2020 ء مسلم دنیا پر گزرنے والا بھاری سال
پوری مسلم برادری مصائب کا شکار رہی اور عرب اپنے مفاد کے تحت اسرائیل سے تعلقات بڑھاتے رہے
2020 ء دنیا کی تاریخ کا ایک ناقا بل فراموش سال ثابت ہوا ہے۔
اگست 2020 ء جاپان کے حوالے سے بھی اہم تھا کہ دھرتی کے سینے پر ایٹم بم جیسے ہتھیار کی المناک ضرب کی وجہ سے اذیت ناک حالت میں ہلاک ہو نے والے ہزاروں جاپا نیوں کی اس سال 75 ویں برسی تھی۔ 24 اکتوبر 1945 ء کو اقوام متحدہ کے قیام کے اعتبار سے اس عالمی ادارے کی 75 ویں سالگرہ تھی ۔
اسی سال امریکہ کی تاریخ کے متنازعہ صدارتی انتخابات ہوئے، اسی سال دنیا طویل عرصے بعد وبائی بیماری کی زد میں آئی، 2020 ء میں ہی اقوام متحدہ کے چارٹر اور ڈیکلریشن آف ہیومن راٹس کی کھلے عام پامالی ہوئی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سیاسی خارجی آداب اور اقدار کی دھجیاں اڑا دیں اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں طاقت دھونس دھمکی اور ناانصافی کی حد کر دی تھی۔
اسرائیل میں امریکہ نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر کے دنیا پر واضح کر دیا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے عرب مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی موقف کا حامی ہے، اسی طرح بھارت امریکہ اسٹریٹجیکل تعلقا ت تیزی سے بڑھے اور امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاع کے شعبے میں معاہدے ہوئے ، کشمیر پر بھارتی مظالم کی انتہا ہو گئی ، کشمیر کے حوالے سے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت کو ختم کر دیا گیا اور دفعہ 35 کو ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلت میں تبدیل کرنے کا راستہ صاف کر دیا گیا اور تقریباً نو لاکھ فوج کے ساتھ یہاں دنیا کی تاریخ کا طویل ترین کرفیو نافذ رکھا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے سے قبل عرب دنیا میں بحرین ، مراکش اور عرب مارات نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا جب کہ باقی عرب دنیا خصوصاً خلیج تعاون کو نسل کے رکن ممالک سے اسرائیلی تعلقات سامنے آگئے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نے عرب دنیا کے اہم ترین ملک سعودی عرب کا غیر اعلانیہ خفیہ دور ہ کیا، پاکستان، انڈو نیشیا ، ترکی ، ملائیشیا اور ایران جیسے ملکوں پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا کہ وہ اسرائیل و بھارت کے حق میں اور چین کے خلاف امریکی پالیسی کی مخالفت سے باز رہیں ۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپیں ہوئیں، امریکہ میں طویل عرصے بعد افریقی امریکیوں کے خلاف سفید فام اکثریت کی جانب سے نسل پرستی کے خوفناک واقعات رونما ہوئے اور امریکی معاشرے میں نسلی تنوع گروہی تضادات اور تصادم کی خطرناک حد کو پہنچ گیا ، اس تمام صورتحال سے امریکہ جیسے مستحکم اور مضبوط ملک میں جمہوریت اور معاشرتی رواداری کو شدید نقصان پہنچا۔
یوں 2020 ء میں عالمی جارحانہ سیاست نے دنیا بھرکے ملکوں کی لیڈر شپ اور عوام کو شدید اعصابی تناؤ میں رکھا، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ففتھ جنرنیشن وار یا ہائبڈ وار کے اعتبار سے دنیا کی 7 ارب 80 کروڑ انسانی آبادی اژدھامی انداز میں نفسیاتی دباؤ کا شکار رہی، لیبیا ، عراق ، شام ، افغانستان ، یمن میںپراکسی وار کی بنیاد پر جنگ اور خانہ جنگی جاری رہی اور اسلامی ممالک میں مہاجرین کی تعداد 2 کروڑ 25 لاکھ تک پہنچ گئی، بیشتر اسلامی ملک بڑی قوتوں کی سازشوں کا شکار رہے ، بھارت، میانمار جہاں تقریباً 20 کروڑ سے زیا دہ مسلمان ہیں تاریخ کی بدترین مذہبی نفرت نسل پرستی کا شکار ہوئے۔
یوں مجموعی طور پرایک صدی پہلے یعنی 1920 ء میں دنیا میں مسلمانوں کی جو حالت تھی ویسے ہی حالات 2020 ء میں پوری دنیا میں رہے اور مسلم آبادی کی اکثریت 2020 ء میں تکلیف دہ احساسات و جذبات سے گزری ، اس میں سب سے زیادہ تکلیف دہ صورت اُس وقت ہوئی جب 2020 ء کے آخر میں عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کو اعلانیہ تسلیم کر لیا ۔ اس کا شدید دکھ ، صدمہ اور غم دنیا بھر کے مسلمانوں کو پہنچا ۔ یہ حقیقت ہے کہ دو ڈھائی ہزار سال قبل جب عیسائیت اور اسلام جیسے مذاہب دنیا میں نہیں آئے تھے تو اُس وقت فلسطین کی سر زمین پر مذہبی اعتبار سے یہودیوں کی اکثریت آباد تھی۔ مذہبی کتابیں اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ الہامی مذاہب یہودیت سے اسلام تک حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی نسل سے آگے بڑھے، یہی وجہ ہے کہ اہل مغرب عرب اور اسرائیلیوں کو نسلی لحاظ سے کزن قرار دیتے ہیں۔
اِس وقت پوری دنیا کے14.7 ملین یہودیوں میں سے 47% اسرائیل میں آباد ہیں ، جیوس ورچول لائبریری Jewish Virtual Library کے مطابق 2020 ء میں اسرائیل کی کل آبادی 9291000 ہے جس میں 1948 ء کے مقابلے میں دس گنا اضافہ ہوا ہے جب جولائی 1948 ء میں اسرائیل قائم ہوا تھا تو اِس کی کل آبادی صرف 806000 تھی اور 2024 ء میں اسرائیل کی آبادی ایک کروڑ ہو جائے گی یعنی آئندہ صرف تین برسوں میں تقریباً 7 لاکھ کا اضافہ ہو جائے گا ۔ 2019 ء کے مطابق اسرائیل کی آبادی میں 18% مسلمان 2% عیسائی اور2% دروز ہیں اس وقت اسرائیل میں 170000 افراد ایسے ہیں جو نہ تو اسرائیل کے شہری ہیں اور نہ ہی یہاں مستقل رہائش رکھتے ہیں ۔
اب جہا ں تک تعلق اسرائیل کی آبادی میں مسلم آبادی کے تناسب کا ہے تو یہ تناسب مستقل کم ہو تا جا رہا ہے کیونکہ اسرائیل کے قیام کے بعد سے سالانہ بڑی تعداد میںدنیا بھر سے یہودی اسرائیل منتقل ہو رہے ہیں اور دوسری جانب 1948 ء سے لاکھوں کی تعدا د میں فلسطینی مسلمان اسرائیل کی سرزمین سے نکال دیئے گئے جو اب مہاجرین کی صورت لبنان ،مصر اردن اور دیگر ملکوں میں آباد ہیں اس لیے اسرائیل میں مسلم آبادی کا تناسب مسلسل کم ہوتاجا رہا ہے ۔
عرب دنیا کی آبادی ، سیاست ، اور معاشرے میں اس تبدیلی کی ابتدا1914 ء میں پہلی جنگ عظیم سے ذرا پہلے شروع ہوئی جب ایک خاص منصوبے کے تحت برطانیہ نے امریکہ ،فرانس، سوویت یونین اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت حاصل کرتے ہوئے عالمی صیہونی تنظیم کے ساتھ یہ طے کر لیاکہ صدیوں سے دنیا کے مختلف ملکوں میں بکھری ہوئی یہودی آبادی کو فلسطین میں لا کر آباد کیا جائے گا اور اس منصوبے پر عملدر آمد دوسری جنگ ِعظیم کے فوراً بعد ہوا اور اب 2020 ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے آخری سال اسرائیل کی بالا دستی پوری عرب دنیا میں تکمیل پا گئی ہے اور جن ملکوں نے اس بالادستی کو قبول نہیں کیا اُن پر بھی اقتصادی ، مالی ،معاشی اور سیاسی دباؤ جاری ہے ، اور اس کاشدید ترین دباؤاس وقت پاکستان پر بھی ہے۔
Abraham Accord ابراہم معاہدہ 13 اگست 2020 ء میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ہوا جس میں ثالث کا کردار سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ادا کیا اور اِ ن کی نگرانی میں معاہدہ تحریری شکل میں آیا اس پر دستخط ہوئے، یوں عرب دنیا میں مصر اور اردن کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ۔اس میں یہ ڈیل ہوئی کہ اسرائیل وادیِ اردن میں اپنے توسیعی منصوبے معطل کر دے گا ۔ عہد نامے یا معاہدے پر 15 ستمبر2020 ء کو واشنگٹن ڈی سی وائٹ ہاوس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مو جودگی میں دستخط ہوئے۔
برطانیہ میں فلسطینی سفیر Husam Zomlot حسام ظوملوت نے اِسے رد کیا جب کہ فلسطینی سیاسی رہنما Saeb Erekat سائب اریکات نے ابراہیم معاہدے کی مذمت کی۔ اس کے چند روز بعد بحرین نے پھر مراکش نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ، متحدہ عرب امارات میں اسرائیلی انٹر نیشنل ٹیلی فون کوڈ +972 کے تحت ٹیلی فون سروس شروع ہو گئی جب کہ اسرائیلی فضائی سروس EIAI کی پہلی پرواز31 اگست2020 ء کو متحدہ عرب امارات پہنچی ۔ امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن کے حلف اٹھانے کے چار دن بعد 24 جنوری2021 ء کو اسرائیل نے متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں اپنا سفارت خانہ کھول دیا۔
29 جنوری2021 ء کو متحدہ عرب امارات نے عرب ممالک کے مشترکہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے امیگریشن کے قوانین میں یہ تبدیلی کر دی کہ متحدہ عرب امارات میں غیر ملکی سر مایہ کاروں اور اہم ماہرین کو شہریت دی جا سکے گی اور اِن کو مقامی عربوں کی طرح کے حقوق حاصل ہو نگے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے بحرین ، کویت ، قطر ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کسی بھی دوسرے ملک کے شہری کو نیشنلٹی نہیں دی جاتی تھی
اگست 2020 ء جاپان کے حوالے سے بھی اہم تھا کہ دھرتی کے سینے پر ایٹم بم جیسے ہتھیار کی المناک ضرب کی وجہ سے اذیت ناک حالت میں ہلاک ہو نے والے ہزاروں جاپا نیوں کی اس سال 75 ویں برسی تھی۔ 24 اکتوبر 1945 ء کو اقوام متحدہ کے قیام کے اعتبار سے اس عالمی ادارے کی 75 ویں سالگرہ تھی ۔
اسی سال امریکہ کی تاریخ کے متنازعہ صدارتی انتخابات ہوئے، اسی سال دنیا طویل عرصے بعد وبائی بیماری کی زد میں آئی، 2020 ء میں ہی اقوام متحدہ کے چارٹر اور ڈیکلریشن آف ہیومن راٹس کی کھلے عام پامالی ہوئی، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی سیاسی خارجی آداب اور اقدار کی دھجیاں اڑا دیں اور امریکہ سمیت پوری دنیا میں طاقت دھونس دھمکی اور ناانصافی کی حد کر دی تھی۔
اسرائیل میں امریکہ نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر کے دنیا پر واضح کر دیا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے عرب مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی موقف کا حامی ہے، اسی طرح بھارت امریکہ اسٹریٹجیکل تعلقا ت تیزی سے بڑھے اور امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاع کے شعبے میں معاہدے ہوئے ، کشمیر پر بھارتی مظالم کی انتہا ہو گئی ، کشمیر کے حوالے سے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت کو ختم کر دیا گیا اور دفعہ 35 کو ختم کر کے مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلت میں تبدیل کرنے کا راستہ صاف کر دیا گیا اور تقریباً نو لاکھ فوج کے ساتھ یہاں دنیا کی تاریخ کا طویل ترین کرفیو نافذ رکھا، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس سے رخصت ہونے سے قبل عرب دنیا میں بحرین ، مراکش اور عرب مارات نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا جب کہ باقی عرب دنیا خصوصاً خلیج تعاون کو نسل کے رکن ممالک سے اسرائیلی تعلقات سامنے آگئے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم نے عرب دنیا کے اہم ترین ملک سعودی عرب کا غیر اعلانیہ خفیہ دور ہ کیا، پاکستان، انڈو نیشیا ، ترکی ، ملائیشیا اور ایران جیسے ملکوں پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا کہ وہ اسرائیل و بھارت کے حق میں اور چین کے خلاف امریکی پالیسی کی مخالفت سے باز رہیں ۔ بھارت اور چین کے درمیان سرحدی جھڑپیں ہوئیں، امریکہ میں طویل عرصے بعد افریقی امریکیوں کے خلاف سفید فام اکثریت کی جانب سے نسل پرستی کے خوفناک واقعات رونما ہوئے اور امریکی معاشرے میں نسلی تنوع گروہی تضادات اور تصادم کی خطرناک حد کو پہنچ گیا ، اس تمام صورتحال سے امریکہ جیسے مستحکم اور مضبوط ملک میں جمہوریت اور معاشرتی رواداری کو شدید نقصان پہنچا۔
یوں 2020 ء میں عالمی جارحانہ سیاست نے دنیا بھرکے ملکوں کی لیڈر شپ اور عوام کو شدید اعصابی تناؤ میں رکھا، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر ففتھ جنرنیشن وار یا ہائبڈ وار کے اعتبار سے دنیا کی 7 ارب 80 کروڑ انسانی آبادی اژدھامی انداز میں نفسیاتی دباؤ کا شکار رہی، لیبیا ، عراق ، شام ، افغانستان ، یمن میںپراکسی وار کی بنیاد پر جنگ اور خانہ جنگی جاری رہی اور اسلامی ممالک میں مہاجرین کی تعداد 2 کروڑ 25 لاکھ تک پہنچ گئی، بیشتر اسلامی ملک بڑی قوتوں کی سازشوں کا شکار رہے ، بھارت، میانمار جہاں تقریباً 20 کروڑ سے زیا دہ مسلمان ہیں تاریخ کی بدترین مذہبی نفرت نسل پرستی کا شکار ہوئے۔
یوں مجموعی طور پرایک صدی پہلے یعنی 1920 ء میں دنیا میں مسلمانوں کی جو حالت تھی ویسے ہی حالات 2020 ء میں پوری دنیا میں رہے اور مسلم آبادی کی اکثریت 2020 ء میں تکلیف دہ احساسات و جذبات سے گزری ، اس میں سب سے زیادہ تکلیف دہ صورت اُس وقت ہوئی جب 2020 ء کے آخر میں عرب امارات، بحرین اور مراکش نے اسرائیل کو اعلانیہ تسلیم کر لیا ۔ اس کا شدید دکھ ، صدمہ اور غم دنیا بھر کے مسلمانوں کو پہنچا ۔ یہ حقیقت ہے کہ دو ڈھائی ہزار سال قبل جب عیسائیت اور اسلام جیسے مذاہب دنیا میں نہیں آئے تھے تو اُس وقت فلسطین کی سر زمین پر مذہبی اعتبار سے یہودیوں کی اکثریت آباد تھی۔ مذہبی کتابیں اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ الہامی مذاہب یہودیت سے اسلام تک حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی نسل سے آگے بڑھے، یہی وجہ ہے کہ اہل مغرب عرب اور اسرائیلیوں کو نسلی لحاظ سے کزن قرار دیتے ہیں۔
اِس وقت پوری دنیا کے14.7 ملین یہودیوں میں سے 47% اسرائیل میں آباد ہیں ، جیوس ورچول لائبریری Jewish Virtual Library کے مطابق 2020 ء میں اسرائیل کی کل آبادی 9291000 ہے جس میں 1948 ء کے مقابلے میں دس گنا اضافہ ہوا ہے جب جولائی 1948 ء میں اسرائیل قائم ہوا تھا تو اِس کی کل آبادی صرف 806000 تھی اور 2024 ء میں اسرائیل کی آبادی ایک کروڑ ہو جائے گی یعنی آئندہ صرف تین برسوں میں تقریباً 7 لاکھ کا اضافہ ہو جائے گا ۔ 2019 ء کے مطابق اسرائیل کی آبادی میں 18% مسلمان 2% عیسائی اور2% دروز ہیں اس وقت اسرائیل میں 170000 افراد ایسے ہیں جو نہ تو اسرائیل کے شہری ہیں اور نہ ہی یہاں مستقل رہائش رکھتے ہیں ۔
اب جہا ں تک تعلق اسرائیل کی آبادی میں مسلم آبادی کے تناسب کا ہے تو یہ تناسب مستقل کم ہو تا جا رہا ہے کیونکہ اسرائیل کے قیام کے بعد سے سالانہ بڑی تعداد میںدنیا بھر سے یہودی اسرائیل منتقل ہو رہے ہیں اور دوسری جانب 1948 ء سے لاکھوں کی تعدا د میں فلسطینی مسلمان اسرائیل کی سرزمین سے نکال دیئے گئے جو اب مہاجرین کی صورت لبنان ،مصر اردن اور دیگر ملکوں میں آباد ہیں اس لیے اسرائیل میں مسلم آبادی کا تناسب مسلسل کم ہوتاجا رہا ہے ۔
عرب دنیا کی آبادی ، سیاست ، اور معاشرے میں اس تبدیلی کی ابتدا1914 ء میں پہلی جنگ عظیم سے ذرا پہلے شروع ہوئی جب ایک خاص منصوبے کے تحت برطانیہ نے امریکہ ،فرانس، سوویت یونین اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت حاصل کرتے ہوئے عالمی صیہونی تنظیم کے ساتھ یہ طے کر لیاکہ صدیوں سے دنیا کے مختلف ملکوں میں بکھری ہوئی یہودی آبادی کو فلسطین میں لا کر آباد کیا جائے گا اور اس منصوبے پر عملدر آمد دوسری جنگ ِعظیم کے فوراً بعد ہوا اور اب 2020 ء میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے آخری سال اسرائیل کی بالا دستی پوری عرب دنیا میں تکمیل پا گئی ہے اور جن ملکوں نے اس بالادستی کو قبول نہیں کیا اُن پر بھی اقتصادی ، مالی ،معاشی اور سیاسی دباؤ جاری ہے ، اور اس کاشدید ترین دباؤاس وقت پاکستان پر بھی ہے۔
Abraham Accord ابراہم معاہدہ 13 اگست 2020 ء میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان ہوا جس میں ثالث کا کردار سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ادا کیا اور اِ ن کی نگرانی میں معاہدہ تحریری شکل میں آیا اس پر دستخط ہوئے، یوں عرب دنیا میں مصر اور اردن کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ۔اس میں یہ ڈیل ہوئی کہ اسرائیل وادیِ اردن میں اپنے توسیعی منصوبے معطل کر دے گا ۔ عہد نامے یا معاہدے پر 15 ستمبر2020 ء کو واشنگٹن ڈی سی وائٹ ہاوس میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مو جودگی میں دستخط ہوئے۔
برطانیہ میں فلسطینی سفیر Husam Zomlot حسام ظوملوت نے اِسے رد کیا جب کہ فلسطینی سیاسی رہنما Saeb Erekat سائب اریکات نے ابراہیم معاہدے کی مذمت کی۔ اس کے چند روز بعد بحرین نے پھر مراکش نے بھی اسرائیل کو تسلیم کر لیا ، متحدہ عرب امارات میں اسرائیلی انٹر نیشنل ٹیلی فون کوڈ +972 کے تحت ٹیلی فون سروس شروع ہو گئی جب کہ اسرائیلی فضائی سروس EIAI کی پہلی پرواز31 اگست2020 ء کو متحدہ عرب امارات پہنچی ۔ امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن کے حلف اٹھانے کے چار دن بعد 24 جنوری2021 ء کو اسرائیل نے متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت ابوظہبی میں اپنا سفارت خانہ کھول دیا۔
29 جنوری2021 ء کو متحدہ عرب امارات نے عرب ممالک کے مشترکہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے امیگریشن کے قوانین میں یہ تبدیلی کر دی کہ متحدہ عرب امارات میں غیر ملکی سر مایہ کاروں اور اہم ماہرین کو شہریت دی جا سکے گی اور اِن کو مقامی عربوں کی طرح کے حقوق حاصل ہو نگے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے بحرین ، کویت ، قطر ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کسی بھی دوسرے ملک کے شہری کو نیشنلٹی نہیں دی جاتی تھی