سوال یہ ہے کہ
ان دنوں ہر ٹاک شو اور مضمون میں کچھ سوالات تواتر سے اٹھائے جارہے ہیں۔چونکہ ہر شخص اس سوالیہ جوابیہ دوڑ۔۔۔
( ان دنوں ہر ٹاک شو اور مضمون میں کچھ سوالات تواتر سے اٹھائے جارہے ہیں۔چونکہ ہر شخص اس سوالیہ جوابیہ دوڑ میں کود پڑا ہے لہذا میں نے بھی سوچا کہ جب ناظرین و قارئین اتنی اذیت جھیل رہے ہیں تو ایک اذیت میری طرف سے بھی سہی۔۔۔)۔
سوال۔ بارہ اکتوبر ننانوے کو منتخب حکومت کا تختہ الٹ کر آئین کو معطل کرنے کے پہلے بنیادی جرم کے بجائے مشرف کو تین نومبر دو ہزار سات کی ایمرجنسی نافذ کرکے آئین کو دوسری بار معطل کرنے کے جرم میں کیوں گھسیٹا جارہا ہے ؟
جواب۔ایک بزرگ جب بھی مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تو ایک شریر لڑکا کہیں سے نمودار ہو جاتا اور جیسے ہی بزرگ سجدے میں جاتے تو وہ لڑکا سر پہ ٹھونگا مار کے یا گدگدی کرکے بھاگ جاتا۔بزرگ سلام پھیر کر اسے ڈھونڈتے اور سر پر ہاتھ پھیر کر ایک چونی دے دیتے۔لڑکے نے جب جب یہ حرکت کی، بزرگ اسے چونی دیتے گئے۔لڑکے کو گمان ہوا کہ یہ تو بہت ہی اچھا کام ہے جس میں پیسے بھی ملتے ہیں۔ایک دن لڑکا مسجد میں گیا تو بزرگ کو غائب پایا۔ ان کی جگہ کوئی اور صاحب سجدے میں تھے۔لڑکے نے جیسے ہی ان کے سر پہ ٹھونگا مارا تو ان صاحب نے نیت توڑ کر شریر لونڈے کی وہ دھنائی کی کہ پھر وہ کبھی مسجد میں نظر نہیں آیا۔
اگر یہ مثال ثقیل ہے تو دوسری مثال پیش کیے دیتا ہوں۔ڈاکٹر شکیل آفریدی کو تو آپ سب جانتے ہی ہوں گے۔اسے بنیادی طور پر اس لیے حراست میں لیا گیا تھا کہ اس نے ایک جعلی ویکسی نیشن مہم کے پردے میں اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں امریکیوں کی مدد کی تھی۔لیکن مقدمہ اس فردِ جرم میں چلایا گیا کہ وہ خیبر ایجنسی میں متحرک ایک گروہ انصار الاسلام کا حامی ہے اور دوسرا مقدمہ یہ بنایا گیا کہ آٹھ نو سال پہلے اس کے زیرِ علاج کوئی مریض اس کی غفلت سے جاں بحق ہوگیا تھا۔چنانچہ شکیل آفریدی کو ایف سی آر (فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز ) کے تحت تینتیس برس قید کی سزا سنادی گئی۔جب کہ ایبٹ آباد میں جعلی ویکسی نیشن مہم چلانے کے جرم میں اسے پاکستان کے مروجہ فوجداری قوانین کے تحت کوئی سزا نہیں دی گئی۔پھر بھی شکیل آفریدی کے لیے یہاں سے وہاں تک کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ اس کا اصل جرم ( اگر یہ واقعی جرم تھا ) کیوں نظرانداز کردیا گیا۔
اگریہ مثال ناکافی ہے تو ایک اور پیشِ خدمت ہے۔ صدام حسین نے اپنے پچیس سالہ دورِ صدارت میں انسانیت کے خلاف کئی جرائم کیے۔ایران پر تھوپی جنگ میں دو لاکھ سے زائد عراقی باشندے ہلاک ہوئے۔کویت پر فوج کشی کے دوران ہزاروں عراقی اور کویتی شہری مارے گئے۔کردوں کے خلاف فوج کشی میں لاکھوں کرد بے گھر ہوئے۔ سب سے سنگین جرم حلب جاہ میں زہریلی گیس استعمال کرکے پانچ ہزار کے لگ بھگ عراقی کرد شہریوں کی ہلاکت تھا۔تمام وارداتوں کے سب ثبوت اظہر من الشمس تھے لیکن صدام حسین کو جو سزائے موت سنائی گئی وہ انیس سو نوے میں جنوبی عراق میں ایک سو ستاسی عراقی شیعہ باشندوں کے قتل کا حکم دینے کے جرم میں سنائی گئی۔۔۔۔۔
حسنی مبارک کے تیس سالہ دورِ صدارت میں سیاسی مخالفین کے ساتھ کیا کیا نہیں ہوا۔لیکن سزائے قید فروری دو ہزار گیارہ کے ایک مقدمے میں سنائی گئی جس میں پولیس نے مبارک مخالف جلوس پر گولی چلا کے کچھ مظاہرین ہلاک کردیے تھے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مکافاتِ عمل کبھی ترتیب وار نہیں ہوتا،کوئی بھی ایک واقعہ مکافاتِ عمل ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں جو بھی سزا و جزا ملتی ہے اس میں اگلے پچھلے تمام کردہ ناکردہ جرائم کا حساب خودکار انداز میں ہو جاتا ہے۔اگر مکافاتِ عمل کا قانون ترتیب وار نافذ ہو تو پھر تو تمام جرائم کی ترتیب وار سزا و جزا کے فیصلے میں کم ازکم دو سو سے تین سو برس لگیں گے۔
سوال۔ جو کچھ بھی کیا پرویز مشرف نے اکیلے تو نہیں کیا۔ان کے باقی فوجی و غیر فوجی ساتھیوں اور مددگاروں کو کیوں غداری و بغاوت کی فردِ جرم سے باہر رکھا جارہا ہے ؟
جواب۔ اعتراض بالکل درست ہے۔لیکن اگر ایسا نہیں ہو رہا تو اس سے مرکزی ملزم کی صحتِ الزام پر کیا اثر پڑتا ہے۔کیا یہ ممکن تھا کہ ایوب خان کی مرضی کے بغیر اسکندر مرزا ملک میں پہلا مارشل لا لگا سکتے یا ایوب خان کی اجازت کے بغیر جنرل برکی ، جنرل اعظم اور جنرل کے ایم شیخ اسکندر مرزا کی کنپٹی پر پستول رکھ کے استعفیٰ پر دستخط کرالیتے۔
یحییٰ خان یہ بھی تو کرسکتا تھا کہ ایوب خان کی جانب سے اقتدار دینے کی پیش کش کو شکریے کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے کہتا کہ جناب آپ اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کے تحت اقتدار قومی اسمبلی کے اسپیکر کے حوالے کیجیے۔تاکہ وہ انتخابات کا انتظام کرسکیں اور فوج اس کام میں قائم مقام صدر کا بھرپور ساتھ دے گی۔
اگر ضیا الحق ٹیک اوور کا فیصلہ نہ کرتا تو کیا تب بھی جنرل چشتی ٹرپل ون بریگیڈ ایوانِ وزیرِ اعظم کی طرف روانہ کردیتے ؟؟
اگر جنرل پرویز مشرف طیارے سے اترنے کے بعد صدر رفیق تارڑ سے کہتے کہ موجودہ غیر معمولی حالات میں ضروری ہے کہ ایک نگران یا عبوری حکومت تشکیل دے کر انتخابات کروائے جائیں کیونکہ فوج نہیں چاہتی کہ ایک وزیرِاعظم کی نادانی کے سبب جمہوریت ڈی ریل ہوجائے تو کیا رفیق تارڑ کے پاس انکار کی گنجائش ہوتی ؟
اگر آئین کے آرٹیکل چھ کو صرف ماورائے آئین اقدام کے ذریعے حکومت پر قبضے کے کلیدی ملزم پر لاگو کیا جائے تو کیا یہ آیندہ کے ممکنہ کلیدی ملزم کے لیے تنبیہہ نہیں ہوگی ؟ چونکہ آج تک یہ آرٹیکل کسی پر لاگو ہی نہیں کیا گیا لہذا کلیدی ملزم کے عسکری ، سیاسی و عدالتی معاونین بھی اطمینان کے ساتھ قانونی و غیر قانونی احکامات کی بحث میں پڑے بغیر ان پر عمل کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں بے فکری کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اب اگر پہلی بار کسی کلیدی ملزم کو سزا ہوجاتی ہے تو کیا آیندہ کوئی جج ، سیاستداں ، بیوروکریٹ یا جنرل اسی بے فکری کے ساتھ کلیدی ملزم کے تمام احکامات بجا لائے گا جیسا کہ اب تک ہوتا آیا ہے ؟؟؟
سوال۔کیا اس سے فوج ناراض نہیں ہوجائے گی ؟
جواب۔آج تک پاکستان میں جتنی مرتبہ فوج نے ٹیک اوور کیا۔اس کے اسباب کا اگر جائزہ لیا جائے تو سوائے جنرل مشرف کے بارہ اکتوبر کے ٹیک اوور کے اور کوئی مثال ایسی نہیں ملتی کہ فوج نے فوری ناراضی کے تحت کسی سویلین حکومت کا تختہ الٹ دیا ہو۔
ایوب خان نے چار مہینے تک ٹیک اوور کی تیاری کی تھی اور صدرِ مملکت اور امریکا کو اعتماد میں لے کے یہ کام کیا تھا۔
یحییٰ خان نے ایوب خان کی مرضی سے ٹیک اوور کیا۔
ضیا الحق نے جب ٹیک اوور کیا تو اس وقت حکمران پیپلز پارٹی اور پی این اے میں سمجھوتہ ہوچکا تھا۔بھٹو صاحب نے بھی اسی خدشے کے پیشِ نظر حمود الرحمان کمیشن کی سفارشات کے باوجود یحییٰ جنتا کا کورٹ مارشل نہیں کیا کہ فوج ناراض ہوجائے گی۔لیکن انھیں اس کا کیا پھل ملا ؟
فرض کریں فوج ناراض ہوجاتی ہے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا ؟ ایک اور ٹیک اوور ؟ لیکن دہشت گردی کے عفریت سے نبرد آزما فوج کیا یہ چاہے گی کہ وہ ایک ایسے ریٹائرڈ جنرل کے لیے ایک اور خاردار ذمے داری اپنے گلے میں ڈال لے جس کے ہوتے ہوئے دھشت گردی کا پودا ایک شجرِ سایہ دار میں بدل کر آج کی فوج کے لیے سب سے بڑا بقائی مسئلہ بن چکا ہے۔یقیناً وکلائے صفائی یہی چاہیں گے کہ فوج کی تصوراتی ناراضی کا خوف اپنے حق میں استعمال کرسکیں لیکن کیا واقعی فوجی قیادت کسی جذباتی ردِ عمل کا مظاہرہ کرے گی ؟ فوج کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے بھرپور سیاسی حمایت کی اشد ضرورت ہے۔کیا کسی مہم جویانہ جذباتی ردِ عمل کی صورت میں اسے یہ ضروری حمایت میسر رہے گی ؟ فوج غیر ملکی امداد کے آکسیجن ٹینٹ میں پڑی بیمار معیشت سنبھالے گی یا فاٹا ، بلوچستان اور افغانستان کے ممکنہ فال آؤٹ کو دیکھے گی ؟ کیا پرویز مشرف پر آرٹیکل چھ کے تحت فردِ جرم لاگو کرنے سے پہلے شریف حکومت نے فوجی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا ہوگا۔فرض کریں کہ مقدمے کے نتیجے میں کوئی سزا سنائی جاتی ہے تو ضروری تو نہیں کہ اس سزا پر عمل درآمد بھی ہو۔جیسے نواز شریف کو صدارتی معافی دے کر باہر بھیج دیا گیا تھا اسی طرح دوبارہ بھی تو ہوسکتا ہے۔ہوسکتا ہے کہ فوجی قیادت کو اشارتاً بتایا گیا ہو کہ اس مقدمے کا بنیادی مقصد سزا و جزا سے زیادہ یہ اصول طے کرانا ہے کہ آرٹیکل چھ عملاً لاگو ہوسکتا ہے۔تاکہ یہ علامت آیندہ کے مہم جوؤوں کے پیشِ نظر رہے۔
تو کیا فوج ایک ریٹائرڈ سیاسی جنرل کے لیے کوئی ایڈونچر کرے گی جس کے خلاف کئی ریٹائرڈ جنرل سڑک پر آکے ماضیِ قریب میں مظاہروں میں شریک رہے ہیں ؟
سوال۔ ایک ایسے وقت جب ملک کو امن و امان ، معیشت ، بھارت میں نریندر مودی کی ممکنہ حکومت، سعودی ایران کش مکش اور افغانستان سے ناٹو افواج کے انخلا سمیت ہر طرح کے سنگین مسائل درپیش ہیں، ایسے ماحول میں آرٹیکل چھ کے تحت مشرف پر مقدمہ چلانا کتنا سنجیدہ قومی مسئلہ ہے ؟
جواب۔پاکستان اپنی سڑسٹھ سالہ زندگی میں کب نازک دوراہے پر نہیں کھڑا تھا ؟ کیا سڑسٹھ برس میں بھی اس کا سوئٹزرلینڈ بننے کا کوئی امکان نہیں جب تک یہ طے نہیں ہوجاتا کہ یہ ملک کس نظام اور کس کی خواہشات تحت چلے گا ؟ مریض جب دوا لینا شروع کرتا ہے تو بہتر ہونے سے پہلے طبیعت میں کئی اتار چڑھاؤ آتے ہیں۔ کوئی دوا موثر ہوتی ہے تو کسی دوا کا ری ایکشن بھی ہوتا ہے۔تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ گھبرا کے دوا ہی نہ دی جائے۔یا آپ پہلے انتظار کیا جائے کہ ذرا مریض کی حالت سنبھل جائے تب علاج شروع کریں۔۔۔۔۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے )