تَن درستی ہزار نعمت ہے۔۔۔
’’اﷲ تعالی سے عافیت کی دعا مانگا کرو۔‘‘
یوں تو اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، لیکن ہم نہ تو اس کا عملاً شُکر ادا کرتے ہیں اور نہ ہی ان نعمتوں کی اصل قدر و قیمت ہمیں معلوم ہے۔
ان بیش بہا خزانوں میں سے جو ہر لمحے اور پر پَل ہم پر بارش کی طرح برس رہی ہیں، میں سے صحت اور تن درستی ایک نادر اور انمول نعمت ہے۔ جس کی اہمیت ہمیں تب معلوم ہوتی ہے جب ہم بیمار ہو جاتے، طاقت میں کمی محسوس کرنے لگتے ہیں، پھر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ صحت کی شکل میں جو دولت اﷲ نے ہمیں دے رکھی ہے وہ بہت بڑا عطیہ اور عظیم نعمت ہے۔
صحت و تن درستی کی قدر و اہمیت اُس سے پوچھیں جو بیماری کے سبب دن رات تڑپتا رہتا ہے۔ کبھی کسی بیمار شخص یا اسپتال میں جا کر زیرِ علاج مریضوں کا بہ غور مشاہدہ کریں، جو کسی مرض اور درد و تکلیف میں مبتلا ہیں۔ ان کی آرزو دریافت کریں، جو گھٹن بے چینی اور بے قراری کی کیفیت سے دوچار ہیں، تو معلوم ہوگا ان سب کی خواہش ایک ہی ہے کہ انہیں عافیت حاصل ہوجائے، وہ صحت واپس مل جائے جس کی انہوں نے حفاظت جس طرح کرنا چاہیے تھی، نہیں کی تھی۔ جس کے کھونے سے انہیں محسوس ہوا کہ وہ کتنے انمول خزانے سے محروم ہوگئے۔ صحت ہے تو سب کچھ ہے بغیر اس کے زندگی بے رنگ و بے مزہ ہے۔
اگر ہم صحت مند جسم کے مالک ہیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں، بول سکتے ہیں، سن سکتے ہیں، چل سکتے ہیں تو ہم خوش قسمت اور بڑے دولت مند ہیں۔ کیوں کہ یہ وہ خزانہ ہے جس کے سامنے دولت کے سارے خزانے بھی ہیچ ہیں۔ صحت، دولت سے خریدی نہیں جاسکتی، صحت نہیں تو زندگی میں حسن نہیں، سکون نہیں، کوئی امن نہیں۔ دولت کے حصول اور دن رات کام کے چکر میں صحت جیسی قیمتی دولت کو نظر انداز کرکے برباد نہ کریں بل کہ صحت کا خصوصی خیال رکھیں، جو کہ بہت قیمتی ہے ورنہ وہ لوگ جن کے پاس دولت کے انبار ہیں، جو ہر چیز خریدنے کی اہلیت رکھتے ہیں، مگر صحت خریدنا ان کی دست رس میں بھی نہیں، اسی لیے صحت کو انمول کہا جاتا ہے۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کو جسمانی عافیت یعنی صحت مل گئی اور اس کو اپنے بارے میں امن مل گیا اور اس دن کی خوراک اس کے پاس موجود ہے تو اس نے مکمل کام یابی کے ساتھ صبح کی اور گویا پوری دنیا اس کے لیے جمع کردی گئی۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ سے عافیت کی دعا مانگا کرو۔'' کیوں کہ عافیت بڑی دولت ہے۔ ہمارے جسم میں خدا تعالیٰ نے رگوں کا جو جال بچھا رکھا ہے ان میں سے کسی عضو کی کوئی ایک رگ بھی اگر کسی وجہ سے اپنا کام کرنا چھوڑ دے تو گویا ہم محتاج ہو جائیں۔ سانس لینے کے لیے آکسیجن جو کہ مفت دست یاب ہے اگر یہ نہ ملے تو زندگی کا تصور ہی ختم ہوجائے۔ اردگرد پھیلی لاتعداد بیماریاں اور جراثیم جو اﷲ نے ہم سے دور رکھے ہوئے ہیں، اگر یہ فاصلہ نہ رہے تو کسی موذی بیماری میں مبتلا ہوکر سکون کو ہی ترس جائیں۔
سوال یہ ہے کہ جب ہم آگاہ ہیں کہ صحت انمول ہے۔ مگر پھر بھی ہم قدر کیوں نہیں کرتے۔۔۔۔۔ ؟
صحت ہے تو زندگی ہے، زندگی سے ہی سب نعمتوں کی رونق ہے، پھر ہم اس کی حفاظت کیوں نہیں کرتے؟ یا حفاظت کی فکر کیوں نہیں کرتے؟ صحت کو خراب کرنے والے وہ سارے کام جن سے ہمیں اندازہ ہے کہ
صحت کو نقصان پہنچتا ہے اسے کیوں نہیں چھوڑتے؟
اپنی صحت جو نعمت خداوندی ہے، کی بے حد قدر کیجیے کہ اس نعمت کا حساب بھی ہم سے روز قیامت لیا جائے گا۔ احکامات الہی پر عمل کیجیے اور اسوۂ رسول کریم ﷺ کو اختیار کیجیے۔
جلد سونا اور صبح جلد بیداری کی عادت انسان کو تن درست اور چاک چوبند رکھتی ہے۔ مگر پھر بھی ہم اسی حصے میں اپنا زیادہ تر کام سمیٹتے اور رات دیر تک سونے کو اپنا رواج بنا کر مختلف بیماریوں کو دعوت دیتے ہیں۔ ناقص خوراک یعنی جنک فوڈ جسے آج معاشرے میں خاص درجہ حاصل ہے جو ضروری اور فیشن بن گیا ہے، صحت کے لیے مضر ہے پھر بھی ہم ان کے بغیر نہیں رہ سکتے اور غذائیت سے زیادہ ذائقے کو ہم نے اپنی ترجیحات بنا ڈالا ہے۔ صحت مندانہ زندگی کے وہ تمام اصول جو ہمارے دین نے سکھائے ہیں، انہیں ہم نے بُھلا کر اپنی مرضی سے زندگی جینے کا ایک الگ انداز اپنا لیا ہے۔
نبی کریمؐ ہمیشہ سادہ غذا کو پسند فرماتے جو فائدہ مند ہوتی۔ آپؐ صحت کو نقصان پہنچانے والی چیزوں سے دُور رہتے تھے۔ آج ہمارا معیار صحت کو برقرار رکھنے سے زیادہ اپنے ذائقے کو بحال رکھنا ہے اور وہ
بھی ایسی چیزوں سے جو چاہے غذائیت سے خالی اور نقصان دہ ہوں مگر مزے کی خاطراور فیشن میں اسے استعمال کر رہے ہیں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ بامقصد اور صحت مند زندگی جیئیں، عبادتوں میں خشوع و خضوع ہو، خدا تعالیٰ سے ربط مضبوط ہو، اپنی صلاحیتوں سے بھرپور افادہ حاصل کریں، اپنے حقوق، فرائض اور ذمے داریاں
احسن طریقے سے انجام دیں، تو یہ تب ہی ممکن ہے، جب صحت کا خیال رکھیں گے۔ کیوں کہ بیمار شخص یہ سارے کام انجام دینے سے قاصر اور پُرلطف زندگی سے محروم ہی رہے گا۔ ایسی تمام خوراک اور عادات سے خود کو دور رکھیں جس سے آپ کی صحت برباد ہوجائے۔
صحت اﷲ کی عظیم نعمت ہے، اگر ہم نے اس کی ناقدری کی تو ہم سے چھین لی جائے گی۔ صحت کی قدر کرنا ہی اصل شُکر ہے کہ اسے ضایع ہو جانے سے بچایا جائے اور احکامات الہی پر اپنی زندگی گزاری جائے۔
ان بیش بہا خزانوں میں سے جو ہر لمحے اور پر پَل ہم پر بارش کی طرح برس رہی ہیں، میں سے صحت اور تن درستی ایک نادر اور انمول نعمت ہے۔ جس کی اہمیت ہمیں تب معلوم ہوتی ہے جب ہم بیمار ہو جاتے، طاقت میں کمی محسوس کرنے لگتے ہیں، پھر ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ صحت کی شکل میں جو دولت اﷲ نے ہمیں دے رکھی ہے وہ بہت بڑا عطیہ اور عظیم نعمت ہے۔
صحت و تن درستی کی قدر و اہمیت اُس سے پوچھیں جو بیماری کے سبب دن رات تڑپتا رہتا ہے۔ کبھی کسی بیمار شخص یا اسپتال میں جا کر زیرِ علاج مریضوں کا بہ غور مشاہدہ کریں، جو کسی مرض اور درد و تکلیف میں مبتلا ہیں۔ ان کی آرزو دریافت کریں، جو گھٹن بے چینی اور بے قراری کی کیفیت سے دوچار ہیں، تو معلوم ہوگا ان سب کی خواہش ایک ہی ہے کہ انہیں عافیت حاصل ہوجائے، وہ صحت واپس مل جائے جس کی انہوں نے حفاظت جس طرح کرنا چاہیے تھی، نہیں کی تھی۔ جس کے کھونے سے انہیں محسوس ہوا کہ وہ کتنے انمول خزانے سے محروم ہوگئے۔ صحت ہے تو سب کچھ ہے بغیر اس کے زندگی بے رنگ و بے مزہ ہے۔
اگر ہم صحت مند جسم کے مالک ہیں تو ہم دیکھ سکتے ہیں، بول سکتے ہیں، سن سکتے ہیں، چل سکتے ہیں تو ہم خوش قسمت اور بڑے دولت مند ہیں۔ کیوں کہ یہ وہ خزانہ ہے جس کے سامنے دولت کے سارے خزانے بھی ہیچ ہیں۔ صحت، دولت سے خریدی نہیں جاسکتی، صحت نہیں تو زندگی میں حسن نہیں، سکون نہیں، کوئی امن نہیں۔ دولت کے حصول اور دن رات کام کے چکر میں صحت جیسی قیمتی دولت کو نظر انداز کرکے برباد نہ کریں بل کہ صحت کا خصوصی خیال رکھیں، جو کہ بہت قیمتی ہے ورنہ وہ لوگ جن کے پاس دولت کے انبار ہیں، جو ہر چیز خریدنے کی اہلیت رکھتے ہیں، مگر صحت خریدنا ان کی دست رس میں بھی نہیں، اسی لیے صحت کو انمول کہا جاتا ہے۔
ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جس نے اس حال میں صبح کی کہ اس کو جسمانی عافیت یعنی صحت مل گئی اور اس کو اپنے بارے میں امن مل گیا اور اس دن کی خوراک اس کے پاس موجود ہے تو اس نے مکمل کام یابی کے ساتھ صبح کی اور گویا پوری دنیا اس کے لیے جمع کردی گئی۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ سے عافیت کی دعا مانگا کرو۔'' کیوں کہ عافیت بڑی دولت ہے۔ ہمارے جسم میں خدا تعالیٰ نے رگوں کا جو جال بچھا رکھا ہے ان میں سے کسی عضو کی کوئی ایک رگ بھی اگر کسی وجہ سے اپنا کام کرنا چھوڑ دے تو گویا ہم محتاج ہو جائیں۔ سانس لینے کے لیے آکسیجن جو کہ مفت دست یاب ہے اگر یہ نہ ملے تو زندگی کا تصور ہی ختم ہوجائے۔ اردگرد پھیلی لاتعداد بیماریاں اور جراثیم جو اﷲ نے ہم سے دور رکھے ہوئے ہیں، اگر یہ فاصلہ نہ رہے تو کسی موذی بیماری میں مبتلا ہوکر سکون کو ہی ترس جائیں۔
سوال یہ ہے کہ جب ہم آگاہ ہیں کہ صحت انمول ہے۔ مگر پھر بھی ہم قدر کیوں نہیں کرتے۔۔۔۔۔ ؟
صحت ہے تو زندگی ہے، زندگی سے ہی سب نعمتوں کی رونق ہے، پھر ہم اس کی حفاظت کیوں نہیں کرتے؟ یا حفاظت کی فکر کیوں نہیں کرتے؟ صحت کو خراب کرنے والے وہ سارے کام جن سے ہمیں اندازہ ہے کہ
صحت کو نقصان پہنچتا ہے اسے کیوں نہیں چھوڑتے؟
اپنی صحت جو نعمت خداوندی ہے، کی بے حد قدر کیجیے کہ اس نعمت کا حساب بھی ہم سے روز قیامت لیا جائے گا۔ احکامات الہی پر عمل کیجیے اور اسوۂ رسول کریم ﷺ کو اختیار کیجیے۔
جلد سونا اور صبح جلد بیداری کی عادت انسان کو تن درست اور چاک چوبند رکھتی ہے۔ مگر پھر بھی ہم اسی حصے میں اپنا زیادہ تر کام سمیٹتے اور رات دیر تک سونے کو اپنا رواج بنا کر مختلف بیماریوں کو دعوت دیتے ہیں۔ ناقص خوراک یعنی جنک فوڈ جسے آج معاشرے میں خاص درجہ حاصل ہے جو ضروری اور فیشن بن گیا ہے، صحت کے لیے مضر ہے پھر بھی ہم ان کے بغیر نہیں رہ سکتے اور غذائیت سے زیادہ ذائقے کو ہم نے اپنی ترجیحات بنا ڈالا ہے۔ صحت مندانہ زندگی کے وہ تمام اصول جو ہمارے دین نے سکھائے ہیں، انہیں ہم نے بُھلا کر اپنی مرضی سے زندگی جینے کا ایک الگ انداز اپنا لیا ہے۔
نبی کریمؐ ہمیشہ سادہ غذا کو پسند فرماتے جو فائدہ مند ہوتی۔ آپؐ صحت کو نقصان پہنچانے والی چیزوں سے دُور رہتے تھے۔ آج ہمارا معیار صحت کو برقرار رکھنے سے زیادہ اپنے ذائقے کو بحال رکھنا ہے اور وہ
بھی ایسی چیزوں سے جو چاہے غذائیت سے خالی اور نقصان دہ ہوں مگر مزے کی خاطراور فیشن میں اسے استعمال کر رہے ہیں۔
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ بامقصد اور صحت مند زندگی جیئیں، عبادتوں میں خشوع و خضوع ہو، خدا تعالیٰ سے ربط مضبوط ہو، اپنی صلاحیتوں سے بھرپور افادہ حاصل کریں، اپنے حقوق، فرائض اور ذمے داریاں
احسن طریقے سے انجام دیں، تو یہ تب ہی ممکن ہے، جب صحت کا خیال رکھیں گے۔ کیوں کہ بیمار شخص یہ سارے کام انجام دینے سے قاصر اور پُرلطف زندگی سے محروم ہی رہے گا۔ ایسی تمام خوراک اور عادات سے خود کو دور رکھیں جس سے آپ کی صحت برباد ہوجائے۔
صحت اﷲ کی عظیم نعمت ہے، اگر ہم نے اس کی ناقدری کی تو ہم سے چھین لی جائے گی۔ صحت کی قدر کرنا ہی اصل شُکر ہے کہ اسے ضایع ہو جانے سے بچایا جائے اور احکامات الہی پر اپنی زندگی گزاری جائے۔