اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم

ویب ڈیسک  جمعرات 4 مارچ 2021
ریکارڈ کے مطابق اسد درانی کے خلاف کوئی انکوائری زیر التوا نہیں، جسٹس اطہر من اللہ فوٹو: فائل

ریکارڈ کے مطابق اسد درانی کے خلاف کوئی انکوائری زیر التوا نہیں، جسٹس اطہر من اللہ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: ہائی کورٹ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی۔

دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمے کے دوران ریمارکس دیئے کہ آپ نے کہا تھا کہ اسد درانی کا نام اس لئے ای سی ایل میں رکھا کیونکہ ان کے خلاف انکوائری چل رہی ہے لیکن ریکارڈ کے مطابق اس وقت ان کے خلاف کوئی انکوائری نہیں چل رہی۔ وفاقی حکومت کے پاس کھلی چھوٹ تو نہیں کہ کسی کو بھی ای سی ایل میں ڈال دے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے موقف اختیار کیا کہ وزارت دفاع کے نمائندے موجود ہیں وہ بیان دے سکتے ہیں، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ کسی کو بھی بلانے کی کوئی ضرورت نہیں،میں نے ریکارڈ دیکھ لیا ہے اور ریکارڈ کے مطابق اسد درانی کے خلاف کوئی انکوائری زیر التوا نہیں۔

عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد اسد درانی کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ درخواست گزار تھری اسٹار جنرل ریٹائرڈ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی رہے ہیں، اب وہ ایک عام شہری ہیں اور  انہیں آئین میں دئیے گئے تمام حقوق حاصل ہیں۔

کیس کا پس منظر

اسد درانی کا نام وزارت دفاع کی سفارش پر 2019 میں ای سی ایل پر رکھا گیا تھا۔ اسد درانی نے ملک سے باہرجانے کیلئے عدالت سے نام ای سی ایل سے ہٹانے کی درخواست کی تھی۔

وزارت دفاع نے کیس کی سماعت کے دوران اپنے جواب میں کہا تھا کہ اسد درانی نے بھارتی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ اے ایس دلت کے ساتھ مل کر ’اسپائی کرانیکلز‘ نامی کتاب لکھی، کتاب کے معائنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس کا مواد آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1952 کی خلاف ورزی ہے۔ اس طرز کی اور بھی کئی کتابیں پاکستان کی اعلیٰ قیادت اور قومی سلامتی کے خلاف تکمیل کے عمل میں ہیں۔

وزرات دفاع نے جواب میں کہا تھا کہ لیفٹنینٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے ساتھ 2008 سے جڑے ہیں اور وہ دوسرے ملک دشمن عناصر کے ساتھ بھی 2008 سے رابطے میں ہیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔