پاکستان کا بحران کیسے ختم کیا جاسکتا ہے

آزمودہ کار سیاستدان بگڑے بچوں کی طرح ریت کے گھروندے بنانے اور گرانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔


محمد اسلم خان March 01, 2021
[email protected]

سیاسی منظر نامہ مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔انتخابات جمہوری نظام کی بنیاد اوراساس ہوتے ہیں، جمہوریت کا حسن کہلاتے ہیں اورپاکستان میں یہی انتخابات جمہوریت کا منہ کالا کررہے ہیں۔ پارلیمانی نظام کو ہی داؤ پر لگا دیا گیا ہے اور آزمودہ کار سیاستدان بگڑے بچوں کی طرح ریت کے گھروندے بنانے اور گرانے کا کھیل کھیل رہے ہیں۔

حالیہ ضمنی انتخابات میں خصوصاً ڈسکہ میں جو رسوائی ہوئی ہے، اس سے جمہوریت کا سرنگوں ہوگیا۔ادھر جناب نواز شریف کو بولنے کا موقع مل گیا۔''ووٹ کو عزت دو'' کے نام پر وہ جمہوری نظام کوداؤ پر بھی لگانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں تاکہ حالات کا رخ بدل جائے اوروہ مقدمات سے جان چھڑانے میں کامیاب ہوجائیں۔

ادھر جناب عمران خان جانتے بوجھتے پہلی بار مصلحت سے کام لے رہے ہیں۔ گندے انڈوں کے خلاف راست اقدام کے بجائے حالات کا جائزہ لیے جا رہے ہیں۔ ویسے یہ کیسی جمہوریت ہے کہ پرویز رشید کو ایوان بالا سے باہر رکھا جائے جب کہ فیصل واڈہ اہل قرار پا جائیں۔ سینیٹ میں ''اوپن ووٹ'' کی مخالفت میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جارہے ہیں۔ ایسی ایسی نظیریں ڈھونڈی جا رہی ہیں کہ قانون دان بھی حیران ہیں۔

مایوسی کے ان اندھیروں اور جھوٹ کے کاروبار میں ایک شفاف شخص نمودار ہو رہا ہے۔ڈاکٹرامجد ثاقب جو اس قحط الرجال میں قوم کی اْمیدوں کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔ شہباز، نوازشریف سے وزیراعظم عمران خان تک سب ان پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کرتے رہے ہیں۔ان پر اعتماد کا یہ عالم ہے کہ شہبازشریف نے پنجاب میں فروغ تعلیم کا منصوبہ ڈاکٹر صاحب کے سپرد کیے رکھا جسے انھوں نے کامیابی سے چلا کر دکھایا۔ اب عمران خان بھی غریبوں کو 50 لاکھ گھر بناکر دینے کے منصوبے میں ان کی خدمات حاصل کرچکے ہیں۔

وطن عزیز کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے ہمیں آگے بڑھنا ہوگا ۔ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے آزمودہ فرزند قوم کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اجنبی معین قریشی کا تجربہ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے نیک دل اور دیانت دار سیوا کاروں کو آگے لانا ہو گا۔اس معاملے میں عدالت عظمیٰ سے بھی رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے جس کا آئینی طریق کار صدارتی ریفرنس کی شکل میں موجود ہے۔

اس وقت معیشت کی بحالی ترجیح اوّل ہونی چاہیے۔ بے لاگ اور یکساں احتساب سے کون انکار کر سکتا ہے ۔ اس دو نکاتی ایجنڈے پر عملدرآمد سے مختصرعرصے میں قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ کوئی بھی مقبول عوامی رہنما حالات سدھار کی اس دردمندانہ کوشش کی کھلے بندوں مخالفت نہیں کر سکتا ہے کہ اس کی مقبولیت چشم زدن میں خاک میں مل جائے گی ۔

بہت عرصہ پہلے ڈاکٹر صاحب نے خواہش ظاہر کی تھی ''اخوت'' پاکستان کی سب سے بڑی خدمت گار تنظیم بن جائے اور ہم کھلی آنکھوں سے یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتے دیکھ رہے ہیں کہ اخوت بلا سود چھوٹے قرضہ جات کی فراہمی میں دنیا کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا ہے ۔

زمینی حقائق یہ ہیں کہ عظیم الشان اخوت یونیورسٹی کا منفرد خواب حقیقت میں بدل چکا ہے۔ جس کی بنیاد یہ اچھوتا خیال تھا کہ غربت ذہانت کو قتل نہ کرسکے، ذہین نوجوان مفت تعلیم حاصل کریں اور جب اس قابل ہوں تو اخراجات اپنی مادر علمی کو واپس کردیں تاکہ کوئی اور اس چشمے سے فیض یاب ہو۔

اخوت یونیورسٹی کے لاہور اور چکوال کیمپس پوری طرح بروئے کار ہیں۔ چاروں صوبوںسے آنے والے ذہین طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ طلبہ کی رہائش و جملہ ضروریات بھی بلا معاوضہ فراہم کی جارہی ہیں۔ اذیتوں کے مارے خواجہ سراؤں کی دست گیری بھی اخوت کے مقدر میں آئی۔اخوت کا صحت کلینک ناداروں کے لیے ایک اور خدمت ہے۔ دولاکھ پینسٹھ ہزار مستحق مریضوں کا مفت علاج ہورہا ہے۔ اخوت فوڈ بینک کی صورت میں مستحق افراد کے لیے کھانا فراہم کرنے کی خدمت الگ ہے۔اخوت کے رضاکاروں کی تعداد سات ہزار پینتالیس اورعطیات دینے والوں کی تعداد نوے ہزار سے تجاوز کرچکی ہے۔ اس سے فیض یاب ہونے والوں کی تعداد 29 لاکھ23 ہزار سے زائد ہے۔اور یہ سب کچھ خاموشی سے جاری و ساری ہے ۔

ڈاکٹر امجد ثاقب نے بین الاقوامی مالیاتی ٹھگوں کو کھلے مقابلے میں پچھاڑ دیا ہے۔ سوال یہ کہ اگر وہ اپنی لگن اور پاکستان سے عشق کو بروئے کار لا کر عالمی سطح پر ناممکن کو ممکن بنانے کا معجزہ دکھا سکتے ہیں تو سیاسی میدان میں الجھی ہوئی ڈوریں کیوں نہیں سلجھا سکتے۔ اگر عالمی مالیاتی ٹھگوں کو شکست دی جا سکتی ہے تو مقامی ٹھگوں کی ان کے سامنے اوقات ہی کیا ہے۔

یہ قوم بانجھ نہیں ہے، انگنت فرزندان قوم خدمت کے لیے حاضر و موجود ہیں۔ پولیس سروس کے نمایاں افسران ڈاکٹر شعیب سڈل، ذوالفقار چیمہ، رزاق چیمہ ، الاستاذ سلیم منصور خالد ، عالمی براڈکاسٹر افضل رحمن دیگرشعبوں میں ارشاد کلیمی، شمشاد احمد خان، ایمبیسڈر باسط صاحب۔ بریگیڈئیر صولت رضا ،پاکستان میں مواصلاتی انقلاب کے خالق میاں محمد جاوید اور دیگر بزرگ احباب کی صلاحیتوں اور تجربات سے استفادہ کیاجاسکتاہے۔

تازہ سیاسی صورت احوال کچھ یوں ہے ۔سینیٹ الیکشن اور ضمنی انتخابات نے حضرت مولانا کوپس منظر میں دھکیل دیا ہے۔ کہاں وہ قومی اسمبلی سے اجتماعی استعفوں کا اعلان کر رہے تھے اور جناب نواز شریف انھیں ہلا شیری دے رہے تھے۔کہتے ہیں کہ جناب زرداری نے حضرت مولانا کی راہ کھوٹی کردی اور نواز شریف کو سمجھایا کہ آپ زمینی حقائق کو مدنظر رکھیں ۔

پنجاب میں سینیٹ منڈی باہمی افہام و تفہیم سے بند کرا دی گئی ہے جس کا کریڈٹ چوہدری پرویز الہی کو جاتا ہے۔ اس کالم نگار کے دو بزرگ دوست ایوان بالا میں پہنچ چکے ہیں۔ الاستاذ عرفان صدیقی اور ہم دم دیرینہ اعجاز چوہدری۔ دونوں کسی حد تک مرحوم مشاہداللہ خان کی کمی پوری کریں گے۔ ماضی قریب میں اعجاز چوہدری کا پسندیدہ اسلوب بغاوت ہوتا تھا ۔عدیم ہاشمی ان کے پسندیدہ شاعر ہوتے تھے اور چوہدری صاحب جا بجا یہ رجز الاپتے رہتے تھے ۔

مفاہمت نہ سکھا جبر ناروا سے مجھے

میں سر بکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے

بلوچستان میں سینیٹ کے الیکشن کا گول چکر ملاحظہ فرمائیں۔پی ٹی آئی نے عبدالقادر کو بلوچستان سے سینیٹ کا ٹکٹ دیا، پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں نے اعتراض کیا کہ عبدالقادر بلوچ ایک دن پہلے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے ہیں، میڈیا میں شدید تنقید ہوئی اور ٹکٹ واپس ہو گیا۔اب ٹکٹ ظہور آغا کو مل گیا۔ عبدالقادر دوبارہ بلوچستان عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے اوران سے سینیٹ کا ٹکٹ لے لیا۔ پی ٹی آئی نے بلوچستان سے اپنے واحد سینیٹ امیدوار کو دستبردار کرا لیا اوراب عبدالقادر پی ٹی آئی کے ووٹوں سے باپ کے ٹکٹ پر سینٹر منتخب ہوں گے۔ ویسے پی ٹی آئی عمران خان کی رہنمائی میں پیسوں کی سیاست کے خلاف ''جہاد'' کر رہی ہے ۔

حرف آخر یہ کہ ہفتہ 27 فروری کومحترم راؤ منظر حیات کا کالم ''منظم طریقے سے انار کی پھیلائی جا رہی ہے ؟ '' دوبارہ پڑھ لیں توآپ کو سنگین معاملات سمجھنے میں مزید آسانی ہو جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |