بے نظیر سے بلاول تک
پیپلز پارٹی کے لیے 4 اپریل اور 27 دسمبر دونوں ہی بڑے دن ہیں۔ کل بینظیر تھیں جو اپنے والد کو یاد کرتی تھیں۔۔۔
پیپلز پارٹی کے لیے 4 اپریل اور 27 دسمبر دونوں ہی بڑے دن ہیں۔ کل بینظیر تھیں جو اپنے والد کو یاد کرتی تھیں تو آج بلاول بھٹو ہے جو اپنی ماں کے سرہانے کھڑا ہوکر وہ عزم دہراتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ خاندان بڑے نشیب و فراز سے گزرا مگر اب بدلتے حالات کے ساتھ اپنی بقا کے لیے بدلتے انداز بھی اپنا رہا ہے۔ بلاول بھٹو کی تقریر اب 27 دسمبر پر ہر سال ہونے والی اس تقریب کا بڑا خطاب ہے۔ پچھلے سال خانہ کعبہ کے کفیل اس پنڈال میں بیٹھے تھے اور بلاول نے نعرہ تکبیر کے نعرے بھی لگائے۔ اب بلاول سعودی عرب سے محبت کے حوالے سے دور نظر آئے اور طالبان پر سب سے واضح موقف بھی اپنایا مگر جو خاص محاورہ انھوں نے متعارف کروایا وہ تھا ''پنجابی اسٹیبلشمنٹ'' کا جنھوں نے ان کو سراہا ورنہ کیا وجہ تھی کہ اس کارکردگی پر جو انھوں نے سندھ میں بھی روا رکھی وہ پنجاب میں ان کو نہ جتوا سکی، بقول ان کے۔اس سے پہلے محترمہ بینظیر نے ایک اصطلاح متعارف کروائی تھی۔ ''لاہور کے وزیر اعظم اور لاڑکانہ کے وزیر اعظم میں فرق کیوں؟'' دراصل بلاول کی اصطلاح کو ہم اسی بینظیر کی اصطلاح کی نئی شکل کہیں تو بہتر ہوگا۔
بینظیر کی اس اصطلاح کا اپنا ایک حوالہ تھا اور بلاول کی اصطلاح کا اپنا حوالہ ہے۔ میرے خیال میں اس اصطلاح کو پورا پنجابی Baised نہ سمجھا جائے بلکہ اس سے بلاول کی مراد یہ ہے کہ جو پنجاب سے اسٹیبلشمنٹ میں ہیں اور دائیں بازو کی سوچ رکھتے ہیں وہ ان کی پارٹی کے مخالف ہیں۔ کسی زمانے میں، میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو اسی زاویے سے دیکھتا تھا۔ بھلا کیا وجہ تھی کہ سپریم کورٹ میں چاروں ججز جنھوں نے بھٹو کی پھانسی برقرار رکھی وہ پنجاب سے تھے اور جنھوں نے اس قانونی نقطے کو مختلف انداز میں دیکھا وہ چھوٹے صوبوں سے تھے۔ یہ محض اتفاق ہے اور اگر نہیں بھی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب میں Conservative سوچ دوسرے صوبوں سے کچھ زیادہ ہے۔ بھٹو صاحب تو اسی سوچ کو ساتھ لے کر چلے گئے مگر بے نظیر صاحبہ کے خلاف عورت ہونے کے ناتے وزیراعظم نہ بننے کی سوچ اور ضیا الحق و نواز شریف نے اقتداری حلقوں میں اپنا اچھا اثر و رسوخ پیدا کیا۔یوں لگتا ہے کہ بلاول کی قیادت میں آنیوالی پیپلز پارٹی یا خود موجودہ پیپلز پارٹی اس حقیقت کو اب شدت سے مان چکی ہے کہ شاید اب پنجاب میں نہ صرف مضبوط ہونا ممکن نہیں بلکہ اس طرح جیتنا بھی ماضی ہوچکا جیسے وہ 2008 کے الیکشن میں جیتے تھے۔ تو کیا وہ آہستہ آہستہ سندھ کی عوامی نیشنل پارٹی بنتی جا رہی ہے؟ اس کے لیے عرض یہ ہے کہ پارٹی سندھ کی قوم پرست جماعتوں سے اب بھی کٹی ہوئی ہے نہ اس کے لیڈر میں مڈل کلاس حصہ رہا ہے۔
زرداری صاحب کے زمانے میں پارٹی سندھ کے زراعتی شرفا کا مجموعہ بن کے رہ گئی ہے اور ان سب کو اقتدار چاہیے اور زرداری صاحب جب بھی اقتدار کے برآمدے سے دور ہوئے، یہ شرفا ذرا بھی دیر نہیں کریں گے ان کو الوداع کہتے ہوئے۔ اور اس بات سے وہ بخوبی واقف ہیں۔اب پنجابی طالبان ہوں یا پنجابی اسٹیبلشمنٹ جیسی اصطلاحیں۔ تو اس حوالے سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جیسے ساس بھی کبھی بہو تھی۔ پیپلز پارٹی اصولی طور پر تاریخی اعتبار سے پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی نمایندہ جماعت رہی ہے۔ یہ ایسے تو نہیں تھا کہ انھوں نے یحییٰ خان کے فوجی آپریشن کی حمایت کی۔ بلوچوں پر آپریشن کیا۔ NAP پر پابندی لگوائی۔ ہاں لیکن پھر اسی اسٹیبلشمنٹ نے ان سے جان چھڑوائی، بھٹو کو پھانسی ہوئی اور آگے جاکر بینظیر بھی ہلاک کی گئیں۔اگلے الیکشن آنے تک بہت ساری سیاسی پارٹیاں اپنی ماہیت میں اپنے منشور میں جدت لائیں گی۔میں نے ایک انٹرویو غلام مصطفیٰ جتوئی کا بھی کیا تھا۔
انھوں نے کہا کہ نگراں وزیراعظم ہوتے ہوئے کسی سفارتخانے میں تقریب کے دوران کسی اعلی عہدیدار کو صحافیوں کو کہتے ہوئے سنا کہ ''اب وزیراعظم پنجاب سے ہوگا''۔ میرے خیال میں بمع ذوالفقار علی بھٹو جو بھی وزیراعظم بنے وہ پنجاب کی طاقت پر بنے اور بالآخر یہ احساس پنجاب میں شدید تیزی سے ابھرا کہ کیا وہ ساری زندگی دوسرے صوبوں کے لوگوں کو وزیراعظم بناتے رہیں گے۔ کیا کبھی کوئی پنجابی وزیراعظم نہیں بنے گا؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کا جب بھی ذکر ہوا تو لاشعور میں یہ سوال سب کے ذہن میں ابھرتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ معنی پنجاب کی اصل طاقت اور چونکہ وزیراعظم عوام کے ووٹ کے ذریعے بنا تھا اور وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی کسی وقت بھی اس اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے ٹکر میں آ جاتا تھا تو وہ اپنی کرسی کھو بیٹھتا تھا پھر یہ بھی ہوا کہ جب پنجاب کا وزیراعظم ہوا تو اس کو مٹانا اسٹیبلشمنٹ کے لیے آسان نہیں تھا اور اس طرح خود اسٹیبلشمنٹ میں بٹوارہ ہوجاتا تھا۔
مشرف کو کسی اور نے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے نے نکال کر باہر کردیا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ایک طرف جمہوری قوتوں کے ساتھ یا عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو وہ لال مسجد کے لوگوں و طالبان وغیرہ کے لیے بہت نرم گوشہ بھی رکھتا تھا اور پھر اسی مجموعی سوچ کے ساتھ جب بینظیر آئیں تو انھیں بھی ہٹانے کے بارے میں سوچا جانے لگا۔ یہ وہ سوچ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ پنجاب سے کسی جمہوری آدمی کا منتخب ہونا خود جمہوریت کو مضبوط کرتا ہے اور اس کلاسیکل اسٹیبلشمنٹ کے ستونوں کو کمزور کرتا ہے۔یہاں خود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پنجاب سے جمہوری قوتوں کا پھل پھول جانا فطری ہے یا غیر فطری؟ میرے خیال میں قدرے غیر فطری ہے۔ بینظیر کسی قوت کی سفارش سے اقتدار میں نہیں آئیں ۔ پاکستان کی موجودہ سیاست سوائے کراچی کے شمالی بلوچستان کے پختونخوا کے کسی بھی مڈل کلاس سیاست میں نہیں ہیں جس طرح وہ ہندوستان میں ہے بنگلہ دیش میں ہے اور یورپ و امریکا میں تو یہ ہی ہے۔
اس ملک میں وہ شرفا سیاست میں ہیں اور ان کی اجارہ داری ہے جن کو انگریز سامراج نے جاگیروں سے نوازا تھا یا جو یہاں جاگیرداری متعارف کروائی تھی۔ باقی بیچاری چھوٹی موٹی مڈل کلاس والی اقتداری سیاست بھی ان کے پیچھے چل پڑی ہے۔ہندوستان کی جمہوریت یوں لگتا ہے اب نئے فیز میں داخل ہو رہی ہے۔ دہلی کے اندر عام آدمی پارٹی نے حکومت بناکر ایک نئی کھڑکی کھول دی ہے۔ وہ اگر کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کا مثبت اثر ہم پر بھی پڑیگا۔ہمیں اس ''پنجابی اسٹیبلشمنٹ'' کو سمجھنے کے لیے اور پیچھے جانا پڑیگا۔ جب ایک مہاجر اسٹیبلشمنٹ بھی ہوا کرتی تھی جس سے بنگالی قیادت شہید سہروردی و شیخ مجیب یا یوں کہیں کہ ایسٹ پاکستان کی سنجیدہ مڈل کلاس متصادم تھی۔ ان کو جمہوریت میں فائدہ تھا اور مہاجر اسٹیبلشمنٹ کی جمہوریت میں نقصان۔
ڈر وہ بنگالی طاقت سے رہے تھے مگر ان کو آہستہ آہستہ پنجاب کے اندر اسٹیبلشمنٹ کے دھڑوں نے شکست دی۔ شیخ مجیب نے تو اپنی سوانح حیات میں بہت ٹھوس انداز میں اس ڈولتے موسموں کے منظر کو رقم کیا ہے۔ میر غوث بخش بزنجو نے بھی اپنی سوانح حیات میں اسی انداز سے اس ماجرے کو بیان کیا ہے اور پھر یوں ہوا کہ قیادت تو اسٹیبلشمنٹ کی پنجاب کے پاس گئی پھر امریکا نے بھی اپنے مفادات کے لیے مضبوط قیادت چاہی تو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی۔ اس میں مہاجر دھڑا جو اسٹیبلشمنٹ کے اندر موجود تھا اس نے پنجاب کے دھڑے کی قیادت مان لی اور بالآخر یہ چوہے اور بلی کا کھیل 1971 کو اختتام کو پہنچامگر سب سے بڑا بچکانہ کام تب ہوا جب جنرل ضیا الحق اور خود امریکا سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے مذہب کو بیچ میں لائے۔ اور پھر ہم مجاہدین کو اپنا اثاثہ سمجھتے رہے۔تزویراتی گہرائی Strategic Depth وغیرہ جیسی پالیسیاں آئیں۔ اور پھر آج وہ مجاہد والا کام یا ان کے ساتھ اتحاد وغیرہ فوج چھوڑ چکی اور اس حوالے سے حکومت سے بھی زیادہ واضح موقف رکھتی ہے۔ مگر وہ اسٹیبلشمنٹ جس کی طرف بلاول کا اشارہ ہے وہ ابھی تک اس حوالے سے اتنی واضح نہیں ہے۔ مگر وہ لوگ جن کا اشارہ بلاول کی تقریر سے ملتا ہے، ضیاء الحق اور اس کی فکر سے جان چھڑاتے ہوئے نظر نہیں آتے۔
لیکن ملک کو سیاسی استحکام ڈلیور کرنے کے حوالے سے بہت جگہوں پر واضح بھی نظر آتے ہیں۔ ڈرون پر بھی اب یہ موقف لے لیا کہ ان کے خلاف زیادہ بولنے سے ہمیں دنیا میں اکیلے ہونے کے خدشات ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ دوستی کرنے میں بھی واضح موقف رکھتے ہیں۔بلاول کی بات میں کچھ غیر سنجیدگی اس حوالے سے بھی ہے کہ وہ عمران خان کو اس زمرے میں نہیں لاتے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ آج ضیا الحق والے پرانے دوستوں کی وکالت، شریف برادران سے بھی زیادہ کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے لیے 4 اپریل اور 27 دسمبر دونوں ہی بڑے دن ہیں۔ کل بینظیر تھیں جو اپنے والد کو یاد کرتی تھیں تو آج بلاول بھٹو ہے جو اپنی ماں کے سرہانے کھڑا ہوکر وہ عزم دہراتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا یہ خاندان بڑے نشیب و فراز سے گزرا مگر اب بدلتے حالات کے ساتھ اپنی بقا کے لیے بدلتے انداز بھی اپنا رہا ہے۔ بلاول بھٹو کی تقریر اب 27 دسمبر پر ہر سال ہونے والی اس تقریب کا بڑا خطاب ہے۔ پچھلے سال خانہ کعبہ کے کفیل اس پنڈال میں بیٹھے تھے اور بلاول نے نعرہ تکبیر کے نعرے بھی لگائے۔ اب بلاول سعودی عرب سے محبت کے حوالے سے دور نظر آئے اور طالبان پر سب سے واضح موقف بھی اپنایا مگر جو خاص محاورہ انھوں نے متعارف کروایا وہ تھا ''پنجابی اسٹیبلشمنٹ'' کا جنھوں نے ان کو سراہا ورنہ کیا وجہ تھی کہ اس کارکردگی پر جو انھوں نے سندھ میں بھی روا رکھی وہ پنجاب میں ان کو نہ جتوا سکی، بقول ان کے۔اس سے پہلے محترمہ بینظیر نے ایک اصطلاح متعارف کروائی تھی۔ ''لاہور کے وزیر اعظم اور لاڑکانہ کے وزیر اعظم میں فرق کیوں؟'' دراصل بلاول کی اصطلاح کو ہم اسی بینظیر کی اصطلاح کی نئی شکل کہیں تو بہتر ہوگا۔
بینظیر کی اس اصطلاح کا اپنا ایک حوالہ تھا اور بلاول کی اصطلاح کا اپنا حوالہ ہے۔ میرے خیال میں اس اصطلاح کو پورا پنجابی Baised نہ سمجھا جائے بلکہ اس سے بلاول کی مراد یہ ہے کہ جو پنجاب سے اسٹیبلشمنٹ میں ہیں اور دائیں بازو کی سوچ رکھتے ہیں وہ ان کی پارٹی کے مخالف ہیں۔ کسی زمانے میں، میں بھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو اسی زاویے سے دیکھتا تھا۔ بھلا کیا وجہ تھی کہ سپریم کورٹ میں چاروں ججز جنھوں نے بھٹو کی پھانسی برقرار رکھی وہ پنجاب سے تھے اور جنھوں نے اس قانونی نقطے کو مختلف انداز میں دیکھا وہ چھوٹے صوبوں سے تھے۔ یہ محض اتفاق ہے اور اگر نہیں بھی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پنجاب میں Conservative سوچ دوسرے صوبوں سے کچھ زیادہ ہے۔ بھٹو صاحب تو اسی سوچ کو ساتھ لے کر چلے گئے مگر بے نظیر صاحبہ کے خلاف عورت ہونے کے ناتے وزیراعظم نہ بننے کی سوچ اور ضیا الحق و نواز شریف نے اقتداری حلقوں میں اپنا اچھا اثر و رسوخ پیدا کیا۔یوں لگتا ہے کہ بلاول کی قیادت میں آنیوالی پیپلز پارٹی یا خود موجودہ پیپلز پارٹی اس حقیقت کو اب شدت سے مان چکی ہے کہ شاید اب پنجاب میں نہ صرف مضبوط ہونا ممکن نہیں بلکہ اس طرح جیتنا بھی ماضی ہوچکا جیسے وہ 2008 کے الیکشن میں جیتے تھے۔ تو کیا وہ آہستہ آہستہ سندھ کی عوامی نیشنل پارٹی بنتی جا رہی ہے؟ اس کے لیے عرض یہ ہے کہ پارٹی سندھ کی قوم پرست جماعتوں سے اب بھی کٹی ہوئی ہے نہ اس کے لیڈر میں مڈل کلاس حصہ رہا ہے۔
زرداری صاحب کے زمانے میں پارٹی سندھ کے زراعتی شرفا کا مجموعہ بن کے رہ گئی ہے اور ان سب کو اقتدار چاہیے اور زرداری صاحب جب بھی اقتدار کے برآمدے سے دور ہوئے، یہ شرفا ذرا بھی دیر نہیں کریں گے ان کو الوداع کہتے ہوئے۔ اور اس بات سے وہ بخوبی واقف ہیں۔اب پنجابی طالبان ہوں یا پنجابی اسٹیبلشمنٹ جیسی اصطلاحیں۔ تو اس حوالے سے یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ جیسے ساس بھی کبھی بہو تھی۔ پیپلز پارٹی اصولی طور پر تاریخی اعتبار سے پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی نمایندہ جماعت رہی ہے۔ یہ ایسے تو نہیں تھا کہ انھوں نے یحییٰ خان کے فوجی آپریشن کی حمایت کی۔ بلوچوں پر آپریشن کیا۔ NAP پر پابندی لگوائی۔ ہاں لیکن پھر اسی اسٹیبلشمنٹ نے ان سے جان چھڑوائی، بھٹو کو پھانسی ہوئی اور آگے جاکر بینظیر بھی ہلاک کی گئیں۔اگلے الیکشن آنے تک بہت ساری سیاسی پارٹیاں اپنی ماہیت میں اپنے منشور میں جدت لائیں گی۔میں نے ایک انٹرویو غلام مصطفیٰ جتوئی کا بھی کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ نگراں وزیراعظم ہوتے ہوئے کسی سفارتخانے میں تقریب کے دوران کسی اعلی عہدیدار کو صحافیوں کو کہتے ہوئے سنا کہ ''اب وزیراعظم پنجاب سے ہوگا''۔ میرے خیال میں بمع ذوالفقار علی بھٹو جو بھی وزیراعظم بنے وہ پنجاب کی طاقت پر بنے اور بالآخر یہ احساس پنجاب میں شدید تیزی سے ابھرا کہ کیا وہ ساری زندگی دوسرے صوبوں کے لوگوں کو وزیراعظم بناتے رہیں گے۔
کیا کبھی کوئی پنجابی وزیراعظم نہیں بنے گا؟ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسٹیبلشمنٹ کا جب بھی ذکر ہوا تو لاشعور میں یہ سوال سب کے ذہن میں ابھرتا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ معنی پنجاب کی اصل طاقت اور چونکہ وزیراعظم عوام کے ووٹ کے ذریعے بنا تھا اور وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی کسی وقت بھی اس اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے ٹکر میں آ جاتا تھا تو وہ اپنی کرسی کھو بیٹھتا تھا پھر یہ بھی ہوا کہ جب پنجاب کا وزیراعظم ہوا تو اس کو مٹانا اسٹیبلشمنٹ کے لیے آسان نہیں تھا اور اس طرح خود اسٹیبلشمنٹ میں بٹوارہ ہوجاتا تھا۔ مشرف کو کسی اور نے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کے ایک حصے نے نکال کر باہر کردیا اور وہ اسٹیبلشمنٹ کا حصہ ایک طرف جمہوری قوتوں کے ساتھ یا عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے ساتھ کھڑا ہوگیا تو وہ لال مسجد کے لوگوں و طالبان وغیرہ کے لیے بہت نرم گوشہ بھی رکھتا تھا اور پھر اسی مجموعی سوچ کے ساتھ جب بینظیر آئیں تو انھیں بھی ہٹانے کے بارے میں سوچا جانے لگا۔ یہ وہ سوچ ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
پنجاب سے کسی جمہوری آدمی کا منتخب ہونا خود جمہوریت کو مضبوط کرتا ہے اور اس کلاسیکل اسٹیبلشمنٹ کے ستونوں کو کمزور کرتا ہے۔یہاں خود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ پنجاب سے جمہوری قوتوں کا پھل پھول جانا فطری ہے یا غیر فطری؟ میرے خیال میں قدرے غیر فطری ہے۔ بینظیر کسی قوت کی سفارش سے اقتدار میں نہیں آئیں ۔ پاکستان کی موجودہ سیاست سوائے کراچی کے شمالی بلوچستان کے پختونخوا کے کسی بھی مڈل کلاس سیاست میں نہیں ہیں جس طرح وہ ہندوستان میں ہے بنگلہ دیش میں ہے اور یورپ و امریکا میں تو یہ ہی ہے۔ اس ملک میں وہ شرفا سیاست میں ہیں اور ان کی اجارہ داری ہے جن کو انگریز سامراج نے جاگیروں سے نوازا تھا یا جو یہاں جاگیرداری متعارف کروائی تھی۔ باقی بیچاری چھوٹی موٹی مڈل کلاس والی اقتداری سیاست بھی ان کے پیچھے چل پڑی ہے۔ہندوستان کی جمہوریت یوں لگتا ہے اب نئے فیز میں داخل ہو رہی ہے۔ دہلی کے اندر عام آدمی پارٹی نے حکومت بناکر ایک نئی کھڑکی کھول دی ہے۔ وہ اگر کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کا مثبت اثر ہم پر بھی پڑیگا۔ہمیں اس ''پنجابی اسٹیبلشمنٹ'' کو سمجھنے کے لیے اور پیچھے جانا پڑیگا۔ جب ایک مہاجر اسٹیبلشمنٹ بھی ہوا کرتی تھی جس سے بنگالی قیادت شہید سہروردی و شیخ مجیب یا یوں کہیں کہ ایسٹ پاکستان کی سنجیدہ مڈل کلاس متصادم تھی۔ ان کو جمہوریت میں فائدہ تھا اور مہاجر اسٹیبلشمنٹ کی جمہوریت میں نقصان۔ ڈر وہ بنگالی طاقت سے رہے تھے مگر ان کو آہستہ آہستہ پنجاب کے اندر اسٹیبلشمنٹ کے دھڑوں نے شکست دی۔
شیخ مجیب نے تو اپنی سوانح حیات میں بہت ٹھوس انداز میں اس ڈولتے موسموں کے منظر کو رقم کیا ہے۔ میر غوث بخش بزنجو نے بھی اپنی سوانح حیات میں اسی انداز سے اس ماجرے کو بیان کیا ہے اور پھر یوں ہوا کہ قیادت تو اسٹیبلشمنٹ کی پنجاب کے پاس گئی پھر امریکا نے بھی اپنے مفادات کے لیے مضبوط قیادت چاہی تو اسٹیبلشمنٹ کی مدد کی۔ اس میں مہاجر دھڑا جو اسٹیبلشمنٹ کے اندر موجود تھا اس نے پنجاب کے دھڑے کی قیادت مان لی اور بالآخر یہ چوہے اور بلی کا کھیل 1971 کو اختتام کو پہنچامگر سب سے بڑا بچکانہ کام تب ہوا جب جنرل ضیا الحق اور خود امریکا سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے مذہب کو بیچ میں لائے۔ اور پھر ہم مجاہدین کو اپنا اثاثہ سمجھتے رہے۔
تزویراتی گہرائی Strategic Depth وغیرہ جیسی پالیسیاں آئیں۔ اور پھر آج وہ مجاہد والا کام یا ان کے ساتھ اتحاد وغیرہ فوج چھوڑ چکی اور اس حوالے سے حکومت سے بھی زیادہ واضح موقف رکھتی ہے۔ مگر وہ اسٹیبلشمنٹ جس کی طرف بلاول کا اشارہ ہے وہ ابھی تک اس حوالے سے اتنی واضح نہیں ہے۔ مگر وہ لوگ جن کا اشارہ بلاول کی تقریر سے ملتا ہے، ضیاء الحق اور اس کی فکر سے جان چھڑاتے ہوئے نظر نہیں آتے۔لیکن ملک کو سیاسی استحکام ڈلیور کرنے کے حوالے سے بہت جگہوں پر واضح بھی نظر آتے ہیں۔ ڈرون پر بھی اب یہ موقف لے لیا کہ ان کے خلاف زیادہ بولنے سے ہمیں دنیا میں اکیلے ہونے کے خدشات ہیں۔ ہندوستان کے ساتھ دوستی کرنے میں بھی واضح موقف رکھتے ہیں۔بلاول کی بات میں کچھ غیر سنجیدگی اس حوالے سے بھی ہے کہ وہ عمران خان کو اس زمرے میں نہیں لاتے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ آج ضیا الحق والے پرانے دوستوں کی وکالت، شریف برادران سے بھی زیادہ کر رہے ہیں۔