ہماری انتہاپسندی کے اسباب کیا ہیں

ہمارے معاشرے میں کسی بھی سطح پر اخلاقیات، آداب معاشرت و آداب اختلاف نہیں سکھائے جاتے


اعزاز کیانی March 08, 2021
انتہاپسندی ہمارا عام سماجی رویہ بن چکا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

انتہاپسندی ہمارا عام سماجی رویہ بن چکا ہے۔ یہ رویہ کوئی دو چار افراد کا یا کسی ایک شعبہ حیات میں نہیں ہے بلکہ یہ ہماری اکثریت کا عام رویہ ہے اور قریب قریب ہر شعبہ حیات میں ہے۔ مذہبی معاملات ہوں، سیاسی مسائل ہوں، علمی مباحث ہوں یا سماجی نزاعات ہوں، اس رویے کا اظہار ہر جگہ موجود ہے۔

میرے نزدیک اس انتہاپسندانہ رویے کی دو اساسی وجوہات ہیں۔ وجہ اول عدم تربیت اور وجہ ثانی انسان کا داخلی اصلاحی نظام کا تعطل ہے۔ انسان کا جب اس دنیا میں ظہور ہوتا ہے تو ایک مدت تک اسے باقاعدہ تعلیم و تربیت کی احتیاج ہوتی ہے اور اس کے بعد ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ انسان کا داخلی اصلاحی نظام متحرک ہوتا ہے۔ اب انسان کا واسطہ نئے علوم، نئی چیزوں اور اپنے گردوپیش سے پڑتا ہے۔ وہ نئے علوم حاصل کرتا ہے، نئی نئی چیزیں سیکھتا اور اس سب کے ساتھ وہ خود اپنی شخصیت سنوارتا رہتا ہے اور آپ اپنی کردار سازی کرتا رہتا ہے۔

ہمارے ہاں اس وقت تربیت کا سرے سے کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ نہ گھر میں۔ نہ اسکول و کالج میں، نہ کسی جامعہ و مدرسے میں اور نہ سماج میں ایسی کوئی تنظیم و سیاسی جماعت موجود ہے۔ کسی معاشرے میں تعلیم و تربیت کے یہی بنیادی مراکز و مراجع ہوا کرتے ہیں، جو معاشرے کو اچھے و باشعور افراد فراہم کرتے ہیں۔ یہ ان کی مجرد اخلاقی ذمے داری ہی نہیں بلکہ فرائض منصبی میں ایک جلی فرض ہے۔

ہمارے معاشرے میں ان مذکورہ بالا مراکز میں کسی بھی سطح پر اخلاقیات، آداب معاشرت و آداب اختلاف نہیں سکھائے جاتے۔ ایک معاشرے میں ہمارا کردار کیا ہو؟ ہم دوسرے افراد سے معاملات کیسے کریں؟ اختلافی مسائل میں ہمارا رویہ کیسا ہو؟ شخصی وقار کیا ہے اور کیسے بلند کیا جائے؟ ہمارے قول و فعل میں تضاد نہ ہو، وغیرہ، پر سرے سے توجہ ہی نہیں دی جاتی۔

اس پر مستزاد المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس وقت جو لوگ مصلحین و معلمین اور واعظین کے مناصب و مساند پر فائز ہیں، ان کی اکثریت خود اسی مذکورہ بالا صورت کے مراکز سے نکلے ہوئے لوگوں کی ہے۔ چنانچہ اخلاقی انحطاط اور انتہاپسندی ان کی نظر میں اتنا بڑا سماجی مسئلہ ہی نہیں ہے۔

انسان زندگی کے دوسرے مرحلے میں انسان کا باطنی اصلاحی نظام فعال و متحرک ہوتا ہے اور اب انسان خود آپ اپنا معلم و مصلح ہوتا ہے۔

اس داخلی خود اصلاحی نظام کے مختلف ذرائع ہیں۔ ان ذرائع میں ایک بنیادی اور پہلا ذریعہ انسان کا سماج کے ساتھ رابطہ ہے۔ انسان کا جب سماج کے ساتھ یا باالفاظ دیگر سماج کے افراد کے ساتھ رابطہ و اختلاط ہوتا ہے تو انسان مختلف افراد کے اطوار و عادات، ان کے سلیقے و طریقے اور ان کی شخصیت و کردار کو دیکھتا ہے تو ان سے اثر قبول کرتا ہے اور اس اثر کے نتیجے میں اس کی شخصیت میں ایک فطری تبدل رونما ہوتا ہے۔

لیکن جب پورا معاشرے کی ایک ہی ہیئت ہو یا پورا معاشرے ایک سانچے میں تیار ہوا ہو اور اکثریت ایک رجحان پر جامع ہوجائے تو انسان اپنے موجودہ رویے پر جاذم ہوجاتا اور اس کا ضمیر بھی اب اسے متنبع نہیں کرتا۔ انسانی ضمیر دراصل سماجی ضوابط اور رویات سے تخلیق پاتا ہے۔ سید ابوالاعلیٰ المودودی تشکیل ضمیر پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ضمیر انسان کی جماعت کے خیالات، عقائد اور رسوم سے پیدا ہوتا ہے۔ وہ مختلف فلاسفہ مثلاً بریڈلے، مل اور ہیگل وغیرہ کے حوالے کے بعد مزید لکھتے ہیں: پس معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا ضمیر اپنی قوم اور جماعت کے نظام اخلاق سے وابستہ ہوتا ہے۔

داخلی اصلاحی نظام کا دوسرا ذریعہ کتاب ہے۔ مختلف تفکرات و خیالات پر مبنی کتب نہ صرف انسانی علم میں اضافے کا سبب ہیں بلکہ انسان کے قلب و دماغ میں وسعت پیدا کرتی ہیں۔ کتب بینی کا ایک اضافہ فائدہ یہ کہ یہ انسان کی استدلالی قوت اور اس کے اسلوب ابلاغ کو ترقی دیتی ہیں۔

ہمارے ہاں کتب بینی اب عام رواج نہیں رہا اور اگر موجود بھی تو ہے عموماً اپنی فکر یا اپنے ہی مسلک و فرقے کی کتب تک محدود ہے۔ اس خلا کو سوشل میڈیا کچھ حد تک پُر کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن ہمارے غیر علمی رویے کی بدولت یہاں سے بھی اصلاح یا تربیت کا کوئی نمایاں کام نہیں ہوسکا۔ اس رویے نے ہمیں سوشل میڈیا پر بھی اپنے ہی حلقے تک محدود کردیا ہے۔ مستقلاً ہم خیال لوگوں کی صحبت نہ صرف مختلف آرا سے دور کردیتی ہے بلکہ انسان ستائش و تائید کا عادی ہوجاتا ہے، جس کے نتیجے میں انسانی رویے میں ایک طرح کی انتہا پسندی پیدا ہوجاتی ہے۔

اس مذکورہ بالا پورے عمل کے نتیجے میں جو فرد تیار ہوتا ہے اور جو معاشرہ وجود میں آتا ہے، انتہاپسندی اس کا فطری رویہ ہوتا ہے اور اس معاشرے کی بابت بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے۔ ''سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے''۔

اس رویے کے سدباب کےلیے اولاً تو ان مذکورہ بالا مراکز کو فعال و متحرک کرنے کی ضرورت ہے اور دوم ہر انسان کو چاہیے کہ وہ ہمہ وقت خود احتسابی کرتا رہے اور اپنے شخصیت کا موازانہ گرد و پیش کے افراد و احباب کے بجائے مسلمہ اخلاقی اصولوں سے کرتا رہے اور جو جہاں اسقام پائے ان کی اصلاح کرے۔ یہ خود احتسابی بجائے خود داخلی اصلاحی کا مستقل ذریعہ ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔