شکست

موجودہ سینیٹ کے انتخابات کو بھی سیاست دانوں کے جمہوری رویوں میں معمولی تبدیلی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔

Warza10@hotmail.com

MUZAFFARABAD:
سیاست کی بساط کب رنگ بدلتی ہے، یہ جاننا بھی اک ہنر سے کم نہیں،کبھی کبھار بچھی بساط کے پیادے ایسی مشکل کھڑی کردیتے ہیں کہ شاہ کو مات سے اس کا قریبی وزیر بھی نہیں بچا پاتا ، اور عمومی طور سے شاہ کے وفادار سمجھے جانے والے پالیسی ساز بھی اپنے پیادوں کے چال چلن کوکنٹرول نہیں کر پاتے۔

بس بساط سے نظر ہٹنا ہی عموماً ''چھپی قوت'' کو چاروں شانے چِت کرکے ایسا ماحول بنا دیتی ہے کہ جس میں خود کا دفاع کرنا اور خودکو بچانا بھی ناممکن سا لگتا ہے، موجودہ سینیٹ الیکشن کے نتائج کی صورتحال نے بھی سلیکٹیڈ پکاری جانے والی حکومت کو ایسی ہی صورتحال سے دو چار کر دیا ہے۔

ہماری تعلیم کے دوران اکثر اساتذہ کرام سمجھایا کرتے تھے کہ Over Smartness یا ضرورت سے زیادہ اعتماد بھی آپ کی ناکامی کا سبب ہوتا ہے، ایسی ہی صورتحال موجودہ سینیٹ انتخابات میں نظر آئی کہ جب حکومتی اعتماد رکھنے والے حفیظ شیخ کو شکست ہوئی اور حکومت کا اعتماد متزلزل ہوا۔ سینیٹ میں حکومتی امیدوار حفیظ شیخ کی شکست کے بعد اپوزیشن اور دیگر عوامی حلقوں کی جانب سے موجودہ وزیراعظم کے دوبارہ اعتماد کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے،جس کے نتیجے میں تبدیلی سرکار کے ماہ ولی کو اراکینِ قومی اسمبلی کے اعتماد کا ووٹ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی، جو قومی اسمبلی کے اجلاس میں متوقع ہے۔

ہمارے نظام جمہوریت میں عوام کے ووٹوں سے منتخب اراکین اسمبلی نے جمہوریت کے استحکام کے خاطر موجودہ سینیٹ الیکشن میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا،جس کے نتائج سے اس پیغام کو تقویت ملی کہ اب بھی عوام کے مسائل کے حل کی اصل جگہ منتخب پارلیمینٹ ہی ہے۔

دوسری جانب سینیٹ الیکشن میں حفیظ شیخ کی یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں شکست نے ثابت کیا کہ حکومتی اتحاد یا پی ٹی آئی کے بیشتر اراکین قومی اسمبلی جمہوری اداروں کی بالادستی اور جمہوری نظام پر پختہ یقین رکھتے ہیں، اور اگر انھیں آزادانہ رائے کے اظہارکا موقع دیا جائے تو اراکین اسمبلی'' طاقتور قوتوں'' کے مخالف اپنی رائے کا برملا اظہارکرنے کی ہمت رکھتے ہیں، یہ خوش آیند اور بہتر سمت کی جانب جانے والا مثبت اور ایک اہم رویہ ہے۔

دنیا بھرکی جمہوریتوں میں عمومی طور سے اپوزیشن حکومتی ایوان کوکمزورکرنے کی مسلسل کوششوں میں سرگرم رہتی ہے جوکہ ایک جمہوری اور آئینی طریقہ سمجھا جاتا ہے، مگر ہمارے ہاں آمرانہ حکومتوں سے جنم لینے والی جمہوریت شاید اس طور سے مضبوط نہ ہو سکی ہے،جسے ہم ایک اعلیٰ قسم کی جمہوریت سمجھ لیں ، ان معنی میں ہم اب تک ایک نوزائیدہ جمہوریت لانے کی کوششوں میں جتے ہوئے ہیں کہ جس کے رویوں میں میں اب تک آمرانہ جھلک یا طاقتور اسٹبلشمنٹ کے خوش آمدانہ انداز جا بجا ملتے ہیں، مگر دوسری جانب یہ بات بھی کسی حد تک اطمینان بخش رہی کہ ہماری نوزائیدہ جمہوریت میں ایک ''پختگی'' کا عنصر آتا گیا جو کہ ایک خوشگوار بات کہی جا سکتی ہے۔


موجودہ سینیٹ کے انتخابات کو بھی سیاست دانوں کے جمہوری رویوں میں معمولی تبدیلی کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، موجودہ حکومت کے بارے میں اب یہ تاثر عوام کے ذہنوں میں پختہ کروادیا گیا ہے کہ 2018 کے انتخابات عوام کے ووٹ کی طاقت سے زیادہ'' خفیہ قوتوں'' کی مرضی مطابق منعقد کروائے گئے،جس کے نتیجے میں انھی قوتوں کی مرضی و منشا کے مطابق نتائج دیے گئے اور یوں عوام کے ووٹ کی طاقت کو پھر سے بے توقیرکرنے کی کوشش کی گئی، جس میں اسٹبلشمنٹ کو کاندھا دینے یا ''ہائبرڈ جمہوریت'' قائم کرنے میں تحریک انصاف کو چنا گیا اور تحریک انصاف نے عوامی رائے یا ووٹ کے برعکس مانگے تانگے کے مینڈیٹ پر حکومت قائم کی۔

گو شروع میں ''ہائیبرڈ جمہوریت'' کے مقابل اپوزیشن کے مذکورہ بیانیے کو تقویت نہ مل سکی، مگر پھر پی ٹی آئی/خفیہ قوتوں کی حکومت نے اپنی معاشی منصوبہ بندی اور انتظامی کارکردگی سے دو سال بعد اپوزیشن کو یہ موقع ضرور فراہم کر دیا کہ متحدہ اپوزیشن خود کو پاکستان ڈیموکریٹکس الائنس ایسے اتحاد میں جوڑے اور 2018 کے انتخابات میں ان غیر جمہوری کرداروں کو عوام کے سامنے برملا لائے جن کی وجہ سے ملک کو دوبارہ سے خفیہ قوتوں کے مضبوط پنجوں میں دیے جانے کا خطرہ لاحق ہوچکا تھا۔

جمہوری نظام کو مزید کمزور کرنے کی ''اسٹبلشمنٹ نواز'' کوششوں کو اپوزیشن اتحاد نے بھانپا اور اپوزیشن نے حکومت مخالف اس بیانیے کو نوازشریف کے ''ووٹ کو عزت دو'' سے جب جوڑا تو وہ عوام کا بیانیہ بن گیا،اور PDM نے ملک میں آئینی اقتدار کی اہمیت اور پارلیمان کی بالادستی کے اسی بیانیے کو جلسے جلوس اور ریلیوں کی مدد سے عام فرد تک پہنچایا تو ایوان میں بیٹھے منتخب اراکین اسمبلی بھی آئین کی بالادستی کے لیے یکسو ہوئے اور تبدیلی سرکار کی ''ہائبرڈ جمہوریت'' میں منتخب اراکین کے مقابلے میں پیرا شوٹر قسم کے وزرا اور مشیران پرکھل کر تنقید کرنے لگے اور حکومتی ایوانوں میں پیرا شوٹر وزرا کو نا پسندیدگی سے دیکھا جانے لگا۔

سیاست میں حکومتی چیرہ دستیوں اور اپوزیشن کے بیانیے سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومتی نمایندے حفیظ شیخ کی شکست میں مقتدرہ غیر جانبدار رہی؟ تو اس کا جواب قطعی طور سے نفی میں ہی سمجھا جائے تو بہتر ہے،جس کی وجوہات اور بہت سی ہوسکتی ہیں مگر یہ سمجھ لینا کہ '' ہائیبرڈ جمہوریت'' کے خواب کی تعبیر پانے والی اسٹبلشمنٹ نے حفیظ شیخ کی کامیابی کے لیے کوئی کوشش نہ کی ،مکمل غلط ہے۔

سیاست کے ماہرین کے اندازے کے مطابق آخری لمحات تک خفیہ قوت حفیظ شیخ کی کامیابی پر مطمئن تھی ، مگر پی ٹی آئی کے چند حقیقی اراکین اسمبلی نے ووٹ کے ذریعے اپنی قیادت کو یہ پیغام ضرور دے دیا کہ وہ مزید ''ہائیبرڈ نظام جمہوریت'' کی حمایت کرنے سے قاصر رہیں گے کہ جس کا نقصان وہ آیندہ اپنے حلقے میں نہیں اٹھانا چاہتے،پی ٹی آئی کے منحرفین کا یہ پیغام حفیظ شیخ کو ہرانے اور اپنی خاتون سینیٹرکو ووٹ دینے کی صورت میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے،جس کا مطلب اپوزیشن کے لیے یہ نکلتا ہے کہ وہ موجودہ خفیہ قوتوں کے ان حکومتی اتحادیوں پر وقت نہ ضایع کرے جو چھاتہ بردار/پیرا شوٹر وزرا اور مشیران پر قطعی اعتراض نہیں کریں گے بلکہ اپنے حصے کے مفاد میں عوام دشمن نظام'' ہائیبرڈ جمہوریت'' کا ساتھ دیتے رہیں گے۔

البتہ اب اپوزیشن کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ وزیراعظم کے اعتماد کے ووٹ کے موقع پر جمہوری سوچ کے اراکین اسمبلی کو آئینی بالادستی کے تناظر میں زیادہ اعتماد میں لے کر انھیں عوام کی خوشحالی اور عوام کے دکھ درد کے ساتھی کی سوچ کا محور بنائیں تاکہ جمہوری ادارے اور پارلیمان کو مضبوط کیا جاسکے اور پارلیمانی جمہوریت کے حاصلات عوام کی بیروزگاری ختم کرنے اور عوام کی خوشحالی لانے پر صرف کیے جاسکیں اور ہر قسم کے پیرا شوٹر سے نجات پانا جمہوری اراکین کی اولیت ٹہرے۔
Load Next Story