تعلیم پر غیر ضروری علمی بوجھ کیوں
ہمارے نظام تعلیم کی دوسری بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ طالب علم کی پیشہ ورانہ زندگی سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
آج سے تین سال قبل میری ایک تحریر ''نصاب تعلیم: تشکیل نوکی ضرورت'' شایع ہوئی جس میں، راقم الحروف نے لکھا تھا کہ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھائے جانے والے تمام مضامین اپنی اہمیت اور افادیت رکھتے ہیں مثلاً تاریخ کا مضمون ہمیں بتاتا ہے کہ ہم نے اپنا سفرکہاں سے شروع کیا اور اب ہم کہاں کھڑے ہیں اس سے ہمیں تاریخی شعور حاصل ہوتا ہے اس شعور کے نتیجے میں ہم بحرانوں کا تجزیہ کرنے اور اس کے حل کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں بشرط یہ کہ تاریخ کا مطالعہ آزاد فکر کے ساتھ کیا جائے۔
نفسیات ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کیا سوچتے ہیں یا جوکچھ سوچتے ہیں یا عمل کرتے ہیں، اس کے پیچھے محرکات ہوتے ہیں اور یہ محرکات کیسے جنم لیتے ہیں۔ اس مضمون کی بدولت ہمیں انسانی رویے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کس طرح سوچنا چاہیے یہ ہمیں صحیح اور غلط کے تعین کے پیمانے فراہم کرتا ہے۔ مربوط انداز میں سوچنے کا عمل فلسفہ کہلاتا ہے۔ جب ہم تجربات کے عمل سے گزرتے ہیں تو ہمیں تجربات کی تجدید نو اور تشکیل نو کی ضرورت پیش آتی ہے یہ عمل ہمیں تعلیم سے حاصل ہوتا ہے سائنس سوال اٹھاتی ہے اس کی مدد سے نامعلوم سے معلوم کی طرف سفرکیا جاتا ہے۔ علم معاشرت سماجی شعور پیدا کرتے ہیں اس کے مطالعے سے انسان میں مل جل کر رہنے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔
معاشرے کوکس طرح ضابطے کے تحت لایا جائے یہ بات ہم علم سیاست میں سیکھتے ہیں۔ ادب انسان میں احساس کی قوت کو جگاتا ہے۔ فنون لطیفہ، شاعری، مصوری، موسیقی ہمارے خیالات کو خوبصورت بناتے ہیں یہ خوبصورت خیالات ہماری پرمسرت زندگی کے ضامن ہوتے ہیں۔ مذہب زندگی میں معنی پیدا کرتا ہے۔ انسان میں یقین کی قوت پیدا کرکے اسے فکری انتشار سے محفوظ کرتا ہے اور اسے مقصد حیات سے روشناس کرایا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ علم بہت زیادہ ہے اور زندگی مختصر بالخصوص طالب علم کا زمانہ طالب علمی عمومی طور پر دو دہائی (بیس سال) عرصے پر مبنی ہوتا ہے۔ اس مختصر عرصے میں طالبعلم کو ان تمام علوم سے کس طرح روشناس کرایا جائے۔ میری ذاتی رائے میں فی الوقت ہمارا نظام تعلیم چار درجوں میں تقسیم ہے پہلی سے پانچویں (ابتدائی درجہ)، چھٹی سے دسویں (ثانوی درجہ)، گیارہویں اور بارہویں (وسطی درجہ)۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے درجات شروع ہوجاتے ہیں جو مزید دو درجوں میں تقسیم ہے۔ پہلا درجہ بیچلرز لیول کی تعلیم عمومی طور پرکالجوں میں دی جاتی ہے جب کہ دوسرے درجے میں ماسٹرکی ڈگری ہے جو یونیورسٹی سے ہوتی ہے۔
میری ذاتی رائے میں مختلف درجوں میں مضامین کی مناسب منصوبہ بندی کرکے اگر نصاب تعلیم تشکیل دیا جائے تو ہم تعلیمی نصاب سے وہ نتائج حاصل کرسکتے ہیں جو ہمیں مطلوب ہیں۔
ایک اچھے نصاب تعلیم کی بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف طالب علم کو خواندہ بناتا ہے بلکہ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے ساتھ اسے معاشی سرگرمیوں سے عہدہ برا ہونے کے قابل بھی بناتا ہے اس کے علاوہ نصاب تعلیم کے ذریعے اس کی اخلاقی، نظریاتی، فکری اور تہذیبی تربیت بھی کی جاتی ہے۔لیکن ہمارے یہاں معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے اس وقت ہمارے نظام تعلیم کی بڑی خرابی یہ ہے کہ ابتدائی ثانوی اور وسطی درجے تک طالب علم مختلف زبانوں کی گتھی سلجھانے پر لگا ہوا ہے۔
مادری زبان علاقائی ضرورت، قومی زبان ملکی ضرورت، فارسی علمی ضرورت، عربی مذہبی ضرورت، چینی معاشی ضرورت، انگریزی بین الاقوامی ضرورت۔ ہمارا طالب علم اپنی عمرکا وہ حصہ جس میں اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدارکرنے اور اس کے شعور میں اضافہ کرنے پر صرف ہونا چاہیے وہ مختلف زبانوں کو سیکھنے اور اس کی گتھیاں سلجھانے پر صرف کردیتا ہے۔
ہمارے نظام تعلیم کی دوسری بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ طالب علم کی پیشہ ورانہ زندگی سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات محنت اور لگن سے پڑھنے والے طالب علم بھی اپنی عملی زندگی میں ناکامی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایک طالب علم سیاست کے مضمون میں ایم اے کرنا چاہتا ہے اسے انٹر اور بی اے کے نصاب میں علم سیاست کے ساتھ معاشرت، ایڈمنسٹریشن اور تعلقات عامہ جیسے مضامین جو علم سیاست کے مضمون سے ہم آہنگ ہیں اس کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے لیکن طالب علم ''علم کتب خانہ'' کا مضمون جس سے علم سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں اسے اس وجہ سے پڑھنے پر مجبور ہے کہ اس کے کالج میں اس مضمون کے استاد ہی میسر نہیں، سوچیے ایسی صورت میں طالب علم اس مضمون سے دلچسپی کس طرح برقرار رکھ سکے گا اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا افلاطون ہونا ضروری نہیں۔
کسی نے بھی اعداد و شمار کے ذریعے معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ زندگی کے خاص شعبے میں کام کے لیے کتنے ماہرین کی ضرورت ہے۔ اگر کسی نے اس سلسلے میں کچھ کیا بھی تو اس کے نتائج ماہرین تعلیم تک پہنچائے نہیں گئے یہی وجہ ہے صنعتی اور سائنسی ترقی میں جن صلاحیتوں کے حامل افراد کی ضرورت ہوتی ہے وہ حسب ضرورت میسر نہیں۔
سوال یہ ہے کہ نظام تعلیم کی اصلاح کے لیے کیا کیا جائے۔ میری ذاتی رائے میں میٹرک کی تعلیم کو جنرل ایجوکیشن کے نام سے منسوب کیا جائے۔ اس میں اخلاقیات، تاریخ، مطالعہ پاکستان، جغرافیہ جیسے مضامین کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ بائیولوجی، فزکس اور کیمسٹری جیسے مضامین کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کی جائیں۔ اس درجے میں ایک ایسی کتاب کی تدریس بھی شامل ہو جس میں تمام عمرانی، تجارتی اور سائنسی علوم کے بارے میں مختصر تعارف ان مضامین میں استعمال ہونے والی اصطلاحات اور ان کی تشریح ان مضامین کی افادیت اور اہمیت واضح کی گئی ہو تاکہ طالب علم اپنے ذہنی رجحان کو سامنے رکھتے ہوئے بے سمت راہوں میں بھٹکنے کے بجائے اپنے لیے پیشے کا انتخاب کرسکے۔
میٹرک کے بعد کی تعلیم کو فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم سے منسوب کیا جائے۔ اپنی علمی زندگی کے لیے طالب علم جس پیشے کا انتخاب کرے اسے وہی مضامین پڑھائے جائیں جو اس کی پیشہ ورانہ زندگی میں اس کے لیے معاون ہوں۔ یہ پیشہ ورانہ تعلیم کا عرصہ چار سال سے زائد عرصے پر مبنی ہونا چاہیے۔ پیشہ ورانہ تعلیم کو غیر ضروری علمی بوجھ سے آزاد کیا جانا چاہیے۔
اعلیٰ تعلیم کو اعلیٰ تحقیق کے نام سے موسوم کیا جائے۔ جامعات اپنی تحقیق کے ذریعے معاشرے کے مسائل کا حل تلاش کرتی ہیں ہماری جامعات اپنا یہ فریضہ ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں اس کی بڑی وجہ جامعات میں آزاد تحقیق کا فقدان ہے جامعات میں جب تک آزاد تحقیق کی روح بیدار نہیں ہوجاتی معاشرے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔
نفسیات ہمیں بتاتی ہے کہ ہم کیا سوچتے ہیں یا جوکچھ سوچتے ہیں یا عمل کرتے ہیں، اس کے پیچھے محرکات ہوتے ہیں اور یہ محرکات کیسے جنم لیتے ہیں۔ اس مضمون کی بدولت ہمیں انسانی رویے کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
فلسفہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں کس طرح سوچنا چاہیے یہ ہمیں صحیح اور غلط کے تعین کے پیمانے فراہم کرتا ہے۔ مربوط انداز میں سوچنے کا عمل فلسفہ کہلاتا ہے۔ جب ہم تجربات کے عمل سے گزرتے ہیں تو ہمیں تجربات کی تجدید نو اور تشکیل نو کی ضرورت پیش آتی ہے یہ عمل ہمیں تعلیم سے حاصل ہوتا ہے سائنس سوال اٹھاتی ہے اس کی مدد سے نامعلوم سے معلوم کی طرف سفرکیا جاتا ہے۔ علم معاشرت سماجی شعور پیدا کرتے ہیں اس کے مطالعے سے انسان میں مل جل کر رہنے کا سلیقہ پیدا ہوتا ہے۔
معاشرے کوکس طرح ضابطے کے تحت لایا جائے یہ بات ہم علم سیاست میں سیکھتے ہیں۔ ادب انسان میں احساس کی قوت کو جگاتا ہے۔ فنون لطیفہ، شاعری، مصوری، موسیقی ہمارے خیالات کو خوبصورت بناتے ہیں یہ خوبصورت خیالات ہماری پرمسرت زندگی کے ضامن ہوتے ہیں۔ مذہب زندگی میں معنی پیدا کرتا ہے۔ انسان میں یقین کی قوت پیدا کرکے اسے فکری انتشار سے محفوظ کرتا ہے اور اسے مقصد حیات سے روشناس کرایا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ علم بہت زیادہ ہے اور زندگی مختصر بالخصوص طالب علم کا زمانہ طالب علمی عمومی طور پر دو دہائی (بیس سال) عرصے پر مبنی ہوتا ہے۔ اس مختصر عرصے میں طالبعلم کو ان تمام علوم سے کس طرح روشناس کرایا جائے۔ میری ذاتی رائے میں فی الوقت ہمارا نظام تعلیم چار درجوں میں تقسیم ہے پہلی سے پانچویں (ابتدائی درجہ)، چھٹی سے دسویں (ثانوی درجہ)، گیارہویں اور بارہویں (وسطی درجہ)۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے درجات شروع ہوجاتے ہیں جو مزید دو درجوں میں تقسیم ہے۔ پہلا درجہ بیچلرز لیول کی تعلیم عمومی طور پرکالجوں میں دی جاتی ہے جب کہ دوسرے درجے میں ماسٹرکی ڈگری ہے جو یونیورسٹی سے ہوتی ہے۔
میری ذاتی رائے میں مختلف درجوں میں مضامین کی مناسب منصوبہ بندی کرکے اگر نصاب تعلیم تشکیل دیا جائے تو ہم تعلیمی نصاب سے وہ نتائج حاصل کرسکتے ہیں جو ہمیں مطلوب ہیں۔
ایک اچھے نصاب تعلیم کی بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف طالب علم کو خواندہ بناتا ہے بلکہ ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے ساتھ اسے معاشی سرگرمیوں سے عہدہ برا ہونے کے قابل بھی بناتا ہے اس کے علاوہ نصاب تعلیم کے ذریعے اس کی اخلاقی، نظریاتی، فکری اور تہذیبی تربیت بھی کی جاتی ہے۔لیکن ہمارے یہاں معاملہ اس کے برعکس دکھائی دیتا ہے اس وقت ہمارے نظام تعلیم کی بڑی خرابی یہ ہے کہ ابتدائی ثانوی اور وسطی درجے تک طالب علم مختلف زبانوں کی گتھی سلجھانے پر لگا ہوا ہے۔
مادری زبان علاقائی ضرورت، قومی زبان ملکی ضرورت، فارسی علمی ضرورت، عربی مذہبی ضرورت، چینی معاشی ضرورت، انگریزی بین الاقوامی ضرورت۔ ہمارا طالب علم اپنی عمرکا وہ حصہ جس میں اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بیدارکرنے اور اس کے شعور میں اضافہ کرنے پر صرف ہونا چاہیے وہ مختلف زبانوں کو سیکھنے اور اس کی گتھیاں سلجھانے پر صرف کردیتا ہے۔
ہمارے نظام تعلیم کی دوسری بڑی خرابی یہ ہے کہ وہ طالب علم کی پیشہ ورانہ زندگی سے ہم آہنگ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات محنت اور لگن سے پڑھنے والے طالب علم بھی اپنی عملی زندگی میں ناکامی سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ مثلاً ایک طالب علم سیاست کے مضمون میں ایم اے کرنا چاہتا ہے اسے انٹر اور بی اے کے نصاب میں علم سیاست کے ساتھ معاشرت، ایڈمنسٹریشن اور تعلقات عامہ جیسے مضامین جو علم سیاست کے مضمون سے ہم آہنگ ہیں اس کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے لیکن طالب علم ''علم کتب خانہ'' کا مضمون جس سے علم سیاست سے دور کا بھی واسطہ نہیں اسے اس وجہ سے پڑھنے پر مجبور ہے کہ اس کے کالج میں اس مضمون کے استاد ہی میسر نہیں، سوچیے ایسی صورت میں طالب علم اس مضمون سے دلچسپی کس طرح برقرار رکھ سکے گا اس بات کو سمجھنے کے لیے کسی کا افلاطون ہونا ضروری نہیں۔
کسی نے بھی اعداد و شمار کے ذریعے معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ زندگی کے خاص شعبے میں کام کے لیے کتنے ماہرین کی ضرورت ہے۔ اگر کسی نے اس سلسلے میں کچھ کیا بھی تو اس کے نتائج ماہرین تعلیم تک پہنچائے نہیں گئے یہی وجہ ہے صنعتی اور سائنسی ترقی میں جن صلاحیتوں کے حامل افراد کی ضرورت ہوتی ہے وہ حسب ضرورت میسر نہیں۔
سوال یہ ہے کہ نظام تعلیم کی اصلاح کے لیے کیا کیا جائے۔ میری ذاتی رائے میں میٹرک کی تعلیم کو جنرل ایجوکیشن کے نام سے منسوب کیا جائے۔ اس میں اخلاقیات، تاریخ، مطالعہ پاکستان، جغرافیہ جیسے مضامین کو مرکزی حیثیت حاصل ہو۔ بائیولوجی، فزکس اور کیمسٹری جیسے مضامین کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کی جائیں۔ اس درجے میں ایک ایسی کتاب کی تدریس بھی شامل ہو جس میں تمام عمرانی، تجارتی اور سائنسی علوم کے بارے میں مختصر تعارف ان مضامین میں استعمال ہونے والی اصطلاحات اور ان کی تشریح ان مضامین کی افادیت اور اہمیت واضح کی گئی ہو تاکہ طالب علم اپنے ذہنی رجحان کو سامنے رکھتے ہوئے بے سمت راہوں میں بھٹکنے کے بجائے اپنے لیے پیشے کا انتخاب کرسکے۔
میٹرک کے بعد کی تعلیم کو فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم سے منسوب کیا جائے۔ اپنی علمی زندگی کے لیے طالب علم جس پیشے کا انتخاب کرے اسے وہی مضامین پڑھائے جائیں جو اس کی پیشہ ورانہ زندگی میں اس کے لیے معاون ہوں۔ یہ پیشہ ورانہ تعلیم کا عرصہ چار سال سے زائد عرصے پر مبنی ہونا چاہیے۔ پیشہ ورانہ تعلیم کو غیر ضروری علمی بوجھ سے آزاد کیا جانا چاہیے۔
اعلیٰ تعلیم کو اعلیٰ تحقیق کے نام سے موسوم کیا جائے۔ جامعات اپنی تحقیق کے ذریعے معاشرے کے مسائل کا حل تلاش کرتی ہیں ہماری جامعات اپنا یہ فریضہ ادا کرنے میں ناکام رہی ہیں اس کی بڑی وجہ جامعات میں آزاد تحقیق کا فقدان ہے جامعات میں جب تک آزاد تحقیق کی روح بیدار نہیں ہوجاتی معاشرے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔