سدرۃ المنتہیٰ

حضرت جبرئیلؑ کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پا کر حضرت محمدؐ بیدار ہوئے اور دریافت کیا، اے جبرئیل! کیسے آنا ہوا۔

واقعہ معراج اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک ہے اس میںکتنا وقت صرف ہوا، اس کو صرف رب تبارک و تعالیٰ اور رسول کریمؐ بہتر جانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعے میں اپنے محبوب حضرت محمدؐ کو اعلان نبوت کے دسویں سال ماہ مبارک رجب کی ستائیسویں رات اللہ اپنے فرشتوں سے فرماتے ہیں۔

جنت الفردوس کو آراستہ کرو۔ اے جبرئیل میرا یہ پیغام میکائیل کو سنا دو، رزق کا پیوند ہاتھ سے علیحدہ کردے۔ اسرافیل سے کہہ دو کچھ عرصے کے لیے سور نہ پھونکے۔ عزرائیل سے کہہ دو کچھ عرصے کے لیے روح قبض کرنے سے ہاتھ اٹھا لے۔ مالک کوکہہ دو وہ دو روز کے لیے دوزخ کو قفل لگا دے ارواح سے کہہ دو وہ آراستہ وپیراستہ ہوجائیں اور جنت کے محلات پر دست بہ دست کھڑی ہو جائیں۔ مشرق سے مغرب تک جس قدر قبریں ہیں ان سے عذاب ختم کر دیا جائے آج کی رات ''شب معراج'' میرے محبوب حضرت محمدؐ کے استقبال کے لیے تیار ہوجائیں۔

ماہ رجب کی ستائیسویں شب کس قدر پرکیف اثرات، مطلع بالکل صاف فضاؤں میں عجیب سی کیفیت ہے رات آہستہ آہستہ کیف و نشاط کی مستی میں مست ہوتی جا رہی ہیں ستارے پوری آب و تاب کے ساتھ جھلملا رہے ہیں پوری دنیا پر سکوت کا عالم طاری ہے۔ نصف شب گزرنے کو ہے یکایک آسمانی دنیا کی تجلی کا دروازہ کھلتا ہے وہاں تجلیات سمیٹے حضرت جبرئیلؑ نورانی مخلوق کے جھرمٹ میں براق لیے آسمان سے اتر کر حضرت محمد مصطفیٰؐ کے گھر تشریف لاتے ہیں حضرت جبرئیلؑ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور سوچ رہے ہیں۔ اگر آواز دے کر جگاؤں تو بے ادبی ہوجائے گی۔

فکرمند ہیں،معراج کے دلہے کو کیسے بیدار کیا جائے اس وقت اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے۔ اے جبرئیل اپنے لبوں سے میرے محبوب کے قدموں کو چھو لے تاکہ تیرے لبوں کی ٹھنڈک سے میرے محبوب کی آنکھ کھل جائے تجھ کو میں نے اسی شب کے واسطے پیدا کیا تھا۔ حکم سنتے ہی جبرئیل امین آگے بڑھے اپنے کافوری ہونٹ محبوب دو عالم حضرت محمدمصطفیٰؐ کے پائے نامے سے مس کردیے۔ یہ منظر کس قدر حسین ہوگا کہ جب جبرئیل امین نے فخر کائنات حضرت محمد مصطفیٰؐ کے قدم مبارک کو بوسہ دیا۔

حضرت جبرئیلؑ کے ہونٹوں کی ٹھنڈک پا کر حضرت محمدؐ بیدار ہوئے اور دریافت کیا، اے جبرئیل! کیسے آنا ہوا۔ عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ کی طرف سے بلانے کا پروانہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔ یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کے مشتاق ہیں۔ تمام آسمانوں تک تمام گزرگاہوں پر مشتاقین کا ہجوم ہاتھ باندھے کھڑا ہے۔ چنانچہ حضورؐ نے سفر کی تیاری شروع کی۔

سواری بھی نور، سوار بھی نور، ساتھی بھی نور، دلہا بھی نور، میزبان بھی نور اور مہمان بھی نور۔ نوروں کی بارات جھاڑیوں، بے آب و گیاہ ریگستانوں، گھنے جنگلات، چٹیل میدان، سرسبز و شاداب وادیوں، پرخطر ویرانوں سے سفر کرتی ہوئی وادی بتھا (مدینہ) پہنچی جہاں کھجور کے بے شمار درخت ہیں۔ حضرت جبرئیلؑ عرض کرتے ہیں حضورؐ یہاں اتر کر دو رکعت نفل ادا کیجیے، یہ آپ کی ہجرت کا مدینہ طیبہ ہے۔ نفل کی ادائیگی کے وقت پھر سفر شروع ہوتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے بیت المقدس بھی آجاتا ہے جہاں قدسیوں کا جم غفیر سلامی کے لیے موجود ہے اور تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا استقبال کے لیے بے چین اور بے قرار کھڑے ہیں۔

حضورؐ اس مقام پر تشریف فرما ہوئے جو باب محمدؐ کہلاتا ہے حضرت جبرئیل ایک پتھر کے پاس آئے جو وہاں موجود تھا۔ حضرت جبرئیلؑ نے اس پر اپنی انگلی مار کر اس پتھر میں سوراخ کردیا اور براق کو اس میں باندھ دیا۔ آفتاب نبوت حضرت محمد مصطفیٰؐ مسجد اقصیٰ میں داخل ہوتے ہیں صحن حرم سے فلک تک نور ہی نور چھایا ہوا ہے، ستارے ماند پڑ چکے ہیں۔ قدسی سلامی دے رہے ہیں، حضرت جبرئیلؑ اذان دے رہے ہیں، تمام انبیا صف در صف کھڑے ہو رہے ہیں۔ جب صفیں بن چکیں تو ''امام الانبیا فخر دو جہاں حضرت محمد مصطفےؐ امامت فرمانے تشریف لاتے ہیں۔'' تمام انبیاؑ آپ کے اقتدا میں دو رکعت نماز ادا کرکے اپنی نیاز مندی کا اعلان کرتے ہیں۔

ملائکہ اور انبیا سب سر تسلیم خم کھڑے ہیں، بیت المقدس میں آج تک ایسا دل فریب منظر روح پرور سماں نہیں دیکھا ہوگا۔ وہاں سے فراغت پانے کے بعد درود و سلام سے فضا ایک مرتبہ پھر گونج اٹھتی ہے، سرور کونین حضرت محمد مصطفیٰؐ نوری مخلوق کے جھرمٹ میں آسمان کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔


حضورؐ فرماتے ہیں کہ پھر مجھے اوپر لے جایا گیا۔ براق کی رفتار کا یہ عالم تھا کہ جہاں نظر کی انتہا ہوتی وہاں براق اپنا پہلا قدم رکھتا۔ فوری اول آسمان آگیا حضرت جبرئیلؑ نے دروازے پر دستک دی۔ سارے دروازے کھول دیے گئے پہلے آسمان پر آدمؑ نے سرور کونین حضرت محمدؐ کو خوش آمدید کہا۔

حضور محمدمصطفیٰؐ کو جنت کی سیر کرائی گئی پھر آپؐ اس مقام پر پہنچے جہاں قلم قدرت کے چلنے کی آواز آ رہی تھی، اس کے بعد آپؐ سدرۃ المنتہیٰ پہنچے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں مخلوق کے عام ہجوم کی انتہا ۔ فرشتوں نے کہا اے اللہ! سارے جہانوں کے مالک تیرے محبوب تشریف لا رہے ہیں ان کے دیدار کی ہمیں اجازت عطا فرمائیے۔ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تمام فرشتے سدرۃ المنتہیٰ پر جمع ہوجائیں اور جب میرے محبوب کی سواری آئے تو سب زیارت کرلیں۔

تمام ملائکہ حضرت محمد مصطفیٰؐ کا دیدار کرنے سدرۃ المنتہیٰ پہنچے اس مقام پر جبرئیلؑ ٹھہر گئے۔ کہنے لگے یارسول اللہؐ! ہم سب کے لیے ایک جگہ مقرر ہے۔ میں آگے بڑھوں گا تو اللہ کی مبارک تجلیات پروں کو خاکستر کردیں گی یہ میرے مقام کی انتہا ہے۔

سبحان اللہ! حضورؐ کی رفعت، عزت و عظمت، قدر و منزلت کا موازنہ لگائیں جہاں جبرئیل امینؑ کی حد ختم ہوجائے وہاں حضور محمد مصطفیٰؐ کی پرواز شروع ہوتی ہے۔ اس موقع پر حضورؐ ارشاد فرماتے ہیں جبرئیل کو چھوڑ کر شب انوار و تجلیات کی منازل طے کرتے گئے جب حضورؐ عرش کے قریب پہنچے تو آگے حجاب بلکہ تمام حجابات پردے ہٹا دیے گئے۔

قرآن مجید میں بیان کیا گیا ہے پھر جلوہ حسن میں اپنے ظہور کا ارادہ فرمایا اور وہ محمد مصطفیٰؐ شب معراج عالم مکاں کے سب سے اونچے کنارے پر تھے یعنی عالم خلق کی انتہا پر تھے۔ پھر وہ مبارک گھڑی بھی آگئی کہ حضرت محمدؐ حریم الٰہی پہنچے اپنی آنکھوں سے عالم بیداری میں اللہ تعالیٰ کی زیارت کی۔ قرآن مجید محبوب اور محب کی اس ملاقات کا منظر بیان کرتا ہے پھر وہ رب اپنے حبیب سے قریب ہوا، پھر اور زیادہ قریب ہو گیا اور جلوہ حق حبیب مکرمؐ صرف دو کمانوں کا فاصلہ رہ گیا اس سے بھی کم۔ حضور محمد مصطفیٰؐ اللہ تعالیٰ کے قرب سے مشرف ہوئے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبؐ کو قرب سے نوازا۔

حضور سرور کونینؐ بارگاہ الٰہی پہنچے تو آپؐ نے فرمایا بس اس مقام مقرب وصال پر اللہ نے محبوب کو وحی عطا فرمائی۔ اس واقعے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بڑی بڑی نشانیاں موجود ہیں۔ ساری کائنات جو کارخانہ قدرت ہے کارخانہ عالم کا حقیقی مالک اللہ تعالیٰ ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر کو اپنی قدرت کی نشانی دکھانے کے لیے بلوایا تو اس میں کتنا وقت لگا اسے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اللہ تعالیٰ جو ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے اس رب کائنات نے اس کارخانہ عالم کو بند کردیا سوائے اپنے محبوبؐ اور ان چیزوں کے جسے حضورؐ نے متحرک پایا۔ باقی تمام کائنات کو ٹھہرا دیا گیا ہر شے اپنی جگہ ٹھہر گئی۔

چاند اپنی جگہ، سورج اپنی جگہ رک گیا۔ حرارت و ٹھنڈک اپنی جگہ ٹھہر گئی، حضورؐ کے جسم مبارک کی حرارت اپنی جگہ قائم رہی، حضورؐ کے بستر مبارک کی حرارت اپنی جگہ قائم رہی۔ حجرہ مبارک کی زنجیر اپنی جگہ پہنچی تھی وہیں رک گئی جو سویا تھا وہ سویا رہ گیا جو بیٹھا تھا وہ بیٹھا رہ گیا، زمانے کی حرکت بند ہوگئی۔ جب حضورؐ رات میں سفر کرکے زمین پر تشریف لائے۔ عالم پھر سے چلنے لگا ہر شے ازسر نو منازل کو طے کرنے لگی چاند، سورج مناظر طے کرنے لگے۔ حرارت و ٹھنڈک اپنے درجات طے کرنے لگے جو شے ساکت ہوگئی تھی دوبارہ حرکت کرنے لگی۔ بستر مبارک کی حرارت اپنے درجات طے کرنے لگی حجرہ مبارک کی زنجیر ہلنے لگی نہ کوئی تغیر آیا نہ ہی کسی کو احساس ہوا۔

تمام اہل ایمان نے اس واقعے کی سچائی کو دل سے مانا اور تصدیق کی۔ ابو جہل حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس دوڑا ہوا گیا کہنے لگا اے ابو بکر تُو نے سنا کہ محمدؐ کیا کہتے ہیں؟ کیا بات تسلیم کی جاسکتی ہے کہ رات کو وہ بیت المقدس گئے اور آسمانوں کا سفر طے کرکے دوبارہ واپس آگئے۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ فرمانے لگے میرے آقاؐ نے فرمایا ہے تو بالکل سچ ہے کیونکہ حضورؐ کی زبان پر جھوٹ نہیں آسکتا۔
Load Next Story