لاہور کے 8 سالہ بچے نے 13 ماہ میں قرآن پاک حفظ کرلیا
حافظ غلام مصطفی کے والد، تایا اور پھوپھی سمیت 10 افراد حافظ قرآن ہیں
8 سالہ حافظ غلام مصطفی نے 13 ماہ کے دوران قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرکے ایک منفرد ریکارڈ قائم کیا ہے.
یہ بچہ اپنے خاندان میں قرآن پاک حفظ کرنے والا دسواں فرد ہے، بچے کے والد،دادا، پھوپھو سمیت کئی حافظ قرآن ہیں۔ اس ننھے حافظ نے جامعہ نعیمیہ لاہور سے صرف 13 ماہ کے دوران قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ غلام مصطفی والدین کا اکلوتا بیٹا ہے، اس کامیابی پراس کے ماں باپ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں۔
ننھے حافظ غلام مصطفی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو گھر میں ان کی والدہ پڑھاتی تھیں، اسے روزانہ ایک آیت یاد کرنے کو دی جاتی ، جب وہ یاد کرلیتا تو پھر دوسری آیت یاد کرنے کومل جاتی تھی۔ جب وہ جامعہ نعیمیہ میں داخل ہوا تو اسے کافی سورتیں یاد تھیں۔ یہاں پھر استاد انہیں ایک منزل یاد کرنے کو دیتے ، جب وہ یاد کرکے زبانی سناتے تو پھر اگلی منزل یاد کرنے کو دے دی جاتی تھی۔ اس طرح اللہ پاک کا شکر ہے کہ میں نے قرآن پاک حفظ کرلیا ہے اوراب میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ حافظ غلام مصطفی کی خواہش ہے کہ وہ بڑا ہوکر ڈاکٹر بنے گا اور قوم کی خدمت کرے گا۔
حافظ غلام مصطفی کے والد حافظ غلام عباس نے بتایا کہ ان کے تین بچے ہیں دوبیٹیاں بڑی ہیں جبکہ بیٹا سب سے چھوٹا ہے، ان کی خواہش تھی کہ اگراللہ نے بیٹا دیاتواسے حافظ قرآن بنائیں گے اورآج اللہ نے ان کی یہ خواہش پوری کردی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب اسے تجویراورقرآت کا کورس مکم کرنا ہے ۔ حافظ غلام عباس کہتے ہیں ان کے بیٹے نے اتنی کم عمرمیں قرآن پاک حفظ کرکے ایک اعزازحاصل کیا ہے لیکن اب ان کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ اب ہماری کوشش ہوگی کہ اس کے سینے میں جوقرآن پاک محفوظ ہے وہ اسے بھولنے نہ پائے اور اس کو یاد کرتا رہے۔
بچے کی والدہ آمنہ عباس کہتی ہیں جب غلام مصطفی پیداہواتووہ اپنے شوہرکوکہتی تھیں کہ نادرامیں اس کے ب فارم پرنام کے ساتھ حافظ نہیں لکھاجاسکتا؟ ہم اپنے بچے کا نام ہی حافظ رکھ لیں، میرے شوہرہنس کرکہتے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، ہماری خواہش تھی کہ ہمارابیٹاحافظ بنے ہم نے شروع سے اس کا ذہن بنانا شروع کردیا تھا کہ بیٹا آپ نے قرآن حفظ کرنا ہے۔
آمنہ عباس کہتی ہیں میرابیٹاشروع سے ہی کافی ذہین اورعام بچوں سے مختلف نظرآتا تھا۔ شرارتیں بالکل نہیں کرتا، اب جب تھوڑابڑاہواہے توموبائل پرگیم وغیرہ کھیلتا ہے البتہ اسے کھلونا کاریں جمع کرنے کا بہت شوق ہے ، جب بھی ایک پارہ حفظ کرلیتا تو تحفے میں کار مانگتا تھا۔ وہ یہ سمجتھی ہیں کہ ہرخاندان میں ایک حافظ قرآن ضرور ہونا چاہیے۔
جامعہ نعیمیہ کے مہتم ڈاکٹرراغب حسین نعیمی نے بات کرتے ہوئے بتایا یہاں شعبہ حفظ میں عموما پرائمری کلاس کے بعد بچوں کو داخلہ دیاجاتا ہے ، جب غلام مصطفی کو اس کے والدیہاں داخلہ کروانے آئے تواس کی عمرسات سال کے لگ بھگ تھی لیکن اس نے پرائمری پاس نہیں کی تھی۔ جب اس کا ٹیسٹ لیاگیا تومعلوم ہوا کہ اسے بہت ساری سورتیں اوردو،تین پارے پہلے سے ہی حفظ ہیں۔ اس وجہ سے ہم نے اسے اپنے قواعد سے ہٹ کرداخلہ دیا اوراس بچے نے اپنی صلاحیت سے ثابت کیا ہے کہ اس کا انتخاب درست تھا۔
راغب نعیمی کہتے ہیں شعبہ حفظ میں آنے والے بچوں کو پہلے چند ماہ تک تجوید کا قاعدہ پڑھایا جاتا ہے تاکہ اسے حروف تہجی کی پہچان اور درست ادائیگی سکھائی جاسکے، اس کے بعد بچہ پہلے سال میں پانچ پارے حفظ کرلے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس کی پڑھائی ٹھیک ہے، مجموعی طور پر ڈھائی سے تین سال میں ایک بچہ قرآن پاک حفظ کرلیتا ہے لیکن غلام مصطفی نے صرف 13 ماہ میں قرآن پاک حفظ کیا ہے جس میں اس کے والدین ،اساتذہ اورخود اس بچے کی محنت شامل ہے۔
یہ بچہ اپنے خاندان میں قرآن پاک حفظ کرنے والا دسواں فرد ہے، بچے کے والد،دادا، پھوپھو سمیت کئی حافظ قرآن ہیں۔ اس ننھے حافظ نے جامعہ نعیمیہ لاہور سے صرف 13 ماہ کے دوران قرآن پاک حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ غلام مصطفی والدین کا اکلوتا بیٹا ہے، اس کامیابی پراس کے ماں باپ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں۔
ننھے حافظ غلام مصطفی نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو گھر میں ان کی والدہ پڑھاتی تھیں، اسے روزانہ ایک آیت یاد کرنے کو دی جاتی ، جب وہ یاد کرلیتا تو پھر دوسری آیت یاد کرنے کومل جاتی تھی۔ جب وہ جامعہ نعیمیہ میں داخل ہوا تو اسے کافی سورتیں یاد تھیں۔ یہاں پھر استاد انہیں ایک منزل یاد کرنے کو دیتے ، جب وہ یاد کرکے زبانی سناتے تو پھر اگلی منزل یاد کرنے کو دے دی جاتی تھی۔ اس طرح اللہ پاک کا شکر ہے کہ میں نے قرآن پاک حفظ کرلیا ہے اوراب میں اسے ہمیشہ یاد رکھوں گا۔ حافظ غلام مصطفی کی خواہش ہے کہ وہ بڑا ہوکر ڈاکٹر بنے گا اور قوم کی خدمت کرے گا۔
حافظ غلام مصطفی کے والد حافظ غلام عباس نے بتایا کہ ان کے تین بچے ہیں دوبیٹیاں بڑی ہیں جبکہ بیٹا سب سے چھوٹا ہے، ان کی خواہش تھی کہ اگراللہ نے بیٹا دیاتواسے حافظ قرآن بنائیں گے اورآج اللہ نے ان کی یہ خواہش پوری کردی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب اسے تجویراورقرآت کا کورس مکم کرنا ہے ۔ حافظ غلام عباس کہتے ہیں ان کے بیٹے نے اتنی کم عمرمیں قرآن پاک حفظ کرکے ایک اعزازحاصل کیا ہے لیکن اب ان کی ذمہ داری بڑھ گئی ہے۔ اب ہماری کوشش ہوگی کہ اس کے سینے میں جوقرآن پاک محفوظ ہے وہ اسے بھولنے نہ پائے اور اس کو یاد کرتا رہے۔
بچے کی والدہ آمنہ عباس کہتی ہیں جب غلام مصطفی پیداہواتووہ اپنے شوہرکوکہتی تھیں کہ نادرامیں اس کے ب فارم پرنام کے ساتھ حافظ نہیں لکھاجاسکتا؟ ہم اپنے بچے کا نام ہی حافظ رکھ لیں، میرے شوہرہنس کرکہتے کہ ایسا نہیں ہوسکتا، ہماری خواہش تھی کہ ہمارابیٹاحافظ بنے ہم نے شروع سے اس کا ذہن بنانا شروع کردیا تھا کہ بیٹا آپ نے قرآن حفظ کرنا ہے۔
آمنہ عباس کہتی ہیں میرابیٹاشروع سے ہی کافی ذہین اورعام بچوں سے مختلف نظرآتا تھا۔ شرارتیں بالکل نہیں کرتا، اب جب تھوڑابڑاہواہے توموبائل پرگیم وغیرہ کھیلتا ہے البتہ اسے کھلونا کاریں جمع کرنے کا بہت شوق ہے ، جب بھی ایک پارہ حفظ کرلیتا تو تحفے میں کار مانگتا تھا۔ وہ یہ سمجتھی ہیں کہ ہرخاندان میں ایک حافظ قرآن ضرور ہونا چاہیے۔
جامعہ نعیمیہ کے مہتم ڈاکٹرراغب حسین نعیمی نے بات کرتے ہوئے بتایا یہاں شعبہ حفظ میں عموما پرائمری کلاس کے بعد بچوں کو داخلہ دیاجاتا ہے ، جب غلام مصطفی کو اس کے والدیہاں داخلہ کروانے آئے تواس کی عمرسات سال کے لگ بھگ تھی لیکن اس نے پرائمری پاس نہیں کی تھی۔ جب اس کا ٹیسٹ لیاگیا تومعلوم ہوا کہ اسے بہت ساری سورتیں اوردو،تین پارے پہلے سے ہی حفظ ہیں۔ اس وجہ سے ہم نے اسے اپنے قواعد سے ہٹ کرداخلہ دیا اوراس بچے نے اپنی صلاحیت سے ثابت کیا ہے کہ اس کا انتخاب درست تھا۔
راغب نعیمی کہتے ہیں شعبہ حفظ میں آنے والے بچوں کو پہلے چند ماہ تک تجوید کا قاعدہ پڑھایا جاتا ہے تاکہ اسے حروف تہجی کی پہچان اور درست ادائیگی سکھائی جاسکے، اس کے بعد بچہ پہلے سال میں پانچ پارے حفظ کرلے تو سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس کی پڑھائی ٹھیک ہے، مجموعی طور پر ڈھائی سے تین سال میں ایک بچہ قرآن پاک حفظ کرلیتا ہے لیکن غلام مصطفی نے صرف 13 ماہ میں قرآن پاک حفظ کیا ہے جس میں اس کے والدین ،اساتذہ اورخود اس بچے کی محنت شامل ہے۔