زبان فہمی اردو کی بہن بنگلہ
شاہ حسین آہے بڑا راجہ+چتر سَنگھاسَن اُن کو چھاجا۔‘‘
زباں فہمی نمبر 87 ..... (پہلا حصہ)
اردو ہی زبانوں میں ہمہ گیر ہے یارو
کیا خوب لچک دار ہے اردوئے معلّیٰ
(''اردوئے معلّیٰ'' از خامہ انجب علی شوقؔ ، منقولہ 'محفل جو اجڑ گئی ' از پروفیسر ہارون الرشید بحوالہ 'سلہٹ میں اردو' از عبدالجلیل بسملؔ)
ہے اردو ہی بس ایک ایسی زباں / کہ جس پر ہے سب کی نظر واقعی
بناتی ہے مِلّت کے کردار کو / مُسَلّم ہے اس کی نمایندگی
نوازا ہے اردو کو پنجاب نے / عطا کی ہے اس کو نئی زندگی
مگر اس سے بھی کس کو انکار ہے / ہمیشہ دکن پر بھی چھائی رہی
نہیں صرف دِلّی ہی اس کا وطن / اَوَدھ نے بھی اس پر فِدا جان کی
یہ کہنے میں کوئی تأمّل نہیں/ نظر اِس پہ بنگال کی بھی رہی
نوازا ہے اُردو کو ہر دور نے/ کسی نے کبھی کی نہ پہلو تِہی
بِالآخر یہ کہنا پڑے گا ہمیں/ کہ بنگال میں بھی اشاعت رہی
(چنیدہ اشعار اَز منظوم تقریظ: کامل صدیقی بریلوی مشمولہ 'بنگال میں اردو' از ڈاکٹر وفاراشدی)
اردو اور بنگلہ کا باہمی تعلق کسی بھی اہل علم سے ہرگز پوشیدہ نہیں، مگر آج کل مذموم مقاصد کے تحت یہ منفی پرچار کیا جارہا ہے کہ اردو نے بنگلہ کا حق مارا اور اسی سے مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کی بنیاد پڑی، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اردو ایک ایسی انوکھی زبان ہے جس کا تعلق دنیا کی ہر قابل ِذکر زبان اور بولی سے ہے، خصوصاً برصغیر پاک وہند کی تقریباً تمام بڑی زبانیں اور بولیاں اس کی ماں اور دیگر اِس کی بہنیں ہیں۔ جب ہم ایک ایک کرکے جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ الف سے اُڑیا ہو ۔یا۔ 'ے' سے یِدّش (عبرانی کی ایک شکل) ہر زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں اردو سے اشتراک اور اکثر میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ {خاکسار کے کالم زباں فہمی کا شمارہ نمبر باون اور ترپن، مطبوعہ مؤرخہ سات جون سن دوہزاربیس اور چودہ جون سن دوہزار بیس، برموضوع: اردو اور برّصغیر کی دیگر زبانوں میں پودوں، سبزیوں اور پھلوں کے مشترک نام، روزنامہ ایکسپریس کی ویب سائٹ پر ملاحظہ فرمائیں:
https://www.express.pk/story/2048382/1/
https://www.express.pk/story/2050623/509/}
جس طرح خطہ ہند میں مختلف مقامات پر قدیم اردو کی تشکیل مقامی زبانوں اور بولیوں کے اشتراک واختلاط سے ہوئی، اسی طرح بنگال (عہدمغلیہ میں بنگالہ) میں بھی اس زبان کی ابتدائی پرداخت، اوّلین دور سے شروع ہوگئی تھی۔ یہ زبان'' ہندوی'' (بعدازآں، زبان ہندوستان، ہندوستانی، ہندی اور ریختہ ہوتے ہوئے زبانِ اردوئے معلّیٰ، اردوئے معلّیٰ اور پھر فقط اردو) ابھی 'پائو ں پائوں' (بچوں کی بولی میں 'پَیّاں پَیّاں') چل رہی تھی کہ اسے بنگال کی سنہری سرزمین میں داخل ہونے کا موقع مل گیا۔
عام روایت کی رُو سے خاندان غلاماں کے سَرخیل سلطان قطب الدین ایبک کے عظیم جرنیل محمد بن بختیار خلجی کے ہاتھوں فتح بنگال کے وقت (1204ء ) سے پہلے پہل، قرآن وحدیث اور زبان ِ عربی و فارسی کی تعلیم وترویج اور پھر اُردو کے اولین نثر نگار و شاعر حضرت شرف الدین یحیٰ مَنیری (رحمۃ اللہ علیہ)]متوفیٰ 1300ء[ اور اُن کے خلفاء کی اصلاحی وتبلیغی مساعی کے طفیل یہ منفرد زبان وہاں پھلنے پھولنے لگی۔
(تاریخچہ آموزش زبان فارسی در بنگلادیش از شمیم بانو، معاون پروفیسور، مؤسسہ زبانہائی نوین، دانش گاہ داکا، بنگلا دیش: یاد بود۔ ہفتاد و پنجمین سال ِ تأسیس ِ بخشش ِ فارسی و اردودَر دانش گاہ داکا، بنگلا دیش۔۱۹۹۶ء)۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بنگالہ کا صوبہ، صدیوں بِہار، اُڑیسہ اور آسام، نیز موجودہ اُتّرپردیش کے متعدد مقامات پر محیط رہا او ر اس کا تعلق اراکان و برما سے بھی رہا تو گویا ایک وسیع وعریض خطے میں اپنی تشکیل کے ابتدائی دور میں اردو نے بہ یک وقت سپاہ، صوفیہ و علمائے کرام اور تُجّار کے ہاتھوں فروغ پایا۔ اس پس منظر میں دیکھا جائے تو بنگال بھی اردو کی جنم بھومی ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ اس بارے میں آگے چل کر مزید بات ہوگی۔
سردست 'مشرقی بنگال میں اردو' از اقبال عظیم (مرحوم) سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیے: ''مشرقی بنگال میں اردو کا آغاز کب اور کیسے ہوا، سب سے پہلا سوال ہے جو ذہن میں پیدا ہوسکتا ہے اور اس سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ جو عناصر ہندوستان کے دوسرے گوشوں میں اردو کا سہارا بنے، وہی عناصر یہاں بھی اس کے ساتھ تھے، جبکہ قدامتِ زبان کے اعتبار سے، مشرقی بنگال کو دوسرے مقامات پر یقیناً فوقیت حاصل ہے۔ اگر بات کو طوالت دینا مقصود ہو تو دلائل کے ساتھ یہ ثابت کردینا بھی دشوار نہیں کہ اردو کا آغاز فی الحقیقت مشرقی بنگال سے ہوا، لیکن نہ اس بحث میں پڑنا اس تذکرے کا مقصد ہے نہ ہی اسے چھیڑنے سے کچھ حاصل ہے۔
اس لیے یہاں صرف اتنی یاددہانی کافی ہوگی کہ محمد بن قاسم کے حملے سے سیکڑوں برس پہلے عربی تُجّار اور عربی مبلغینِ اسلام (عرب کہنا چاہیے: س ا ص) کے ذریعے سے عربی اور فارسی زبانیں سواحلِ بنگال تک پہنچ چکی تھیں اور اِن دونوں زبانوں کے بے شمار الفاظ یہاں کی مقامی زبان میں حل ہوکر اس کے خمیر میں داخل ہوچکے تھے۔ اس دعوے کے ثبوت میں سولھویں صدی عیسوی کے ایک قدیم بنگلہ ادب پارے سے ایک مختصر سا اقتباس پیش کردینا کافی ہوگا، جس سے یہ بات بہ آسانی سمجھ میں آجائے گی کہ اس زمانے کی مقامی ادبی زبان کسی طرح ہماری اِن زبانوں سے مختلف نہ تھی، جنھیں اردو کے نقوش ِاوّلین تسلیم کیا جاچکا ہے، صرف افعال کی ہئیت کا فرق ہے، باقی سب کچھ وہی ہے۔
ملاحظہ ہو: جہان عالم بادشاہ تختیر اوپرے۔ سُکھے تے بادشاہی کُرے۔ خوش حال انترے سات مُلکیر بادشاہ جہان ِ عالم کتنا سرانجام تار، اللہ کے معلوم۔'' {بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی ....یہ تمام پس منظر جانے بغیر، معترضین بڑے مزے سے اردو کو خطہ بنگال کے لیے نامانوس، اجنبی اور سرکاری طور مسلط زبان قرار دے کر، اس کے خلاف اپنی ناقص رائے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ خیر ایسے لوگ تو وطن عزیز کے موجودہ جغرافیہ میں بھی اردو کو ایسی ہی کوئی چیز قرار دینے لگے ہیں جو شاید کہیں سے ناگہانی آپڑی ہو اور اسے مصلحتاً برداشت کرنا پڑ رہا ہو۔ سچ ہے کہ لسانی و لسانیاتی شعور سے عاری لوگ ہی لسانی تعصب کے سب سے بڑ ے پرچارک اور علَم بردار ہوتے ہیں}۔
یہاں اقبال عظیم مرحوم نے ایک محقق کی حیثیت سے سوال رقم کرتے ہوئے اس کا تاریخی تناظر میں جواب بھی دیا ہے: فطر ی طور پر یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سازگار حالات کے باوجود، اس صوبے میں اردو مضبوطی سے اپنے قدم کیوں نہ جماسکی۔ اس کے فطری اسباب دو ہیں۔ اوّل تو یہ کہ پایہ تخت دہلی سے دور ہونے کے سبب، بنگال کے بغاوت پسند عناصر کے ہاتھوں اس سرزمین میں ہمیشہ جنگ و جدال اور قتل وغارت کا بازار گرم رہا اور اردو کو سکون واطمینان کی وہ فضاء کبھی میسر نہ آئی جو ایک زبان کی ترویج واشاعت کے لیے ضروری ہے۔
دُوَم یہ کہ یہاں کے خودمختار اور سرکَش پٹھان فرماں رَوا، حکومت ِدہلی سے ٹکّر لینے کے لیے یہاں کے عوام کا پورا تعاون چاہتے تھے جو صر ف اس صورت میں ممکن تھا کہ آخرالذّک ر(مؤخرالذکر۔س ا ص) کے کلچر، زبان اور ادب کی سرپرستی کرکے اُن کا اعتماد حاصل کیا جائے۔
چنانچہ اِن پٹھان حاکموں نے بنگلہ زبان کو ہرممکن طریقے پر سراہا اور اردو کی طرف توجہ کبھی ضروری نہ سمجھی، چنانچہ تاریخ شاہد ہے، بنگلہ زبان کو ادبی حیثیت دینے اور بنگلہ اَدب کو اس کی موجودہ رِفعَتیں بخشنے کا سہرا صِرف مسلمان سلاطین کے سر ہے۔ ظاہر ہے، بہ ایں حالات، اس صوبے میں اردو کی بنیاد مضبوط ہوتی بھی تو کیسے؟.........'' یہ استغاثہ اتنا مضبوط ہے کہ اس کا جواب دینے والا پوری تاریخ کھنگالے بغیر لب کشائی نہیں کر سکتا۔ ایسی صورت حال میں امید کی شمع جلے بھی تو کیسے، یہ بھی اقبال عظیم نے بَرمَلا بیان کیا: ''لیکن بزرگوں کے ہاتھوں جو نرم ونازک پودہ اِس سرزمین پر بویا جاچکا تھا، آہستہ آہستہ جڑیں پکڑتا رہا اور حادثات ِزمانہ اس کی بالیدگی کو نہ روک سکے، حتّیٰ کہ انگریز کا دَور آن پہنچا جسے اس صوبے میں اردو کی تجدیدِحیات کا زمانہ سمجھنا چاہیے۔''
اب ذرا یہ بات بھی ہوجائے کہ دو یا زائد زبانوں کے ملاپ، اختلاط یا اشتراک سے جنم لینے والی مخلوط بولی کیا ہوتی ہے۔ جس طرح عہدجدید میں فرینچ اور ولندیزی(Dutch) استعمار سے آزاد ہونے والے ممالک میں، ہر جگہ کی اپنی مخلوط بولی Creole (فرینچ تلفظ: خِیول) موجود ہے، بالکل اسی طرح ہندوستان کے ہر علاقے میں اردو نے اپنا جدا رُوپ نکالا۔ بنگال میں بنگلہ اور دیگر مقامی زبانوں /بولیوں سے ملاپ اور آمیزش نے ''دوبھاشی'' کو جنم دیا۔ یہ عہدمغلیہ کے دو سوبرس پر محیط دور کی بات ہے اور یہی وہی مخلوط بولی تھی جسے حضرت شرف الدین یحیٰ مَنیری (رحمۃ اللہ علیہ) اپنے کج منجروں میں استعمال کیا تھا اور جو بعدازآں زبان دہلوی، ریختہ، ہندی، ہندوستانی اورپھر اردو کے نام سے دنیا بھر میں رائج ہوئی۔
('بنگلہ دیش میں اردو' از احمد الیاس)۔ اردو کی جدید مخلوط شکل ''ڈَھکیا'' اردو کی ابتداء اُس وقت ہوئی جب ۱۶۰۸ء میں ڈھاکا، بنگال کا دارالحکومت بنا اور برصغیر کے طول وعرض سے ہر قوم اور پیشے کے لوگ وہاں آکر مقیم ہونے لگے۔ (مضمون بنگلہ اور اردو کا رشتہ از قلم شہزاد منظر: یاد بود۔ ہفتاد و پنجمین سال ِ تأسیس ِ بخشش ِ فارسی و اردودَر دانش گاہ داکا، بنگلا دیش۔۱۹۹۶ء)۔ چونکہ سرزمین بنگال میں دینی مدارس کے طفیل عربی وفارسی کے شانہ بشانہ اردو بھی پروان چڑھی تو ایسے اس نئی زبان کو 'نبی جی (ﷺ) کی بولی' کہا اور سمجھا جانے لگا تھا۔1780ء میں مدرسہ عالیہ کی تعمیر سے یہ سلسلہ مستحکم ہوا اور پھر 1800ء میں فورٹ ولیم کالج کے قیام سے ناصرف اردو، بلکہ دیگر کئی ہندوستانی زبانوں کے فروغ کی راہ ہموار ہوئی۔
اہل صنعت وتجارت بشمول ہمہ اقسام کے مزدور (انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں، بہار اور اڑیسہ سے، بنگال میں چائے کے باغات میں کام کرنے کے لیے لائے جانے والے ، اردو گو مزدور)، مشرقی بنگال ریلوے کے بہاری اردو/ہندی گو ملازمین اور چانول (چاول کا درست تلفظ) کی تجارت کے مرکز ڈھاکا میں، مشغول تجارت، ''مَوڑا'' یعنی مارواڑی تاجر جو مقامی لوگو ں سے ہندی یا ہندوستانی میں بات کرتے تھے، سبھی حسب توفیق اس زبان کو مقبول خاص وعام کرنے میں اپنا حصہ اداکر رہے تھے۔ (ادبی دنیا میں میرے اولین کرم فرما بزرگوں میں شامل، محترم شہزاد منظر کا تعلق ایک ایسے ہی گھرانے سے تھا جو بعدازآں کلکتہ سے تعلق کی بناء پر کلکتوی۔یا۔Calcattian اور پھر بِہاری سمجھا گیا)۔ اردو نے اس خطے میں بھی اپنے قدم بہ سرعت تمام ایسے جمائے کہ یہ بطور سرکار ی زبان دفاتر اور عدالتوں میں رائج ہوگئی۔
ادھر دِلّی کو افغان حملہ آورنادرشاہ اور احمد شاہ ابدالی نے تاخت و تاراج کیا تو اردو کے اُدَباء و شعراء نے بکثرت مُرشد آباد (مغربی بنگال) کا رُخ کیا اور انھیں وہاں اُمراء کی مہمان نوازی کے ساتھ ساتھ باقاعدہ سرپرستی سے مستفیض ہونے کا موقع ملا۔ مرشد آباد (مغربی بنگال) کے صوبے داران، مرشد قلی خان ، شجاع الدین خان اور علی وردی خان کے عہدحکومت میں اردو اور فارسی ادب کے مطالعے کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر علی وردی خان نے حالات دیکھتے ہوئے مغلیہ سلطنت سے بغاوت کی اور بنگالہ خودمختار ہوگیا۔ یہ نواب علی وردی خان وہی تھے جن کے نواسے نواب سراج الدّولہ نے اُن سے بھی زیادہ شہرت حاصل کی۔
سیاسی انحطاط کے اس دور میں مسلم تہذیب وثقافت اور فارسی واردو ادب نے مُرشدآباد، ہگلی (مغربی بنگال)، ڈھاکا (مشرقی بنگال) اور عظیم آباد یعنی پٹنہ (بہار) میں خوب ترقی کی۔ اردو اور فارسی کی سرپرستی کرنے والوں میں نواب سراج الدولہ اور غدار میرجعفر دونوں ہی شامل تھے۔ نواب سراج الدولہ کے دربار سے وابستہ دو بھائی قدرت اللہ اور فرحت اللہ شاعر تھے، جبکہ میرجعفر نے فارسی و اردو کے شاعر میرمحمدشرف کی سرپرستی کی۔ وہ لوگ تو خیر مشہور نہ ہوئے، مگر ایک بہت بڑا سخنور، انشاء اللہ خاں انشاء بھی مرشد آباد میں پیدا ہوا، جس نے لکھنؤ کا عروج و زوال دیکھا۔ (بحوالہ 'بنگلہ دیش میں اردو' ازاحمدالیاس)۔ نامور فرینچ مُستَشرِق [Orientalist] جناب گارساں۔ دو۔ تاسی نے اپنے خطبات کے صفحہ نمبر ۱۱۸ پر لکھا تھا: ''اردو کے مرکز (مراکز) یہ شہر ہیں: دہلی، آگرہ ، لاہور، میرٹھ، لکھنؤ، بنارس، کانپور، مرزا پور، فیض آباد، الہ آباد اور کلکتہ، جہاں ہندوستانی مثل ِصوبہ جاتی زبان کے بولی جاتی ہے۔'' (درست فرینچ تلفظ: گاخ ساں۔دو۔تاسی۔ فرینچ سے ناواقف حضرات یہ نام 'دِتاسی' بولتے ہیں جو صریحاً غلط ہے)۔ میرے مشفق کرم فرما، ڈاکٹر وفاراشدی مرحوم نے 'بنگال میں اردو' (سن اشاعت: 1955) میں یہ اقتباس نقل کرنے کے بعد حاشیے میں لکھا: ''بنگال میں اردو کو عموماً ہندوستانی یا دیسی زبان کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
وہاں کے پچھہتر فی صدی باشندے، باوجود صوبائی زبان بنگالی کے، اردو بولتے اور سمجھتے ہیں۔'' {گاخ ساں ۔دو۔تاسی صاحب کا پورا نام Joseph Héliodore Sagesse Vertu Garcin de Tassy یعنی جوزیف ایلیودوغ ساگیس ویخ تُو گاخ ساں دوتاسی تھا۔ اس عظیم خادمِ اردو کی تحریریں اردو میں ترجمہ ہوکر شایع ہوئیں اور پھر ان کی تصحیح کا کام بھی علمی سطح پر انجام پایا۔ یہ کارنامہ انجمن ترقی اردو کے زیراہتمام منظرعام پر آچکا ہے۔ شمالی ہند کو اردو کی جنم بھومی قرار دینے والوں میں ایک نام ناطق ؔلکھنوی کا بھی ہے جنھوں نے فرمایا:''اردو کو ایک ایسا سرچشمہ تصور فرمائیے جو شمالی ہند کے پہاڑوں سے جاری ہوا، دہلی میں آکر دریا بنا، اس دریا سے بیسیوں شاخیں نکلیں، ایک بنگال کو گئی، ایک بِہار کو، ایک اَوَدھ کو اور ایک گجرات کو۔ یہاں یہ شاخ پھیل کر دکن میں سمندر بن گئی۔ اودھ میں جو شاخ پہنچی، اس کے پانی کو تمام ہندوستان، خصوصاً آگرہ اور دہلی کے ادیبوں اور شاعروں نے جمع ہوکر لکھنؤ میں صاف کیا اور صاف کرکے تمام ملک میں نہریں دوڑادیں۔''
(نظم اردو ص ۱۵ از ناطق لکھنوی منقولہ در 'بنگال میں اردو' از ڈاکٹر وفا راشدی)۔ اس اقتباس کے بعد ڈاکٹر وفاراشدی کی یہ عبار ت بھی ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ کس طرح نتائج اخد کیے جاتے ہیں اور کس قدر درست ہوتے ہیں:''آپ نے دیکھا کہ دریائے دہلی کی شاخیں بہ یک وقت بنگال، بِہار، اَوَدھ، (اور) گجرات میں پھیل گئیں۔ یہ اور بات ہے کہ دکن میں اس شاخ نے سمندر کی سی حیثیت اختیار کرلی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بنگال کو بھی اردو کی آماج گاہ ہونے کا شرف اُسی وقت سے حاصل ہوا جب اردو کی ابتداء ہوئی جس کی مزید صراحت آگے کی جائے گی۔ بِہار کے شعراء میں حضرت شرف الدین احمد یحیٰ مَنیری (رحمۃ اللہ علیہ) آٹھویں صدی ہجری میں اور اَوَدھ کے کبیر (سنت کبیر داس) کا نویں صدی (ہجری) میں ملتا ہے تو آٹھویں صدی ہجری میں بنگال کے شعراء مثلاً مخدوم جہانگیراشرف (سمنانی) (رحمۃ اللہ علیہ) وغیرہ کا تذکرہ ونمونہ کلام بھی دستیاب ہوتا ہے۔ بنگال کے سلطان شاہ حسین کے زمانے میں، جو بہت بڑا علم دوست، سرپرست اور قدردانِ زبان وادب تھا، اردو اور بنگلہ دونوں (کے) ادب نے وہ فروغ پایا کہ اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ عربی وفارسی کی بے شمار کتابیں، اُسی کے زمانے میں اردو میں منتقل ہوئیں۔ 'اَیّامِ حسین شاہ ،۹۰۹ھ میں قلنس مصنف گائونی، جو اُس کا درباری شاعر تھا اور ایک باکمال صاحبِ علم وفضل، حسین شاہ کی مدح میں کہتا ہے: شاہ حسین آہے بڑا راجہ+چتر سَنگھاسَن اُن کو چھاجا۔''
(جاری ہے)