جو ہم پہ گذری دوسرا اور آخری حصہ
غیر ملک میں اثرورسوخ بڑھانے کے لیے وہاں کی ممتاز شخصیتوں اور اعلیٰ حکام سے ذاتی مراسم ضروری ہوتے ہیں۔
1991میں مصنف کا تبادلہ پرتگال سے جنوبی مشرقی ایشیا کی ریاست ''انڈونیشیا '' ہوگیا جو سترہ ہزار جزائر پر مشتمل ہے۔ زمانہ قدیم میں یہ جزیرے ایسٹ انڈیز کے نام سے مشہور تھے۔ انڈونیشیا کا دارالخلافہ ''جکارتہ '' جزیرہ ''جاوہ'' میں واقع ہے۔
جکارتہ میں 1992 میں غیر جانبدار ممالک کی سربراہ کانفرنس کے اجلاس میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے شرکت کی، جہاں مصنف کو نواز شریف کو قریب سے دیکھنے کا مو قع ملا۔ انھوں نے نواز شریف کے بڑے دلچسپ قصے تحریرکیے ہیں،جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کانفرنس کی بجائے میاں صاحب کی توجہ صرف کھانے پینے پر تھی اس سے ان کی شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں تعیناتی کے دوران ملائیشیا، تھائی لینڈ اور سنگاپور جانے کا بھی اتفاق ہوا۔
امریکا اور روس چین کے دورے بھی کیے۔ دو سال تعیناتی کے بعد 1993میں موصوف کا تبادلہ فارن آفس اسلام آباد ہو گیا جہاں انھوں نے بطور ڈائریکٹر جنرل (اکنامک کوآرڈینیشن، ایران ۔ترکی)کی ذمے داریاں اْٹھائیں۔ اسی اثنا میں یعنی 1998میں ان کا تبادلہ بطور سفیر شام کے دارالخلافہ اور شہر اہل بیت ''دمشق '' میں ہوگیا۔ یاد رہے دمشق کو شہر اہل بیت اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس شہر میں اہل بیت کا آدھا خاندان مدفون ہے۔ شام کا سرکاری نام '' الجمہوریہ عربیہ السوریہ '' ہے۔
خلافت عثمانیہ کے دور میں یہ بلادالشام کا حصہ تھا۔ 1923میں خلافت عثمانیہ کے زوال کے بعد سامراجی قوتوں نے بلاد الشام کو چار ملکوں میں تقسیم کر دیا۔ یعنی فلسطین، السوریہ، لبنان اور اردن۔ بلادالشام کا کچھ علاقہ ترکی اور عراق کے حصہ میں آگیا۔ السوریہ کے دارالحکومت ''دمشق '' میں پاکستانی سفارت خانہ کے زیر انتظام پاکستانی انگلش میڈیم اسکول قائم تھا جو اعلیٰ تعلیمی معیاراور اچھی ساکھ کی وجہ سے خاصی شہرت کا حامل تھا۔ مصنف یحیی نقوی نے اسکول کے لیے پچاس ہزار مربع گز پر پانچ عمارتوں پر ایک شاندار کیمپس بنوایا جس کے لیے پانچ ملین ڈالرکی رقم جمع کی گئی۔
ایسا اسکول پورے سوریہ میں پہلے نہیں بنا تھا۔ اس کے علاوہ کمپیوٹرکی تعلیم کے لیے ایک بہترین کالج حکومت پاکستان کی طرف سے قائم کیا۔ پاکستان اور شام میں باہمی تعلقات بڑھانے کی خدمات کے اعتراف میں حکومت سوریہ نے موصوف مصنف کو سوریہ کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا۔ اس اسکول کی شہرت کی خاص بات یہ تھی کہ اس درسگاہ میں دوسرے ممالک کے سفارت کاروں کے بچوں کے علاوہ حکومت کے اعلیٰ عہد ے داروں اور اونچے طبقہ کے بچے تعلیم حاصل کیا کرتے تھے کیونکہ یہ سوریہ میں واحد درسگاہ تھی جو کیمبرج یونیورسٹی سے منسلک تھی جو او اور اے لیول کے امتحانات کا مرکز تھا۔
چونکہ یہ درسگاہ حکومت پاکستان کی ملکیت تھی لہذا حکومت پاکستان کی طرف سے سوریہ کے لوگوں کے لیے ایک قیمتی تحفہ تھا۔ مزید بچوں کے داخلوں کی گنجائش کے پیش نظر یحیی صاحب نے اس درسگاہ کو وسعت دی کیونکہ السوریہ میں تمام تعلیمی درسگاہیں سرکاری تھیں۔ سوریہ سے واپسی پر 2003 میں موصوف نے اسلام آباد کے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں بطور ممبر فیکلٹی اپنی ذمے داریاں سنبھال لیں۔
فروری 2006میں یورپین ریاست ''نیدرلینڈ '' (ہالینڈ) میں اپنی ذمے داریاں بحیثیت سفیر پاکستان مقرر ہوئے اور یہیں سے انھوں نے اپنی سروس کا دورانیہ پورا کرنے کے بعد سرکاری ملازمت سے ریٹائرڈ ہوگئے۔ آج کل وہ اپنی فیملی کے ساتھ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو میں قیام پذیر ہیں اور انجمن سادات امروہہ کینیڈا کے صدرکی حیثیت سے ذمے داریاں نبھا رہے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ وہ کینیڈا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی فلاح و بہبود اور ترقی کے لیے بھی شب و روز کوشاں ہیں۔
عام تاثر یہ ہے کہ سفارتکاروں کی زندگی بڑی آرام دہ اور پر تعیش ہوتی ہے لیکن پاکستانی سفارت کار بھی ملک کی نمائندگی میں کتنی محنت اور تندہی سے ملک کا وقار بڑھانے کے لیے کام کرتے ہیں اور سفارتکاروں کی بیگمات بڑی محنت کرتی ہیں اس کا اندازہ مصنف کی اس تحریر سے لگایا جا سکتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سفارت کارکی زندگی ایک جہد مسلسل ہے۔
اجنبی دیسوں میں اجنبی لوگوں میں جن کی زبان ، تہذیب و تمدن ، سوچ، طور طریقے اور دین کی دنیا بالکل مختلف ہوتی ہے۔ وہاں کے عام و خاص پاکستان کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ وہاں جاکر پاکستان کا پرچم لہرائے رکھنا اور اپنے وطن کا نام روشن کرنا ہر سفارتکارکی سرکاری ذمے داری ہوتی ہے۔ اندرونی و بیرونی طور پر پاکستان کو ہر وقت بحران کا سامنا رہتا ہے۔
پاکستان کی ہر اچھی یا بری پالیسی سے غیر ملکیوں کو قائل کرنا پاکستانی سفارت کاروں کی ذمے داری سمجھی جاتی ہے۔ اب سے چالیس سال قبل جب ذرائع مواصلات بہت فرسودہ تھے پاکستانی سفارت خانوں میں نہ فیکس مشینیں تھیں اور نہ ہی فوٹوکاپیر ۔کمپیوٹر تو درکنار اچھے ٹائپ رائٹر بھی نہ تھے۔ مالی وسائل کی بے حد کمی کے باوجود سفارتی ذمے داریاں نبھانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا۔ بین ا لا قوامی سطح پر ہمارا مقابلہ ہر جگہ ہندوستان سے کیا جاتا ہے۔
عددی لحاظ سے پاکستانی سفارتخانوں کا عملہ ہندوستانی سفارتخانوں سے نصف ہوتا ہے اور ہمارا بجٹ ہندوستانی سفارتخانوں کے مقابلہ میں ایک تہائی ہوتا ہے۔ ان سب پریشانیوں کے باوجود پاکستانی سفارتکاروں پر دبائو رہتا تھا کہ وہ بیرون ملک پاکستان کا اثرورسوخ ہندوستان سے زیادہ بڑھائیں۔ پاکستانی سفارتکاروں کی مراعات اور تنخواہیں بھی ترقی پذیر ممالک مثلاً ہندوستان، ملیشیا ، ترکی اور ایران وغیرہ سے بہت کم ہوتی تھیں لیکن ملک کی عزت و وقار کے لیے سفارتکاروں کو بھی اعلیٰ سفارتی معیار کے عشائیے کرنے پڑتے تھے اور حکومت پاکستان ان اخراجات کے لیے بہت کم الائونس دیتی تھی۔
غیر ملک میں اثرورسوخ بڑھانے کے لیے وہاں کی ممتاز شخصیتوں اور اعلیٰ حکام سے ذاتی مراسم ضروری ہوتے ہیں۔ اس کا بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ان کو اور ان کی بیگمات کو اپنے گھرکھانے پر مدعوکیا جائے ۔ اس کے لیے ہمارے سفارت خانے کی بیگمات کو بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ بہت کم الاؤنس ہونے کی وجہ سے کھانا ہوٹل سے منگوانے کے بجائے خاتون خانہ خود ہی پکاتی ہیں۔
اعلیٰ سفارتی معیار پرگھرکو صاف ستھرا کرکے سجاتی ہیں۔ پورے دن محنت کرکے شام کو تیار ہو کر مہمانوں کو خوش آمدید کہتی ہیں اور پوری تن دہی سے ان کی مہمانداری کرتی ہیں جب کہ اس کے برعکس دوسرے ممالک کی حکومتیں دیار غیرمیں اپنے سفارت کاروںکی بیگمات کو مہمانداری اور نمائندگی کرنے کے کام کا الگ سے معاوضہ ادا کرتی ہیں۔ مگر افسوس ! صد افسوس ! حکومت پاکستان دیار غیر میں تعینات اپنے سفارتکاروں کی بیگمات کوکسی قسم کا جائز اور بنیادی معاوضہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ وہ یہ سب کام اپنے شوہرسے محبت کے جذبہ اور ان کی خوشنودی کے حصول اور ملک و قوم کی محبت میں سر شار ہوکرکرتی ہیں۔
مزید برآں تقریباً ہر شام شوہر کے ساتھ بیگم کو بھی کسی نہ کسی ڈنر یا ریسیپشن میں لازمی جانا ہوتا ہے جہاں رات گئے تک ایک طرح کی ڈیوٹی پر رہنا پڑتا ہے۔ زبردستی اجنبی لوگوں سے ہنس ہنس کر بات کرنی پڑتی ہے چاہے بات سمجھ آئے یا نہ آئے۔ اگر نہ جائیں تو وہاں پاکستان کی نمائندگی کرنے والا کوئی نہ ہو۔ یہ سلسلہ دو چار دن کا نہیں ہوتا۔ تمام زندگی سفارتکاروں کی بیگمات یہ ڈیوٹی بلا معاوضہ انجام دیتی ہیں۔ کوئی بھی چیز حد سے بڑھ جائے تو رحمت بھی زحمت بن جاتی ہے۔