شاہی محل کی دیوار اور سرپھرے نوجوان
مظفرآباد کی ضلعی انتظامیہ، پولیس اور آزاد کشمیر حکومت ان نوجوان صحافیوں سے خائف ہے
تقی الحسن شہری دفاع کے حوالے سے تقاریب کی کوریج کے بعد گھر پہنچا۔ کھانے کی تھالی اس کے سامنے تھی۔ ایک ہی نوالہ کھایا تھا کہ اس کے فون کی گھنٹی بجی۔ کال ریسیو کی تو دوسری جانب ایک اور صحافی موجود تھا۔ اطلاع ملی کہ ایک گھر کی دیوار گرنے سے کچھ افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں، وہاں پہنچ کر معاملے کو دیکھو۔ تقی الحسن نے کھانا چھوڑا اور اپنے کیمرہ مین کو فون کرکے جائے حادثہ پر پہنچ گیا۔
مظفر آباد میں آزاد کشمیر ریڈیو سے متصل وزیراعظم آزاد کشمیر کے ذاتی گھر کی دیوار گری تھی، جس کے ملبے تلے بلڈوزر اور چند گاڑیاں دبی ہوئی تھیں۔ حادثے کی خبر واٹس ایپ کے ذریعے تمام صحافیوں تک پہنچ چکی تھی۔ دیگر نوجوان رپورٹرز بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچ چکے تھے۔ یہ نوجوان رپورٹرز ابھی حادثے کے مقام کا جائزہ لے ہی رہے تھے کہ چند اوباش نوجوان وہاں آگئے۔ انہوں نے صحافیوں کو جگہ خالی کرنے کا حکم دیا۔ نوجوان صحافی جو خبر کی تلاش میں کوہ ہمالیہ تک جانے کو تیار ہوتا ہے، جو سمندر کی گہرائیوں سے خبر تلاش کرنے کی جستجو میں رہتا ہے۔ اس کے سامنے ریاست جموں و کشمیر کی ایک بڑی خبر تھی، ایسی صورتحال میں وہ بھلا چپ کیسے رہ سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے کیمروں اور موبائل فونز کے ذریعے وقوعہ کی ویڈیوز بنانا شروع کردیں۔ شاہی محل کے چوکیداروں کو یہ بات ہضم نہ ہوئی اور انہوں نے صحافیوں پر تشدد شروع کردیا۔
رات گیارہ بجے جب مظفرآباد شہر میں گہرا سکوت طاری ہوتا ہے، اس وقت صحافیوں پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ ان کے مائیک اور کیمرے چھین لیے گئے، ان کے موبائل فونز توڑ دیے۔ صحافیوں کے بقول انہیں جان کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اسی دوران تقی الحسن اور نعیم چغتائی شدید زخمی ہوگئے، جبکہ ایک صحافی بے ہوش ہوگیا۔ نوجوانوں نے مرہم پٹی کے بعد پولیس سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے وکیل کو بلایا، سٹی تھانے پہنچے، لیکن وہاں بھی دو گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ تھانہ انچارج ٹیلی فون پر مسلسل ہدایات لیتا رہا۔ بعدازاں پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے صحافیوں کو ہی حوالات میں بند کردیا۔ پولیس نے انتہائی سبک رفتاری سے تین صحافیوں نعیم چغتائی، نواز ڈار، صدیق احمد اور حمزہ کاٹل کے خلاف غیر قانونی اسلحہ، کارِ سرکار میں مداخلت اور گالم گلوچ کی ایف آئی آر درج کردی۔ اسی دوران تحصیل مجسٹریٹ نے ایک روز کا ریمانڈ بھی دے دیا۔ صحافیوں نے واقعے کے خلاف احتجاج کی کوشش کی تو انہیں بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔
میرا ان نوجوان صحافیوں سے دیرینہ تعلق رہا ہے۔ واقعے کے بعد متعدد بار ان سے رابطے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے ملاقاتوں پر بھی پابندی عائد کر رکھی تھی۔ پولیس کا موقف جاننے کےلیے بار بار رابطہ کیا تو تھانہ انچارج سے لے کر ضلعی پولیس آفیسر تمام پولیس افسران نے موقف دینے سے انکار کردیا۔
واقعہ کیوں ہوا؟ کیا پولیس کو وزیراعظم آزاد کشمیر کی جانب سے ہدایات مل رہی تھیں؟ کیا سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور ایس ایچ او نے ذاتی حیثیت میں صحافیوں پر تشدد کیا؟ پولیس کا نشانہ نوجوان صحافی ہی کیوں بنے؟ کیا وزیراعظم آزاد کشمیر کے گھر کی دیوار غیر قانونی تھی؟ کیا اس حادثے میں جانی نقصان زیادہ ہوا جو تمام انتظامیہ معاملے پر مٹی ڈالنے کےلیے متحرک تھی؟ واقعے کے بعد میرے ذہن میں یہ تمام سوالات تھے۔ میں نے آزاد ذرائع سے اس بات کی تحقیق کرنے کی کوشش کی۔
ذرائع کے مطابق مظفرآباد کی ضلعی انتظامیہ، پولیس اور آزاد کشمیر حکومت ان نوجوان صحافیوں سے خائف ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات ان کا سرپھرا ہونا ہے، کیونکہ انہیں خبر کی قیمت لگانے کا چسکا ہے اور نہ ہی یہ سرپھرے نوجوان بلیک میلنگ کے اسرار و رموز سے آشنا ہیں۔ گزشتہ دنوں ان ہی نوجوانوں نے منشیات فروش کے گھر سٹی پولیس کی ڈکیتی کی خبر دی تھی۔ یہ وہی نوجوان تھے جنہوں نے وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ایک خاتون اور اس کے بوڑھے باپ کو بے توقیر کرنے کی ویڈیوز بنائی تھیں۔ یہ وہی سرپھرے صحافی تھے جنہوں نے سب ڈویژنل مجسٹریٹ کے شہریوں سے رویوں پر رپورٹس دی تھیں۔
آزاد کشمیر حکومت، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کئی دنوں سے موقعے کی تلاش میں تھی۔ پھر یکم مارچ کو انتظامیہ کو موقع میسر آگیا۔ پہلے کرایے کے غنڈوں کے ذریعے تشدد کروایا گیا، بعدازاں پولیس نے اپنا غصہ نکالا۔ ضلعی مجسٹریٹ نے بھی خوب بھڑاس نکالی اور یوں نوجوان صحافیوں کو توڑنے کی کوشش کی۔ لیکن نوجوان صحافی تو جنونی ہوتا ہے، اس کے سر پر ملک کےلیے کچھ کر گزرنے کا جنون سوار ہوتا ہے۔ وہ سرپھرا ہوتا ہے، خبر کا حصول اس کا مقصد ہوتا ہے، وہ نتائج کی پراہ کیے بغیر ہی میدان میں اتر جاتا ہے۔ یقیناً حکومتوں اور انتظامیہ کو انہی سرپھرے نوجوانوں سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ نوجوان اپنے جنون کی کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
محترم وزیراعظم آزاد کشمیر! آپ تو آزاد میڈیا کے قائل ہیں، آپ کے بقول تو ریاست جموں و کشمیر میں میڈیا دیگر صوبوں اور علاقوں کی نسبت زیادہ آزاد ہے۔ مگر ایسی کون سی وجوہات تھیں کہ آپ کے محل کی دیوار پر اتنا ہنگامہ برپا ہوگیا؟ کون سے ایسے غیر قانونی اقدامات تھے جن کو چھپانے کےلیے انتظامیہ اور آپ کے جیالے میدان میں آگئے؟ جان کی امان پاؤں تو حضور آپ ریاست کے عوام کو جوابد ہ ہیں۔ کیا احساس جوابدہی کے بجائے آپ مہاراجاؤں کے دور میں رہ رہے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مظفر آباد میں آزاد کشمیر ریڈیو سے متصل وزیراعظم آزاد کشمیر کے ذاتی گھر کی دیوار گری تھی، جس کے ملبے تلے بلڈوزر اور چند گاڑیاں دبی ہوئی تھیں۔ حادثے کی خبر واٹس ایپ کے ذریعے تمام صحافیوں تک پہنچ چکی تھی۔ دیگر نوجوان رپورٹرز بھی اپنی ٹیم کے ہمراہ جائے وقوعہ پر پہنچ چکے تھے۔ یہ نوجوان رپورٹرز ابھی حادثے کے مقام کا جائزہ لے ہی رہے تھے کہ چند اوباش نوجوان وہاں آگئے۔ انہوں نے صحافیوں کو جگہ خالی کرنے کا حکم دیا۔ نوجوان صحافی جو خبر کی تلاش میں کوہ ہمالیہ تک جانے کو تیار ہوتا ہے، جو سمندر کی گہرائیوں سے خبر تلاش کرنے کی جستجو میں رہتا ہے۔ اس کے سامنے ریاست جموں و کشمیر کی ایک بڑی خبر تھی، ایسی صورتحال میں وہ بھلا چپ کیسے رہ سکتا ہے۔ انہوں نے اپنے کیمروں اور موبائل فونز کے ذریعے وقوعہ کی ویڈیوز بنانا شروع کردیں۔ شاہی محل کے چوکیداروں کو یہ بات ہضم نہ ہوئی اور انہوں نے صحافیوں پر تشدد شروع کردیا۔
رات گیارہ بجے جب مظفرآباد شہر میں گہرا سکوت طاری ہوتا ہے، اس وقت صحافیوں پر بہیمانہ تشدد کیا گیا۔ ان کے مائیک اور کیمرے چھین لیے گئے، ان کے موبائل فونز توڑ دیے۔ صحافیوں کے بقول انہیں جان کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اسی دوران تقی الحسن اور نعیم چغتائی شدید زخمی ہوگئے، جبکہ ایک صحافی بے ہوش ہوگیا۔ نوجوانوں نے مرہم پٹی کے بعد پولیس سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اپنے وکیل کو بلایا، سٹی تھانے پہنچے، لیکن وہاں بھی دو گھنٹے انتظار کرنے کے بعد ان کی شنوائی نہ ہوئی۔ تھانہ انچارج ٹیلی فون پر مسلسل ہدایات لیتا رہا۔ بعدازاں پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے کے بجائے صحافیوں کو ہی حوالات میں بند کردیا۔ پولیس نے انتہائی سبک رفتاری سے تین صحافیوں نعیم چغتائی، نواز ڈار، صدیق احمد اور حمزہ کاٹل کے خلاف غیر قانونی اسلحہ، کارِ سرکار میں مداخلت اور گالم گلوچ کی ایف آئی آر درج کردی۔ اسی دوران تحصیل مجسٹریٹ نے ایک روز کا ریمانڈ بھی دے دیا۔ صحافیوں نے واقعے کے خلاف احتجاج کی کوشش کی تو انہیں بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔
میرا ان نوجوان صحافیوں سے دیرینہ تعلق رہا ہے۔ واقعے کے بعد متعدد بار ان سے رابطے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے ملاقاتوں پر بھی پابندی عائد کر رکھی تھی۔ پولیس کا موقف جاننے کےلیے بار بار رابطہ کیا تو تھانہ انچارج سے لے کر ضلعی پولیس آفیسر تمام پولیس افسران نے موقف دینے سے انکار کردیا۔
واقعہ کیوں ہوا؟ کیا پولیس کو وزیراعظم آزاد کشمیر کی جانب سے ہدایات مل رہی تھیں؟ کیا سب ڈویژنل مجسٹریٹ اور ایس ایچ او نے ذاتی حیثیت میں صحافیوں پر تشدد کیا؟ پولیس کا نشانہ نوجوان صحافی ہی کیوں بنے؟ کیا وزیراعظم آزاد کشمیر کے گھر کی دیوار غیر قانونی تھی؟ کیا اس حادثے میں جانی نقصان زیادہ ہوا جو تمام انتظامیہ معاملے پر مٹی ڈالنے کےلیے متحرک تھی؟ واقعے کے بعد میرے ذہن میں یہ تمام سوالات تھے۔ میں نے آزاد ذرائع سے اس بات کی تحقیق کرنے کی کوشش کی۔
ذرائع کے مطابق مظفرآباد کی ضلعی انتظامیہ، پولیس اور آزاد کشمیر حکومت ان نوجوان صحافیوں سے خائف ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات ان کا سرپھرا ہونا ہے، کیونکہ انہیں خبر کی قیمت لگانے کا چسکا ہے اور نہ ہی یہ سرپھرے نوجوان بلیک میلنگ کے اسرار و رموز سے آشنا ہیں۔ گزشتہ دنوں ان ہی نوجوانوں نے منشیات فروش کے گھر سٹی پولیس کی ڈکیتی کی خبر دی تھی۔ یہ وہی نوجوان تھے جنہوں نے وزیراعظم سیکریٹریٹ میں ایک خاتون اور اس کے بوڑھے باپ کو بے توقیر کرنے کی ویڈیوز بنائی تھیں۔ یہ وہی سرپھرے صحافی تھے جنہوں نے سب ڈویژنل مجسٹریٹ کے شہریوں سے رویوں پر رپورٹس دی تھیں۔
آزاد کشمیر حکومت، ضلعی انتظامیہ اور پولیس کئی دنوں سے موقعے کی تلاش میں تھی۔ پھر یکم مارچ کو انتظامیہ کو موقع میسر آگیا۔ پہلے کرایے کے غنڈوں کے ذریعے تشدد کروایا گیا، بعدازاں پولیس نے اپنا غصہ نکالا۔ ضلعی مجسٹریٹ نے بھی خوب بھڑاس نکالی اور یوں نوجوان صحافیوں کو توڑنے کی کوشش کی۔ لیکن نوجوان صحافی تو جنونی ہوتا ہے، اس کے سر پر ملک کےلیے کچھ کر گزرنے کا جنون سوار ہوتا ہے۔ وہ سرپھرا ہوتا ہے، خبر کا حصول اس کا مقصد ہوتا ہے، وہ نتائج کی پراہ کیے بغیر ہی میدان میں اتر جاتا ہے۔ یقیناً حکومتوں اور انتظامیہ کو انہی سرپھرے نوجوانوں سے زیادہ خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ نوجوان اپنے جنون کی کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوتے ہیں۔
محترم وزیراعظم آزاد کشمیر! آپ تو آزاد میڈیا کے قائل ہیں، آپ کے بقول تو ریاست جموں و کشمیر میں میڈیا دیگر صوبوں اور علاقوں کی نسبت زیادہ آزاد ہے۔ مگر ایسی کون سی وجوہات تھیں کہ آپ کے محل کی دیوار پر اتنا ہنگامہ برپا ہوگیا؟ کون سے ایسے غیر قانونی اقدامات تھے جن کو چھپانے کےلیے انتظامیہ اور آپ کے جیالے میدان میں آگئے؟ جان کی امان پاؤں تو حضور آپ ریاست کے عوام کو جوابد ہ ہیں۔ کیا احساس جوابدہی کے بجائے آپ مہاراجاؤں کے دور میں رہ رہے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔