موسم کی تبدیلی کے صحت پر اثرات اور احتیاطی تدابیر
بیماری سے پیچھا چھڑانے کی کوشش میں ذرا سی کوتاہی مزید مسائل کا باعث بن سکتی ہے
لاہور:
وقت کا ہوائی گھوڑالمحوں کے دوش پر اپنی مخصوص رفتار میں ہمیشہ محوِ پرواز رہتا ہے۔وقت کی یہ پرواز دن کو رات،رات کو دن،گرمی کو سردی ،سردی کو گرمی،بہار کو خزاں اور خزاں کو بہار کے رنگوں میں تبدیل کرتی رہتی ہے۔
اگرچہ ماحولیات کے جدید ماہرین کے مطابق سال میں چار کی بجائے بڑھ کر موسم 12 ہوچکے ہیں،لیکن بد قسمتی سے ہماری '' قومی روایت '' کے مطابق چند'' کیدو'' قسم کے ماہرین نئے موسموں کے وجود سے انکاری پائے جاتے ہیں۔ چھوڑیں جی ! ہمیں ''جدیدموسمی ماہرین '' اور '' کیدو ماہرین'' سے کیا لینا دینا ہمیں تو صرف اپنی صحت کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ ''جان ہے تو جہان ''،یوں جب صحت اچھی ہوگی تو ہر موسم ہی دل کو بھائے گا۔ بقولِ شاعر
جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اپنے اندر ہوتا ہے
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر موسم کی ایک خوبصورتی اور اہمیت ہوتی ہے۔ ہر موسم ہی اپنے اندر ایک جاذبیت اور انفرادیت رکھتا ہے۔
ہر ماحول اور ہر موسم کے تقاضے جدا جدا ہوتے ہیں۔ موسم کی مناسبت سے انسانی بدن کی فطری،طبعی اور مادی ضروریات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ خوراک ، لباس، طرزِ رہن و سہن اور بود و باش کے تقاضے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ موسمِ سرما کے بعد فصلِِ بہار جبکہ بہار کے بعد گرمی کے موسم کا یکا یک آغاز ہوتا ہے تو بدنِ انسانی فطری طور پر ردِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔چونکہ سردی کے موسم میں ہم مرغن غذا ،گرم لباس اور قدرے زیادہ درجہ حرارت کے خواہاں ہوتے ہیںجبکہ موسمِ گرما کے دوران ہلکی پھلکی غذا،سادہ اور نرم لباس اور ٹھنڈی آب و ہوا کے متقاضی ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ گرمی سے سردی اور سردی سے گرمی کی آمد کا درمیانی عرصہ جسمِ انسانی کے لیے کافی پیچیدگیاں لیے ہوتا ہے۔ دن کے وقت دھوپ میں شدت کی وجہ سے بدن میں ایک عجیب سی تلخی،بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔
رات کو نمی اور خنکی کی زیادتی ہونے کے باعث نزلہ،زکام اور فلو جیسے عوارض اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔نہ گرم لباس بھاتا ہے اور نہ ہی نرم وسادہ کپڑے راس آتے ہیں۔مرغن غذائیں تلخی کا سبب بنتی ہیں تو ہلکی پھلکی خوراک سے جسمانی ضروریات پوری نہیں ہوپاتیں۔ ایسے میںانسان ماحولیاتی عدم توازن اور موسمی نا موافقت کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
موسمی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی جسمانی ضروریات اور موسمی تقاضوں کے مابین توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یکسر طور پر گرم لباس کو نظر انداز کرنے کی بجائے بتدریج اس میں کمی کریں۔یکا یک نمی اور ٹھنڈک کی طرف مائل نہ ہوں جیسے پھنکوں کی ہوا،ٹھنڈے پانی اور ہلکے پھلکے کپڑوں کا استعمال بھی اپریل ،مئی سے پہلے نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ مارچ کی مرطوب ہوا بڑی دل افروز اور مسحور کن اثرات لیے ہوتی ہے مگر صحت پر اس کے اثرات اچھے مرتب نہیں ہوتے۔صبح اور شام کے اوقات میں خصوصی طور پر اس ہوا کی نمی اور خنکی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔
اسی طرح سرد پانی بھی بدن پر تسکین کا باعث بنتا ہے لیکن مکمل طور پر جسمانی درجہ حرارت متوازن نہ ہونے کی وجہ سے بخار، جسمانی ٹوٹ پھوٹ اور تھکا وٹ جیسے عوارض کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ باقاعدہ گرمی کے شروع ہونے تک نیم گرم پانی سے ہی غسل کیا جائے۔موسم کی تبدیلی کے زیرِ اثر جن جسمانی مسائل سے پالا پڑ سکتا ہے ان کی مْختصراً تفصیل کچھ یوں ہے:
نزلہ، زکام، ورمِ حلق، موسمی بخار، کھانسی، الرجی اور معدے و انتڑیوں کی خرابی آ پ کی صحت خراب کرکے زندگی میں الجھن کا سبب بن سکتی ہے۔ ان میں نزلہ،زکام اور فلو کثرت سے ظاہر ہونے والے امراض ہیں جن کے حملے سے کوئی خوش نصیب ہی بچ پاتا ہے۔
آج کل تو یہ وبائی اور وائرل بیماری کے طور پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ وائرس اور وباکے اثرات سے مضبوط قوت مدافعت کے حاملین کے سوا کوئی نہیں بچ سکتا۔ وبائی اور موسمی اثرات سے محفوظ رہنے میں بدن کی قوتِ مدافعت کی مضبوطی اور جسم کے قدرتی دفاعی نظام کا مکمل طور پر سر گرمِ عمل ہونا بنیادی کردار و اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
رواں موسم کو دیسی زبان میں ''کچا پکا '' موسم بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس موسم میں جسم پر ہر وقت تھکاوٹ اور سستی سی چھائی رہتی ہے۔ سر بھاری اور آنکھیں بوجھل ہو کرکسی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ ہمہ وقت لیٹے یا سوئے رہنے کو دل کرتا ہے۔اس طرح کی کیفیت میں بچے اور بوڑھے جوانوں کی نسبت زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ کیونکہ جوانوں کی نسبت بچوں اور بوڑھوں کی قوتِ مدافعت قدرے کمزور ہوتی ہے۔یوں'' بچپن اور پچپن میں کوئی فرق نہیں ہوتا'' کے پیش نظر بچوں اور بوڑھوں کو ممکنہ حدتک زیادہ احتیاط اور بہتر نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
دورانِ مطب یہ امر سامنے آیا ہے کہ زیادہ تر بخار،کھانسی اور زکام کی علامات ظاہر ہونے کی ایک بڑی وجہ ورمِ حلق ہوتی ہے۔حلق کی نالیاں چونکہ حساس اور نرم و نازک ساخت کی بنی ہوتی ہیں ویسے بھی انہیں گرم،سرد،ترشی اور چکنی اشیاء سے سب سے پہلے پالا پڑتا ہے۔ یوں وہ ذرا سی بے احتیاطی سے ہی متورم ہوکر جسمانی درجہ حرارت میں اضافے اور نزلہ وزکام کے حملے کا باعث بن جاتی ہیں۔
حلق کی سوزش کی صورت میں لسوڑیاں،ملٹھی،عناب اور بہی دانہ کا جوشاندہ بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔املتاس کے گودے کو پانی میں پکا کر، ،پھٹکری کو گرم پانی میں حل کر کے اور نیم گرم پانی میں نمک ملا کر غرارے کرنے سے بھی حلق کی تکالیف سے نجات ملتی ہے۔شہد کو گرم پانی میں حل کرکے بھی غرارے کرنے سے خاطر خواہ حد تک منہ کے چھا لے،حلق کی سوزش اور گلے کی خراش سے چھٹکارا حاصل ہوتا ہے۔
بخار ہو نے کی صورت میںبطورِ گھریلو طبی ترکیب گلو 1گرام،اجوائن دیسی 1/2گرام مغز بادام7عدد ایک کپ پانی میں پکا کر نصف چمچ خالص شہد ملا کر دن میں چار با ر پلانے سے بھی بخار اتر جاتا ہے۔ نزلے کے اچانک حملہ آور ہو جانے کی صورت میں درج ذیل جوشاندہ بنا کر 2 اور 3 خوراکیں پینے سے ہی اس کی تکلیف سے نجات مل جاتی ہے:
گْلِ بنفشہ10 گرام،گاؤز بان 5گرام، لہسوڑیاں 3 گرام اور املتاس 2 گرام کو 2 کپ پانی میں پکا کر حسبِ ضرورت شہد ملا کر 4گھنٹے کے وقفے سے ایک کپ پئیں،انشاء اللہ زکام سے چھٹکارا حاصل ہو گا ۔ اسی طرح گندم کے آٹے سے نکالے گئے پھوک ،لونگ یا ہلدی کو پانی میں ابال کر اس کی بھاپ لینا بھی نزلہ و زکام سے نجات دلاتا ہے۔بلغمی مزاج والے افراد لونگ یا دار چینی کو بطور، قہوہ استعمال کریں تو بھی انہیں افاقہ ملتا ہے۔
معدے اور انتڑیوں کے مسائل سے دو چار افراد درج ذیل ادویات استعمال کرکے آسودہ ہوسکتے ہیں: سونف50گرام ہلدی50گرام ملٹھی 50 گرام کا سفوف بنا کر 1/2چمچ چائے والا کھانے کے درمیان دوپہر اور رات کو کھائیں تو بفضلِ خدا دو تین ہفتوں میں نہ صرف معدہ اور انتڑیوں کے مسائل سے نجات ملے گی بلکہ نظامِ ہضم مکمل طور پر بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کرنے لگے گا۔ گیس، تبخیر، بد ہضمی اور قبض سے بھی چھٹکارا حاصل ہوگا۔
غذائی پرہیز
گرم، محرک، مرغن اور تلی ہوئی اشیاء سے احتراز برتیں۔بڑا گوشت، بینگن، دال مسور، ضرورت سے زائد چائے، کافی،قہوہ وغیرہ سے بھی اجتناب کریں۔ کولا مشروبات، بیکری مصنوعات، چاول، چکنائیاں، چوکلیٹ، مٹھائیاں اور تیز مصالحہ جات والی غذاؤں سے مکمل پر ہیز کیا جائے۔
ہاں ! البتہ دیسی چو زے کی یخنی نما شوربہ ، چربی سے صاف کیے گئے بکرے کے گوشت کی تری اور چنوں کا شوربہ زکام اور نزلے سے جلد جان چھڑانے میں خاطر خواہ حد تک ممد و معاون ثابت ہو تے ہیں۔ دورانِ بیماری ہلکی پھلکی غذائیں کھائیں کھچڑی، جو کا یا گندم کا د لیااستعمال کریں تو بہت ہی مناسب ہو گا۔اس کے علاوہ پھلوں کے رس وغیرہ یا پھلوں کا استعمال بھی مفید ہو تا ہے۔ملاوٹ سے پاک خوردنی اشیاء کھائی جائیں۔
داناؤں کے اِس قول '' گرم نہاؤ اور ٹھنڈا کھا ؤ ،کبھی حکیم کے پاس نہ جاؤ'' پر مْکمل طور پر عمل کیا جائے تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ مکمل طور پر صحت مند زندگی سے لْطف اْٹھانے والے بن جائیں گے۔ جسم کو چوکس و چوبند رکھنے کے لیے ادرک والی چائے صبح و شام ضرور استعمال کریں۔ بلغم ہونے کی صورت میں سادہ دودھ پینے سے احتراز برتیں۔ سائیکل یا موٹرسائیکل چلاتے وقت مکمل گرمی کا موسم آنے تک گرم کپڑے کا استعمال جاری رکھیں بالخصوص صبح اور بعد از عصر اس کا اہتمام ضرور کریں۔
دھیان رہے کہ غذا وپرہیز اور گھریلو تراکیب آزمانے کے باوجود علامات برقرار رہیں تو کسی ماہر معالج سے مشاورت کرکے جلد از جلد بیماری سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ نے ذرا سی بھی کوتاہی کا مظاہرہ کیا تو خدا نخواستہ مرض میں بگاڑ پیدا ہو کر آپ کے لیے مزید مسائل کا باعث بن سکتا ہے ۔
وقت کا ہوائی گھوڑالمحوں کے دوش پر اپنی مخصوص رفتار میں ہمیشہ محوِ پرواز رہتا ہے۔وقت کی یہ پرواز دن کو رات،رات کو دن،گرمی کو سردی ،سردی کو گرمی،بہار کو خزاں اور خزاں کو بہار کے رنگوں میں تبدیل کرتی رہتی ہے۔
اگرچہ ماحولیات کے جدید ماہرین کے مطابق سال میں چار کی بجائے بڑھ کر موسم 12 ہوچکے ہیں،لیکن بد قسمتی سے ہماری '' قومی روایت '' کے مطابق چند'' کیدو'' قسم کے ماہرین نئے موسموں کے وجود سے انکاری پائے جاتے ہیں۔ چھوڑیں جی ! ہمیں ''جدیدموسمی ماہرین '' اور '' کیدو ماہرین'' سے کیا لینا دینا ہمیں تو صرف اپنی صحت کی فکر کرنی چاہیے کیونکہ سیانے کہتے ہیں کہ ''جان ہے تو جہان ''،یوں جب صحت اچھی ہوگی تو ہر موسم ہی دل کو بھائے گا۔ بقولِ شاعر
جیسا موڈ ہو ویسا منظر ہوتا ہے
موسم تو انسان کے اپنے اندر ہوتا ہے
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر موسم کی ایک خوبصورتی اور اہمیت ہوتی ہے۔ ہر موسم ہی اپنے اندر ایک جاذبیت اور انفرادیت رکھتا ہے۔
ہر ماحول اور ہر موسم کے تقاضے جدا جدا ہوتے ہیں۔ موسم کی مناسبت سے انسانی بدن کی فطری،طبعی اور مادی ضروریات بھی بدلتی رہتی ہیں۔ خوراک ، لباس، طرزِ رہن و سہن اور بود و باش کے تقاضے بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ موسمِ سرما کے بعد فصلِِ بہار جبکہ بہار کے بعد گرمی کے موسم کا یکا یک آغاز ہوتا ہے تو بدنِ انسانی فطری طور پر ردِ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔چونکہ سردی کے موسم میں ہم مرغن غذا ،گرم لباس اور قدرے زیادہ درجہ حرارت کے خواہاں ہوتے ہیںجبکہ موسمِ گرما کے دوران ہلکی پھلکی غذا،سادہ اور نرم لباس اور ٹھنڈی آب و ہوا کے متقاضی ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ گرمی سے سردی اور سردی سے گرمی کی آمد کا درمیانی عرصہ جسمِ انسانی کے لیے کافی پیچیدگیاں لیے ہوتا ہے۔ دن کے وقت دھوپ میں شدت کی وجہ سے بدن میں ایک عجیب سی تلخی،بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔
رات کو نمی اور خنکی کی زیادتی ہونے کے باعث نزلہ،زکام اور فلو جیسے عوارض اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔نہ گرم لباس بھاتا ہے اور نہ ہی نرم وسادہ کپڑے راس آتے ہیں۔مرغن غذائیں تلخی کا سبب بنتی ہیں تو ہلکی پھلکی خوراک سے جسمانی ضروریات پوری نہیں ہوپاتیں۔ ایسے میںانسان ماحولیاتی عدم توازن اور موسمی نا موافقت کے اثرات سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
موسمی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنی جسمانی ضروریات اور موسمی تقاضوں کے مابین توازن پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یکسر طور پر گرم لباس کو نظر انداز کرنے کی بجائے بتدریج اس میں کمی کریں۔یکا یک نمی اور ٹھنڈک کی طرف مائل نہ ہوں جیسے پھنکوں کی ہوا،ٹھنڈے پانی اور ہلکے پھلکے کپڑوں کا استعمال بھی اپریل ،مئی سے پہلے نہیں کیا جانا چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ مارچ کی مرطوب ہوا بڑی دل افروز اور مسحور کن اثرات لیے ہوتی ہے مگر صحت پر اس کے اثرات اچھے مرتب نہیں ہوتے۔صبح اور شام کے اوقات میں خصوصی طور پر اس ہوا کی نمی اور خنکی خطرناک ثابت ہوتی ہے۔
اسی طرح سرد پانی بھی بدن پر تسکین کا باعث بنتا ہے لیکن مکمل طور پر جسمانی درجہ حرارت متوازن نہ ہونے کی وجہ سے بخار، جسمانی ٹوٹ پھوٹ اور تھکا وٹ جیسے عوارض کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ باقاعدہ گرمی کے شروع ہونے تک نیم گرم پانی سے ہی غسل کیا جائے۔موسم کی تبدیلی کے زیرِ اثر جن جسمانی مسائل سے پالا پڑ سکتا ہے ان کی مْختصراً تفصیل کچھ یوں ہے:
نزلہ، زکام، ورمِ حلق، موسمی بخار، کھانسی، الرجی اور معدے و انتڑیوں کی خرابی آ پ کی صحت خراب کرکے زندگی میں الجھن کا سبب بن سکتی ہے۔ ان میں نزلہ،زکام اور فلو کثرت سے ظاہر ہونے والے امراض ہیں جن کے حملے سے کوئی خوش نصیب ہی بچ پاتا ہے۔
آج کل تو یہ وبائی اور وائرل بیماری کے طور پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ وائرس اور وباکے اثرات سے مضبوط قوت مدافعت کے حاملین کے سوا کوئی نہیں بچ سکتا۔ وبائی اور موسمی اثرات سے محفوظ رہنے میں بدن کی قوتِ مدافعت کی مضبوطی اور جسم کے قدرتی دفاعی نظام کا مکمل طور پر سر گرمِ عمل ہونا بنیادی کردار و اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
رواں موسم کو دیسی زبان میں ''کچا پکا '' موسم بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس موسم میں جسم پر ہر وقت تھکاوٹ اور سستی سی چھائی رہتی ہے۔ سر بھاری اور آنکھیں بوجھل ہو کرکسی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ ہمہ وقت لیٹے یا سوئے رہنے کو دل کرتا ہے۔اس طرح کی کیفیت میں بچے اور بوڑھے جوانوں کی نسبت زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ کیونکہ جوانوں کی نسبت بچوں اور بوڑھوں کی قوتِ مدافعت قدرے کمزور ہوتی ہے۔یوں'' بچپن اور پچپن میں کوئی فرق نہیں ہوتا'' کے پیش نظر بچوں اور بوڑھوں کو ممکنہ حدتک زیادہ احتیاط اور بہتر نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔
دورانِ مطب یہ امر سامنے آیا ہے کہ زیادہ تر بخار،کھانسی اور زکام کی علامات ظاہر ہونے کی ایک بڑی وجہ ورمِ حلق ہوتی ہے۔حلق کی نالیاں چونکہ حساس اور نرم و نازک ساخت کی بنی ہوتی ہیں ویسے بھی انہیں گرم،سرد،ترشی اور چکنی اشیاء سے سب سے پہلے پالا پڑتا ہے۔ یوں وہ ذرا سی بے احتیاطی سے ہی متورم ہوکر جسمانی درجہ حرارت میں اضافے اور نزلہ وزکام کے حملے کا باعث بن جاتی ہیں۔
حلق کی سوزش کی صورت میں لسوڑیاں،ملٹھی،عناب اور بہی دانہ کا جوشاندہ بے حد مفید ثابت ہوتا ہے۔املتاس کے گودے کو پانی میں پکا کر، ،پھٹکری کو گرم پانی میں حل کر کے اور نیم گرم پانی میں نمک ملا کر غرارے کرنے سے بھی حلق کی تکالیف سے نجات ملتی ہے۔شہد کو گرم پانی میں حل کرکے بھی غرارے کرنے سے خاطر خواہ حد تک منہ کے چھا لے،حلق کی سوزش اور گلے کی خراش سے چھٹکارا حاصل ہوتا ہے۔
بخار ہو نے کی صورت میںبطورِ گھریلو طبی ترکیب گلو 1گرام،اجوائن دیسی 1/2گرام مغز بادام7عدد ایک کپ پانی میں پکا کر نصف چمچ خالص شہد ملا کر دن میں چار با ر پلانے سے بھی بخار اتر جاتا ہے۔ نزلے کے اچانک حملہ آور ہو جانے کی صورت میں درج ذیل جوشاندہ بنا کر 2 اور 3 خوراکیں پینے سے ہی اس کی تکلیف سے نجات مل جاتی ہے:
گْلِ بنفشہ10 گرام،گاؤز بان 5گرام، لہسوڑیاں 3 گرام اور املتاس 2 گرام کو 2 کپ پانی میں پکا کر حسبِ ضرورت شہد ملا کر 4گھنٹے کے وقفے سے ایک کپ پئیں،انشاء اللہ زکام سے چھٹکارا حاصل ہو گا ۔ اسی طرح گندم کے آٹے سے نکالے گئے پھوک ،لونگ یا ہلدی کو پانی میں ابال کر اس کی بھاپ لینا بھی نزلہ و زکام سے نجات دلاتا ہے۔بلغمی مزاج والے افراد لونگ یا دار چینی کو بطور، قہوہ استعمال کریں تو بھی انہیں افاقہ ملتا ہے۔
معدے اور انتڑیوں کے مسائل سے دو چار افراد درج ذیل ادویات استعمال کرکے آسودہ ہوسکتے ہیں: سونف50گرام ہلدی50گرام ملٹھی 50 گرام کا سفوف بنا کر 1/2چمچ چائے والا کھانے کے درمیان دوپہر اور رات کو کھائیں تو بفضلِ خدا دو تین ہفتوں میں نہ صرف معدہ اور انتڑیوں کے مسائل سے نجات ملے گی بلکہ نظامِ ہضم مکمل طور پر بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کرنے لگے گا۔ گیس، تبخیر، بد ہضمی اور قبض سے بھی چھٹکارا حاصل ہوگا۔
غذائی پرہیز
گرم، محرک، مرغن اور تلی ہوئی اشیاء سے احتراز برتیں۔بڑا گوشت، بینگن، دال مسور، ضرورت سے زائد چائے، کافی،قہوہ وغیرہ سے بھی اجتناب کریں۔ کولا مشروبات، بیکری مصنوعات، چاول، چکنائیاں، چوکلیٹ، مٹھائیاں اور تیز مصالحہ جات والی غذاؤں سے مکمل پر ہیز کیا جائے۔
ہاں ! البتہ دیسی چو زے کی یخنی نما شوربہ ، چربی سے صاف کیے گئے بکرے کے گوشت کی تری اور چنوں کا شوربہ زکام اور نزلے سے جلد جان چھڑانے میں خاطر خواہ حد تک ممد و معاون ثابت ہو تے ہیں۔ دورانِ بیماری ہلکی پھلکی غذائیں کھائیں کھچڑی، جو کا یا گندم کا د لیااستعمال کریں تو بہت ہی مناسب ہو گا۔اس کے علاوہ پھلوں کے رس وغیرہ یا پھلوں کا استعمال بھی مفید ہو تا ہے۔ملاوٹ سے پاک خوردنی اشیاء کھائی جائیں۔
داناؤں کے اِس قول '' گرم نہاؤ اور ٹھنڈا کھا ؤ ،کبھی حکیم کے پاس نہ جاؤ'' پر مْکمل طور پر عمل کیا جائے تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ مکمل طور پر صحت مند زندگی سے لْطف اْٹھانے والے بن جائیں گے۔ جسم کو چوکس و چوبند رکھنے کے لیے ادرک والی چائے صبح و شام ضرور استعمال کریں۔ بلغم ہونے کی صورت میں سادہ دودھ پینے سے احتراز برتیں۔ سائیکل یا موٹرسائیکل چلاتے وقت مکمل گرمی کا موسم آنے تک گرم کپڑے کا استعمال جاری رکھیں بالخصوص صبح اور بعد از عصر اس کا اہتمام ضرور کریں۔
دھیان رہے کہ غذا وپرہیز اور گھریلو تراکیب آزمانے کے باوجود علامات برقرار رہیں تو کسی ماہر معالج سے مشاورت کرکے جلد از جلد بیماری سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کریں۔ اگر آپ نے ذرا سی بھی کوتاہی کا مظاہرہ کیا تو خدا نخواستہ مرض میں بگاڑ پیدا ہو کر آپ کے لیے مزید مسائل کا باعث بن سکتا ہے ۔