لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہتے ہیں جسٹس قاضی فائز عیسٰی
ہٹلر کو بھی معلوم تھا ٹینک سے زیادہ میڈیا کا استعمال کرنا ہے، جسٹس قاضی عیسٰی
سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت براہ راست نشر کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، سپریم کورٹ نے منیر اے ملک کی بیماری کے باعث عدم دستیابی کی درخواست پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ بعض اوقات ذاتی معاملات میں اچھا رویہ رکھنا مشکل ہوتا ہے، وکیل سائل اور عدالت کے درمیان رابطہ کار ہوتا ہے، آپ کا اور میرا تعلق ایک آئینی ادارے سے ہے، ہمیں بہت سے چیزوں پر رائے دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ججز کی ایک ڈیوٹی صبر اور تحمل کرنا بھی ہے، اعتراضات اور سوالات پر توقع ہے کہ آپ تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جہاں آپ کو محسوس ہو کہ میں حد پار کر رہا ہوں مجھے روکا جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ لندن کی جائیدادیں میں میرے جج بننے سے بھی پہلے کی ہیں، جائیدادیں خریدتے وقت میرے بچے بالغ تھے، سپریم کورٹ کا جج بننے کے بعد میں نے کوئی جائیداد نہیں خریدی، اہلیہ نے نجی بینک میں فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوایا جس سے رقم منتقل ہوئی، فارن کرنسی اکاؤنٹ کو اس وقت قانون تحفظ حاصل تھا۔ 23 مئی 2019 کو میرے خلاف ریفرنس چیف جسٹس کو بھجوایا گیا، 29 مئی کو ریفرنس کی خبر میڈیا پر آئی، پوری دنیا میں میرے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا، مجھے اور میرے اہل خانہ کو بدنام کیا گیا، میرا کیریئر تو 65 سال کی عمر میں ختم ہوجائے گا لیکن شہرت قبر تک ساتھ چلے گی، میں نہیں چاہتا کہ میری شہرت پر حرف آئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صحافیوں کو اسلام آباد سے اغواء کرلیا جاتا ہے، صحافیوں کے اغوا پر وزیراعظم کہتے ہیں مجھے کیا معلوم؟، صحافیوں پر تشدد ہوا کسی نے انکوائری تک نہیں کی، ذمہ داروں کا نام بتاؤں تو میرے خلاف ریفرنس آجائے گا، سانحہ مشرقی پاکستان پر بات کی جائے تو خاموش کرا دیا جاتا ہے، قائد اعظم اور میرے والد کی روح قبر میں تڑپ رہی ہوگی، لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہتے ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ کی باتوں پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت ہے اور ہمیں مقدمات کے فیصلے کرنے ہیں، بہتر ہوگا کہ ہم اپنی حدود سے باہر نہ نکلیں، آپ کو کسی سے مسئلہ ہے تو اسے عدالت سے باہر ہی رکھیں، کوئی صحافی اغواء ہوا ہے تو اس کا الگ سے کیس لائیں۔
جسٹس منظور احمد ملک نے ریمارکس دیئے کہ ہر بات ہر جگہ کرنا مناسب نہیں ہوتا ، قاضی صاحب جذباتی نہ ہوں کیس پر فوکس کریں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ میری ذات کو بھول جائیں ملک کے لیے جذباتی ہو رہا ہوں۔
جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ صرف عدالتی معاملہ نہیں، سپریم کورٹ کا پالیسی اور انتظامی مسئلہ بھی ہے، براہ راست کوریج میں عملی طور پر بھی بہت مشکلات ہیں، کسی ایک اخبار نے شاید غلط خبر لگائی ہو، کسی ایک اخبار نے شاید غلط خبر لگائی ہو، آپ کی بات سننے والے تمام افراد جانبدار نہیں ہوسکتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ہٹلر کو بھی معلوم تھا ٹینک سے زیادہ میڈیا کا استعمال کرنا ہے، ٹی وی پر دو لوگوں کو بٹھا کر بحث کرائی جاتی ہے۔ آئین میں پارلیمنٹ کی کاروائی براہ راست دکھانے کا ذکر نہیں لیکن پی ٹی وی پارلیمنٹ کی کاروائی براہ راست دکھاتا ہے۔ میرے نام پر داغ لگا ہوا ہے جسے صاف کرنے کا موقع ملنا چاہیے، براہ راست کوریج میں ایڈیٹنگ کی گنجائش نہیں ہوتی، عدالت کا فیصلہ چاہے میرے خلاف آئے لیکن ٹی وی پر براہ راست آنا چاہیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اگر عدالت براہ راست کوریج پر متفق ہوئی تو ریاستی مشینری استعمال ہوگی، کسی نجی کیمرے کو عدالت میں آنے کی اجازت نہیں ہوگی، عدالت میں صحافی ہونے چاہیئں، وفاقی کی جانب سے کون نمائندگی کرے گا؟
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیس مقرر ہوا تو وزیرقانون اور اٹارنی جنرل دونوں ہی موجود نہیں تھے، مجھے صرف نوٹس لینے کی ہدایات ملی ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ حیرت ہے اب تک تعین نہیں ہوسکا وفاق کا وکیل کون ہوگا۔ کیس کی مزید سماعت بدھ کو ہوگی۔
سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسٰی کیس فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کی سماعت براہ راست نشر کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی، سپریم کورٹ نے منیر اے ملک کی بیماری کے باعث عدم دستیابی کی درخواست پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ بعض اوقات ذاتی معاملات میں اچھا رویہ رکھنا مشکل ہوتا ہے، وکیل سائل اور عدالت کے درمیان رابطہ کار ہوتا ہے، آپ کا اور میرا تعلق ایک آئینی ادارے سے ہے، ہمیں بہت سے چیزوں پر رائے دینے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ججز کی ایک ڈیوٹی صبر اور تحمل کرنا بھی ہے، اعتراضات اور سوالات پر توقع ہے کہ آپ تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔ جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جہاں آپ کو محسوس ہو کہ میں حد پار کر رہا ہوں مجھے روکا جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے دلائل میں کہا کہ لندن کی جائیدادیں میں میرے جج بننے سے بھی پہلے کی ہیں، جائیدادیں خریدتے وقت میرے بچے بالغ تھے، سپریم کورٹ کا جج بننے کے بعد میں نے کوئی جائیداد نہیں خریدی، اہلیہ نے نجی بینک میں فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوایا جس سے رقم منتقل ہوئی، فارن کرنسی اکاؤنٹ کو اس وقت قانون تحفظ حاصل تھا۔ 23 مئی 2019 کو میرے خلاف ریفرنس چیف جسٹس کو بھجوایا گیا، 29 مئی کو ریفرنس کی خبر میڈیا پر آئی، پوری دنیا میں میرے خلاف پراپیگنڈا کیا گیا، مجھے اور میرے اہل خانہ کو بدنام کیا گیا، میرا کیریئر تو 65 سال کی عمر میں ختم ہوجائے گا لیکن شہرت قبر تک ساتھ چلے گی، میں نہیں چاہتا کہ میری شہرت پر حرف آئے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ صحافیوں کو اسلام آباد سے اغواء کرلیا جاتا ہے، صحافیوں کے اغوا پر وزیراعظم کہتے ہیں مجھے کیا معلوم؟، صحافیوں پر تشدد ہوا کسی نے انکوائری تک نہیں کی، ذمہ داروں کا نام بتاؤں تو میرے خلاف ریفرنس آجائے گا، سانحہ مشرقی پاکستان پر بات کی جائے تو خاموش کرا دیا جاتا ہے، قائد اعظم اور میرے والد کی روح قبر میں تڑپ رہی ہوگی، لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہتے ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ کی باتوں پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت ہے اور ہمیں مقدمات کے فیصلے کرنے ہیں، بہتر ہوگا کہ ہم اپنی حدود سے باہر نہ نکلیں، آپ کو کسی سے مسئلہ ہے تو اسے عدالت سے باہر ہی رکھیں، کوئی صحافی اغواء ہوا ہے تو اس کا الگ سے کیس لائیں۔
جسٹس منظور احمد ملک نے ریمارکس دیئے کہ ہر بات ہر جگہ کرنا مناسب نہیں ہوتا ، قاضی صاحب جذباتی نہ ہوں کیس پر فوکس کریں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ میری ذات کو بھول جائیں ملک کے لیے جذباتی ہو رہا ہوں۔
جسٹس عمر عطابندیال نے ریمارکس دیئے کہ یہ صرف عدالتی معاملہ نہیں، سپریم کورٹ کا پالیسی اور انتظامی مسئلہ بھی ہے، براہ راست کوریج میں عملی طور پر بھی بہت مشکلات ہیں، کسی ایک اخبار نے شاید غلط خبر لگائی ہو، کسی ایک اخبار نے شاید غلط خبر لگائی ہو، آپ کی بات سننے والے تمام افراد جانبدار نہیں ہوسکتے۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا کہ ہٹلر کو بھی معلوم تھا ٹینک سے زیادہ میڈیا کا استعمال کرنا ہے، ٹی وی پر دو لوگوں کو بٹھا کر بحث کرائی جاتی ہے۔ آئین میں پارلیمنٹ کی کاروائی براہ راست دکھانے کا ذکر نہیں لیکن پی ٹی وی پارلیمنٹ کی کاروائی براہ راست دکھاتا ہے۔ میرے نام پر داغ لگا ہوا ہے جسے صاف کرنے کا موقع ملنا چاہیے، براہ راست کوریج میں ایڈیٹنگ کی گنجائش نہیں ہوتی، عدالت کا فیصلہ چاہے میرے خلاف آئے لیکن ٹی وی پر براہ راست آنا چاہیے۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ اگر عدالت براہ راست کوریج پر متفق ہوئی تو ریاستی مشینری استعمال ہوگی، کسی نجی کیمرے کو عدالت میں آنے کی اجازت نہیں ہوگی، عدالت میں صحافی ہونے چاہیئں، وفاقی کی جانب سے کون نمائندگی کرے گا؟
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کیس مقرر ہوا تو وزیرقانون اور اٹارنی جنرل دونوں ہی موجود نہیں تھے، مجھے صرف نوٹس لینے کی ہدایات ملی ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ حیرت ہے اب تک تعین نہیں ہوسکا وفاق کا وکیل کون ہوگا۔ کیس کی مزید سماعت بدھ کو ہوگی۔