ایڈوانس جمہوریت کا خواب
چیف جسٹس کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کو ڈکٹیٹر نہیں بننا چاہیے۔
KARACHI:
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ سیاسی پارٹی کے سربراہ کو ڈکٹیٹر نہیں ہونا چاہیے اور سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوری رویے اپنائیں جن میں چیک اینڈ بیلنس ہونا آئینی طور پر ضروری ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ ایک دن آئے گا جب پاکستان میں ایڈوانس جمہوریت آئے گی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو ایک بندے پر مشتمل ہیں اور سیاستدان ایسے بھی ہیں جو کہتے کہ ہم نے ضمیر کے خلاف ووٹ ڈالا اگر سیاسی پارٹیوں کے سربراہ سب کی رائے لے کر فیصلہ کریں تو ہی بہتر ہوگا۔ پارٹی فیصلوں سے پہلے ہر رکن اسمبلی کو بھی اپنی رائے دینی چاہیے۔ چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں اگر جمہوریت برقرار رہتی تو موجودہ خرابیاں اور شکایات نہ ہوتیں۔
چیف جسٹس کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کو ڈکٹیٹر نہیں بننا چاہیے اور پارٹی اجلاسوں میں اپنے رہنماؤں کا موقف سن کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ بانی پاکستان قائد اعظم کے بعد مسلم لیگ سمیت کسی پارٹی میں جمہوریت رہی اور نہ کسی پارٹی سربراہ کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اپنی پارٹی کو جمہوری طور پر چلاتا اور اسی وجہ سے جماعت اسلامی کے سوا کسی بھی پارٹی میں جمہوریت ہے نہ کسی پارٹی سربراہ کا انتخاب جماعت اسلامی کی طرح ہوتا ہے جہاں سربراہی کا خود کوئی امیدوار نہیں ہوتا بلکہ جماعت اپنے منشور کے مطابق اپنے مخصوص ارکان کو حق دیتی ہے کہ وہ جلد بازی کی بجائے سوچ سمجھ کر جماعت کے سربراہ کا انتخاب کریں۔
ووٹوں کے بعد جماعت کی طرف سے منتخب سربراہ کا اعلان کردیا جاتا ہے جو مقررہ مدت تک امیر کے فرائض انجام دیتا ہے اور امیر منتخب کرنے والوں کو ہی آیندہ الیکشن میں اپنے امیر کو مسترد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کے بانی کے انتقال کے بعد ملک کے تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے رہنما امیر منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔
پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ واحد سیاسی پارٹی ہے جس کے صدر جنرل ایوب خان رہے اور بعد میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنی حامی مسلم لیگیں بنائیں اور ملک میں جو بھی قومی اور علاقائی پارٹیاں ہیں انھی کے بانیوں کی اولاد آج بھی بانیوں کے انتقال کے بعد پارٹی سربراہی پر قابض ہے۔
صرف نواز شریف کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ ان کے والد نے اپنی کوئی پارٹی نہیں بنائی تھی جو وراثت میں نواز شریف کو ملی ہو مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انھیں جنرل ضیا الحق کی سرپرستی میں قائم ہونے والی مسلم لیگ کی پنجاب کی صدارت ملی تھی جس کے صدر وزیر اعظم محمد خان جونیجو تھے جن کی حکومت جنرل ضیا الحق نے دو سال بعد برطرف کردی تھی اور نواز شریف نے بعد میں مسلم لیگ میں اپنا گروپ مسلم لیگ (ن)کے نام سے بنا لیا تھا اور محمد خان جونیجو مسلم لیگ جونیجو رہ گئی تھی جو حامد ناصر چٹھہ کے پاس بھی رہی اور اب ختم ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے چوہدریوں نے مسلم لیگ قائد اعظم جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں بنائی جس نے 5 سال حکومت کی اور جنرل مشرف کے بعد چوہدریوں کی ملکیت ہے۔ مسلم لیگ (ن) اپوزیشن کی بڑی جماعت ہے جس کے قائد نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف اس کے صدر ہیں۔
پی ٹی آئی عمران خان نے 25 سال پہلے بنائی تھی جو اب تک اس کے چیئرمین چلے آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی میں ایک بار الیکشن کرایا گیا تھا جس سے پارٹی میں اختلافات پیدا ہوئے جس کی سربراہی الیکشن کمیشن جسٹس(ر) وجیہہ الدین نے کی تھی اور انتخابی دھاندلیوں کی جو رپورٹ انھوں نے تیار کی تھی، اس میں اہم رہنماؤں کو ذمے دار قرار دیا گیا تھا جن کے خلاف چیئرمین نے کوئی کارروائی اپنی سیاسی مصلحت کے باعث نہیں کی وہ اب پی ٹی آئی میں اہم عہدوں پر ہیں اور حقیقی رپورٹ دینے والے تحریک انصاف سے باہر ہوگئے تھے۔
عمران خان نے پارٹی میں ایک بار ہی الیکشن کرانے کی کوشش کی پھر وہ بھی شریفوں، زرداریوں اور چوہدریوں جیسے ہوگئے اور پارٹی میں جمہوریت لانے سے تائب ہوگئے اور 25 سال سے پی ٹی آئی میں بھی مسلم لیگ (ن)، (ق)، پی پی اور جے یو آئی جیسی جمہوریت ہے اور عشروں سے وہی سربراہ گھر بیٹھے منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔
کسی سیاسی پارٹی میں جماعت اسلامی کے سوا جمہوری رویے نہیں ہیں ان کے تمام سربراہ سیاسی ڈکٹیٹر بنے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف بات کرنے کی کسی پارٹی رہنما میں جرأت نہیں۔ رضا ربانی جیسے لوگ اپنے ضمیر کے خلاف پارٹی سربراہی کی خوشنودی کے لیے ووٹ دے کر اعتراف ضرور کرتے ہیں مگر سیاسی مفاد کے لیے خاموش رہنے پر مجبور ہیں جنھیں اعتزاز احسن کی طرح تمام برائیاں شریفوں میں نظر آتی ہیں اپنی پارٹی میں نہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں ان کے سربراہوں کی ذاتی ملکیت ہیں جن سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا تو پارٹیوں میں جمہوری رویہ کہاں سے آئے جو ایک خواب ہی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ سیاسی پارٹی کے سربراہ کو ڈکٹیٹر نہیں ہونا چاہیے اور سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوری رویے اپنائیں جن میں چیک اینڈ بیلنس ہونا آئینی طور پر ضروری ہے۔ چیف جسٹس کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ ایک دن آئے گا جب پاکستان میں ایڈوانس جمہوریت آئے گی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیں جو ایک بندے پر مشتمل ہیں اور سیاستدان ایسے بھی ہیں جو کہتے کہ ہم نے ضمیر کے خلاف ووٹ ڈالا اگر سیاسی پارٹیوں کے سربراہ سب کی رائے لے کر فیصلہ کریں تو ہی بہتر ہوگا۔ پارٹی فیصلوں سے پہلے ہر رکن اسمبلی کو بھی اپنی رائے دینی چاہیے۔ چیف جسٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک میں اگر جمہوریت برقرار رہتی تو موجودہ خرابیاں اور شکایات نہ ہوتیں۔
چیف جسٹس کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے سربراہوں کو ڈکٹیٹر نہیں بننا چاہیے اور پارٹی اجلاسوں میں اپنے رہنماؤں کا موقف سن کر فیصلہ کرنا چاہیے۔ بانی پاکستان قائد اعظم کے بعد مسلم لیگ سمیت کسی پارٹی میں جمہوریت رہی اور نہ کسی پارٹی سربراہ کو یہ توفیق ہوئی کہ وہ اپنی پارٹی کو جمہوری طور پر چلاتا اور اسی وجہ سے جماعت اسلامی کے سوا کسی بھی پارٹی میں جمہوریت ہے نہ کسی پارٹی سربراہ کا انتخاب جماعت اسلامی کی طرح ہوتا ہے جہاں سربراہی کا خود کوئی امیدوار نہیں ہوتا بلکہ جماعت اپنے منشور کے مطابق اپنے مخصوص ارکان کو حق دیتی ہے کہ وہ جلد بازی کی بجائے سوچ سمجھ کر جماعت کے سربراہ کا انتخاب کریں۔
ووٹوں کے بعد جماعت کی طرف سے منتخب سربراہ کا اعلان کردیا جاتا ہے جو مقررہ مدت تک امیر کے فرائض انجام دیتا ہے اور امیر منتخب کرنے والوں کو ہی آیندہ الیکشن میں اپنے امیر کو مسترد کرنے کا اختیار ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی کے بانی کے انتقال کے بعد ملک کے تمام صوبوں سے تعلق رکھنے والے رہنما امیر منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔
پاکستان کی بانی جماعت مسلم لیگ واحد سیاسی پارٹی ہے جس کے صدر جنرل ایوب خان رہے اور بعد میں جنرل ضیا الحق اور جنرل پرویز مشرف نے اپنی حامی مسلم لیگیں بنائیں اور ملک میں جو بھی قومی اور علاقائی پارٹیاں ہیں انھی کے بانیوں کی اولاد آج بھی بانیوں کے انتقال کے بعد پارٹی سربراہی پر قابض ہے۔
صرف نواز شریف کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ ان کے والد نے اپنی کوئی پارٹی نہیں بنائی تھی جو وراثت میں نواز شریف کو ملی ہو مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ انھیں جنرل ضیا الحق کی سرپرستی میں قائم ہونے والی مسلم لیگ کی پنجاب کی صدارت ملی تھی جس کے صدر وزیر اعظم محمد خان جونیجو تھے جن کی حکومت جنرل ضیا الحق نے دو سال بعد برطرف کردی تھی اور نواز شریف نے بعد میں مسلم لیگ میں اپنا گروپ مسلم لیگ (ن)کے نام سے بنا لیا تھا اور محمد خان جونیجو مسلم لیگ جونیجو رہ گئی تھی جو حامد ناصر چٹھہ کے پاس بھی رہی اور اب ختم ہو چکی ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے چوہدریوں نے مسلم لیگ قائد اعظم جنرل پرویز مشرف کی سربراہی میں بنائی جس نے 5 سال حکومت کی اور جنرل مشرف کے بعد چوہدریوں کی ملکیت ہے۔ مسلم لیگ (ن) اپوزیشن کی بڑی جماعت ہے جس کے قائد نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف اس کے صدر ہیں۔
پی ٹی آئی عمران خان نے 25 سال پہلے بنائی تھی جو اب تک اس کے چیئرمین چلے آ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی میں ایک بار الیکشن کرایا گیا تھا جس سے پارٹی میں اختلافات پیدا ہوئے جس کی سربراہی الیکشن کمیشن جسٹس(ر) وجیہہ الدین نے کی تھی اور انتخابی دھاندلیوں کی جو رپورٹ انھوں نے تیار کی تھی، اس میں اہم رہنماؤں کو ذمے دار قرار دیا گیا تھا جن کے خلاف چیئرمین نے کوئی کارروائی اپنی سیاسی مصلحت کے باعث نہیں کی وہ اب پی ٹی آئی میں اہم عہدوں پر ہیں اور حقیقی رپورٹ دینے والے تحریک انصاف سے باہر ہوگئے تھے۔
عمران خان نے پارٹی میں ایک بار ہی الیکشن کرانے کی کوشش کی پھر وہ بھی شریفوں، زرداریوں اور چوہدریوں جیسے ہوگئے اور پارٹی میں جمہوریت لانے سے تائب ہوگئے اور 25 سال سے پی ٹی آئی میں بھی مسلم لیگ (ن)، (ق)، پی پی اور جے یو آئی جیسی جمہوریت ہے اور عشروں سے وہی سربراہ گھر بیٹھے منتخب ہوتے آ رہے ہیں۔
کسی سیاسی پارٹی میں جماعت اسلامی کے سوا جمہوری رویے نہیں ہیں ان کے تمام سربراہ سیاسی ڈکٹیٹر بنے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف بات کرنے کی کسی پارٹی رہنما میں جرأت نہیں۔ رضا ربانی جیسے لوگ اپنے ضمیر کے خلاف پارٹی سربراہی کی خوشنودی کے لیے ووٹ دے کر اعتراف ضرور کرتے ہیں مگر سیاسی مفاد کے لیے خاموش رہنے پر مجبور ہیں جنھیں اعتزاز احسن کی طرح تمام برائیاں شریفوں میں نظر آتی ہیں اپنی پارٹی میں نہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں ان کے سربراہوں کی ذاتی ملکیت ہیں جن سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا تو پارٹیوں میں جمہوری رویہ کہاں سے آئے جو ایک خواب ہی ہے۔