کیا ہم دشمن کے بیانیے کو پروان چڑھا رہے ہیں

ہمیں سوچنا ہوگا اپنی ہی فوج کے خلاف نفرت پھیلا کر کہیں ہم اپنے دشمن کے بیانیے کو تو پروان نہیں چڑھا رہے؟


آصف محمود March 03, 2021
چند لوگوں کی غلطی کی وجہ سے پورے ادارے کو برا بھلا کہنا مناسب نہیں ہے۔ (فوٹو: فائل)

بابا تاج دین کو گاؤں کے بڑے، بوڑھے سب بی بی سی کے نام سے پکارتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گاؤں میں رہتے ہوئے ان کی ملکی سیاست کے حوالے سے معلومات کمال کی ہیں۔ ان کی عمر80 سال کے قریب ہے لیکن یادداشت آج بھی کمال کی ہے۔ مقامی اسکول سے بطور ہیڈماسٹر ریٹائرڈ ہوئے اور اب ان کی مصروفیت یہی ہے کہ وہ گاؤں کے تکیے میں دن بھر بیٹھے یار دوستوں کے ساتھ دنیا جہاں کے امور پر بحث کرتے نظر آتے ہیں۔ گاؤں میں کوئی بھی فرد معلومات کے حوالے سے ان سے مقابلے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔

اپنی نوکری کی وجہ سے مجھے بہت کم گاؤں میں رہنے کا موقع ملتا ہے۔ صبح جلدی تیار ہوکر آفس پہنچنا اور پھر رات گئے واپسی۔ چھٹی والے دن گھر کے دیگر کام کاج۔ اس وجہ سے بابا تاج دین کی گفتگو سننے کا بہت زیادہ موقع نہیں ملا، لیکن ان کا چرچا خوب سنا۔ جس کی وجہ سے دل میں یہ خواہش بھی رہتی کہ ان سے ملا جائے اور معلومات کا تبادلہ کیا جائے۔ آخر ایک دن یہ خواہش پوری ہوگئی۔ گھر میں تعمیراتی کام کی وجہ سے کچھ چھٹیاں لی تھیں۔ اسی دوران بابا تاج دین کی محفل میں بیٹھنے کا موقع بھی مل گیا۔ تکیے میں ایک چٹائی پر بابا تاج دین حقہ لیے بیٹھے تھے، جبکہ گاؤں کے چار، پانچ اور بزرگ بھی موجود تھے۔ ملک کی سیاست پر گرما گرم بحث جاری تھی۔

کوئی موجودہ حکومت کو برا بھلا کہہ رہا تھا تو کسی کا خیال یہ تھا کہ آج جو بھی مشکلات اور مسائل ہیں، خاص طور پر مہنگائی اور بیروزگاری ہے، اس کی وجہ سابق حکومت ہے جس نے ملک میں لوٹ مار کی ہے۔

ایک صاحب کا کہنا تھا کہ ملک کے موجودہ حالات کے ذمے دار سیاست دان نہیں بلکہ ملک کی فوج ہے۔ ان کا فوج سے متعلق ایک اپنا ہی نقطہ نظر تھا، جس پر وہ گرم جوشی سے دلائل دے رہے تھے۔ بابا تاج دین نے جب فوج سے متعلق باتیں سنیں تو بڑے آرام اور تحمل سے جواب دینے لگے۔ اس دوران جب ان کی نظر مجھ پر پڑی تو بڑے پیار سے خوش آمدید کہا اور کہنے لگے آج تو ہمارا صحافی پتر بھی آگیا ہے، اس کو بھی معلوم ہوگا کہ ملک کے حالات کی خرابی میں کس کا ہاتھ ہے؟

بابا تاج دین نے حقے کا کش لیتے ہوئے کہا تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان افواج نے وطنِ عزیز کے دفاع میں دشمن کو ہر جنگ اور محاذ پر منہ توڑ جواب دے کر دشمن کے دانت کھٹے کیے ہیں۔ پاک افواج نے نہ صرف براہِ راست جنگ کے میدان میں اپنا لوہا منوایا بلکہ پاکستانی عوام کے بھرپور تعاون سے دہشت گردی کے ناسور کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اپنی تمام تر سازشوں میں ناکامی کے بعد دشمن کو اس بات کا ادراک اچھی طرح ہوگیا ہے کہ جب تک پاکستانی عوام اور پاک افواج کے درمیان اعتماد اور محبت کا تعلق قائم ہے، تب تک اس عظیم قوم کو براہ راست شکست دینا ناممکن ہے۔ پھر مکار دشمن نے اپنا پینترا بدلا اور پاکستانی عوام اور فوج کے مابین خلا پیدا کرنے کی غرض سے نفرت بھرے بیانیے اور جان بوجھ کر غلط خبروں کو پھیلانا شروع کردیا۔

اتنا کہنے کے بعد بابا تاج دین نے حقے کا ایک اور گہرا کش لیا۔ دھواں ہوا میں چھوڑتے ہوئے بولے ''کیوں پتر، میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟'' میں نے کہا ''جی بالکل ایسا ہی ہے''۔ میری طرف سے تائید ملنے کے بعد باباتاج دین کے چہرے میں چمک ابھر آئی اور وہ دوبارہ گویا ہوئے۔ ہمارے ازلی دشمن بھارت، اسرائیل اور امریکا نے اپنے اس گھناؤنے مقصد کی تکمیل کی خاطر خودکار تجزیہ نگاروں اور نام نہاد سیاست دانوں کو استعمال کرکے فوج مخالف بیانیے کو پھیلانا شروع کردیا۔ جس کے زیرِ اثر کچھ کم فہم لوگ ان افواہوں اور غلط خبروں کو درست مان کر دشمن کے آلہ کار بن بیٹھے اور آج کل ٹی وی پر اکثر افراد کو فوجی افسران کی سول انتظامیہ میں تعیناتیوں سے متعلق بحث و تکرار کرتے سنا جاسکتا ہے کہ تمام اہم تقرریوں میں ریٹائرڈ آرمی آفیسر کیوں تعینات کردیے جاتے ہیں؟

بابا تاج دین کی بات ٹوکتے ہوئے چاچا اشرف بولے۔ ''ہاں تو بتائیے ناں، کیا پاکستان میں کوئی اور قابل بندہ نہیں ملتا جو تمام بڑے عہدوں پر ریٹائرڈ اور حاضر فوجی افسران ہی کیوں تعینات کیے جاتے ہیں؟'' بابا تاج دین نے اس کی بات سن کر ایک توقف سے بولے۔ ''افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں کچھ خودکار اور نام نہاد تجزیہ کار بنا تحقیق دشمن کے اس بیانیے کو تقویت دینے میں مصروفِ عمل ہیں اور اکثر ایسے افراد کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ فوج کے افسروں کو صرف جنگ و جدل کی ہی تربیت دی جاتی ہے۔ فوج کے افسران اعلیٰ تعلیم کے حامل نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے پاس ایسا کوئی تجربہ ہوتا ہے جس کے تحت یہ سول انتظامیہ کے امور کو احسن طریقے سے چلاسکیں۔ یہاں یہ بات قابلِ غور ہے اور میں ایسے لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اپنے محدود علم، بغیر کسی منطق اور بنا تحقیق کے فوج مخالف بیانیے کی اندھی تقلید کیوں کرتے ہیں؟ ایسے خود کار تجزیہ نگاروں کو اس کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے کہ اپنی کم علمی کے باعث وہ کس کے بیانیے کو مظبوط کرنے میں مصروفِ عمل ہیں؟''

بابا تاج دین نے محفل میں موجود تمام افراد سے پوچھا۔ ''کیا آپ میں سے کوئی جانتا ہے کہ ایک آرمی افسر کیسے بنتا ہے؟ ملازمت کے دوران وہ کن مراحل سے گزرتا ہے؟'' سب خاموش رہے تو باباجی بولے۔ ''سترہ، اٹھارہ سال کی عمر میں ایک نوجوان فوج میں بھرتی ہوتا ہے اور تقریباً 25 سے 35 سال تک دور دراز سرحدی علاقوں، ریگستانوں، دشوار گزار پہاڑی علاقوں اور سخت ترین موسمی حالات کا سامنا کرتے ہوئے وطنِ عزیز کے دفاع کو یقینی بنانے کےلیے ہمہ تن مصروف رہتا ہے۔ وطنِ عزیز کے چپے چپے کی حفاظت کے دوران یہ شیر دل جوان یا تو زندگی بھر کےلیے معذور ہوجاتے ہیں یا شہید ہوجاتے ہیں۔ اور اکثر ملکی دفاع اور اپنی پیشہ ورانہ تربیتی کورسز کی خاطر کبھی بیرونِ ملک تو کبھی ملک کے دوسرے علاقوں میں تبادلوں کے باعث اپنے پیاروں سے دوری بھی بخوشی برداشت کرلیتے ہیں۔''

''یہ وہ افسران ہیں جن کی تعلیم تقریباً 18-20 سال تک ہوتی ہے اور انہوں نے پی ایم اے، آرمی پروفیشنل اسکول، کمانڈ اینڈ اسٹاف کالج، نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اور غیر ملکی کورسز میں تربیت اور تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔ اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ان کی تعلیم 18-20 سال سے زائد ہوجاتی ہے۔ اور یہ وہ افسران ہیں جو انتہائی سخت عسکری مہمات میں بچ جانے والے غازی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو جان و مال اور ملک سے پیار کا مطلب سمجھتے بھی ہیں اور جانتے بھی ہیں۔ یہ وہ افسر ہیں جو سیکڑوں سپاہیوں کی کمانڈ کرتے ہیں اور ان کی رہنمائی میں مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ اتنی کثیر تعداد میں سپاہیوں کے انتظامی امور چلانا، ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو نکھارنا اور ملازمت کے معاملات کو دیکھنا بھی زندگی بھر کےلیے ایک وسیع تجربے کو جنم دیتا ہے۔ یہ افسران اقوامِ متحدہ کے امن مشنز میں حصہ لینے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی کورسز، مشقوں اور ڈیپوٹیشن کا وسیع تر تجربہ رکھتے ہیں اور جنہیں سول حکومت ہر سماوی اور زمینی آفت کے دوران لوگوں کی امداد اور داخلی امن و امان کو قائم رکھنے کےلیے طلب کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں سابق فوجی افسران بطور سیاستدان، بیوروکریٹس، سفارتکار اور منتظمین کے عہدوں پر تعنیات ہوکر ملک و قوم کی ترقی کےلیے سول حکومت کے ساتھ اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ پھر یہ کون لوگ ہیں جو ان عہدوں کےلیے ریٹائرڈ فوجی افسران کو ملازمت دینے پر اعتراض کرتے ہیں؟ جبکہ آئین و قانون کی رو سے اور متعلقہ تجربہ کے حامل وہ اس عہدے کےلیے موزوں ہیں۔

بابا تاج دین کی گفتگو میں وزن تھا، کوئی ان کی تردید نہیں کررہا تھا، جو صاحب پہلے فوج کے خلاف بڑے پرجوش دلائل دے رہے تھے اب وہ بھی شرمندہ نظر آنے لگے۔ بابا تاج دین دوبارہ کہنے لگے۔

''اب آتے ہیں مختلف محکموں میں ریٹائرڈ فوجی افسروں کی تعیناتی کی طرف۔ مختلف سول اداروں میں ریٹائرڈ فوجی افسران کی تعیناتی حکومتِ وقت کی ضرورت اور خواہش پر کی جاتی ہے۔ اس میں فوج کی کوئی سفارش نہیں ہوتی۔ یہ تعنیاتی ان کے وسیع تر تجربے، تعلیمی قابلیت، ایمانداری اور ملک کی بے لوث خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے کی جاتی ہے۔ جس کا مقصد درست لوگوں کی درست جگہ تعیناتی ہے اور اسی سے ہی ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتا ہے۔ نوازشریف دور میں کی گئی تعیناتیوں کی تعداد عمران حکومت کے دور کی نسبت کہیں زیادہ تھی۔ فوجی افسران کا ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں شمولیت اختیار کرنا کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملک میں 46 صدور میں سے 32 کا تعلق فوج سے رہا تھا۔ جبکہ 28 وزیر دفاع میں سے21 کا تعلق فوج سے تھا۔ فوجی اپنی مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد سیاست میں حصہ لے سکتے ہیں، جس کی آئینِ پاکستان میں کوئی ممانعت نہیں۔ پھرِ چاہے وہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ ہوں، لیفٹینٹ جنرل عبدالقادر بلوچ ہوں، کرنل شجاع خانزادہ شہید یا کوئی اور، یہ ان کا آئینی حق ہوتا ہے۔

بابا تاج دین چائے کی چسکی لیتے ہوئے بڑے مدبرانہ اندازمیں بتارہے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو جیسے منجھے ہوئے سیاست دان نے سول سروسز میں فوجی افسران کو شامل کرنے کی بنیاد رکھی تھی اور اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے حکومت پاکستان کے 1991 کے آرڈر کے مطابق سول سروسز میں فوجی افسران کےلیے خصوصی کوٹہ قائم کیا۔ جس کے تحت پاکستان پولیس، ڈی ایم جی اور فارن سروسز میں فوجی افسران کی مخصوص تعداد کو یقینی بنانے کےلیے اقدامات کیے گئے۔ جبکہ ان افسران کےلیے قوائد یا ضوابط میں نہ کوئی نرمی برتی گئی نہ کوئی تبدیلی لائی گئی۔ ہر سال 500 میں سے صرف 6 فوجی ہی سول سروسز اکیڈمی کو جوائن کرتے ہیں۔ گزشتہ بیس سال میں صرف 120 فوجی افسران ہی نے سول سروسز میں شمولیت اختیار کی۔ جنہوں نے اپنی غیر معمولی کارکردگی سے ہر جگہ اپنا لوہا منوایا اور منفرد مقام حاصل کیا۔

اعداد و شمار کے ساتھ بابا تاج دین جو کچھ بتا رہے تھے، میں حیران تھا کہ شاید یہ باتیں روزانہ ٹی وی پر بیٹھ کر کئی کئی گھنٹے مباحثہ کرنے والے پیشہ ور اینکرز اور تجزیہ کاروں کو بھی معلوم نہیں ہوں گی۔ مجھے باباتاج دین کی معلومات پر حیرانگی تھی۔ خیر ہم ان کی گفتگو سن رہے تھے۔ بابا تاج دین کہنے لگے۔ ''ریٹائرڈ عسکری حکام کی سول اداروں میں تعیناتی کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ پاکستان کے تقریباً 114 سفیر اس وقت دنیا کے مختلف ممالک میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان میں سے صرف 5 سفیر ریٹائرڈ فوجی ہیں۔ جو ان ممالک میں اپنے وسیع تجربے کی بنیاد اور ہمارے دفاعی تعاون کو یقینی بنانے میں ہمہ وقت سرگرم ہیں۔

کچھ عاقبت نااندیش اس بات پر بھی بضد ہیں کہ فوجی ادارے جیسے ایف سی، اینٹی نارکوٹکس فورس، ایئرپورٹ سیکیورٹی فورس، ہیوی انڈسٹری ٹیکسلا کے سربراہ بھی غیر فوجی ہونے چاہئیں۔ لیکن یہ انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ یہ دفاعی نوعیت کے ادارے ہیں اور یہاں پیشہ ورانہ مہارت اور تجربہ رکھنے والے عسکری حکام ہی کام کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ کھیل کے میدان میں بھی ہماری پاک افواج کے جوان دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔ فوج نے گزشتہ کئی سال میں بے تحاشا نامور کھلاڑیوں کو تیار کیا، جنہوں نے ملک و قوم کی ترقی اور اپنے پرچم کی سربلندی کےلیے بہت سارے اعزازات اپنے نام کیے۔ جیسے کہ ہاکی، ایتھلیٹکس، تیر اندازی، باسکٹ بال، تیراکی، فٹ بال، اسکواش، کرکٹ، باکسنگ اور کبڈی وغیرہ۔''

بابا تاج دین چائے ختم کرچکے تھے۔ انہوں نے کہا میں یہ نہیں کہتا کہ فوج میں سبھی فرشتے بھرتی ہیں۔ کالی بھیڑیں ہر جگہ ہوتی ہیں۔ سیاستدان بھی کوئی دودھ کے دھلے نہیں ہیں۔ لیکن چند لوگوں کی غلطی کی وجہ سے پورے ادارے کو برا بھلا کہنا انصاف نہیں ہے۔ ہمیں پاک فوج اور اس کے افسروں اور جوانوں سے متعلق اپنی سوچ اور فکر کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا اپنی ہی فوج کے خلاف نفرت پھیلا کر کہیں ہم اپنے دشمن کے بیانیے کو تو پروان نہیں چڑھا رہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں