طلاق کا ہرجانہ خاتون نے گھریلو کام کاج اور بچے پالنے کا معاوضہ مانگ لیا
کیونکہ اس کے شوہر نے اس کا ہاتھ نہیں بٹایا اور یہ ساری ذمہ داریاں اسے اکیلے ہی پوری کرنا پڑیں
LOS ANGELES:
چینی سوشل میڈیا پر آج کل ایک مقدمے پر بحث جاری ہے جس میں طلاق لینے والی ایک خاتون نے اپنے شوہر سے پچھلے پانچ کے دوران گھر کے کام کرنے اور بچے پالنے کا معاوضہ طلب کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق، چین کے ایک شہری نے اپنی شادی کے پانچ سال گزرنے کے بعد عدالت میں درخواست دی کہ اسے اس کی بیوی سے طلاق دلوائی جائے۔
کچھ پس و پیش کے بعد وہ خاتون بھی اپنے شوہر کو طلاق دینے پر راضی ہوگئی لیکن اس نے شرط رکھی کہ جب تک اسے اپنی پانچ سالہ شادی شدہ زندگی کے دوران تمام ذمہ داریاں پوری کرنے کا معاوضہ نہیں دیا جاتا، تب تک وہ اپنے شوہر کو طلاق بھی نہیں دے گی۔
خاتون نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ شادی کے بعد سے اس کے شوہر نے گھر کے کاموں اور بچوں کو سنبھالنے میں اس کی کوئی مدد نہیں کی اور یہ ساری ذمہ داریاں اسے اکیلے ہی پوری کرنا پڑیں۔
لہذا، اسے اس پانچ سالہ مشقت کا معاوضہ دیا جائے جو ایک لاکھ 60 ہزار چینی یوآن (تقریباً 39 لاکھ پاکستانی روپے) بنتا ہے۔
چین میں گزشتہ سال منظور ہونے والے نئے خاندانی قوانین (فیملی لاز) کی روشنی میں عدالت نے خاتون کے مطالبے کا جائزہ لینے کے بعد اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
تاہم فیصلے میں کہا گیا کہ طلاق کے بدلے میں وہ خاتون صرف 50 ہزار یوآن (12 لاکھ 15 ہزار پاکستانی روپے) کی حقدار ہے جو اس کا سابقہ شوہر اسے ادا کرے گا۔
اسی فیصلے کے دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ طلاق کے بعد یہ شخص اپنی سابقہ بیوی کو ماہانہ اخراجات (نان نفقہ) کی مد میں 2000 یوآن (تقریباً 50 ہزار پاکستانی روپے) ماہانہ ادا کرے گا۔
چین میں نئے خاندانی قوانین کے نفاذ کے بعد یہ اپنی نوعیت کا سب سے پہلا اور منفرد (لینڈ مارک) فیصلہ ہے جو آنے والے ایسے ہی کئی دوسرے مقدمات میں دیئے جانے والے فیصلوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
چینی سوشل میڈیا کے بیشتر صارفین اس فیصلے پر شدید غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پانچ سال کی ''کل وقتی مشقت'' کا یہ معاوضہ بہت کم ہے کیونکہ چین میں ایک عام گھریلو ملازمہ بھی سال بھر میں بہت آرام سے 50 ہزار یوآن (12 لاکھ پاکستانی روپے) تک کما لیتی ہے۔
اگر اس خاتون کے شوہر نے گھر کے کام کاج اور بچے پالنے میں اپنی بیوی کا ذرا بھی ہاتھ نہیں بٹایا، اور یہ سب کچھ اس خاتون کو اکیلے ہی سنبھالنا پڑا، تو اس لحاظ سے پانچ سالہ کام کا معاوضہ بہت زیادہ بنتا ہے۔
چینی سوشل میڈیا پر آج کل ایک مقدمے پر بحث جاری ہے جس میں طلاق لینے والی ایک خاتون نے اپنے شوہر سے پچھلے پانچ کے دوران گھر کے کام کرنے اور بچے پالنے کا معاوضہ طلب کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق، چین کے ایک شہری نے اپنی شادی کے پانچ سال گزرنے کے بعد عدالت میں درخواست دی کہ اسے اس کی بیوی سے طلاق دلوائی جائے۔
کچھ پس و پیش کے بعد وہ خاتون بھی اپنے شوہر کو طلاق دینے پر راضی ہوگئی لیکن اس نے شرط رکھی کہ جب تک اسے اپنی پانچ سالہ شادی شدہ زندگی کے دوران تمام ذمہ داریاں پوری کرنے کا معاوضہ نہیں دیا جاتا، تب تک وہ اپنے شوہر کو طلاق بھی نہیں دے گی۔
خاتون نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ شادی کے بعد سے اس کے شوہر نے گھر کے کاموں اور بچوں کو سنبھالنے میں اس کی کوئی مدد نہیں کی اور یہ ساری ذمہ داریاں اسے اکیلے ہی پوری کرنا پڑیں۔
لہذا، اسے اس پانچ سالہ مشقت کا معاوضہ دیا جائے جو ایک لاکھ 60 ہزار چینی یوآن (تقریباً 39 لاکھ پاکستانی روپے) بنتا ہے۔
چین میں گزشتہ سال منظور ہونے والے نئے خاندانی قوانین (فیملی لاز) کی روشنی میں عدالت نے خاتون کے مطالبے کا جائزہ لینے کے بعد اس کے حق میں فیصلہ دے دیا۔
تاہم فیصلے میں کہا گیا کہ طلاق کے بدلے میں وہ خاتون صرف 50 ہزار یوآن (12 لاکھ 15 ہزار پاکستانی روپے) کی حقدار ہے جو اس کا سابقہ شوہر اسے ادا کرے گا۔
اسی فیصلے کے دوسرے حصے میں کہا گیا ہے کہ طلاق کے بعد یہ شخص اپنی سابقہ بیوی کو ماہانہ اخراجات (نان نفقہ) کی مد میں 2000 یوآن (تقریباً 50 ہزار پاکستانی روپے) ماہانہ ادا کرے گا۔
چین میں نئے خاندانی قوانین کے نفاذ کے بعد یہ اپنی نوعیت کا سب سے پہلا اور منفرد (لینڈ مارک) فیصلہ ہے جو آنے والے ایسے ہی کئی دوسرے مقدمات میں دیئے جانے والے فیصلوں پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔
چینی سوشل میڈیا کے بیشتر صارفین اس فیصلے پر شدید غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پانچ سال کی ''کل وقتی مشقت'' کا یہ معاوضہ بہت کم ہے کیونکہ چین میں ایک عام گھریلو ملازمہ بھی سال بھر میں بہت آرام سے 50 ہزار یوآن (12 لاکھ پاکستانی روپے) تک کما لیتی ہے۔
اگر اس خاتون کے شوہر نے گھر کے کام کاج اور بچے پالنے میں اپنی بیوی کا ذرا بھی ہاتھ نہیں بٹایا، اور یہ سب کچھ اس خاتون کو اکیلے ہی سنبھالنا پڑا، تو اس لحاظ سے پانچ سالہ کام کا معاوضہ بہت زیادہ بنتا ہے۔