سینیٹ انتخابات پی پی کی متحدہ کو گیلانی کی حمایت کے عوض دو نشستوں کی پیشکش
پیپلز پارٹی کے وفد کی متحدہ مرکز آمد، فیصلہ رابطہ کمیٹی کرے گی، ایم کیو ایم رہنماؤں کا جواب
KARACHI:
پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم پاکستان کو سندھ سے سینیٹ کی دو نشستوں کی پیشکش کرتے ہوئے اس کے عوض یوسف رضا گیلانی کے لیے ووٹ مانگ لیا جواب میں ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ فیصلہ رابطہ کمیٹی کرے گی۔
اس حوالے سے پیپلز پارٹی کا وفد ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد پہنچا۔ وفد میں ناصر حسین شاہ، مرتضی وہاب، شرجیل انعام میمن اور وقار مہدی شامل تھے جن کا فیصل سبزواری، عامر خان اور دیگر رہنماؤں نے استقبال کیا۔
ملاقات کے بعد دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی۔ ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دوست ہمارے پاس آئے ان کی گزارشات پر رابطہ کمیٹی غور کرے گی، ہم نے بھی ان سے گزارش کی ہے کہ گزشتہ 12 سال سے سندھ کے شہری علاقوں میں جو احساس محرومی ہے اس پر بھی سوچنا چاہیے اور مستقبل میں ہم سندھ کے حوالے سے ایسے اقدامات چاہتے ہیں جس سے شہری علاقوں کے محرومی کے احساس کو دور کیا جاسکے۔
عامر خان نے کہا کہ این ایف سی کی طرح پی ایف سی پر بھی عمل کیا جائے، یہاں نوکریوں، بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور احساس شراکت کے مسائل ہیں، سینیٹ الیکشن تو گزر جائیں گے لیکن آنے والے وقت میں ہمیں مل کر سندھ خاص کر شہری علاقوں کے لیے کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا۔
وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ہم نے اپنی گزارشات ایم کیو ایم کے سامنے رکھ دی ہیں، ہم پرامید ہیں کہ ہماری سفارشات سندھ کے مفاد میں بہتر ثابت ہوں گی، رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا تو ہم مشترکہ پریس کانفرنس میں سارے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری ملاقات میں سینیٹ انتخابات مل کر لڑنے پر بات چیت ہوئی ہے، ایم کیو ایم کی دو نشستوں پر ہم انہیں سپورٹ کریں گے اور ہمارے امیدواروں بشمول وفاق میں یوسف رضا گیلانی کی نشست پر ایم کیو ایم ہمارے ساتھ تعاون کرے۔
ناصر حسین شاہ نے کہا کہ پنجاب میں سنجیدہ بات چیت کی گئی اور مسلم لیگ (ق) نے اس معاملے میں کردار ادا کیا، تحریک انصاف پنجاب میں خوف زدہ بھی تھی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ بہت سے اراکین اپنے ہی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے، اس کی وجہ امیدواروں کی نامزدگیاں ہیں جس پر پی ٹی آئی کے اراکین ناراض تھے، ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے امیدوار دیکھ لیں سب کو واضح فرق نظر آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب ماڈل کی بات ایم کیو ایم نے کی، اس پر ہم تیار ہیں، ایم کیو ایم کی جنرل اور خواتین نشست پر پیپلز پارٹی اپنے امیدوار دست بردار کراکر انہیں بلامقابلہ کامیاب کراسکتی ہے، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے جواب میں ایم کیو ایم کو بھی مرکز میں یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینا ہوگا۔
ایم کیو ایم کے سینیٹ امیدوار فیصل سبزواری نے کہا کہ جب وفاقی وزرا اسد عمر اور حفیظ شیخ یہاں آئے تھے تو ہم حتمی جواب اسی وقت دے سکتے تھے لیکن رابطہ کمیٹی سے ہٹ کر ہم فیصلہ نہیں کرسکتے، پیپلز پارٹی کے وفد سے گزارش ہے کہ پنجاب کی اسمبلی نے بڑا اچھا ماڈل دیا ہے کیا یہ اچھا نہیں ہوتا کہ سندھ میں بھی ایسا ہی کوئی انتظام ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب ایک شیشے کے گھر کے مکین ہیں، اگر سینیٹ کے انتخابات تک سیاسی عمل پر حرف اٹھتا ہے تو ہم سب کی نیک نامی متاثر ہوتی ہے، پنجاب والی شکل یہاں بھی لائی جاسکے تو بہتر ہوگا، پیپلز پارٹی کے سامنے ہم نے یہ بات بھی رکھی ہے امید ہے کہ وہ اس پر غور کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مفاہمتی یادداشت کی بنیاد پر ایم کیو ایم کا تحریک انصاف سے اتحاد ہوا تھا اور ہم اس پر عمل درآمد کے لیے بارہا ان سے گوش گزار کرچکے ہیں، ان کے پاس بھی کراچی شہر کا واضح مینڈیٹ موجود ہے اور ہماری خواہش ہے کہ وفاقی حکومت شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے کام کرے۔
انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی سے صرف سینیٹ انتخابات پر گفتگو ہوئی، وفاقی حکومت چھوڑنے یا تحریک عدم اعتماد پر بات چیت نہیں ہوئی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان جتنی مخاصمت ہے اتنی تو پاکستان کی کسی دو جماعتوں کے درمیان نہیں، لیکن وہ سب بند کمرے میں بیٹھے تو آرام سے اپنے سینیٹرز منتخب کرالیے۔
فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی سے سینیٹ انتخابات پر کوئی گفتگو ہوئی ہے تو ہمارا نہیں خیال کہ اس کا وفاقی حکومت سے اتحاد یا حکومتی بینچوں پر بیٹھنے یا نہیں بیٹھنے کا کوئی سوال پیدا ہو۔
میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شرجیل میمن نے کہا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیاسی اختلافات رہے ہیں، مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی کسی دور میں اختلافات تھے اور یہی معاملہ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی رہا ہے، نائن زیرو کا بھی دو مرتبہ دورہ کرچکا ہوں اور بہادر آباد بھی آیا ہوں، سیاست میں بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے، ہماری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں ہے، بڑے سیاسی فیصلوں پر مشاورت ہوتی ہے امید ہے کہ رابطہ کمیٹی مثبت فیصلہ کرے گی، ایم کیو ایم کی شکایتیں جائز ہیں۔
پیپلز پارٹی نے ایم کیو ایم پاکستان کو سندھ سے سینیٹ کی دو نشستوں کی پیشکش کرتے ہوئے اس کے عوض یوسف رضا گیلانی کے لیے ووٹ مانگ لیا جواب میں ایم کیو ایم نے کہا ہے کہ فیصلہ رابطہ کمیٹی کرے گی۔
اس حوالے سے پیپلز پارٹی کا وفد ایم کیو ایم کے مرکز بہادر آباد پہنچا۔ وفد میں ناصر حسین شاہ، مرتضی وہاب، شرجیل انعام میمن اور وقار مہدی شامل تھے جن کا فیصل سبزواری، عامر خان اور دیگر رہنماؤں نے استقبال کیا۔
ملاقات کے بعد دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے پریس کانفرنس کی۔ ایم کیو ایم کے سینئر ڈپٹی کنوینر عامر خان نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دوست ہمارے پاس آئے ان کی گزارشات پر رابطہ کمیٹی غور کرے گی، ہم نے بھی ان سے گزارش کی ہے کہ گزشتہ 12 سال سے سندھ کے شہری علاقوں میں جو احساس محرومی ہے اس پر بھی سوچنا چاہیے اور مستقبل میں ہم سندھ کے حوالے سے ایسے اقدامات چاہتے ہیں جس سے شہری علاقوں کے محرومی کے احساس کو دور کیا جاسکے۔
عامر خان نے کہا کہ این ایف سی کی طرح پی ایف سی پر بھی عمل کیا جائے، یہاں نوکریوں، بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور احساس شراکت کے مسائل ہیں، سینیٹ الیکشن تو گزر جائیں گے لیکن آنے والے وقت میں ہمیں مل کر سندھ خاص کر شہری علاقوں کے لیے کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا۔
وزیر اطلاعات ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ہم نے اپنی گزارشات ایم کیو ایم کے سامنے رکھ دی ہیں، ہم پرامید ہیں کہ ہماری سفارشات سندھ کے مفاد میں بہتر ثابت ہوں گی، رابطہ کمیٹی نے فیصلہ کیا تو ہم مشترکہ پریس کانفرنس میں سارے سوالات کے تسلی بخش جوابات دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری ملاقات میں سینیٹ انتخابات مل کر لڑنے پر بات چیت ہوئی ہے، ایم کیو ایم کی دو نشستوں پر ہم انہیں سپورٹ کریں گے اور ہمارے امیدواروں بشمول وفاق میں یوسف رضا گیلانی کی نشست پر ایم کیو ایم ہمارے ساتھ تعاون کرے۔
ناصر حسین شاہ نے کہا کہ پنجاب میں سنجیدہ بات چیت کی گئی اور مسلم لیگ (ق) نے اس معاملے میں کردار ادا کیا، تحریک انصاف پنجاب میں خوف زدہ بھی تھی کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ بہت سے اراکین اپنے ہی امیدواروں کو ووٹ نہیں دیں گے، اس کی وجہ امیدواروں کی نامزدگیاں ہیں جس پر پی ٹی آئی کے اراکین ناراض تھے، ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم کے امیدوار دیکھ لیں سب کو واضح فرق نظر آئے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب ماڈل کی بات ایم کیو ایم نے کی، اس پر ہم تیار ہیں، ایم کیو ایم کی جنرل اور خواتین نشست پر پیپلز پارٹی اپنے امیدوار دست بردار کراکر انہیں بلامقابلہ کامیاب کراسکتی ہے، تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے جواب میں ایم کیو ایم کو بھی مرکز میں یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینا ہوگا۔
ایم کیو ایم کے سینیٹ امیدوار فیصل سبزواری نے کہا کہ جب وفاقی وزرا اسد عمر اور حفیظ شیخ یہاں آئے تھے تو ہم حتمی جواب اسی وقت دے سکتے تھے لیکن رابطہ کمیٹی سے ہٹ کر ہم فیصلہ نہیں کرسکتے، پیپلز پارٹی کے وفد سے گزارش ہے کہ پنجاب کی اسمبلی نے بڑا اچھا ماڈل دیا ہے کیا یہ اچھا نہیں ہوتا کہ سندھ میں بھی ایسا ہی کوئی انتظام ہوجائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب ایک شیشے کے گھر کے مکین ہیں، اگر سینیٹ کے انتخابات تک سیاسی عمل پر حرف اٹھتا ہے تو ہم سب کی نیک نامی متاثر ہوتی ہے، پنجاب والی شکل یہاں بھی لائی جاسکے تو بہتر ہوگا، پیپلز پارٹی کے سامنے ہم نے یہ بات بھی رکھی ہے امید ہے کہ وہ اس پر غور کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ مفاہمتی یادداشت کی بنیاد پر ایم کیو ایم کا تحریک انصاف سے اتحاد ہوا تھا اور ہم اس پر عمل درآمد کے لیے بارہا ان سے گوش گزار کرچکے ہیں، ان کے پاس بھی کراچی شہر کا واضح مینڈیٹ موجود ہے اور ہماری خواہش ہے کہ وفاقی حکومت شہریوں کو ریلیف دینے کے لیے کام کرے۔
انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی سے صرف سینیٹ انتخابات پر گفتگو ہوئی، وفاقی حکومت چھوڑنے یا تحریک عدم اعتماد پر بات چیت نہیں ہوئی، مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان جتنی مخاصمت ہے اتنی تو پاکستان کی کسی دو جماعتوں کے درمیان نہیں، لیکن وہ سب بند کمرے میں بیٹھے تو آرام سے اپنے سینیٹرز منتخب کرالیے۔
فیصل سبزواری کا کہنا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی سے سینیٹ انتخابات پر کوئی گفتگو ہوئی ہے تو ہمارا نہیں خیال کہ اس کا وفاقی حکومت سے اتحاد یا حکومتی بینچوں پر بیٹھنے یا نہیں بیٹھنے کا کوئی سوال پیدا ہو۔
میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے شرجیل میمن نے کہا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ سیاسی اختلافات رہے ہیں، مسلم لیگ ن کے ساتھ بھی کسی دور میں اختلافات تھے اور یہی معاملہ ایم کیو ایم کے ساتھ بھی رہا ہے، نائن زیرو کا بھی دو مرتبہ دورہ کرچکا ہوں اور بہادر آباد بھی آیا ہوں، سیاست میں بات چیت کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے، ہماری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں ہے، بڑے سیاسی فیصلوں پر مشاورت ہوتی ہے امید ہے کہ رابطہ کمیٹی مثبت فیصلہ کرے گی، ایم کیو ایم کی شکایتیں جائز ہیں۔