پاکستان میں شادیاںجہیز ختم کرو بہت اخراجات کرلئے
ایک حقیقت جسے پاکستانی معاشرے میں نظر انداز کردیا وہ یہ ہے کہ شادی کرنا مالی طور پر ایک ڈراؤنا خواب ہے۔
ایک حقیقت جسے پاکستانی معاشرے میں نظر انداز کردیا وہ یہ ہے کہ شادی کرنا مالی طور پر ایک ڈراؤنا خواب ہے۔
ہمارے ملک میں شادی ایسا موقع ہے جس میں ولیمہ، مہندی، ہال، زیورات، دینا دلاتے، جہیز اور اسی طرح کے کاموں پر دیوانہ وار شاہانہ اخراجات کئے جاتے ہیں۔ دلچسپ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پاگل پن میں معاشرے کا ہر طبقہ مجرم ہے۔
ہمارا اعلی طبقہ اس موقع کا استعمال اپنی امیری ظاہر کرنے کے لئے کرتا ہے، ہمیشہ کی طرح معاشرے کے مختلف طبقات میں بٹے ہوئی مڈل کلاس کی بھی ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خرچہ کریں اور اپنے آپ کو اعلی طبقے کے اندر رجسٹر کریں تاکہ وہ قابل محسوس کرسکیں۔ غریب اپنے بچوں کی تعلیم، صحت اور روزمرہ کی ضروریات زندگی سے پیسےنکال کر بے معنی شادی کے اخراجات کرتے ہیں۔
پاکستان میں یہ مثال ملنا مشکل نہ ہوگا جہاں ایک غریب خاندان اپنی بیٹی کی شادی کرنے کے لئے سالوں پیسے بچاتا ہے، جبکہ اس رقم کا صرف ایک حصہ ان کے بچوں کو اسکول بھیجنے، ان کو کتابیں دلانے اور ان کے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔
حال ہی میں میں نے اپنے آبائی گاؤں میں ایک چھوٹا سا سروے کیا اور گاؤں میں حالیہ شادیوں پر خرچ ہونے والے اعداد و شمار اکھٹے کئے۔
اور میں نے ایک حیران کن رجحان دیکھا ۔
ایک خاندان جہاں باپ اور بیٹے کی مشترکہ آمدنی 60 ہزار روپےتھی وہاں 8 لاکھ روپے سے زائد جہیز، کپڑوں، دینےدلانے اور ان کی بیٹی کی شادی سے جڑی دیگر تقریبات پر خرچ کئے گئے۔
ایک اور واقعے میں گاؤں میں موجود ایک غریب کسان نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے جیسے کی مالی حالات رکھنے والے دوسرے کسان کے بیٹے سے کی اورڈیڑھ لاکھ روپے کےاخراجات برداشت کئے جس میں سے زیادہ تر پیسہ رشتہ داروں سے قرض لیا گیا تھا یا کسی کھاتے پیتے گھرانے کی طرف سے دیئے گئے تھے۔
ایک اور بوڑھے آدمی نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور بیٹے کی شادی دوسرے آدمی کی بیٹی سے کی اور دلہن کے لئےڈیڑھ لاکھ مالیت کا سونا خریدا ۔ انہوں نے روایتی تقریبات پر بھی اضافی خرچہ کیا۔ اور ایک بار پھر رشتے داروں اور دوستوں سے پیسے قرض لئے گئے۔
ان مثالوں میں ظاہر ہونے والا سماجی رویہ روایات اور رسم و رواج کے نام پر ہمارے معاشرے کی عجیب اور غیر معمولی حالت کی عکاسی کرتا ہے۔ایک ایسا ملک جہاں ہم جیسی غربت ہو وہاں شادی بیاہ پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔
شادی جو کہ ایک نئے اور خوب صورت رشتے کا آغاز ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں اکثر شادیاں یا تو ایک خاندان کی عزت نفس کو عطیات کے بوجھ سے تباہ کردیتی ہے یا دیوالیہ نکال کر ان کو مالی قرضوں میں ڈوبودیتی ہے۔
شادیوں پر ہمارے غیر معقول اخراجات کی وجوہات واضح ہیں۔
طویل عرصے سے قائم شادی کی تقریبات کی روایات اور زیورات ، جہیز اور دینے دلانے کے فرائض نے ایک معیار پیدا کردیا ہے جس پر ہر خاندان اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر وہ زیادہ خرچ کرنے میں ناکام رہےتو سماج کی جانب سے مزاق اڑایا جائے گا ۔ اکثر یہ سب قوتیں انہیں وسائل سے زیادہ خرچ کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ جو پیسہ شادیوں پر خرچ ہوتا ہے وہ معیار زندگی بہتر بنانے، تعلیم، صحت اور خانادان کی اچھی دیکھ بھال میں استعمال کرنا بہتر سرمایہ کاری ہے۔
ان فوائد کا تصور کریں کہ وہی رقم جو ایک غریب باپ اپنے بیٹے کی شادی پر خرچ کرتا ہے اگر یٹے کیلئے ایک کاروبار شروع کرنے پر خرچ کرتا یا اس کا بیٹا اس رقم کو بچے کی پیدائش، صحت اور بچوں کے تعلیم کے لیے بچاتا تو ۔
المیہ یہ ہے کہ اگرچہ بہت سے لوگوں کو یہ احساس ہے کہ یہ رویہ سماجی بے ترتیبی ہے، ہم سب اسے مانتے ہیں اور کوئی اس کو صحیح کرنے کے لئے فکرمند نہیں ہے۔ ہر کوئی مسئلے کے بارے میں بات کرتا ہے لیکن اصل میں کوئی بھی معاشرے سے اس کو ختم کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتا۔ مسجد میں کبھی کبھار ہی شادیوں پرزیادہ خرچ نہ کرنے پر خطبہ دیا جاتا ہے اور پھر خاندان کے بڑے اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ وہ عاجزانہ طرز زندگی اپنائیں، لیکن زبانی جمع خرچ سے ہٹ کر اصل میں بہت کم اس پر عمل کیا جاتا ہے۔
اس کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ مفلوج نظر آتا ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں کہ وہ کس طرح نظام کو تبدیل کریں۔
تو اگر ہمیں اس بات کا احساس ہو جائے کہ اس طرح ہماری شادیوں میں اخراجات کا رحجان بے معنی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
میرے خیال میں ہماری پہلی کوشش ہونی چاہئے کہ آہستہ آہستہ ان اخراجات سے بچیں جو ہماری شادیوں کو ایک مالی آزمائش بنا دیتے ہیں۔
ابتدائی طور پر کم از کم اس معاشرے کے مرد ایک مخصوص اخراجات سے انکار کرسکتے ہیں، اگر وہ جرات کرے ہوئے دلہن کے گھر والوں سے جہیز لینے سے انکار کردیں قطع نظر اس کے کہ وہ جتنا بھی اصرار کریں۔
شادی کرنےوالے مرد کے علاو ہ کون اس پوزیشن میں ہے جو کہ جہیز کی اس ظالمانہ روایت کے خلاف کھڑا ہوسکتا ہے ؟
بلآخر، ہمارے معاشرے میں اس کی اتنی مضبوط اور گہری جڑیں موجود ہیں کہ نہ لڑکی اور نہ ہی اس کے گھر والے جہیز کے بغیر شادی نہیں کرسکتے۔ یہ لڑکا ہی ہے جسے جہیز ملتا ہے اس لیے وہی ہے جو اس کے خلاف سخت موقف اپنا سکتا ہے۔
مرضی کے مطابق جہیز لینے کا خاتمہ کرنا شادی کے اخراجات کی کمی میں پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔
اس کے بارے میں سوچیں۔
اگر ایک آدمی جہیز نہ لینے کے موقف پر ڈٹ کر کھڑا ہوجائے تو دلہن اور اس کے گھر والوں کو بھی دلہا کی طرف سے زیوارات کا مطالبہ کرنے میں ہچکچاہٹ ہوگی۔ اس سے کئی اہم معاملات میں پیسہ بچانے میں مدد ملے گی اور یہ تقریبات، زیورات اور دلہے کے پورے خاندان کے لئے فرنیچر لینے سے زیادہ کارآمد ثابت ہوگا۔
یہ کہنے کے بعد بدقسمتی سے عرصہ دراز سے چلنے والی ان روایات کو درحقیقت تبدیل کرنا آسان نہیں ہے ۔ اس کے نتیجے میں لوگ دونوں خاندانوں کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے کیونکہ یہاں ہر کوئی رجحانات، روایات اور سماجی دباؤ سے منسلک ہے، اور خاندان میں سے کوئی بھی جہیز کے بغیر شادی کرنے پر رضامند نہیں ہوگا، یہ ایک پرانی دلیل ہےکہ،
کم جہیز دینا بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اس سے اس پیغام پر عمل نہیں ہوتا کہ جہیز کی پہلے ہی ضرورت نہیں تھی۔
جہیز کا سانپ اب بھی زندہ ہے لیکن اسے کم کھلایا جاتا ہے۔
یہ خیال پیچیدہ ہے لیکن قابل عمل ہے۔ اگر ہم آج سے اس پر عمل نہیں کریں گے تو یہ بے ترتیب سماجی رویے ہمیں اور ہمارے آنے والی نسلوں کومتاثر کرتے رہیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں خاندان بڑے فائدے کے لئے عارضی طور پر اپنی سماجی ہم آہنگی کو قربان کریں۔ خاص طور پر ایک امیر اور تعلیم یافتہ مرد کے اوپر زیادہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں کیونکہ وہی ہیں جو کہ مثال قائم کرتے ہیں ۔ اگر ایک غریب خاندان شادی کے لئے کوئی پیسہ خرچ نہ کرتا تو اس میں کوئی قابل تقلید پیغام نہیں ہے ۔ پیغام صرف تب دیا جائے گا جب آپ کے پاس خرچ کرنے کے لیے بہت ہے مگر آپ خرچ نہ کرنے کا فیصلہ کریں ۔
شروع میں خاندانوں سے ردعمل کا خوف ناقابل تردید ہے، لیکن یقین کریں یا نہ کریں ایک بار یہ گرد بیٹھ جائے گی تو ہمارے ارد گرد موجود لوگ ہماری تعریف کریں کہ ہم نے انہیں ان چیزوں پر پیسہ خرچ کرنے سے روکا جن پر خرچ کرنا غیر ضروری ہے ۔
اس دن کا تصور کریں جب شادی کے لیے جہیز کا بندوبست کرنے اور پیسے یا رقم دینے کے خوف کے بغیرصرف ایک خوش و خرم جوڑے اور دو خوش خاندانوں کی ضرورت ہوگی۔
ایسے دور میں جہاں ہم میں سے بیشتر تبدیل شدہ معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن صرف چند اس کے بارے میں چھوٹے لیکن عملی اقدامات کرتے ہیں اور اس تبدیلی کا حصہ بنتے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ہمارے ملک میں شادی ایسا موقع ہے جس میں ولیمہ، مہندی، ہال، زیورات، دینا دلاتے، جہیز اور اسی طرح کے کاموں پر دیوانہ وار شاہانہ اخراجات کئے جاتے ہیں۔ دلچسپ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس پاگل پن میں معاشرے کا ہر طبقہ مجرم ہے۔
ہمارا اعلی طبقہ اس موقع کا استعمال اپنی امیری ظاہر کرنے کے لئے کرتا ہے، ہمیشہ کی طرح معاشرے کے مختلف طبقات میں بٹے ہوئی مڈل کلاس کی بھی ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خرچہ کریں اور اپنے آپ کو اعلی طبقے کے اندر رجسٹر کریں تاکہ وہ قابل محسوس کرسکیں۔ غریب اپنے بچوں کی تعلیم، صحت اور روزمرہ کی ضروریات زندگی سے پیسےنکال کر بے معنی شادی کے اخراجات کرتے ہیں۔
پاکستان میں یہ مثال ملنا مشکل نہ ہوگا جہاں ایک غریب خاندان اپنی بیٹی کی شادی کرنے کے لئے سالوں پیسے بچاتا ہے، جبکہ اس رقم کا صرف ایک حصہ ان کے بچوں کو اسکول بھیجنے، ان کو کتابیں دلانے اور ان کے مستقبل میں سرمایہ کاری کرنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔
حال ہی میں میں نے اپنے آبائی گاؤں میں ایک چھوٹا سا سروے کیا اور گاؤں میں حالیہ شادیوں پر خرچ ہونے والے اعداد و شمار اکھٹے کئے۔
اور میں نے ایک حیران کن رجحان دیکھا ۔
ایک خاندان جہاں باپ اور بیٹے کی مشترکہ آمدنی 60 ہزار روپےتھی وہاں 8 لاکھ روپے سے زائد جہیز، کپڑوں، دینےدلانے اور ان کی بیٹی کی شادی سے جڑی دیگر تقریبات پر خرچ کئے گئے۔
ایک اور واقعے میں گاؤں میں موجود ایک غریب کسان نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے جیسے کی مالی حالات رکھنے والے دوسرے کسان کے بیٹے سے کی اورڈیڑھ لاکھ روپے کےاخراجات برداشت کئے جس میں سے زیادہ تر پیسہ رشتہ داروں سے قرض لیا گیا تھا یا کسی کھاتے پیتے گھرانے کی طرف سے دیئے گئے تھے۔
ایک اور بوڑھے آدمی نے اپنے ٹیکسی ڈرائیور بیٹے کی شادی دوسرے آدمی کی بیٹی سے کی اور دلہن کے لئےڈیڑھ لاکھ مالیت کا سونا خریدا ۔ انہوں نے روایتی تقریبات پر بھی اضافی خرچہ کیا۔ اور ایک بار پھر رشتے داروں اور دوستوں سے پیسے قرض لئے گئے۔
ان مثالوں میں ظاہر ہونے والا سماجی رویہ روایات اور رسم و رواج کے نام پر ہمارے معاشرے کی عجیب اور غیر معمولی حالت کی عکاسی کرتا ہے۔ایک ایسا ملک جہاں ہم جیسی غربت ہو وہاں شادی بیاہ پر اتنی بڑی رقم خرچ کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔
شادی جو کہ ایک نئے اور خوب صورت رشتے کا آغاز ہے، بدقسمتی سے پاکستان میں اکثر شادیاں یا تو ایک خاندان کی عزت نفس کو عطیات کے بوجھ سے تباہ کردیتی ہے یا دیوالیہ نکال کر ان کو مالی قرضوں میں ڈوبودیتی ہے۔
شادیوں پر ہمارے غیر معقول اخراجات کی وجوہات واضح ہیں۔
طویل عرصے سے قائم شادی کی تقریبات کی روایات اور زیورات ، جہیز اور دینے دلانے کے فرائض نے ایک معیار پیدا کردیا ہے جس پر ہر خاندان اپنی استطاعت سے زیادہ خرچ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لوگ ڈرتے ہیں کہ اگر وہ زیادہ خرچ کرنے میں ناکام رہےتو سماج کی جانب سے مزاق اڑایا جائے گا ۔ اکثر یہ سب قوتیں انہیں وسائل سے زیادہ خرچ کرنے پر مجبور کرتی ہیں۔
ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ جو پیسہ شادیوں پر خرچ ہوتا ہے وہ معیار زندگی بہتر بنانے، تعلیم، صحت اور خانادان کی اچھی دیکھ بھال میں استعمال کرنا بہتر سرمایہ کاری ہے۔
ان فوائد کا تصور کریں کہ وہی رقم جو ایک غریب باپ اپنے بیٹے کی شادی پر خرچ کرتا ہے اگر یٹے کیلئے ایک کاروبار شروع کرنے پر خرچ کرتا یا اس کا بیٹا اس رقم کو بچے کی پیدائش، صحت اور بچوں کے تعلیم کے لیے بچاتا تو ۔
المیہ یہ ہے کہ اگرچہ بہت سے لوگوں کو یہ احساس ہے کہ یہ رویہ سماجی بے ترتیبی ہے، ہم سب اسے مانتے ہیں اور کوئی اس کو صحیح کرنے کے لئے فکرمند نہیں ہے۔ ہر کوئی مسئلے کے بارے میں بات کرتا ہے لیکن اصل میں کوئی بھی معاشرے سے اس کو ختم کرنے کے لئے کچھ نہیں کرتا۔ مسجد میں کبھی کبھار ہی شادیوں پرزیادہ خرچ نہ کرنے پر خطبہ دیا جاتا ہے اور پھر خاندان کے بڑے اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ وہ عاجزانہ طرز زندگی اپنائیں، لیکن زبانی جمع خرچ سے ہٹ کر اصل میں بہت کم اس پر عمل کیا جاتا ہے۔
اس کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ مفلوج نظر آتا ہے کیونکہ ان کے پاس کوئی راستہ نہیں کہ وہ کس طرح نظام کو تبدیل کریں۔
تو اگر ہمیں اس بات کا احساس ہو جائے کہ اس طرح ہماری شادیوں میں اخراجات کا رحجان بے معنی ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
میرے خیال میں ہماری پہلی کوشش ہونی چاہئے کہ آہستہ آہستہ ان اخراجات سے بچیں جو ہماری شادیوں کو ایک مالی آزمائش بنا دیتے ہیں۔
ابتدائی طور پر کم از کم اس معاشرے کے مرد ایک مخصوص اخراجات سے انکار کرسکتے ہیں، اگر وہ جرات کرے ہوئے دلہن کے گھر والوں سے جہیز لینے سے انکار کردیں قطع نظر اس کے کہ وہ جتنا بھی اصرار کریں۔
شادی کرنےوالے مرد کے علاو ہ کون اس پوزیشن میں ہے جو کہ جہیز کی اس ظالمانہ روایت کے خلاف کھڑا ہوسکتا ہے ؟
بلآخر، ہمارے معاشرے میں اس کی اتنی مضبوط اور گہری جڑیں موجود ہیں کہ نہ لڑکی اور نہ ہی اس کے گھر والے جہیز کے بغیر شادی نہیں کرسکتے۔ یہ لڑکا ہی ہے جسے جہیز ملتا ہے اس لیے وہی ہے جو اس کے خلاف سخت موقف اپنا سکتا ہے۔
مرضی کے مطابق جہیز لینے کا خاتمہ کرنا شادی کے اخراجات کی کمی میں پہلا قدم ثابت ہوسکتا ہے۔
اس کے بارے میں سوچیں۔
اگر ایک آدمی جہیز نہ لینے کے موقف پر ڈٹ کر کھڑا ہوجائے تو دلہن اور اس کے گھر والوں کو بھی دلہا کی طرف سے زیوارات کا مطالبہ کرنے میں ہچکچاہٹ ہوگی۔ اس سے کئی اہم معاملات میں پیسہ بچانے میں مدد ملے گی اور یہ تقریبات، زیورات اور دلہے کے پورے خاندان کے لئے فرنیچر لینے سے زیادہ کارآمد ثابت ہوگا۔
یہ کہنے کے بعد بدقسمتی سے عرصہ دراز سے چلنے والی ان روایات کو درحقیقت تبدیل کرنا آسان نہیں ہے ۔ اس کے نتیجے میں لوگ دونوں خاندانوں کے خلاف کھڑے ہوجائیں گے کیونکہ یہاں ہر کوئی رجحانات، روایات اور سماجی دباؤ سے منسلک ہے، اور خاندان میں سے کوئی بھی جہیز کے بغیر شادی کرنے پر رضامند نہیں ہوگا، یہ ایک پرانی دلیل ہےکہ،
ہم اپنی خوشی سے دے رہے ہیں۔
یا
ہم تو تھوڑا بہت سے رہے ہیں اپنی بیٹی کو۔
کم جہیز دینا بھی ٹھیک نہیں کیونکہ اس سے اس پیغام پر عمل نہیں ہوتا کہ جہیز کی پہلے ہی ضرورت نہیں تھی۔
جہیز کا سانپ اب بھی زندہ ہے لیکن اسے کم کھلایا جاتا ہے۔
یہ خیال پیچیدہ ہے لیکن قابل عمل ہے۔ اگر ہم آج سے اس پر عمل نہیں کریں گے تو یہ بے ترتیب سماجی رویے ہمیں اور ہمارے آنے والی نسلوں کومتاثر کرتے رہیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دونوں خاندان بڑے فائدے کے لئے عارضی طور پر اپنی سماجی ہم آہنگی کو قربان کریں۔ خاص طور پر ایک امیر اور تعلیم یافتہ مرد کے اوپر زیادہ ذمہ داریاں ہوتی ہیں کیونکہ وہی ہیں جو کہ مثال قائم کرتے ہیں ۔ اگر ایک غریب خاندان شادی کے لئے کوئی پیسہ خرچ نہ کرتا تو اس میں کوئی قابل تقلید پیغام نہیں ہے ۔ پیغام صرف تب دیا جائے گا جب آپ کے پاس خرچ کرنے کے لیے بہت ہے مگر آپ خرچ نہ کرنے کا فیصلہ کریں ۔
شروع میں خاندانوں سے ردعمل کا خوف ناقابل تردید ہے، لیکن یقین کریں یا نہ کریں ایک بار یہ گرد بیٹھ جائے گی تو ہمارے ارد گرد موجود لوگ ہماری تعریف کریں کہ ہم نے انہیں ان چیزوں پر پیسہ خرچ کرنے سے روکا جن پر خرچ کرنا غیر ضروری ہے ۔
اس دن کا تصور کریں جب شادی کے لیے جہیز کا بندوبست کرنے اور پیسے یا رقم دینے کے خوف کے بغیرصرف ایک خوش و خرم جوڑے اور دو خوش خاندانوں کی ضرورت ہوگی۔
ایسے دور میں جہاں ہم میں سے بیشتر تبدیل شدہ معاشرے کا خواب دیکھتے ہیں لیکن صرف چند اس کے بارے میں چھوٹے لیکن عملی اقدامات کرتے ہیں اور اس تبدیلی کا حصہ بنتے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔