سندھ شہری و دیہی ہم آہنگی کی ضرورت

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ایک بار پھرکہا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی والے سندھ بھر کے ...


Editorial January 06, 2014
دیہی اورشہری علاقے تو پورے ملک میں ہیں لیکن کوٹاسسٹم صرف صوبہ سندھ ہی میں کیوں نافذ کیا گیا؟ الطاف حسین فوٹو: فائل

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ایک بار پھرکہا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی والے سندھ بھر کے عوام کو ایک نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے تو پھر بہتر یہ ہوگا کہ سندھ کو سندھ ہی رہنے دیں ، سندھی عوام کے لیے صوبہ سندھ ون اورجنھیں پیپلزپارٹی سندھی تسلیم نہیں کرتی ان کے لیے صوبہ سندھ ٹوبنا دے، یہ بات انھوں نے کراچی میںجلسہ عام سے ٹیلی فونک خطاب کرتے ہوئے کہی۔انھوں نے کہا کہ میں نے یہ ہرگز نہیں کہا تھا کہ سندھ کو تقسیم کردیجئے ، سندھ دھرتی اور دھرتی ماں ہے اور کوئی ماں کی تقسیم گوارا نہیںکرتا۔ الطاف حسین نے کہاکہ دیہی اورشہری علاقے تو پورے ملک میں ہیں لیکن کوٹاسسٹم صرف صوبہ سندھ ہی میں کیوں نافذ کیا گیا؟ بلاشبہ اپنے متن، وضاحت ، شکوے شکایات اور مطالبات کے حوالہ سے ان کی دوسری تقریر نسبتاً اہالیان سندھ کے لیے تالیف قلب اور خیرسگالی کی ایک ازالہ جاتی کوشش ہے جس پر اپنے جواب شکوہ میں بلاول بھٹو نے کہا کہ سندھ دھرتی ماں ہے،کوئی نمبر ون یا ٹو نہیں، وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ نے کہا کہ سندھ دھرتی 2 حصوں میں تقسیم نہیں ہوسکتی ، ہم سندھ کے عوام کی خدمت پر یقین رکھتے ہیں، تاہم یہ خوش آیند امر ہے کہ اس شعلہ نوائی کے فوری بعد ایم کیو ایم کا وفد قومی عوامی تحریک کے سربراہ ایاز لطیف پلیجو سے ملاقات کے لیے اتوارکو رات گئے پلیجو ہاؤس حیدرآباد پہنچا۔ وفد میں رابطہ کمیٹی کے ارکان کنور نوید جمیل ،وسیم اختر اور زبیر احمد خان اور سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم بھی شامل تھے۔

اس رابطہ کے باعث عوامی تحریک کے رہنما ایازپلیجو نے ہڑتال موخر کرنے پر رضامندی ظاہر کردی ۔ ادھر مسلم لیگ (ن) کے رہنما حمزہ شہباز نے کہا ہے کہ الطاف حسین کی باتوں سے پوری قوم کے دل دکھے ہیں، موجودہ حالات میں سندھ کی تقسیم کی باتیں ملکی سالمیت کے لیے مناسب نہیں، تاہم ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری کا استدلال ہے کہ اگر ہزارہ، سرائیکی اور بہاولپور صوبے کی بات ہو سکتی ہے توسندھ کی کیوں نہیں ہو سکتی، دریں اثنا پاکستان سنی تحریک کے سربراہ ثروت اعجازقادری نے نشتر پارک کے جلسہ میں کہا کہ ہم نیامشرقی پاکستان نہیں بننے دیں گے۔بہرکیف ایم کیو ایم کے قائد نے اپنے دوسرے خطاب میں سندھ کی تقسیم کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرکے دانش مندی اور قومی یک جہتی کا پیغام دیا ہے۔لیکن انھوں نے سندھ میں کوٹا سسٹم کا بطور خاص جو ذکرکیا ہے اس کی تاریخی تناطر میں مختصر سی وضاحت یہاں ناگزیر ہے۔حقیقت یہ ہے کہ کوٹا سسٹم 1890 ء سے امریکا جیسے ملک میں بھی رائج رہا،امیگریشن ایکٹ کے تحت ایشیائی اور یورپی تارکین وطن کا اس پر اطلاق ہوتا رہا، سندھ معاشی تضادات وشکایات کا ستم رسیدہ ہے۔

مگر آج مسئلہ بلدیاتی الیکشن کا انعقاد ہے لہٰذا کوٹا سسٹم کے بارے میں شہری علاقوں کی آبادی کو دورافتادہ غریب،و پسماندہ دیہی آبادی کی تعلیمی ، معاشی و سماجی ضروریات پر دردمندی سے سوچنا چاہیے، اسی طرح دیہی آبادی کو زندگی کی بہتر سہولتوں کی فراہمی کو مد نظر رکھتے ہوئے اکثریتی شہری علاقوں کی سرکاری ملازمتوں، سماجی مواقع اور دیگر معاشی شعبوں میں حق تلفی نہیں ہونی چاہیے۔ سماجی ہم آہنگی متوازن معاشرتی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ بھارت میں بھی کوٹا سسٹم ہے اگرچہ مراعات یافتہ طبقات کا اس کے خلاف احتجاج آج بھی جاری ہے مگر بھارت کے نوبیل انعام یافتہ اقتصادی ماہر امریتا سین کا کہنا ہے کہ کوٹا سسٹم مختلف پسماندہ و مراعات سے محروم برادریوں کے لیے خود انحصاری ، معاشی طاقت ،ترقی اورتعلیمی مواقع میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔بھارت میں کئی برسوں سے مسیحی اسکولوں کو کوٹا مل رہا ہے۔ہندوستان میں مقبوضہ کشمیر کے گجروں کوٹرائبل سٹیٹس دیا گیا پھر انھیں اسی سسٹم کے تحت زرعی اراضی اور سرکاری ملازمتں ملیں، یادو گروپ سمیت دلیت برادری کو بھی اس سے مناسب سہولتیں مہیا کی گئیں، وجہ مسابقت کے بجائے وہ پسماندگی و غربت تھی جو دیہی علاقوں میں برس ہا برس سے موجود ہے ، ایسی سہولتیں ملک بھر کے دور افتادہ علاقوں میں نہ ہونے کے برابر ہیں جو شہری علاقوں کو حاصل ہیں تاہم کوٹا سسٹم کو شہری علاقوں سے تناؤ اور حق تلفی کا جواز بھی نہیں بننا چاہیے بلکہ شہری و دیہی عوام کے درمیان ہر قسم کی سماجی اور معاشی تفریق کا خاتمہ ہی سندھ کے زخموں کا صحیح علاج ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔