جنگ بندی معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت کا سخت بیان بازی سے گریز کا فیصلہ
مقبوضہ کشمیرمیں 5اگست کے غیرقانونی اقدام پربھارتی سپریم کورٹ مودی حکومت کو فیس سیوینگ فراہم کرنیکا بہترین حل ہے،مبصرین
BRUSSELS:
کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت نے کشیدگی کم کرنے کے لیے سخت بیان بازی سے گریزکا فیصلہ کیاہے۔
ایک سرکاری عہدیدارنے گزشتہ روز انکشاف کیا کہ پاکستان اور بھارت نے کشیدگی کم کرنے کے لیے سخت بیان بازی سے گریزکا فیصلہ کیاہے جب کہ مزیداقدامات کیلئے دونوں ہمسائے بہتراورخوشگوارماحول کے خواہاں ہیں، ایک دوسرے کا اعتمادبحال کرنے کیلئے دواطراف سے سخت بیان بازی سے گریزکیاجارہاہے، ذرائع کے مطابق یہ تجویزپہلے بھارت کی طرف سے آئی ہے۔
بھارت نے وزیراعظم عمران خاں کیطرف سے مختلف مواقع پراپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم نریندرامودی کو ہدف بنانے اور ہٹلرسے تشبیہ دینے پرکچھ تحفظات کااظہارکرنے کے باوجود دونوں ملکوں نے''خاموش ڈپلومیسی ''پرزوردیاجس کا نتیجہ کنٹرول لائن پر خوشگوارماحول پیداکرنے اور کشیدگی کم کرنے کیلئے سیزفائر معاہدے کی صورت میں نکلا ۔
بھارتی ذرائع کے مطابق بھارت نے پاکستان کو درخواست کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کومودی کیخلاف ذاتی بیان بازی کو روکناہوگا۔پاکستان کو بتایاگیاتھاکہ بھارت اسلام آبادکیساتھ کشیدگی کم کرنے اوردوبارہ مذاکرات اس شرط پرکرنے کیلئے تیارہے اگروزیراعظم عمران خاں مودی پر حملے بندکردیں تو، جس پر پاکستان نے بھارتی درخواست قبول کرلی اورعمران خان نے مودی کو تنقیدکانشانہ بنانے سے ہاتھ روک لیا۔
17جنوری کو آخری باروزیراعظم عمران خاں نے مودی کیخلاف کوئی تنقیدی بیان جاری کیاتھا۔اس کے بعد عمران خان نے مودی پر ٹویٹس اوربیانات کی صورت میں مودی پر ذاتی حملوں اورلفظی گولہ باری سے گریزکرناشروع کیا۔کئی مواقع جیسے یوم یکجہتی کشمیر اورآپریشن سوئفٹ ریٹورٹ کے دوسال مکمل ہونے پروزیراعظم عمران خاں کو کچھ بیانات دینا پڑے۔
ماضی سے ہٹ کر عمران خان نے دونوں مواقع پر دبنگ آوازمیں بھارت کومسئلہ کشمیرپرمذاکرات کی دعوت دی ہے ۔ہفتے کو جاری ٹویٹس کے باوجودوزیراعظم عمران خان نے دوسال قبل بھارتی لڑاکاطیارہ مارگرانے کے حوالے تقریب پر پاک فضائیہ اورقوم کو مبارکباددی ہے اورجنگ بندی معاہدہ کاخیرمقدم کیاہے۔
انہوں نے بھارت سے کہاہے کہ وہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب ایشوزکے حل کیلئے مذاکرات کی میزپر بیٹھے ۔پاکستان کی بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کیطرف سے 5اگست 2019 کے غیرقانونی اقدام واپس لینے کے حوالے سے کچھ شرائط ہیں۔
مبصرین کویقین ہے کہ مودی حکومت کیلئے 5اگست کا غیرقانونی اقدام واپس لینے فیصلہ بڑامشکل ہوگا۔لیکن انکا خیال ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ ہی اس کا کوئی حل نکال سکتی ہے اوربھارتی سپریم کورٹ میں بھارتی آئین کے آرٹیکل370کے خاتمے کے حوالے سے ایک پٹیشن التوابھی ہے کیونکہ بھارتی سپریم کورٹ ہی مودی کو آسان راستہ دیتے ہوئے خصوصی حیثیت بحال کرسکتی ہے۔
ماہرین نے پاکستان کو خبردارکیاہے کہ بھارت کے رویے میں تبدیلی کو لداخ سے بھی جوڑاجاسکتاہے ۔اگرچہ چین اوربھارت کا حال ہی میں اہم مقام لداخ ریجن پر تصادم ہواہے جوکہ ابھی تک کشیدگی برقرارہے۔
بھارتی اسٹریٹجک کمیونٹی کا خیال ہے کہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے فوکس کے باعث بھارت کوپاکستان کو مصروف کرناہوگا۔دونوں ملک کوشش سے پانچ اگست سے پہلی والے سفارتی تعلقات کو بحال کرسکتے ہیں حالانکہ پانچ اگست کے اقدام کے بعدپاکستان اور بھارت اپنے اپنے سفارکاروں کو واپس لے چکے ہیں۔بھارت پاکستان کی میزبانی میں ہونیوالی سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کرچکاجو کہ 16 نومبرکو اسلام آبادمیں ہوئی تھی۔
کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدے کے بعد پاکستان اور بھارت نے کشیدگی کم کرنے کے لیے سخت بیان بازی سے گریزکا فیصلہ کیاہے۔
ایک سرکاری عہدیدارنے گزشتہ روز انکشاف کیا کہ پاکستان اور بھارت نے کشیدگی کم کرنے کے لیے سخت بیان بازی سے گریزکا فیصلہ کیاہے جب کہ مزیداقدامات کیلئے دونوں ہمسائے بہتراورخوشگوارماحول کے خواہاں ہیں، ایک دوسرے کا اعتمادبحال کرنے کیلئے دواطراف سے سخت بیان بازی سے گریزکیاجارہاہے، ذرائع کے مطابق یہ تجویزپہلے بھارت کی طرف سے آئی ہے۔
بھارت نے وزیراعظم عمران خاں کیطرف سے مختلف مواقع پراپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم نریندرامودی کو ہدف بنانے اور ہٹلرسے تشبیہ دینے پرکچھ تحفظات کااظہارکرنے کے باوجود دونوں ملکوں نے''خاموش ڈپلومیسی ''پرزوردیاجس کا نتیجہ کنٹرول لائن پر خوشگوارماحول پیداکرنے اور کشیدگی کم کرنے کیلئے سیزفائر معاہدے کی صورت میں نکلا ۔
بھارتی ذرائع کے مطابق بھارت نے پاکستان کو درخواست کی ہے کہ وزیراعظم عمران خان کومودی کیخلاف ذاتی بیان بازی کو روکناہوگا۔پاکستان کو بتایاگیاتھاکہ بھارت اسلام آبادکیساتھ کشیدگی کم کرنے اوردوبارہ مذاکرات اس شرط پرکرنے کیلئے تیارہے اگروزیراعظم عمران خاں مودی پر حملے بندکردیں تو، جس پر پاکستان نے بھارتی درخواست قبول کرلی اورعمران خان نے مودی کو تنقیدکانشانہ بنانے سے ہاتھ روک لیا۔
17جنوری کو آخری باروزیراعظم عمران خاں نے مودی کیخلاف کوئی تنقیدی بیان جاری کیاتھا۔اس کے بعد عمران خان نے مودی پر ٹویٹس اوربیانات کی صورت میں مودی پر ذاتی حملوں اورلفظی گولہ باری سے گریزکرناشروع کیا۔کئی مواقع جیسے یوم یکجہتی کشمیر اورآپریشن سوئفٹ ریٹورٹ کے دوسال مکمل ہونے پروزیراعظم عمران خاں کو کچھ بیانات دینا پڑے۔
ماضی سے ہٹ کر عمران خان نے دونوں مواقع پر دبنگ آوازمیں بھارت کومسئلہ کشمیرپرمذاکرات کی دعوت دی ہے ۔ہفتے کو جاری ٹویٹس کے باوجودوزیراعظم عمران خان نے دوسال قبل بھارتی لڑاکاطیارہ مارگرانے کے حوالے تقریب پر پاک فضائیہ اورقوم کو مبارکباددی ہے اورجنگ بندی معاہدہ کاخیرمقدم کیاہے۔
انہوں نے بھارت سے کہاہے کہ وہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب ایشوزکے حل کیلئے مذاکرات کی میزپر بیٹھے ۔پاکستان کی بھی مقبوضہ کشمیر میں بھارت کیطرف سے 5اگست 2019 کے غیرقانونی اقدام واپس لینے کے حوالے سے کچھ شرائط ہیں۔
مبصرین کویقین ہے کہ مودی حکومت کیلئے 5اگست کا غیرقانونی اقدام واپس لینے فیصلہ بڑامشکل ہوگا۔لیکن انکا خیال ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ ہی اس کا کوئی حل نکال سکتی ہے اوربھارتی سپریم کورٹ میں بھارتی آئین کے آرٹیکل370کے خاتمے کے حوالے سے ایک پٹیشن التوابھی ہے کیونکہ بھارتی سپریم کورٹ ہی مودی کو آسان راستہ دیتے ہوئے خصوصی حیثیت بحال کرسکتی ہے۔
ماہرین نے پاکستان کو خبردارکیاہے کہ بھارت کے رویے میں تبدیلی کو لداخ سے بھی جوڑاجاسکتاہے ۔اگرچہ چین اوربھارت کا حال ہی میں اہم مقام لداخ ریجن پر تصادم ہواہے جوکہ ابھی تک کشیدگی برقرارہے۔
بھارتی اسٹریٹجک کمیونٹی کا خیال ہے کہ پاکستان کے بڑھتے ہوئے فوکس کے باعث بھارت کوپاکستان کو مصروف کرناہوگا۔دونوں ملک کوشش سے پانچ اگست سے پہلی والے سفارتی تعلقات کو بحال کرسکتے ہیں حالانکہ پانچ اگست کے اقدام کے بعدپاکستان اور بھارت اپنے اپنے سفارکاروں کو واپس لے چکے ہیں۔بھارت پاکستان کی میزبانی میں ہونیوالی سارک کانفرنس کا بائیکاٹ کرچکاجو کہ 16 نومبرکو اسلام آبادمیں ہوئی تھی۔