ہجرت

سیاسی تاریخ اور تہذیب و ثقافت میں ہجرت ایک بابرکت اور مقدس لفظ اور عمل ہے۔ حضور پاکؐ نے۔۔۔


Abdul Qadir Hassan January 06, 2014
[email protected]

مسلمانوں کی سیاسی تاریخ اور تہذیب و ثقافت میں ہجرت ایک بابرکت اور مقدس لفظ اور عمل ہے۔ حضور پاکؐ نے مکہ سے ہجرت کے بعد ہی کھل کر اسلام کی تبلیغ شروع فرمائی، اسی ہجرت کی نسبت سے ہمارے ماہ و سال متعین ہوئے اور سنہ ہجری شروع ہوا۔ مسلمانوں نے ہجرت کو ہمیشہ ایک نیکی اور قربانی کا ذریعہ تصور کیا اور جب قیام پاکستان عمل میں آیا اور تبادلہ آبادی شروع ہوا تو لاکھوں مسلمانوں نے ہندوستان کی شہریت ترک کر کے نئے ملک پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ یہ ایک بے مثال قربانی تھی کہ یہ لوگ اپنے گھر بار کو ایک ایسے ملک کی شہریت پر قربان کر رہے تھے جس کے آئینی اور کتابی نقش و نگار تو موجود تھے مگر زمین پر اس کی تعمیر ابھی ہونی تھی۔ گویا یہ لوگ ایک نادیدہ محبوب کے وصال کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر رہے تھے۔کسی ان دیکھی منزل کی طرف رواں تھے، ان کے پاس ہجرت کے جذبے کی دولت کے سوا سفر کا اور کوئی سازو سامان نہیں تھا۔ یہ نہ صرف اپنا ماضی اور حال قربان کر کے آ رہے تھے بلکہ اس سفر میں ان کی زندگیاں بھی حقیقی خطرے میں تھیں اور ان کی ماؤں بہنوں کی عصمتیں بھی۔ آج بھارت میں کئی مسلمان عورتیں ہندوؤں سکھوں کی بیویاں اور مائیں بنی ہوئی تلخ ترین انسانی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ مسلمانوں نے وجود میں آنے والے ایک نئے مسلمان اور اپنے نئے ملک کی طرف ہجرت کی تھی۔

ان کی اس ہجرت کی ان لوگوں نے جی بھر کر جذبات انگیز حالت میں پذیرائی کی اور اپنے مہاجر بھائیوں کا کار ثواب سمجھ کر استقبال کیا۔ انھیں گلے لگایا ان کے ساتھ رشتے کیے اور انھیں اپنے اندر سمو لیا۔ مہاجروں کی منزل مقصود پاکستان تھی اس نئے ملک میں جہاں جس کا جی چاہا وہ وہیں آباد ہو گیا کہ سارا ملک ان کا تھا۔ لاہور شہر میں اس زمانے میں سب سے خوبصورت اور پوش آبادی ماڈل ٹاؤن تھی جو رئیس ہندوؤں اور سکھوں نے آباد کی تھی۔ اس میں کنالوں کے رقبے میں وسیع کوٹھیاں تھیں بنگلے تھے۔ ایک مستقل شہر تھا جس کی اپنی الگ ٹرانسپورٹ بھی تھی جو برائے نام کرائے پر لوگوں کو لاہور شہر لاتی لے جاتی تھی کیونکہ ماڈل ٹاؤن لاہور سے دور تھا اور مشینی سواری ہی کام کر سکتی تھی۔ وسیع و عریض رہائش گاہوں میں پہلے سے باغات موجود تھے۔

کھلی سڑکیں تھیں اور وسیع و عریض پارک تھے، آج بھی یہ سب کچھ موجود ہے مگر یہاں جو لوگ آباد ہیں یا آباد تھے کئی ایک گھروں کو فروخت بھی کر گئے وہ سب مہاجر تھے۔ اللہ جانتا ہے کسی مقامی نے ان کو کبھی اجنبی نہ سمجھا بلکہ ایک محبوب اور معزز مہمان کی عزت دی۔ لاہور میں ایک علاقہ کرشن نگر اور سنت نگر وغیرہ کا تھا جو یہ محلے ہندوؤں نے آباد کیے تھے یہاں بھی مہاجر آباد ہو گئے۔ غیر مسلموں کی دکانیں تھیں جو مہاجرین کو مل گئیں۔ مہاجرین صرف لاہور میں نہیں پنجاب کے دوسرے شہروں میں بھی آباد ہو گئے، تعجب ہے کہ ان دنوں زبان کی بات ہو رہی ہے تو ضمناً ذکر کر دوں کہ پنجاب میں والدین بچوں کے ساتھ اردو زبان میں بات کرتے ہیں اور اسے اپنی زبان کہلانے والے ناراض نہ ہوں۔ صحیح اور فصیح اردو پنجاب میں ہی بولی اور لکھی جاتی ہے جس پر ہمارے پنجابی زبان کے ادیب اور پنجابی کے سرپرست بہت جزبز بھی ہوتے ہیں۔کراچی والے تو اکثر دلی وغیرہ کی مقامی اردو بولتے ہیں جسے کئی ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔

بات مہاجرین کی آبادی کی ہو رہی تھی۔ آپ کو صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی مہاجرین ملتے ہیں، بلوچستان میں بھی اور خصوصاً سندھ میں بھی جہاں ان کا کھلے ہاتھوں اور کھلے دل کے ساتھ استقبال کیا گیا اور انصار مدینہ کی روایت زندہ کی گئی۔ اس سے بڑی کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ اہل سندھ کی قربانیوں کو نظر انداز کردیا جائے۔ کراچی تب دارالحکومت تھا اور واحد بندر گاہ تھی۔ ایسے شہر میں کاروبار وغیرہ کے مواقع اور عام خوشحال زندگی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ پھر ان دنوں ایک اردو بولنے والے وزیراعظم تھے جن کے ذہن میں صرف پاکستان تھا، زبان و نسل ہر گز نہیں تھی۔ یہ شہر کھوکھرا پار کے بارڈر کے قریب تھا اور بھی ایسی کئی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے مہاجرین کی زیادہ آبادی کراچی میں آباد ہو گئی اور ان کی اکثریت اردو زبان بولنے والی تھی لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہاں زبان کی بنیاد پر کوئی تحریک بھی پیدا ہو گی۔

اس شہر میں ملک کے ہر حصے کے لوگ آباد ہیں اور خاصی بڑی تعداد میں ہیں۔ کراچی میں روز گار اور کاروبار کے امکانات زیادہ ہونے کی وجہ سے پورے ملک کے ضرورت مند اس شہر میں آنے لگے اور اسے منی پاکستان یعنی چھوٹا پاکستان کہا جانے لگا کیونکہ اس شہر میں ملک کے ہر علاقے نسل اور زبان کے لوگ آباد ہو گئے تھے۔ کراچی کسی زبان کا نہیں، پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ الطاف صاحب پر لندن کے قیام اور برطانیہ کی شہریت نے جو انکشاف کیے ہیں، وہ کراچی میں ان پر ایسی شدت سے وارد نہیں ہوتے تھے کہ وہ اس پاکستان سے ہی بیزار ہو جائیں جس نے ان کو شناخت دی ۔ وہ جاگیرداروں کے خلاف ہیں جن کا پورا ملک خلاف ہے لیکن وہ کبھی اپنی لندن زندگی پر غور فرمائیں، وہ جس شان سے لندن میں مقیم ہیں، اس سے کون واقف نہیں۔ بہر کیف تاریخ یہ بتاتی ہے کہ پاکستان میں پہلے سے موجود لوگوں نے انصار مدینہ کی روایت کو آگے بڑھا کر اپنے مہاجر بھائیوں کا استقبال کیا۔ آج اگر کوئی مہاجر اس سب سے مکرتا ہے نہیں مانتا ہے تو اس کی مرضی ۔ مہاجر بھائیوں سے عرض ہے کہ وہ ہجرت کو داغدار نہ کریں اور حالات اور عواقب پر ذرا ٹھنڈے دماغ سے غور کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔