خلیفۂ چہارم حضرت علی ؓ آغوش رسالت کے تربیت یافتہ سپاہی
آپؓ سے586احادیث مروی ہیں ۔
حضرت علیؓ مسلمانوں کے امیرالمومنین اور خلفائے راشدین میں آخری یعنی چوتھے خلیفہ ہیں۔ یہ ابو طالب کے بیٹے تھے جن کا نام عبدمناف تھا، جو عبدالمطلب بن ہاشم کے بیٹے تھے جو آنحضورؐ کے بھی دادا تھے۔ اس طرح آپؓ کا سلسلہ نسب دوسری پشت میں آنحضورؐ سے جا ملتا ہے کیوںکہ آپ دونوں کے دادا ایک ہی تھے۔ حضرت علیؓ کی والدہ کا نام فاطمہ تھا جو اسد بن ہاشم کی بیٹی تھیں۔ اس طرح حضرت علی والدین کی جانب سے ہاشمی کہلاتے ہیں۔
جس وقت آپ کی ولادت ہوئی تو والد ابوطالب مکہ سے باہر گئے ہوئے تھے، لہٰذا آپ کا نام والدہ نے اسد رکھا اور یہ کہا کہ یہ اپنے نانا کا نام روشن کرے گا جو بالکل صحیح ثابت ہوا جس کے تاریخ کے اوراق گواہ ہیں۔ ابن الجوزی تذکرہ ''خواص الامہ'' میں عطا کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ والدہ نے آپؓ کا نام حیدر رکھا۔ ابوطالب جیسے ہی سفر سے پلٹے تو بیٹا تولد ہونے کی خوش خبری ملی، نام پوچھا تو اسد بتایا۔ اسد معنی شیر کے ہیں جو طاقت اور بہادری کا امتیازی نشان سمجھا جاتا ہے۔ آپؓ نے اپنا نام حیدر مرحب یہودی کے جوابی رجز میں خیبر کی لڑائی میں استعمال کیا تھا۔ آپ کی ولادت با سعادت نبوت سے قبل یعنی ہجرت سے23 سال قبل اور عام الفیل کے 30 سال بعد 13رجب بروزجمعہ خانہ کعبہ میں ہوئی۔
آپ کی کنیت ابوالحسنین اور ابوتراب تھی۔ حضرات حسنؓ اور حسینؓ کے والد گرامی تھے۔ ابوتراب کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ آپ مسجد میں سور رہے تھے کہ پہلو سے چادر ہٹ گئی تھی جس کی بنا پر جسم پر مٹی لگ گئی تھی۔ آنحضورؐ کو بتایا گیا کہ آپ مسجد میں آرام فرما ہیں تو آپؐ ان کی تلاش میں مسجد پہنچے، دیکھا تو سو رہے ہیں اور جسم کے ایک پہلو پر مٹی لگی ہوئی ہے، تو آپؐ جسم سے مٹی پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے ابوتراب (مٹی کے باپ) اٹھو یہ کنیت آپؐ کو اتنی پیاری لگی کہ دوسرا کوئی ابو تراب سے پکارتا تو آپؓ خوش ہوتے کیوںکہ یہ کنیت آنحضورؐ کی عطا کردہ تھی۔ آپؓ کا لقب مرتضیٰ بھی تھا جس کے معنی چنا ہوا ہیں۔
اسماء الرجال بحوالہ مصنف مشکوٰۃ شریف آپ کا حلیہ یہ لکھا ہے ''رنگ گندمی اور کھلا ہوا تھا آنکھیں بڑی بڑی تھیں زیادہ بال اور چوڑی داڑھی والے تھے۔ لمبائی کے اعتبار سے کوتاہ قامتی کی جانب مائل تھے۔'' واقدی بھی آپؓ کا یہی حلیہ لکھتے ہیں۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو ابوطالب معاشی مسائل کا شکار تھے۔ اس لیے آنحضورؐ نے مالی بو جھ کم کرنے کے لیے حضرت علیؓ کو اپنی کفالت میں لے لیا تھا۔ اس طرح آپؓ کی پرورش اور تربیت آغوش رسول میں ہوئی۔ جب طلوع اسلام ہوا آنحضرتؐ نبی بنا کر کائنات پر مبعوث ہوئے تو اسلام قبول کرنے والوں میں سب سے پہلے ام المومنین حضرت خدیجہ ؓ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوئیں ان کے بعد دوسرے نمبر پر مردوں میں حضرت ابوبکرؓ نے رسالت کی تصدیق فرماکر ایمان کی دولت حاصل کی پھر بچوں میں تیسرے نمبر پر حضرت علیؓ ایمان لائے، یہ سابقون الاوّلون کہلانے والوں میں سے ہیں۔
اس وقت آپ کی عمر15جب کہ بعض نے10سال اور8 سال بھی لکھی ہے۔ آپ کے اسلام لانے کے بارے میں یوں لکھا ہے کہ ''حضرت علیؓ نے حضورؐ اور حضرت خدیجہؓ کو گھر میں نماز پڑھتے دیکھا تو حیرت سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ حضورؐ نے اپنا منصب نبوت بیان کرتے ہوئے کفروشرک کی مذمت فرمائی اور توحید کا پیغام سنایا حضرت علیؓ نے یہ سن کر اسلام قبول کرلیا۔''
آپؓ کے اسلام لانے کا ایک واقعہ اور بھی لکھا ہے کہ آنحضورؐ کو حکم ہوا کہ قریبی رشتہ داروں کوخداسے ڈراؤ اور اسلام کی دعوت دو قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ۔ ترجمہ ''اور اپنے نزدیک کے خاندان والوں کو خدا سے ڈراؤ جھکاؤ اپنے بازو ان کے لیے جو آپ کی پیروی کریں ایمان داروں میں سے۔'' (سورہ الشعراء آیات214-215)حضوراکرم ؐ نے حضرت علیؓ کو حکم دیا کہ دعوت کا سامان کرو۔ یہ تبلیغ کا پہلا موقع تھا۔ تمام خاندان عبدالمطلب کو مدعو کیا گیا۔ آنحضرت نے کھانے سے فارغ ہوکر خطبہ ارشاد فرمایا ''میں وہ چیز لے کر آیا ہوں جو دین و دنیا دونوں کو کفیل ہے۔ اس بار گراں کو اٹھانے میں کون میرا ساتھ دیتا ہے۔'' تمام مجلس میں سناٹا چھا گیا۔ تب حضرت علیؓ نے کھڑے ہوکر فرمایا 'میں سب سے نوعمر ہوں، تاہم میں آپ کا ساتھ دوں گا۔ (سیرت النبی جلدا) ایک اور جگہ لکھا ہے کہ وہ مجمع 40 افراد کا تھا مگر کسی نے علیؓ کے سوا آپؐ کی حمایت نہ کی۔
شعب ابوطالب کی گھاٹی میں حضورؐ کو مع اپنے خاندان کے3سال کے لیے محصور کردیا گیا تھا۔ تاریخ میں اس واقعے کو کٹھن اور ابتلاء کے 3 سال لکھا گیا ہے۔ محصوری کی ان آزمائشی گھڑیوں میں آپؓ حضور کے ساتھ رہے۔آنحضورؐ کو ہجرت کا حکم آیا تو آپؐ کے پاس مشرکین مکہ کی بیش قیمت امانتیں تھیں۔ جب ہجرت فرما کر جانے لگے تو ان مشرکین کا سامان علیؓ کے سپرد فرمایا اور حکم فرمایا کہ یہ سامان ان کے مالکان کے حوالے کرکے ہجرت کرنا۔ جب آپؐ اپنے کاشانۂ اقدس سے نکلنے لگے تو اپنے بسترمبارک پر علیؓ کو چادر اڑھا کر لٹا دیا۔ اگرچہ یہ کام حضرت علی ؓکے لیے جان سے کھیلنے کے مترادف تھا لیکن وہ بلاتامل نبیؐ کے حکم پر لیٹ گئے اور حضورؐ اطمینان سے مشرکوں کے سروں پر خاک ڈالتے ہوئے ان کے درمیان سے نکل گئے۔
حضورؐ کے حکم کے مطابق امانتیں لوٹاکر 3 دن بعد آپ قبا کے مقام پر حضورؐ سے جاملے۔ حضورؐ نے مدینہ پہنچ کر سب سے پہلے جو کام سرانجام دیا وہ مسجد کی تعمیر تھی۔ حضرت علیؓ نے بھی اس کارخیر میں حصہ لیا۔ وہ اینٹیں اور گارا اٹھا اٹھا کر لارہے تھے (زرقانی ) حضورؐ نے تعمیر مسجد کے بعد دوسرا کام یہ کیا کہ انصار و مہاجر ین میں مواخات قائم کی۔ حضرت علیؓ کو کسی کا بھائی نہ بنایا، آپؓ نے شکوہ پیش کیا تو آنحضورؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا ''تم دنیا اور آخرت دونوں جگہ میرے بھائی ہو۔'' (مشکوٰۃ۔ ترمذی)
02ھ میں آنحضورؐ نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت فاطمہؓ کا نکا ح حضرت علی ؓسے کردیا اور دونوں میاں بیوی کے درمیان خیروبرکت کی دعا کی اور رخصتی کے وقت فرمایا جان پدر میں نے تمہاری شادی خاندان کے سب سے اچھے فرد سے کی ہے۔
(ابن سعد۔ طبرانی) 06ھ میں بیعت رضوان میں شامل تھے اور اصحاب الشجرہ میں سے کہلائے جنہیں جنت کی بشارت ہے۔ صلح حدیبیہ کی کتابت حضرت علیؓ نے کی تھی اس میں محمد الرسول اللہ کے الفاظ پر مشرکین نے اعتراض کیا تو حضورؐ نے فرمایا علی یہ الفاظ مٹادو۔ آپ کی دینی حمیت نے گوارہ نہ کیا کہنے لگے، حضورؐ! یہ کام مجھ سے نہ ہوگا۔ پھر خود حضورؐ نے محمد الرسول اللہ مٹادیا (بخاری) آپ عشرۂ مبشرہ میں شامل ہیں۔ ابن ہشام کا بیان ہے کہ حضرت ابوبکر ؓامیرِحج بنا کر بھیجے گئے تو اسی اثنا میں سورۂ برأت نازل ہوئی تو حضرت علیؓ کو یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اس کی ابتدائی 18آیات حج کے اجتماع میں سنائیں۔ آپؓ حجتہ الوداع میں شریک تھے۔ آنحضورؐ کے وصال کے بعد انتیس برس تک زندہ رہے۔
18ذی الحج35ھ کو حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد3 دن تک بلوائیوں کا مرکز خلافت پر قبضہ رہا۔ شہادت عثمان ؓ کے بعد ملت اسلامیہ بحران کا شکار تھی۔ بحران سے بچنے کی خاطر حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ نے بیعت کرکے خلافت کا بار آپؓ کے کاندھوں پر ڈال دیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ حضرت علیؓ کا دورخلافت3 مہینے کم پانچ برس رہا۔
آپؓ کی ذات اخلاق نبوی کا عکس اور اسلامی تعلیمات کی زندہ تصویر تھی۔ آپ کی ذات کا پہلو سادگی اور خلوص تھا، عابدوزاہد تھے۔ آپؓ اسلام کے سپاہی اور علم و ادب سے گہرا تعلق رکھتے تھ۔ آپ احادیث نبوی کے بھی عالم تھے۔ آپؓ سے586احادیث مروی ہیں ۔
17رمضان المبارک40ھ کو ایک خارجی عبدالرحمٰن ابن ملجم نے عین اس وقت حضرت علیؓ پر زہرآلودہ تلوار سے حملہ کیا جب آپؓ نماز فجر کی امامت فرما رہے تھے۔ 20 رمضان المبارک جمعہ کی شب آپؓ خالق حقیقی سے جاملے۔ اس وقت آپؓ کی عمر 63 برس لکھی ہے۔ آپؓ کے دونوں صاحب زادوں حسنؓ اور حسینؓ نے اور عبداللہ بن جعفرؓ نے غسل دیا اور حسنؓ نے جنازہ پڑھایا اور صبح کے وقت دفن کیا گیا۔ آپؓ کی شہادت کے بعد وصیت کے مطابق حضرت حسنؓ کے سامنے ابن ملجم کو پیش کیا گیا جنہوں نے تلوار کے ایک ہی وار سے اسے دوزخ کی سیر کرادی (تاریخ ابن خلدون)۔