مہنگائی کے باعث آرائشی اشیا کی خریداری کے رجحان میں کمی
شہری ریگزین اورمصنوعی چمڑے کے مہنگے صوفوں کے بجائے لکڑی سے بنے صوفے خریدنے کوترجیح دے رہے ہیں
کراچی میں مہنگائی کے سبب متوسط طبقے میں آرائشی اشیا کی خریداری کے رجحان میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے ۔
متوسط طبقے کے گھرانے اب مصنوعی چمڑے اور ریگزین سے تیار کردہ صوفوں کی خریداری کے بجائے کم قیمت پر دستیاب لکڑی کے بنے ہوئے صوفے خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں، ریگزین اور مصنوعی چمڑے سے تیار کردہ صوفے مہنگے ہونے کے باعث اب ان کی خریداری کے رجحان میں 70 فیصد کمی واقع ہوگئی ہے،جس کی وجہ سے اس پیشے سے منسلک کاریگر اس کام کو خیر آباد کہہ کر دیگر پیشوں سے منسلک ہورہے ہیں،مہنگے صوفوں کی خریداری صرف امیر اور کاروباری طبقہ اپنے گھروں اور دفاتر میں استعمال کے لیے کرتا ہے۔
ایکسپریس نے مصنوعی چمڑے اور ریگزین سے تیار کیے جانے والے صوفوں کے پیشے سے متعلق سروے کیا،فیڈرل کیپٹل ایریا میں اس پیشے سے منسلک ماہر کاریگر فیاض احمد نے ایکسپریس کو بتایا کہ وہ اس پیشے سے تقریباً 25 سال سے وابستہ ہے،ریگزین اور مصنوعی چمڑے سے تیار کیے جانے والے صوفے کے کارخانے لیاقت آباد ، نرسری ، منظورکالونی اور محمود آباد میں واقع ہیں،آج سے تقریباً 15 برس قبل ان صوفوں کی تیاری کے لیے شہر میں 150 سے زائد کارخانے تھے ۔
جو اب کم ہو کر 50 تک رہ گئے ہی،اس پیشے کے ماہر کاریگروں کی تعداد بھی پہلے 200 سے زائد تھی ، جو اب محدود ہو کر 35 سے 40 رہ گئی ہے،صوفوں کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیا کی لاگت بڑھ جانے کے باعث ان کی تیاری اور خریداری میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس پیشے سے وابستہ کاریگروں کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے ، انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے 3 ہزار سے زائد افراد کا روزگار وابستہ تھا ۔
تاہم معاشی مشکلات کے سبب تقریباً 2 ہزار سے زائد افراد اس پیشے کو خیر آباد کہہ چکے ہیں اور اب ایک ہزار سے زائد افراد اس کام سے وابستہ ہیں، اس پیشے سے 70 فیصد اردو کمیونٹی اور 30 فیصد دیگر قومیتوں کے افراد وابستہ ہیں،یہ صوفے مہنگے ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے اب متوسط طبقہ ان کو نہیں خریدتا ہے یہ صوفے صرف امیر طبقے تعلق رکھنے والے گھرانے یا دفاتر میں استعمال خریدتے ہیں، پہلے اس پیشے کا سیزن سال بھر رہتا تھا تاہم کراچی میں بدامنی ، مہنگائی اور قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے یہ سیزن گھٹ کر 6 ماہ تک محدود رہ گیا ہے،گذشتہ چند برس قبل جب کاروبار کی پوزیشن اچھی تھی تو سالانہ 3 لاکھ صوفہ سیٹ تیار ہوتے تھے ، جو اب کم ہو کر 30 سے 40 ہزار تک محدود رہ گئے ہیں،اگر حالات اسی طرح رہے تو پھر آئندہ چند برسوں میں اس صوفہ سیٹ کی تیاری کے کام سے وابستہ کاریگر مکمل طور پر یہ پیشہ چھوڑ دیں گے ۔
متوسط طبقے کے گھرانے اب مصنوعی چمڑے اور ریگزین سے تیار کردہ صوفوں کی خریداری کے بجائے کم قیمت پر دستیاب لکڑی کے بنے ہوئے صوفے خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں، ریگزین اور مصنوعی چمڑے سے تیار کردہ صوفے مہنگے ہونے کے باعث اب ان کی خریداری کے رجحان میں 70 فیصد کمی واقع ہوگئی ہے،جس کی وجہ سے اس پیشے سے منسلک کاریگر اس کام کو خیر آباد کہہ کر دیگر پیشوں سے منسلک ہورہے ہیں،مہنگے صوفوں کی خریداری صرف امیر اور کاروباری طبقہ اپنے گھروں اور دفاتر میں استعمال کے لیے کرتا ہے۔
ایکسپریس نے مصنوعی چمڑے اور ریگزین سے تیار کیے جانے والے صوفوں کے پیشے سے متعلق سروے کیا،فیڈرل کیپٹل ایریا میں اس پیشے سے منسلک ماہر کاریگر فیاض احمد نے ایکسپریس کو بتایا کہ وہ اس پیشے سے تقریباً 25 سال سے وابستہ ہے،ریگزین اور مصنوعی چمڑے سے تیار کیے جانے والے صوفے کے کارخانے لیاقت آباد ، نرسری ، منظورکالونی اور محمود آباد میں واقع ہیں،آج سے تقریباً 15 برس قبل ان صوفوں کی تیاری کے لیے شہر میں 150 سے زائد کارخانے تھے ۔
جو اب کم ہو کر 50 تک رہ گئے ہی،اس پیشے کے ماہر کاریگروں کی تعداد بھی پہلے 200 سے زائد تھی ، جو اب محدود ہو کر 35 سے 40 رہ گئی ہے،صوفوں کی تیاری میں استعمال ہونے والی اشیا کی لاگت بڑھ جانے کے باعث ان کی تیاری اور خریداری میں کافی حد تک کمی واقع ہوئی ہے جس کی وجہ سے اس پیشے سے وابستہ کاریگروں کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہو گیا ہے ، انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے 3 ہزار سے زائد افراد کا روزگار وابستہ تھا ۔
تاہم معاشی مشکلات کے سبب تقریباً 2 ہزار سے زائد افراد اس پیشے کو خیر آباد کہہ چکے ہیں اور اب ایک ہزار سے زائد افراد اس کام سے وابستہ ہیں، اس پیشے سے 70 فیصد اردو کمیونٹی اور 30 فیصد دیگر قومیتوں کے افراد وابستہ ہیں،یہ صوفے مہنگے ہوتے ہیں،جس کی وجہ سے اب متوسط طبقہ ان کو نہیں خریدتا ہے یہ صوفے صرف امیر طبقے تعلق رکھنے والے گھرانے یا دفاتر میں استعمال خریدتے ہیں، پہلے اس پیشے کا سیزن سال بھر رہتا تھا تاہم کراچی میں بدامنی ، مہنگائی اور قوت خرید کم ہونے کی وجہ سے یہ سیزن گھٹ کر 6 ماہ تک محدود رہ گیا ہے،گذشتہ چند برس قبل جب کاروبار کی پوزیشن اچھی تھی تو سالانہ 3 لاکھ صوفہ سیٹ تیار ہوتے تھے ، جو اب کم ہو کر 30 سے 40 ہزار تک محدود رہ گئے ہیں،اگر حالات اسی طرح رہے تو پھر آئندہ چند برسوں میں اس صوفہ سیٹ کی تیاری کے کام سے وابستہ کاریگر مکمل طور پر یہ پیشہ چھوڑ دیں گے ۔