بنگلا دیش کے متنازع انتخابات میں عوامی لیگ 232 نشستوں پر کامیاب پرتشدد مظاہروں میں 21 افراد ہلاک

بنگلادیش نیشنلسٹ پارٹی سمیت دیگر 20 اپوزیشن جماعتوں نے نگراں حکومت کے تحت نہ ہونیوالے انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا


ویب ڈیسک January 06, 2014
اپوزیشن اتحاد کے بائیکاٹ کے باعث 127 نشستوں پر عوامی لیگ کے امیدوار بلا مقابلہ ہی کامیاب ہوگئے تھے فوٹو:فائل

بنگلا دیش میں گزشتہ روز اپوزیشن کے بائیکاٹ اور پرتشدد واقعات کے سائے میں ہونے والے متنازع عام انتخابات میں حسینہ واجد کی عوامی لیگ نے میدان مارلیا اور پارلیمنٹ میں دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت حاصل کرلی ہے۔

بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق پارلیمنٹ کی 300 میں سے 147 نشستوں پر ہونے والے انتخابات مین عوامی لیگ کو 105 سیٹوں پر کامیابی حاصل ہوئیں ہیں جبکہ اس کی اتحادی جماعتوں اور آزاد امیداواروں کو 34 سیٹیں ملی ہیں، اس کے علاوہ 20 جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن کے اتحاد کی جانب سے بائیکاٹ کے باعث 127 نشستوں پر عوامی لیگ کے امیدوار بلا مقابلہ ہی کامیاب ہوگئے تھے۔

اتوار کے روز ہونے والی پولنگ سے عوام کی بڑی تعداد نے کنارہ کشی اختیار کررکھی تھی جس کی وجہ سے رائے دہی کی شرح 20 فیصد ہی رہی جبکہ 2008 کے انتخابات میں 700 فیصد عوام نے اپنے نمائندوں کے انتخاب میں براہ راست حصہ لیا تھا۔ امریکا، یورپی یونین اور دولتِ مشترکہ نے اپنے تحفظات کی بنا پر بنگلہ دیش میں انتخابات کی نگرانی کرنے کے لئے مبصر بھیجنے سے بھی انکار کردیا تھا۔

دوسری جانب انتخابات کے بعد ڈھاکا میں پہلی بار میڈیا سے بات کرتے ہوئے شیخ حسینہ واجد نے کہا کہ انتخابات کو عوام اور دوسری پارٹیوں نے تسلیم کرلیا ہے اور اگر انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی جماعتیں تشدد کا راستہ چھوڑ دیں تو ان سے بات کی جاسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنگلادیش نیشنل پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا کو عبوری حکومت بنانے کی پیشکش کی تھی مگر وہ نہیں مانیں۔

واضح رہے کہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بنگلا دیش نیشنل پارٹی کی کال پر ہفتے اور اتوار کو ہڑتال کی گئی تھی جس میں انہوں نے مزید دو روز کا اضافہ کردیا تھا جس کی وجہ سے دارالحکومت ڈھاکا سمیت ملک کے تمام بڑے شہروں اور دیگر علاقوں میں نظام زندگی مکمل طور پر مفلوج ہے۔

گزشتہ روز کے پرتشدد واقعات میں 21 افراد کی ہلاکت کے بعد بنگلا دیش کی فوج کے جوان مسلسل گشت کررہے ہیں تاپم ہر جانب خوف کی فضا ہے اور لوگ اپنے گھروں میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔