تھپکی دیجیے کندھا دیجیے

کوئی عاجز تو کوئی میر شہر، کوئی سوالی تو کوئی موالی، لیکن بہت اندر سے ہم ایک ہی ہیں۔


Arif Anis Malik March 06, 2021
[email protected]

JAKARTA: دنیا میں سات ارب سے زائد لوگ بستے ہیں۔ دیکھنے کو درجنوں رنگ، ترنگ، ادائیں، رویے، اسٹائل ہیں۔ دیکھنے میں لگتا ہے کہ ہر ایک کے اندر ایک الگ کائنات آباد ہے۔

بھانت بھانت کے روپ، بہروپ ہیں۔ کوئی عاجز تو کوئی میر شہر، کوئی سوالی تو کوئی موالی، لیکن بہت اندر سے ہم ایک ہی ہیں۔ پیار کے متلاشی، یہی کہ کندھے پر کوئی تھپکی دے دے، جب گرنے لگیں تو کوئی تھام لے۔ اگر گر پڑیں تو کوئی ہاتھ بڑھا دے، بغیر طعنہ دیے اٹھنے دے، اٹھ کر چلنے دے۔

پھر ہم میں سے ہر ایک شخص کسی نہ کسی جنگ میں ہے۔ جنگ نہ سہی، لڑائی سہی۔ کچھ لوگ اپنے اس نصیب کے ساتھ حالت جنگ میں ہوئے ہیں، جس کے ساتھ وہ پیدا ہوئے ہیں، مگر اس پر راضی نہیں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ شاید اس سے بہتر کے حقدار ہیں۔

کچھ محبت کے حصول کے لیے کشمکش میں ہیں۔ شعوری، لاشعوری طور پران میں چاہے جانے کی تمنا ہے، جو کائنات کی ساری آسائشیں حاصل کرنے کے بعد بھی ماند نہیں پڑتی۔ محبت انھیں راتوں کو جگاتی ہے اور بدن میں لکڑیاں جلاتی ہے۔

کچھ روگ پال لیتے ہیں۔ کسی کا دل دھڑکنا بھول جاتا ہے تو کسی کے اندر خلیے بے قابو ہوجاتے ہیں کوئی بصارت کھو دیتا ہے تو کسی کی بصیرت لاپتہ ہوجاتی ہے۔

پھر ہم سب اندرونی خوف کے ساتھ دست پنجہ کرتے ہیں۔ پیدائش سے لے کر بڑے ہونے تک ہم بہت سے خوف دل میں پال لیتے ہیں۔ وہم ہیں جو ہم سے سکون چھین لیتے ہیں، انہونی کا ڈر، چھننے کا ڈر، کم ہونے کا ڈر، کیسے کیسے آسیب ہمارے اندر چھپے بیٹھے ہیں۔

پھر ایک باہر کی دنیا ہے جواب ہمارے گھروں، کپڑوں، گاڑیوں اور چال ڈھال کو دیکھتی ہے، ہماری پہنچ اور ہماری دسترس کو ناپتی ہے۔ ہمیں کامیاب یا ناکام کے خانے میں ڈالتی ہے ترازو میں تولتی ہے اور ہماری قیمت لگاتی ہے۔ کامیابی کا سکہ جمتا ہے، اس کے دام اونچے ہیں، مگر یاد رہے کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ پر ناکام بھی ہوتے ہیں اور ہمیں اپنی کرچیاں بعض اوقات پلکوں سے چننی پڑتی ہیں۔

ہم انسان کوہکن بھی ہیں، فرہاد بھی ہیں، کہنے اور کرنے کو پتھروں کا سینہ چیر کر نہر بھی کھود لیتے ہیں۔ تاہم کبھی کبھی ایک چھوٹا سا وہم بھی ہمیں کھا جاتا ہے، کمر دہری کردیتا ہے اور سانسیں صلب کرلیتا ہے۔

ہمیں چاہت کی طلب ہوتی ہے، ہم دوستیاں بھی پالتے ہیں، اب تو ہمارے گرد ڈیجیٹل دوستوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ کچھ دوست واقعی ہمارے ہونے پر مہر ثبت کرتے ہیں، مگر سچی بات یہی ہے کہ ہمیں زندگی کی اکثر جنگیں تن تنہا لڑنی پڑتی ہیں، بہت دفعہ تو ہم کسی کو آواز بھی نہیں دے پاتے۔ یاد رکھیں کہ جو لوگ ہمیں سب سے زیادہ محبوب ہوتے ہیں، ہم اکثر انھی کو دکھ دیتے ہیں۔

اسی دنیا میں ہم لوگوں کو ملتے ہیں، انھیں نظروں ہی نظروں میں تولتے ہیں اور ان کے بارے میں رائے قائم کرلیتے ہیں۔ پھر ہم اس رائے کا اظہار کرتے ہیں، ہمارا لہجہ بلند اور تلخ ہوجاتا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے پاس سارا سچ موجود ہے، پھر ہم اشارے کرتے ہیں اور نعرے لگانے لگ جاتے ہیں۔

اپنی زندگی میں، ہزاروں لوگوں کے مسائل سنے۔ ان میں شاہی خاندان والے بھی تھے اور دریوزہ گر بھی۔ کارپوریٹ کنگ بھی اور ہتھ ریڑھی کھینچنے والے بھی۔ بہت سے ایسے زرداروں اور زورآوروں کو سنا جن کے بارے میں لوگ قسم کھا سکتے تھے کہ ان کو پوری زندگی کسی تڑخن کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہوگا۔ دیکھا کہ زندگی ہر ایک کو اپنی جگہ مارتی ہے، توڑتی ہے، بے بس کرتی ہے۔ ہم ناکام بھی ہوتے ہیں، ٹوٹتے بھی ہیں، جڑتے بھی ہیں، شاید ٹوٹنا ہمارے ہونے کا حصہ ہے کہ بعض اوقات اسی جگہ سے روشنی ہمارے اندر داخل ہوتی ہے۔

بعض اوقات میں سوچتا ہوں کہ اگر ہم اپنا اپنا لگیج، اپنا اپنا بوجھ اٹھائے ہوئے نظر آئیں اور ہماری کمر کے پیچھے کوئی اسٹکر لگایا ہو تو لوگوں کو کیسا لگے گا؟ شاید ہم زیادہ عاجزی کے ساتھ ایک دوسرے کو برداشت کر پائیں گے، یا گالی دینے سے، یا آوازہ کسنے سے گریز کرسکیں گے یا ججمنٹ عارضی طور پر ملتوی کردیں گے۔

زندگی مشکل ہے۔ آسانی ہے، پھر مشکل ہے۔ راستہ ہے جو کاٹنا ہے، آہستہ آہستہ اپنے پیار کرنے والوں سے محروم ہونا ہے۔ ہمارے والدین، ہمارے زندگی سے رخصت ہونے والے تقریباً سب سے پہلے افراد ہوتے ہیں۔ کوئی بھی کتنے بڑے صدمے میں ہو، دیگیں کھڑکتی رہتی ہیں، زندگی ہمیں اپنے چرخے پر چڑھا کر چکر دے دیتی ہے۔ اور ہمیں ''بھوں'' چڑھ جاتے ہیں۔

ہمارے ارد گرد خودکشیاں عام ہوتی جارہی ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ جسے ہم جج کر کے، منصف بنتے ہوئے، پھانسی کی سزا سنارہے ہوتے ہیں وہ کن کن جاں گسل مرحلوں میں زندگی کو سہار رہا ہوتا ہے۔ کیا ہی بہتر ہو ہم منہ بھر کر گالی دیتے وقت، اپنی ججمنٹ دیتے وقت، فیصلہ سناتے وقت، ہارن دیتے وقت، چیختے، غراتے، باؤلے ہوتے وقت یہ یاد رکھیں کہ ہر شخص عرصہ محشر میں ہے، زندگی میں اپنی جنگ کے کسی نہ کسی مرحلے میں ہے اور کیا پتہ ہمارا اس کے گلے کی طرف اٹھتا ہوا ہاتھ اگر اس کے کندھے پر رکھ دیا جائے تو شاید اس کی زندگی اور امید بچائی جاسکتی ہو۔

زندگی امتحان ہے اور کڑا امتحان ہے۔ اکثر لوگ اس لیے بھی ناکام رہ جاتے ہیں کہ وہ دوسروں کا پرچہ نقل کرلیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ زندگی ہر ایک کو مختلف قسم کا پرچہ پکڑاتی ہے۔ زندگی میں ہوسکتا ہے کچھ لوگ سفر میں ساتھ چلیں، پر سفر اپنا اپنا اور الگ الگ ہے۔ کوئی جتنا چاہے دوسرے کا پینڈا نہیں بھگتنا سکتا۔

آپ ہر چیز پر قابو نہیں ہا سکتے، مگر اپنے اوپر زین کس سکتے ہیں۔ اپنے لہجے کو نرم کر سکتے ہیں، تلخی کو جھٹک سکتے ہیں، چہرے پر مسکراہٹ لاسکتے ہیں، غلطیاں معاف کر سکتے ہیں تاکہ آپ کو بھی معاف کیا جاسکے۔

کریم بنیے,کرم کی چادر اوڑھیے تاکہ وہ کریم آپ کے ساتھ مہربان ہو کہ کریم اپنے غلاموں کو رسوا نہیں کرتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔