رواں ماہ کیلیے انتہائی بلند قیمت پر ایل این جی کے 11 کارگو بک
9 ڈالر 59 سینٹ کی قیمت پر درآمد کی جارہی ہے جو 8ماہ کی بلند ترین قیمت ہے۔
حکومت پاکستان کی جانب سے رواں ماہ کے لیے قدرتی مائع گیس (ایل این جی) کے گیارہ کارگو بک کرائے گئے ہیں تاکہ مقامی معیشت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کیا جاسکے تاہم یہ گیارہ کارگو گزشتہ 8 ماہ کی بلند ترین قیمت پر بک کرائے گئے ہیں یعنی 9 ڈالر 59 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو۔
حکومت کی جانب سے ایل این جی کی اس مہنگی درآمد کی وجوہات میں عالمی مارکیٹ میں توانائی کی بڑھتی قیمتیں اور گزشتہ حکومتوں کی جانب سے قطر گیس سے کیا گیا مہنگا درآمدی معاہدہ ہے جو پندرہ برس کی مدت کے لیے کیا گیا ہے جس میں ایل این جی قیمتوں کو عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت سے منسلک کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مہنگی ایل این جی کی درآمد کے بعد حکومت کے لیے مہنگائی کو قابومیں رکھنا ایک چیلنج ہوگا کیونکہ اس کے نتیجے میں نہ صرف درآمدی بل میں اضافہ ہوگا بلکہ مقامی سطح پر ایل این جی کی ترسیل اور بدرآمدی شعبہ جات کو ایل این جی پر سبسڈیز میں اضافہ بھی ہوگا۔
اعداد و شمار کے مطابق یہ ایل این جی 9 ڈالر 59 سینٹ کی قیمت پر درآمد کی جارہی ہے جو گزشتہ آٹھ ماہ کی بلند ترین قیمت ہے اور اس میں ٹرمینل چارجز، منافع، ترسیل اور تقسیم، اور دیگر اخراجات شامل ہیں۔
ان گیارہ کارگو شپ میں سے پاکستان اسٹیٹ آئل چھ شپ درآمد کررہا ہے جس کی اوسط قیمت 7 ڈالر 87 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو ہے جبکہ اس میں ٹرمنل چارجز، منافع، ترسیل اور تقسیم اور دیگر نقصانات شامل نہیں ہیں۔اس کے علاوہ ایک اور حکومتی ادارہ پاکستان ایل این جی لمیٹڈ باقی پانچ کارگو شپ درآمد کررہا ہے جس کی درآمدی قیمت 7 ڈالر 10 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔
AHL کے ریسرچ ہیڈ طاہر عباس نے ایکسیرپس کو بتایا کہ یہ درآمدی ایل این جی آر ایل این جی پلانٹس، مینوفیکچرنگ اور درآمدی شعبہ جات کو فراہم کی جائے گی اور چونکہ یہ مہنگی قیمت پر فراہم کی جائے گی تو اس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں مہنگائی کی ایک نئی لہر آسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے برآمدی شعبہ جات جس میں ٹیکسٹائل سیکٹر بھی شامل ہے اسے گیس سبسڈی پر دی جاتی ہے یعنی 6 ڈالر 50 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو جبکہ بجلی 7 ڈالر 50 سینٹ کی قیمت پر فراہم کی جاتی ہے اور اب مہنگی ایل این جی کی درآمد کی صورت میں حکومت کو اس پر مزید سبسڈی دینے پڑے گی جس سے حکومت پر بوجھ پڑے گا۔
الفا بیٹا کور کے چیف ایگزیکٹو خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ ایل این جی قیمتوں کو خام تیل کی قیمتوں سے منسلک رکھا گیا ہے اور اس وقت خام تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور اس میں مزید اضافہ پاکسان جیسی معیشتوں کے لیے مشکلات کا باعث ہوگا جن کے پاس اخراجات کے لیے پہلے مالی مشکلات ہیں۔
AA گولڈ کموڈیٹیز کے ڈائریکٹر عدنان آگر کے مطابق خام تیل یی قیمتیں 70 ڈآلر فی بیرل تک جائیں گی جس کے بعد اس میں کمی آنا شروع ہوگی اور ان میں 10 سے 15 ڈالر فی بیرل کی گراوٹ بھی آسکتی ہے موسم گرما میں یعنی جون جولائی میں یہ قیمتیں ایک بار پھر 70 ڈآلر فی بیرل کو چھوسکتی ہیں کیونکہ یورپ اور امریکا میں کورونا ویکسین کا عمل تقریبا ختم ہوچکا ہوگا اور عالمی معیشیتوں میں سرگرمی کی وجہ سے خام تیل کی طلب میں اضافہ ہوگا۔
حکومت کی جانب سے ایل این جی کی اس مہنگی درآمد کی وجوہات میں عالمی مارکیٹ میں توانائی کی بڑھتی قیمتیں اور گزشتہ حکومتوں کی جانب سے قطر گیس سے کیا گیا مہنگا درآمدی معاہدہ ہے جو پندرہ برس کی مدت کے لیے کیا گیا ہے جس میں ایل این جی قیمتوں کو عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت سے منسلک کیا گیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مہنگی ایل این جی کی درآمد کے بعد حکومت کے لیے مہنگائی کو قابومیں رکھنا ایک چیلنج ہوگا کیونکہ اس کے نتیجے میں نہ صرف درآمدی بل میں اضافہ ہوگا بلکہ مقامی سطح پر ایل این جی کی ترسیل اور بدرآمدی شعبہ جات کو ایل این جی پر سبسڈیز میں اضافہ بھی ہوگا۔
اعداد و شمار کے مطابق یہ ایل این جی 9 ڈالر 59 سینٹ کی قیمت پر درآمد کی جارہی ہے جو گزشتہ آٹھ ماہ کی بلند ترین قیمت ہے اور اس میں ٹرمینل چارجز، منافع، ترسیل اور تقسیم، اور دیگر اخراجات شامل ہیں۔
ان گیارہ کارگو شپ میں سے پاکستان اسٹیٹ آئل چھ شپ درآمد کررہا ہے جس کی اوسط قیمت 7 ڈالر 87 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو ہے جبکہ اس میں ٹرمنل چارجز، منافع، ترسیل اور تقسیم اور دیگر نقصانات شامل نہیں ہیں۔اس کے علاوہ ایک اور حکومتی ادارہ پاکستان ایل این جی لمیٹڈ باقی پانچ کارگو شپ درآمد کررہا ہے جس کی درآمدی قیمت 7 ڈالر 10 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔
AHL کے ریسرچ ہیڈ طاہر عباس نے ایکسیرپس کو بتایا کہ یہ درآمدی ایل این جی آر ایل این جی پلانٹس، مینوفیکچرنگ اور درآمدی شعبہ جات کو فراہم کی جائے گی اور چونکہ یہ مہنگی قیمت پر فراہم کی جائے گی تو اس سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں مہنگائی کی ایک نئی لہر آسکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق حکومت کی جانب سے برآمدی شعبہ جات جس میں ٹیکسٹائل سیکٹر بھی شامل ہے اسے گیس سبسڈی پر دی جاتی ہے یعنی 6 ڈالر 50 سینٹ فی ایم ایم بی ٹی یو جبکہ بجلی 7 ڈالر 50 سینٹ کی قیمت پر فراہم کی جاتی ہے اور اب مہنگی ایل این جی کی درآمد کی صورت میں حکومت کو اس پر مزید سبسڈی دینے پڑے گی جس سے حکومت پر بوجھ پڑے گا۔
الفا بیٹا کور کے چیف ایگزیکٹو خرم شہزاد کا کہنا تھا کہ ایل این جی قیمتوں کو خام تیل کی قیمتوں سے منسلک رکھا گیا ہے اور اس وقت خام تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور اس میں مزید اضافہ پاکسان جیسی معیشتوں کے لیے مشکلات کا باعث ہوگا جن کے پاس اخراجات کے لیے پہلے مالی مشکلات ہیں۔
AA گولڈ کموڈیٹیز کے ڈائریکٹر عدنان آگر کے مطابق خام تیل یی قیمتیں 70 ڈآلر فی بیرل تک جائیں گی جس کے بعد اس میں کمی آنا شروع ہوگی اور ان میں 10 سے 15 ڈالر فی بیرل کی گراوٹ بھی آسکتی ہے موسم گرما میں یعنی جون جولائی میں یہ قیمتیں ایک بار پھر 70 ڈآلر فی بیرل کو چھوسکتی ہیں کیونکہ یورپ اور امریکا میں کورونا ویکسین کا عمل تقریبا ختم ہوچکا ہوگا اور عالمی معیشیتوں میں سرگرمی کی وجہ سے خام تیل کی طلب میں اضافہ ہوگا۔