آیت غلط نہیں ہوگی
گھٹن بڑھے گی تو چومیں گے تیرے ہونٹوں کو
یونہی یہ سانس ترے جسم کی امیں ہوگی
میں انتظار تمہارا کروں گا جنت میں
ہماری پہلی ملاقات اب وہیں ہوگی
فلک پہ پھول اگیں گے زمین پر گیسیں
یہاں کی چیز وہاں پر پنہ گزیں ہوگی
حسن میں اگلے زمانے کی بات کر رہا ہوں
شعور ہوگا مگر آگہی نہیں ہوگی
(معوّذ حسن۔نارو وال)
۔۔۔
غزل
نہیں گوارا کہ دل اِس قدر بھی شور کرے
ہمارے حصے کا اب عشق کوئی اور کرے
ہوا کرے نہ ترا پیرہن کرے لیکن
ترے وجود کو مس میری پور پور کرے
نئے جہان کے جلوؤں میں کھو نہیں سکتا
یہ دل جو یاد ہمیشہ پرانا دور کرے
تمہارے عشق سے اتنی بھی کر نہیں پائے
قفس میں چاند سے جتنی وفا چکور کرے
یہ دردِ عشق ذرا سا بھی کم نہیں ہوگا
ہمارے حال پہ جتنا بھی کوئی غور کرے
قدم قدم پہ اگر ساتھ مورنی کا ہو
خزاں بھی آئے تو جنگل میں رقص مور کرے
بگڑ رہے ہیں خلیفہ سے کام کاج سبھی
وہ پھر سے ہاتھ میں سارے جہاں کی ڈور کرے
(ازور شیرازی۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
مجھ کو معلوم ہے میں عام نہیں ہو سکتا
ایرے غیرے سے مرا کام نہیں ہو سکتا
ہے اجازت، تُو مرے جیسا کوئی ڈھونڈ کے لا
ترے اچھوں میں مرا نام نہیں ہوسکتا
تو بھی کوفی ہے مرے یار میں یہ جانتا ہوں
تُو محبت کا تو پیغام نہیں ہو سکتا
میری آنکھیں ہیں یہ مشکیزہ نہیں ہے صاحب
ہر نظر کے لیے میں جام نہیں ہو سکتا
(علی احمد ۔ راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
کبھی ہاتھ مجھ سے چھڑا نہ سکو گے
محبت سے دامن بچا نہ سکو گے
کبھی یاد بن کے ستائیں گی تم کو
ادائیں مری تم بُھلا نہ سکو گے
چھپا رازِ دل ہے جو سینے میں کب سے
یقیں ہے مجھے اب چھپا نہ سکوگے
ملے گی نہ راحت تمہیں بے رخی سے
مقدر کا لکھا مٹا نہ سکو گے
ملیں گے بہت ہمسفر زندگی میں
مگر مہ جبیں کو بھلا نہ سکو گے
(مہ جبیں ملک۔ پنجاب)
کہتے ہیں جذبات کو تصور، تصور کو الفاظ مل جائیں تو شعر تخلیق ہوتا ہے اور یہ صفحہ آپ کے جذبات سے آراستہ تخلیقات سے سجایا جارہا ہے۔ آپ اپنی نظم ، غزل مع تصویر ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں، معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس (سنڈے ایکسپریس) ، 5 ایکسپریس وے ، کورنگی روڈ ، کراچی