الیکشن کمیشن کی بڑھتی اہمیت
حکومتیں ہر دور میں الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال کر مرضی کے فیصلے لینا چاہتی ہیں۔
سپریم کورٹ نے یہ واضح کرکے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی اہمیت بڑھا دی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس کی معاونت کی پابند ہیں۔ اس لیے الیکشن کمیشن پر لازم ہے کہ وہ ملک میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کے لیے ٹیکنالوجی کے استعمال سمیت تمام اقدامات کرے۔
ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کے نتائج مسترد کرکے الیکشن کمیشن ملک کی تاریخ میں پہلی بار این اے 75پر ازسر نو ضمنی انتخابات دوبارہ کرانے کا اہم اعلان کرکے اپنی اہمیت منوا چکا ہے اور الیکشن کمیشن نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہے اور حقائق کے مطابق فیصلہ کرنے کی جرأت رکھتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے پہلے ڈسکہ کا رزلٹ روکا تو حکومتی وزرا اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے رہے اور دعوے کرتے رہے کہ پی ٹی آئی امیدوار تقریباً سات ہزار ووٹوں سے جیت چکا ہے حالانکہ یہ حکومتی اعلان ہی غیر قانونی تھا اور الیکشن کے نتائج کا اعلان کرنے کا قانونی اختیار صرف اور صرف الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔
الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کا رزلٹ روکنے کے بعد کوئی یکطرفہ فیصلہ نہیں کیا بلکہ فریقین کے دلائل سننے کے بعد حقائق کے مطابق کسی سیاسی یا حکومتی دباؤ میں آنے کے بجائے چیف الیکشن کمشنر نے ڈسکہ کے الیکشن کے سلسلے میں حکومتی موقف تسلیم نہیں کیا اور ڈسکہ میں مخصوص پولنگ اسٹیشنوں کے بجائے حلقے کے تمام پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج کو غیر منصفانہ قرار دے کر دوبارہ انتخابات کا فیصلہ سنا دیا جو وفاقی حکومت کے لیے حیران کن اور غیر متوقع تھا جس پر پی ٹی آئی قیادت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کے فیصلے کی منظوری دی۔
حکومت نے اس سلسلے میں دو پٹیشن دائر کرنے کے ساتھ ، الیکشن کمیشن کے اس حکم کے خلاف بھی اپیل کرنے کا فیصلہ کیا جس میں الیکشن کمیشن نے متعلقہ سرکاری ملازمین کو الیکشن میں غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرنے کا مرتکب قرار دیا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج میں غیر ضروری تاخیر، نتائج میں رد و بدل کے معاملات کو متعلقہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری قرار دیا۔ پنجاب کے چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کو طلب کرنے کے علاوہ ذمے دار افسروں کو بھی ہٹانے کا حکم دیا ہے جس کے بعد پنجاب حکومت نے بعض افسروں کو ہٹا کر الیکشن کمیشن کے حکم کی تعمیل بھی کردی ہے جس سے الیکشن کمیشن کی اہمیت بڑھی ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ آئین کے تحت حاصل اختیارات کے تحت ملک میں شفاف، منصفانہ انتخابات آزادانہ طور پر منعقد کرائے۔ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت ذمے داریاں دی گئی ہیں اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی معاونت کی قانونی طور پر پابند ہیں اور حکم نہ ماننے پر الیکشن کمیشن ان کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے قرار دیا ہوا ہے کہ جہاں انتخابات ہونے ہوں وہاں الیکشن کمیشن کے حکم کے بعد افسروں کے تبادلے نہیں کیے جاسکتے اور حکومتی عہدیدار وہاں انتخابی مہم میں شریک نہیں ہو سکتے مگر عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں ان ہدایات پر عمل نہیں کرتیں۔ ڈسکہ کے الیکشن میں پنجاب حکومت نے الیکشن کمیشن کے حکم کے باوجود ایک ڈی ایس پی کا تبادلہ نہیں کیا اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر سمیت متعدد وزرا اور حکومتی عہدیدار پولنگ والے روز انتخابی حلقوں کے دورے کرتے رہے اور پنجاب کے ایک وزیر نے یہ تسلیم بھی کیا کہ انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے سرکاری افسروں کے خلاف تو کارروائی کی گئی مگر سیاسی ذمے داروں کے خلاف کارروائی سامنے نہیں آئی اور اب وہی سیاسی اور حکومتی لوگ الیکشن کمیشن کے دوبارہ الیکشن کمیشن کے حکم پر تنقید کر رہے ہیں۔ ایک وزیر مملکت اس حکم کو آئینی قرار دیتا ہے تو دوسرا وزیر اسے غیر قانونی قرار دیتا ہے۔
الیکشن کمیشن پر ہر بار تنقید ہوتی ہے اور عدالتی طور پر بھی الیکشن کمیشن کے احکامات پر عمل روک دیا جاتا ہے جو طویل عرصے تک جاری رہتا ہے جس کی ایک مثال ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی ہیں جن کے انتخاب کو گزشتہ سال کالعدم قرار دیا تھا مگر انھوں نے عدالتی حکم امتناعی لے لیا اور کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی وہ اپنے عہدے پر برقرار ہیں۔
حکومتیں ہر دور میں الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال کر مرضی کے فیصلے لینا چاہتی ہیں مگر پہلی بار حکومت کو ڈسکہ میں مرضی کا فیصلہ نہیں ملا اور الیکشن کمیشن نے اپنی اہمیت دکھا دی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلوں سے توقع ہے کہ اس کی اہمیت مزید بڑھے گی اور آیندہ منصفانہ انتخابات ممکن ہوسکیں گے۔
ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کے نتائج مسترد کرکے الیکشن کمیشن ملک کی تاریخ میں پہلی بار این اے 75پر ازسر نو ضمنی انتخابات دوبارہ کرانے کا اہم اعلان کرکے اپنی اہمیت منوا چکا ہے اور الیکشن کمیشن نے ثابت کردیا ہے کہ وہ ہر قسم کے دباؤ سے آزاد ہے اور حقائق کے مطابق فیصلہ کرنے کی جرأت رکھتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے پہلے ڈسکہ کا رزلٹ روکا تو حکومتی وزرا اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے رہے اور دعوے کرتے رہے کہ پی ٹی آئی امیدوار تقریباً سات ہزار ووٹوں سے جیت چکا ہے حالانکہ یہ حکومتی اعلان ہی غیر قانونی تھا اور الیکشن کے نتائج کا اعلان کرنے کا قانونی اختیار صرف اور صرف الیکشن کمیشن کے پاس ہے۔
الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کا رزلٹ روکنے کے بعد کوئی یکطرفہ فیصلہ نہیں کیا بلکہ فریقین کے دلائل سننے کے بعد حقائق کے مطابق کسی سیاسی یا حکومتی دباؤ میں آنے کے بجائے چیف الیکشن کمشنر نے ڈسکہ کے الیکشن کے سلسلے میں حکومتی موقف تسلیم نہیں کیا اور ڈسکہ میں مخصوص پولنگ اسٹیشنوں کے بجائے حلقے کے تمام پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج کو غیر منصفانہ قرار دے کر دوبارہ انتخابات کا فیصلہ سنا دیا جو وفاقی حکومت کے لیے حیران کن اور غیر متوقع تھا جس پر پی ٹی آئی قیادت نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کے فیصلے کی منظوری دی۔
حکومت نے اس سلسلے میں دو پٹیشن دائر کرنے کے ساتھ ، الیکشن کمیشن کے اس حکم کے خلاف بھی اپیل کرنے کا فیصلہ کیا جس میں الیکشن کمیشن نے متعلقہ سرکاری ملازمین کو الیکشن میں غیر ذمے داری کا مظاہرہ کرنے کا مرتکب قرار دیا اور ان کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج میں غیر ضروری تاخیر، نتائج میں رد و بدل کے معاملات کو متعلقہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری قرار دیا۔ پنجاب کے چیف سیکریٹری اور آئی جی پولیس کو طلب کرنے کے علاوہ ذمے دار افسروں کو بھی ہٹانے کا حکم دیا ہے جس کے بعد پنجاب حکومت نے بعض افسروں کو ہٹا کر الیکشن کمیشن کے حکم کی تعمیل بھی کردی ہے جس سے الیکشن کمیشن کی اہمیت بڑھی ہے۔
سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ یہ الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے کہ وہ آئین کے تحت حاصل اختیارات کے تحت ملک میں شفاف، منصفانہ انتخابات آزادانہ طور پر منعقد کرائے۔ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 218(3) کے تحت ذمے داریاں دی گئی ہیں اور وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کی معاونت کی قانونی طور پر پابند ہیں اور حکم نہ ماننے پر الیکشن کمیشن ان کے خلاف قانونی کارروائی کرسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن نے قرار دیا ہوا ہے کہ جہاں انتخابات ہونے ہوں وہاں الیکشن کمیشن کے حکم کے بعد افسروں کے تبادلے نہیں کیے جاسکتے اور حکومتی عہدیدار وہاں انتخابی مہم میں شریک نہیں ہو سکتے مگر عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں ان ہدایات پر عمل نہیں کرتیں۔ ڈسکہ کے الیکشن میں پنجاب حکومت نے الیکشن کمیشن کے حکم کے باوجود ایک ڈی ایس پی کا تبادلہ نہیں کیا اور قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر سمیت متعدد وزرا اور حکومتی عہدیدار پولنگ والے روز انتخابی حلقوں کے دورے کرتے رہے اور پنجاب کے ایک وزیر نے یہ تسلیم بھی کیا کہ انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔
الیکشن کمیشن کی طرف سے سرکاری افسروں کے خلاف تو کارروائی کی گئی مگر سیاسی ذمے داروں کے خلاف کارروائی سامنے نہیں آئی اور اب وہی سیاسی اور حکومتی لوگ الیکشن کمیشن کے دوبارہ الیکشن کمیشن کے حکم پر تنقید کر رہے ہیں۔ ایک وزیر مملکت اس حکم کو آئینی قرار دیتا ہے تو دوسرا وزیر اسے غیر قانونی قرار دیتا ہے۔
الیکشن کمیشن پر ہر بار تنقید ہوتی ہے اور عدالتی طور پر بھی الیکشن کمیشن کے احکامات پر عمل روک دیا جاتا ہے جو طویل عرصے تک جاری رہتا ہے جس کی ایک مثال ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی ہیں جن کے انتخاب کو گزشتہ سال کالعدم قرار دیا تھا مگر انھوں نے عدالتی حکم امتناعی لے لیا اور کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی وہ اپنے عہدے پر برقرار ہیں۔
حکومتیں ہر دور میں الیکشن کمیشن پر دباؤ ڈال کر مرضی کے فیصلے لینا چاہتی ہیں مگر پہلی بار حکومت کو ڈسکہ میں مرضی کا فیصلہ نہیں ملا اور الیکشن کمیشن نے اپنی اہمیت دکھا دی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلوں سے توقع ہے کہ اس کی اہمیت مزید بڑھے گی اور آیندہ منصفانہ انتخابات ممکن ہوسکیں گے۔