معصوم چہرے
کبھی آپ نے کچی مٹی کی دیواروں پر آر سی سی کی چھت ڈالتے ہوئے دیکھا ہے؟ آپ کہیں گے کہ یہ جدید دور۔۔۔
کبھی آپ نے کچی مٹی کی دیواروں پر آر سی سی کی چھت ڈالتے ہوئے دیکھا ہے؟ آپ کہیں گے کہ یہ جدید دور ہے، ہوسکتا ہے چائنا کوئی تکنیک لے آیا ہو؟ یہ ممکن ہو۔ مگر یہ ممکن نہیں ہے لیکن ہم اور آپ مل کر ایسی ہی عمارتیں روز بنا رہے ہیں جس کی دیواریں کچی مٹی کی ہیں اور چھت آر سی سی کی۔
اور یہ عمارت ہے ہمارے اور آپ کے بچے۔ بچے جو کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں، جو ہمارا کل ہوتے ہیں، جو ہماری آس، امید ہوتے ہیں، وہی معصوم ننھے بچے جنھیں ہماری ہوس نے کملا دیا ہے۔ وہ معصوم جنھیں ابھی تتلیوں کے دیس جانا تھا، جنہوں نے کاغذ کی کشتی کو بارش کے پانی میں بہانا تھا، جنھیں ابھی کھیل کی فرصت چاہیے تھی، جنھیں ابھی نعرہ لگانا تھا کہ: ''کوئی چھپے نہ چھپے میں آیا''
اور ہم نے ان معصوموں سے ان کی وہ بادشاہت والے دن، ان کا بچپن چھین کر انھیں ڈھیر ساری کتابوں اور کاپیوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔ سنتے ہیں کہ بنیاد جتنی مضبوط ہوگی اتنی عمارت مضبوط ہوگی، لہٰذا ہم حسب توفیق بغیر سمجھے سیمنٹ کی مقدار بڑھاتے جارہے ہیں۔ میں کوئی ماہر تعلیم تو نہیں ہوں مگر کچھ عرصے سے سندھ کے ایک دیہی علاقے کے ایک پرائیویٹ اسکول کی ابتدائی جماعتوں یعنی کے جی ون اور کے جی ٹو کے بچوں کو پڑھانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ان کلاسوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ بچہ اسکول کے ماحول کو سمجھنے کے لیے تیار ہوجائے اور اس لیے ماہر تعلیم ان کلاسوں میں انتہائی کم سلیبس رکھتے تھے مثلاً ہم نے 70 کی دہائی میں جب اسکول میں پڑھا تھا تو وہ کیپٹل الفا بیٹ (حروف تہجی) اور 1 سے لے کر 50 تک گنتی کا سلیبس تھا جس میں تحریر کو خوش خط بنانے کی شرط ہوتی تھی اور یہی ہم نے 90 کی دہائی میں بچوں کو پڑھایا۔ اضافی معلومات کے طور پر نام، والد کا نام اور کلمے وغیرہ تھا اور کے جی ٹو میں اسمال الفا بیٹ (دو حروفی لفظ، تین حروف لفظ) 1 سے لے کر 100 تک گنتی۔ ہجے وغیرہ ہوتے تھے اور جب بچہ جماعت اول میں آتا تھا تو اردو کا قاعدہ ہجے کے ساتھ پڑھتا تھا مگر اب آپ آج کے کسی بچے کا کے جی کا سلیبس اٹھاکر دیکھ لیں، چاہے اسکول کراچی کا ہو، شہداد پور کا ہو، خیرپور کا ہو یا مٹیاری کا، مگر سلیبس دیکھ کر آپ کو دن میں تارے ضرور نظر آجائیں گے۔
اسکول چلانے والے منتظم اعلیٰ چونکہ شعبہ تعلیم سے اتنے ہی دور ہوتے ہیں جتنا عوام حکومت سے۔ لہٰذا انھیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ درحقیقت ان معصوم بچوں کو کیا سکھانا چاہیے؟ ہم اور آپ آج گورنمنٹ کے نظام تعلیم کو برا تو بہت کہتے ہیں مگر یہ ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ایسے نظام سے ماہر تعلیم پروفیسر انیتاغلام علی، ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر قدیر جیسے لوگ پڑھ کر نکلے ہیں۔ پھر نظام غلط ہے یا چلانے والے؟ شاید اس لیے ایسی وزنی تعلیم سے طالب علم پیدا نہیں ہورہے بلکہ نالائقوں کی ایسی فوج پیدا ہورہی ہے جو آج علامہ اقبال کو خالق ترانہ قرار دے رہے ہیں اور کل نہ جانے کیا؟ اور یہی وجہ ہے کہ مقابلے کے امتحانوں میں کامیاب نتائج کا تناسب انتہائی کم ہے اور وجہ کچی مٹی کی دیوار پر عمارت۔ ذرا سوچیے کہ ان 3،4 سال کے معصوم بچوں کی عمر ہے مختلف سزائوں کو سہنے کی، جس میں دیر سے اسکول آنے، ہوم ورک نہ کرنے اور یونیفارم مکمل نہ ہونے پر جسمانی سزائیں شامل ہیں۔
پہلے یہ بچے اسکول آنے پر خاص رعایت پاتے تھے۔ بلکہ کئی ایک تو پورا ٹائم اسکول میں سوکر آتے تھے۔ اسی طرح اب چھوٹے بچوں کے یونیفارم اور ہوم ورک پر خاص رعایت ہوتی تھی، مزید کوئی لفظ نہ سمجھتاتھا تو ٹیچر ہفتوں اسے وہ لفظ کرواتی تھی مثلاً اکثر بچے الٹا ''P'' لکھتے ہیں یا الٹا ''9'' لکھتے ہیں۔ مگر اب یہ سارے مسائل والدین کے درد سر ہیں۔ اسکول والے والدین کو بلاکر بتادیتے ہیں کہ آپ کا بچہ سمجھ نہیں رہا اور خیر سے اب تو ہمارے یہ نوخیز جن کی عمر 3، 4، 5 سال ہوتی ہے اب اسم فعل، نائون، پرونائون، 3,2 کے پہاڑے، جمع گھٹا، تقسیم، پھلوں کے نام، پھولوں کے نام، سبزیوں کے نام، شہروں کے نام جیسی معلومات بھی رکھتے ہیں مگر کیا ہم ایسا کرکے ان کو پریشر نہیں دے رہے ہیں۔ ماہر تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بچے پر جتنا بوجھ ڈالا جائے وہ تعلیم سے اتنا متنفر ہوجائے گا۔ لہٰذا کہیں ہم اور آپ مل کر اپنے پھول کو مرجھانے کی طرف تو نہیں لے جارہے ہیں اور ہاں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ بچے اپنی پیدائش کے وقت سے ہی لکھوا کر لاتے ہیں کہ انھیں کیا بننا ہے۔ کیوںکہ مالک کائنات ہی اصل رزاق ہے اور جب اس کا وعدہ ہے تو ہم کون ہوتے ہیں اس کے کاموں میں رخنہ اندازی کرنے والے۔ یاد رکھیں اسپرنگ کو جتنا دبائیںگے وہ اتنی ہی زور سے اچھلے گا، لہٰذا ہمیں اسپرنگ کو اچھلنے سے بچانا ہوگا۔
اور یہ عمارت ہے ہمارے اور آپ کے بچے۔ بچے جو کسی بھی ملک کا مستقبل ہوتے ہیں، جو ہمارا کل ہوتے ہیں، جو ہماری آس، امید ہوتے ہیں، وہی معصوم ننھے بچے جنھیں ہماری ہوس نے کملا دیا ہے۔ وہ معصوم جنھیں ابھی تتلیوں کے دیس جانا تھا، جنہوں نے کاغذ کی کشتی کو بارش کے پانی میں بہانا تھا، جنھیں ابھی کھیل کی فرصت چاہیے تھی، جنھیں ابھی نعرہ لگانا تھا کہ: ''کوئی چھپے نہ چھپے میں آیا''
اور ہم نے ان معصوموں سے ان کی وہ بادشاہت والے دن، ان کا بچپن چھین کر انھیں ڈھیر ساری کتابوں اور کاپیوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔ سنتے ہیں کہ بنیاد جتنی مضبوط ہوگی اتنی عمارت مضبوط ہوگی، لہٰذا ہم حسب توفیق بغیر سمجھے سیمنٹ کی مقدار بڑھاتے جارہے ہیں۔ میں کوئی ماہر تعلیم تو نہیں ہوں مگر کچھ عرصے سے سندھ کے ایک دیہی علاقے کے ایک پرائیویٹ اسکول کی ابتدائی جماعتوں یعنی کے جی ون اور کے جی ٹو کے بچوں کو پڑھانے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ ان کلاسوں کا مقصد صرف یہ ہے کہ بچہ اسکول کے ماحول کو سمجھنے کے لیے تیار ہوجائے اور اس لیے ماہر تعلیم ان کلاسوں میں انتہائی کم سلیبس رکھتے تھے مثلاً ہم نے 70 کی دہائی میں جب اسکول میں پڑھا تھا تو وہ کیپٹل الفا بیٹ (حروف تہجی) اور 1 سے لے کر 50 تک گنتی کا سلیبس تھا جس میں تحریر کو خوش خط بنانے کی شرط ہوتی تھی اور یہی ہم نے 90 کی دہائی میں بچوں کو پڑھایا۔ اضافی معلومات کے طور پر نام، والد کا نام اور کلمے وغیرہ تھا اور کے جی ٹو میں اسمال الفا بیٹ (دو حروفی لفظ، تین حروف لفظ) 1 سے لے کر 100 تک گنتی۔ ہجے وغیرہ ہوتے تھے اور جب بچہ جماعت اول میں آتا تھا تو اردو کا قاعدہ ہجے کے ساتھ پڑھتا تھا مگر اب آپ آج کے کسی بچے کا کے جی کا سلیبس اٹھاکر دیکھ لیں، چاہے اسکول کراچی کا ہو، شہداد پور کا ہو، خیرپور کا ہو یا مٹیاری کا، مگر سلیبس دیکھ کر آپ کو دن میں تارے ضرور نظر آجائیں گے۔
اسکول چلانے والے منتظم اعلیٰ چونکہ شعبہ تعلیم سے اتنے ہی دور ہوتے ہیں جتنا عوام حکومت سے۔ لہٰذا انھیں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ درحقیقت ان معصوم بچوں کو کیا سکھانا چاہیے؟ ہم اور آپ آج گورنمنٹ کے نظام تعلیم کو برا تو بہت کہتے ہیں مگر یہ ماننے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ایسے نظام سے ماہر تعلیم پروفیسر انیتاغلام علی، ڈاکٹر عبدالسلام، ڈاکٹر قدیر جیسے لوگ پڑھ کر نکلے ہیں۔ پھر نظام غلط ہے یا چلانے والے؟ شاید اس لیے ایسی وزنی تعلیم سے طالب علم پیدا نہیں ہورہے بلکہ نالائقوں کی ایسی فوج پیدا ہورہی ہے جو آج علامہ اقبال کو خالق ترانہ قرار دے رہے ہیں اور کل نہ جانے کیا؟ اور یہی وجہ ہے کہ مقابلے کے امتحانوں میں کامیاب نتائج کا تناسب انتہائی کم ہے اور وجہ کچی مٹی کی دیوار پر عمارت۔ ذرا سوچیے کہ ان 3،4 سال کے معصوم بچوں کی عمر ہے مختلف سزائوں کو سہنے کی، جس میں دیر سے اسکول آنے، ہوم ورک نہ کرنے اور یونیفارم مکمل نہ ہونے پر جسمانی سزائیں شامل ہیں۔
پہلے یہ بچے اسکول آنے پر خاص رعایت پاتے تھے۔ بلکہ کئی ایک تو پورا ٹائم اسکول میں سوکر آتے تھے۔ اسی طرح اب چھوٹے بچوں کے یونیفارم اور ہوم ورک پر خاص رعایت ہوتی تھی، مزید کوئی لفظ نہ سمجھتاتھا تو ٹیچر ہفتوں اسے وہ لفظ کرواتی تھی مثلاً اکثر بچے الٹا ''P'' لکھتے ہیں یا الٹا ''9'' لکھتے ہیں۔ مگر اب یہ سارے مسائل والدین کے درد سر ہیں۔ اسکول والے والدین کو بلاکر بتادیتے ہیں کہ آپ کا بچہ سمجھ نہیں رہا اور خیر سے اب تو ہمارے یہ نوخیز جن کی عمر 3، 4، 5 سال ہوتی ہے اب اسم فعل، نائون، پرونائون، 3,2 کے پہاڑے، جمع گھٹا، تقسیم، پھلوں کے نام، پھولوں کے نام، سبزیوں کے نام، شہروں کے نام جیسی معلومات بھی رکھتے ہیں مگر کیا ہم ایسا کرکے ان کو پریشر نہیں دے رہے ہیں۔ ماہر تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ بچے پر جتنا بوجھ ڈالا جائے وہ تعلیم سے اتنا متنفر ہوجائے گا۔ لہٰذا کہیں ہم اور آپ مل کر اپنے پھول کو مرجھانے کی طرف تو نہیں لے جارہے ہیں اور ہاں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ بچے اپنی پیدائش کے وقت سے ہی لکھوا کر لاتے ہیں کہ انھیں کیا بننا ہے۔ کیوںکہ مالک کائنات ہی اصل رزاق ہے اور جب اس کا وعدہ ہے تو ہم کون ہوتے ہیں اس کے کاموں میں رخنہ اندازی کرنے والے۔ یاد رکھیں اسپرنگ کو جتنا دبائیںگے وہ اتنی ہی زور سے اچھلے گا، لہٰذا ہمیں اسپرنگ کو اچھلنے سے بچانا ہوگا۔