کس سسٹم کی تلاش ہے
مسئلہ چند سینیٹرزکی ضمیر فروشی کا نہیں بلکہ ایوانوں کے اجتماعی وقار و تقدس کا ہے، پورا پارلیمانی نظام داؤ پرلگا ہواہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے، سپریم کورٹ نے موقع دیا تھا تو کیا 1500 بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ نہیں لگایا جاسکتا تھا؟ اگر ایسا ہو جاتا تو آج جو ہمارے 15، 16 لوگ بکے ہیں، ہمیں ان سب کا پتہ چل جاتا۔
جمعرات کی شب ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ملکی سیاست کی معروضی صورتحال پر اپنا انداز نظر پیش کیا، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پیسے دے کر اوپر آنا کونسی جمہوریت ہے؟ انھوں نے الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ میںآپ نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کیوں کی؟ کیا آئین چوری کی اجازت دیتا ہے؟ پھر آپ نے قابل شناخت بیلٹ پیپروں کی مخالفت کیوں کی؟ آپ کو اندازہ نہیں کہ اس الیکشن میں کتنا پیسہ چلا ہے۔
الیکشن سے پہلے کہا تھا کہ ریٹ لگ گئے ہیں، یہ تحقیقات کرنے کی ذمے داری آپ (الیکشن کمیشن) کی تھی؟ وزیر اعظم نے کہا کہ جو کروڑوں روپے خرچ کر کے سینیٹر بنے گا وہ ریکور کیسے کرے گا؟ کیا وہ حاتم طائی ہے؟ خیبر پختونخوا میں ہماری پہلی حکومت کے دوران ہمیں پتہ چلا کہ سینیٹ انتخابات میں پیسہ چلتا ہے، یہ سلسلہ 30، 40 سال سے چل رہا ہے، ہم نے اسی لیے اوپن بیلٹ کی مہم چلانا شروع کی، پارلیمنٹ میں اوپن بیلٹ کا بل پیش کیا، سپریم کورٹ گئے۔ وہاں الیکشن کمیشن نے اس کی مخالفت کی۔
انھوں نے کہا سینیٹ کے انتخابات سے ملک کی قیادت آتی ہے، جب کوئی رشوت دے کر سینیٹر بن رہا ہے اور ارکان پارلیمنٹ پیسے لے کر ضمیر بیچ رہے ہیں تو اس پریکٹس کو روکنا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔ جب سے ہماری حکومت آئی ہے، پرانی جماعتوں کی کرپٹ قیادت کو خوف آگیا ہے، مجھ پر ہر طرح سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ ان لوگوں نے ملک کو فیٹف کی بلیک لسٹ میں ڈلوایا، جب ہم نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے قانون سازی کی کوشش کی تو انھوں نے این آر او مانگا اور بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے پوری کوشش کی کہ سینیٹ انتخابات کے لیے ہمارے اراکین کو توڑیں اور ہماری اکثریت ختم کریں، اعتماد کے ووٹ کی تلوار مجھ پر لٹکائیں اور میں این آر او دوں لیکن میں اپوزیشن کے ہاتھوں نہ بلیک میل ہوا اور نہ ہی ہوں گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ جب وزیر اعظم اور وزیر چوری کرتا ہے تو ملک کو مقروض کر دیتا ہے۔ جیلوں میں جو غریب چور ہیں وہ سارے مل کر بھی 30 ارب روپے چوری نہیں کر سکتے۔ سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کو اتنی ہی سیٹیں ملیں جتنی ملنی تھیں، سارا ڈرامہ ایک عبدالحفیظ شیخ کی نشست کے لیے رچایا گیا۔ اب میں ہفتے کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے رہا ہوں۔ ارکان اسمبلی ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ اگر میں اہل نہیں اور اعتماد کا ووٹ نہ ملا تو اپوزیشن میں چلا جاؤں گا۔
دوسری جانب وزیر اعظم نے اپنا ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں کوئی حکومت جانے کی خبریں دے کر بلیک میل نہ کرے، چاہے ان کی جان چلی جائے ان چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑیں گے۔
ملکی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ اس کے المیوں کا درد انگیز تسلسل ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، سینیٹ الیکشن کے نتائج تو سامنے آگئے مگر اس کا ایک پینڈورا باکس کھل گیا، وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں بہت ساری ناگفتنی باتیں اور تلخ حقائق ایسے بھی بیان کیے جو ملکی فہمیدہ اور سنجیدہ حلقوں کے مطابق ایک غیر جانبدارانہ کمیشن کے سامنے بیان ہونے چاہئیں، سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گلے سڑے اور فرسودہ سسٹم سے مستقل برہمی نے ہمارے پورے فکری اور سیاسی نظام کو مفلوج بنا کر رکھ دیا ہے۔
تاہم سینیٹ انتخابات نتائج کے سامنے آنے کے بعد عوام میں سینیٹرز کے حوالہ سے ہارس ٹریڈنگ، انتخابی عمل میں کروڑوں اربوں کی دولت کی تقسیم کی باتیں تو زبان زد خاص وعام ہوچکی تھیں لیکن قوم سے خطاب میں ماہرین قانون، سیاست دانوں، طالب علموں، علما، مورخین، دانشوروں نے جو کچھ سنا اسے عوام اس لیے کسی کی کہی یا سنی سنائی ہوئی بات تسلیم نہیں کریں گے کہ یہ حقائق ''فرام دی ہارسز ماؤتھ'' قوم کی سائیکی سے پیوست ہوگئے ہیں، ملک کی سیاسی سوچ نے اہم سوالیہ نشان اٹھایا ہے۔
مسئلہ چند سینیٹرز کی ضمیر فروشی کا نہیں بلکہ ایوانوں کے اجتماعی وقار و تقدس کا ہے، پورا پارلیمانی نظام داؤ پر لگا ہوا ہے، ووٹنگ سسٹم کی تحقیر ہوئی ہے، سینیٹرز اور ممبر قومی و صوبائی اسمبلی خفت محسوس کرتے ہیں، ان کی عزت خاک میں ملی ہے، ووٹنگ سسٹم اور عوام کی نمایندگی کے آئینی حق کو رسوائی کا سامنا ہے، پیسے کے بے دریغ استعمال کی کہانیوں کی اتنے بڑے پیمانہ پر تشہیر نے جمہوریت کو اجتماعی خجالت سے دوچار کیا ہے، اس لیے عوامی حلقوں کا یہ مطالبہ جائز، قانونی، آئینی اور اخلاقی ہے کہ چونکہ سینیٹ انتخابات کے باعث ایوان کی تضحیک کی فضا دردناک مضمرات کی حامل بن گئی ہے۔
ملکی سیاسی نظام بحران کا شکار ہے، جمہوریت کی عملی حیثیت سخت متاثر ہوئی ہے، عوام کو ذہنی دباؤ سے نکلنے اور قوموں کی برادری میں وطن عزیز کو سرخرو ہونے کا موقع اور آزادی ملنی چاہیے، پارلیمانی جمہوریت کو جو دھچکا لگا ہے اس کا ازالہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائیں جس میں اراکین کی طرف سے مشترکہ قرارداد پیش کریں اور جس میں ان الزامات کی مکمل غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے جن سے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹ کی تضحیک اور سینیٹ الیکشن میں کروڑوں کی خرید و فروخت کے الزامات سے جمہوریت کو بے آبرو کیا گیا۔
مشترکہ قرارداد میں اس بات پر زور دیا جائے کہ چونکہ ووٹنگ کے لیے مستند ذرایع سے قوم کو بتایا گیا کہ سینٹرز کی ہارس ٹریڈنگ ہوئی، انھیں بھاری رقوم کی پیشکش ہوئی، ان پر تشدد کیا گیا، ان کے لیے ہوٹل بک کرائے گئے، کچھ سینیٹرز کے کئی حامی باہر نکل کر غیر پارلیمانی سرگرمیوں میں ملوث بتائے گئے، یہ بھی تجویز دی گئی کہ چونکہ سینیٹ الیکشن میں پیسے کی خرید و فروخت کے حوالے وزیر اعظم نے اپنی نشری تقریر میں دیے اس لیے ایوان کے دونوں معزز مذکورہ کسٹوڈین سینیٹرز کو اس الزام کو درست ثابت کرنے کا ماحول مہیا کریں۔
وزیر اعظم کو پیدا شدہ صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے ایک مشترکہ قرارداد میں ان تمام حقائق اور شواہد کی فراہمی کو یقینی بنائیں جب کہ قومی ضرورت کی تکمیل میں آگے بڑھیں، سنجیدہ ذرایع کا کہنا ہے کہ عمومی رسوائی کا ملبہ تمام سینیٹرز پر گرانا نہیں چاہیے، جو سینیٹ الیکشن میں غیر پارلیمانی سرگرمیوں میں ملوث تھے ان کی نشاندہی مشترکہ قرارداد کے ذریعے کرائی جائے، اس لیے کہ ملکی جمہوری نظام میں وہ منتخب نمایندے جو کسی قسم کی خرابیوں اور مالی معاملات میں کبھی ملوث نہیں رہے ہیں انھیں محض الزام تراشی کے باعث بدنام کرنا جمہوریت کی خدمت نہیں، اس وقت تمام منتخب نمایندے پیسے لینے کے اجتماعی الزام کی زد میں ہیں۔
سب اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہیں، لہٰذا اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ ان کا کیس خود لڑیں، وزیر اعظم کو صائب مشورہ دیں کہ جن الزامات کا حوالے انھوں نے اپنے ٹی وی خطاب میں دیا ہے وقت کا تقاضہ ہے کہ ان زبانی الزامات یا بیانات پر مبنی شواہد اور ٹھوس ثبوت اب ایوان میں پیش کریں تاکہ شفاف تحقیقات قوم کے سامنے لائی جاسکے اور جو سینیٹرز یا پورا جمہوری و پارلیمانی نظام جو ایک جرم بیگناہی میں شامل ہوا ہے اسے انصاف مل سکے اور جو سسٹم کی بدنامی کا باعث بنے ہیں انھیں قرار واقعی سزا ملے۔
بلاشبہ ملکی سیاست کو بڑے بحران کا سامنا ہے، پوری سیاست بے معنی ہوگئی ہے، خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، مسابقت شدید ہوگئی ہے، دشمنیاں سیاسی رقابتوں کو پار کر چکی ہیں، اگر گزشتہ تین سال کی حکومتی کارکردگی پیش نظر رکھی جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سسٹم اور حکومت سے باہر ہو جانے کے بعد بھی کسی کو نہ چھوڑنے کے عزم اور برہمی محض احتساب کی بنیاد پر جاری رکھی جا سکتی ہے تو جمہوریت کو کیا سخت مقامات اور قوم کو کون سے اعصاب شکن تجربات درپیش ہوں گے۔
ان کا صرف تصور کرکے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے، سیاست دانوں کو بہرحال ایک دوسرے کے ضمیر پر اعتماد کی فضا بحال کرنا ہوگی، پارلیمنٹ کی بالادستی کا خیال بہت دل خوش کن ہے، جمہوریت کا سارا حسن اسی بالادستی کا مرہون منت ہے۔ لیکن سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیاں اور قومی ادارے ملکی سیاسی سفر کے مختلف پڑاؤ ہیں، سیاسی رہنما ٹھنڈے دل و دماغ سے حالات حاضرہ کا جائزہ لیں، خطے میں تبدیلیوں کا ادراک کریں، دنیا تک جانے والے ہمارے جمہوری تجربات اور سینیٹ کے انتخابی نتائج پر قصے کہانیوں کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے عوام کی ذہنی حالت کو محسوس کریں تو پتا چلے گا کہ کورونا نے کیا مظالم عوام پر نہیں ڈھائے جو سیاسی حالات نے ڈھائے ہیں، عوام کی سخت جانی استقامت اور ہرڈ امیونٹی کا نتیجہ ہے کہ غریب عوام سیاسی مشکلات میں بھی زندہ ہیں۔
لیکن سیاسی تجربات سے قومیں سیکھتی ہیں، ارباب اختیار اور اپوزیشن کو ملک کو آگے لے کر چلنا ہے، بائیس کروڑ آبادی کے اس ملک کو آج بھی سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے، ملکی عوام ایک ایسا جمہوری نظام چاہتے ہیں جو شفافیت لائے۔
آسودگی مہیا کرے، عوام کو مہنگائی، بیروزگاری اور غربت سے نجات ملے، یہ سب کچھ اسی جمہوری سسٹم کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے اور موجودہ حالات میں تو یہ حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ ذمے داری ہے، کوئی لیڈر شپ ایسی بھی ابھر کر سامنے آجائے جو سسٹم کو سر سے پیر تک جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جمہوری سسٹم میں عوام کو ابھی تک کچھ نہیں ملا۔ جمہوریت سے بھی پوچھ لیا جائے کہ اسے جستجو کس سسٹم کی ہے، کس نظام میں غریب کے دکھوں کا مداوا ہوسکتا ہے؟
جمعرات کی شب ٹی وی پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے ملکی سیاست کی معروضی صورتحال پر اپنا انداز نظر پیش کیا، وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ پیسے دے کر اوپر آنا کونسی جمہوریت ہے؟ انھوں نے الیکشن کمیشن سے استفسار کیا کہ سپریم کورٹ میںآپ نے اوپن بیلٹ کی مخالفت کیوں کی؟ کیا آئین چوری کی اجازت دیتا ہے؟ پھر آپ نے قابل شناخت بیلٹ پیپروں کی مخالفت کیوں کی؟ آپ کو اندازہ نہیں کہ اس الیکشن میں کتنا پیسہ چلا ہے۔
الیکشن سے پہلے کہا تھا کہ ریٹ لگ گئے ہیں، یہ تحقیقات کرنے کی ذمے داری آپ (الیکشن کمیشن) کی تھی؟ وزیر اعظم نے کہا کہ جو کروڑوں روپے خرچ کر کے سینیٹر بنے گا وہ ریکور کیسے کرے گا؟ کیا وہ حاتم طائی ہے؟ خیبر پختونخوا میں ہماری پہلی حکومت کے دوران ہمیں پتہ چلا کہ سینیٹ انتخابات میں پیسہ چلتا ہے، یہ سلسلہ 30، 40 سال سے چل رہا ہے، ہم نے اسی لیے اوپن بیلٹ کی مہم چلانا شروع کی، پارلیمنٹ میں اوپن بیلٹ کا بل پیش کیا، سپریم کورٹ گئے۔ وہاں الیکشن کمیشن نے اس کی مخالفت کی۔
انھوں نے کہا سینیٹ کے انتخابات سے ملک کی قیادت آتی ہے، جب کوئی رشوت دے کر سینیٹر بن رہا ہے اور ارکان پارلیمنٹ پیسے لے کر ضمیر بیچ رہے ہیں تو اس پریکٹس کو روکنا الیکشن کمیشن کی ذمے داری ہے۔ جب سے ہماری حکومت آئی ہے، پرانی جماعتوں کی کرپٹ قیادت کو خوف آگیا ہے، مجھ پر ہر طرح سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ ان لوگوں نے ملک کو فیٹف کی بلیک لسٹ میں ڈلوایا، جب ہم نے گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے قانون سازی کی کوشش کی تو انھوں نے این آر او مانگا اور بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے پوری کوشش کی کہ سینیٹ انتخابات کے لیے ہمارے اراکین کو توڑیں اور ہماری اکثریت ختم کریں، اعتماد کے ووٹ کی تلوار مجھ پر لٹکائیں اور میں این آر او دوں لیکن میں اپوزیشن کے ہاتھوں نہ بلیک میل ہوا اور نہ ہی ہوں گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ جب وزیر اعظم اور وزیر چوری کرتا ہے تو ملک کو مقروض کر دیتا ہے۔ جیلوں میں جو غریب چور ہیں وہ سارے مل کر بھی 30 ارب روپے چوری نہیں کر سکتے۔ سینیٹ انتخابات میں تحریک انصاف کو اتنی ہی سیٹیں ملیں جتنی ملنی تھیں، سارا ڈرامہ ایک عبدالحفیظ شیخ کی نشست کے لیے رچایا گیا۔ اب میں ہفتے کو اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لے رہا ہوں۔ ارکان اسمبلی ضمیر کے مطابق ووٹ دیں۔ اگر میں اہل نہیں اور اعتماد کا ووٹ نہ ملا تو اپوزیشن میں چلا جاؤں گا۔
دوسری جانب وزیر اعظم نے اپنا ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں کوئی حکومت جانے کی خبریں دے کر بلیک میل نہ کرے، چاہے ان کی جان چلی جائے ان چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑیں گے۔
ملکی سیاست کا المیہ یہ ہے کہ اس کے المیوں کا درد انگیز تسلسل ختم ہونے کا نام نہیں لیتا، سینیٹ الیکشن کے نتائج تو سامنے آگئے مگر اس کا ایک پینڈورا باکس کھل گیا، وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے اپنے خطاب میں بہت ساری ناگفتنی باتیں اور تلخ حقائق ایسے بھی بیان کیے جو ملکی فہمیدہ اور سنجیدہ حلقوں کے مطابق ایک غیر جانبدارانہ کمیشن کے سامنے بیان ہونے چاہئیں، سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ گلے سڑے اور فرسودہ سسٹم سے مستقل برہمی نے ہمارے پورے فکری اور سیاسی نظام کو مفلوج بنا کر رکھ دیا ہے۔
تاہم سینیٹ انتخابات نتائج کے سامنے آنے کے بعد عوام میں سینیٹرز کے حوالہ سے ہارس ٹریڈنگ، انتخابی عمل میں کروڑوں اربوں کی دولت کی تقسیم کی باتیں تو زبان زد خاص وعام ہوچکی تھیں لیکن قوم سے خطاب میں ماہرین قانون، سیاست دانوں، طالب علموں، علما، مورخین، دانشوروں نے جو کچھ سنا اسے عوام اس لیے کسی کی کہی یا سنی سنائی ہوئی بات تسلیم نہیں کریں گے کہ یہ حقائق ''فرام دی ہارسز ماؤتھ'' قوم کی سائیکی سے پیوست ہوگئے ہیں، ملک کی سیاسی سوچ نے اہم سوالیہ نشان اٹھایا ہے۔
مسئلہ چند سینیٹرز کی ضمیر فروشی کا نہیں بلکہ ایوانوں کے اجتماعی وقار و تقدس کا ہے، پورا پارلیمانی نظام داؤ پر لگا ہوا ہے، ووٹنگ سسٹم کی تحقیر ہوئی ہے، سینیٹرز اور ممبر قومی و صوبائی اسمبلی خفت محسوس کرتے ہیں، ان کی عزت خاک میں ملی ہے، ووٹنگ سسٹم اور عوام کی نمایندگی کے آئینی حق کو رسوائی کا سامنا ہے، پیسے کے بے دریغ استعمال کی کہانیوں کی اتنے بڑے پیمانہ پر تشہیر نے جمہوریت کو اجتماعی خجالت سے دوچار کیا ہے، اس لیے عوامی حلقوں کا یہ مطالبہ جائز، قانونی، آئینی اور اخلاقی ہے کہ چونکہ سینیٹ انتخابات کے باعث ایوان کی تضحیک کی فضا دردناک مضمرات کی حامل بن گئی ہے۔
ملکی سیاسی نظام بحران کا شکار ہے، جمہوریت کی عملی حیثیت سخت متاثر ہوئی ہے، عوام کو ذہنی دباؤ سے نکلنے اور قوموں کی برادری میں وطن عزیز کو سرخرو ہونے کا موقع اور آزادی ملنی چاہیے، پارلیمانی جمہوریت کو جو دھچکا لگا ہے اس کا ازالہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی جناب اسد قیصر اور چیئرمین سینیٹ جناب صادق سنجرانی پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلائیں جس میں اراکین کی طرف سے مشترکہ قرارداد پیش کریں اور جس میں ان الزامات کی مکمل غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے جن سے اراکین قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹ کی تضحیک اور سینیٹ الیکشن میں کروڑوں کی خرید و فروخت کے الزامات سے جمہوریت کو بے آبرو کیا گیا۔
مشترکہ قرارداد میں اس بات پر زور دیا جائے کہ چونکہ ووٹنگ کے لیے مستند ذرایع سے قوم کو بتایا گیا کہ سینٹرز کی ہارس ٹریڈنگ ہوئی، انھیں بھاری رقوم کی پیشکش ہوئی، ان پر تشدد کیا گیا، ان کے لیے ہوٹل بک کرائے گئے، کچھ سینیٹرز کے کئی حامی باہر نکل کر غیر پارلیمانی سرگرمیوں میں ملوث بتائے گئے، یہ بھی تجویز دی گئی کہ چونکہ سینیٹ الیکشن میں پیسے کی خرید و فروخت کے حوالے وزیر اعظم نے اپنی نشری تقریر میں دیے اس لیے ایوان کے دونوں معزز مذکورہ کسٹوڈین سینیٹرز کو اس الزام کو درست ثابت کرنے کا ماحول مہیا کریں۔
وزیر اعظم کو پیدا شدہ صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے ایک مشترکہ قرارداد میں ان تمام حقائق اور شواہد کی فراہمی کو یقینی بنائیں جب کہ قومی ضرورت کی تکمیل میں آگے بڑھیں، سنجیدہ ذرایع کا کہنا ہے کہ عمومی رسوائی کا ملبہ تمام سینیٹرز پر گرانا نہیں چاہیے، جو سینیٹ الیکشن میں غیر پارلیمانی سرگرمیوں میں ملوث تھے ان کی نشاندہی مشترکہ قرارداد کے ذریعے کرائی جائے، اس لیے کہ ملکی جمہوری نظام میں وہ منتخب نمایندے جو کسی قسم کی خرابیوں اور مالی معاملات میں کبھی ملوث نہیں رہے ہیں انھیں محض الزام تراشی کے باعث بدنام کرنا جمہوریت کی خدمت نہیں، اس وقت تمام منتخب نمایندے پیسے لینے کے اجتماعی الزام کی زد میں ہیں۔
سب اپنی صفائی میں کچھ کہنا چاہتے ہیں، لہٰذا اسپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینیٹ ان کا کیس خود لڑیں، وزیر اعظم کو صائب مشورہ دیں کہ جن الزامات کا حوالے انھوں نے اپنے ٹی وی خطاب میں دیا ہے وقت کا تقاضہ ہے کہ ان زبانی الزامات یا بیانات پر مبنی شواہد اور ٹھوس ثبوت اب ایوان میں پیش کریں تاکہ شفاف تحقیقات قوم کے سامنے لائی جاسکے اور جو سینیٹرز یا پورا جمہوری و پارلیمانی نظام جو ایک جرم بیگناہی میں شامل ہوا ہے اسے انصاف مل سکے اور جو سسٹم کی بدنامی کا باعث بنے ہیں انھیں قرار واقعی سزا ملے۔
بلاشبہ ملکی سیاست کو بڑے بحران کا سامنا ہے، پوری سیاست بے معنی ہوگئی ہے، خطرات بڑھتے جا رہے ہیں، مسابقت شدید ہوگئی ہے، دشمنیاں سیاسی رقابتوں کو پار کر چکی ہیں، اگر گزشتہ تین سال کی حکومتی کارکردگی پیش نظر رکھی جائے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سسٹم اور حکومت سے باہر ہو جانے کے بعد بھی کسی کو نہ چھوڑنے کے عزم اور برہمی محض احتساب کی بنیاد پر جاری رکھی جا سکتی ہے تو جمہوریت کو کیا سخت مقامات اور قوم کو کون سے اعصاب شکن تجربات درپیش ہوں گے۔
ان کا صرف تصور کرکے ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے، سیاست دانوں کو بہرحال ایک دوسرے کے ضمیر پر اعتماد کی فضا بحال کرنا ہوگی، پارلیمنٹ کی بالادستی کا خیال بہت دل خوش کن ہے، جمہوریت کا سارا حسن اسی بالادستی کا مرہون منت ہے۔ لیکن سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیاں اور قومی ادارے ملکی سیاسی سفر کے مختلف پڑاؤ ہیں، سیاسی رہنما ٹھنڈے دل و دماغ سے حالات حاضرہ کا جائزہ لیں، خطے میں تبدیلیوں کا ادراک کریں، دنیا تک جانے والے ہمارے جمہوری تجربات اور سینیٹ کے انتخابی نتائج پر قصے کہانیوں کو حقیقت کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے عوام کی ذہنی حالت کو محسوس کریں تو پتا چلے گا کہ کورونا نے کیا مظالم عوام پر نہیں ڈھائے جو سیاسی حالات نے ڈھائے ہیں، عوام کی سخت جانی استقامت اور ہرڈ امیونٹی کا نتیجہ ہے کہ غریب عوام سیاسی مشکلات میں بھی زندہ ہیں۔
لیکن سیاسی تجربات سے قومیں سیکھتی ہیں، ارباب اختیار اور اپوزیشن کو ملک کو آگے لے کر چلنا ہے، بائیس کروڑ آبادی کے اس ملک کو آج بھی سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے، ملکی عوام ایک ایسا جمہوری نظام چاہتے ہیں جو شفافیت لائے۔
آسودگی مہیا کرے، عوام کو مہنگائی، بیروزگاری اور غربت سے نجات ملے، یہ سب کچھ اسی جمہوری سسٹم کے ذریعے حاصل ہو سکتا ہے اور موجودہ حالات میں تو یہ حکومت اور اپوزیشن کی مشترکہ ذمے داری ہے، کوئی لیڈر شپ ایسی بھی ابھر کر سامنے آجائے جو سسٹم کو سر سے پیر تک جھنجھوڑ کر رکھ دے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس جمہوری سسٹم میں عوام کو ابھی تک کچھ نہیں ملا۔ جمہوریت سے بھی پوچھ لیا جائے کہ اسے جستجو کس سسٹم کی ہے، کس نظام میں غریب کے دکھوں کا مداوا ہوسکتا ہے؟