کب ٹھہرے گا دردِ دل

یہ عقدہ کب کھلے گا جب ڈرامہ ختم ہوگا

وزیر اعظم عمران خان نے اعتماد کا ووٹ حاصل کر لیا۔ وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ میں قرارداد پیش کی، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اجلاس کی صدارت کی۔

اپوزیشن نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا۔ ادھر اسلام آباد میں ڈی چوک پر صورتحال اور آثار ہفتہ کی صبح سے خراب نظر آ رہے تھے، کچھ ہی دیر میںسیاسی کارکنوں کی آمد کے بعد پارلیمنٹ سے باہر علاقہ میدان جنگ بن گیا، مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں شدید نعرے بازی ہوئی، پولیس نے موقع پر پہنچ کر ایک بڑے تصادم کو روک دیا، سیکیورٹی کے انتظامات سخت ہونے کے بعد پورے علاقے کو سیل کر دیا گیا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق ملکی سیاسی صورتحال میں تناؤ کا لیول ناگفتہ بہ ہے، مسلم لیگ (ن) کی پریس کانفرنس میں پی ٹی آئی کارکنوں کا آ کر مار پیٹ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی کارکنوں کی تربیت نہیں کی جاتی۔

اس طرح انھیں جمہوری اخلاقیات اور اقدار کے بارے میں آگاہی حاصل نہیں ہوتی۔ ایسا کسی ایک پارٹی کے ساتھ نہیں بلکہ ساری پارٹیاں اپنے سیاسی کارکنوں کی سیاسی تربیت نہیں کرتیں۔ سیاسی جماعتوں کے کارکن تربیت یافتہ ہوں اور انھیں جمہوری اصولوں اور جمہوری اخلاقیات کا علم ہو تو وہ مخالف سیاسی جماعت کے کارکنوں یا قیادت کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے ہیں۔

مبصرین اور سیاسی پنڈت جو سینیٹ الیکشن کے نتائج پر حیرت زدہ رہ گئے تھے، غالباً سیاست میں تغیرات کے سونامی کا ادراک ہی نہیں کر پائے، بعض تجزیہ کار جو سینیٹ انتخابات کے نتائج کے تناظر میں وزیر اعظم کی جانب سے ایک فاتحانہ اور تند و تیز تقریر کی توقع کر رہے تھے انھیں حالات کی تبدیلی نے ششدر کر دیا ہے۔

سنجیدہ سیاسی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ضرورت سیاسی بحران کی نوعیت، اس کے اسباب و علل اور سیاسی نظام کو پہنچنے والے خطرات کو تحمل اور تدبر سے روکنے کی ہے، حقیقت یہ ہے کہ حکومت کو اس صورتحالکی گہرائی اور گیرائی کا ادراک کرنا چاہیے جس کی وقت گزشتہ تین سالوں سے پرورش کر رہا تھا، اب چونکہ حالات نے سب کو بیدار کر دیا ہے تو سیاسی بصیرت اور دور اندیشی کا تقاضہ ہے کہ ملکی سالمیت، خطے میں تبدیلیوں کی گھن گرج اور ملکی معیشت، سماجی و سیاسی تنازعات اور اختلافات کا دائرہ پھیلنے نہ دیا جائے، سیاسی ناقدین اور سنجیدہ حلقوں کی صائب رائے ہے کہ جو صورتحال پیدا ہو چکی ہے وہ انوکھی اور انہونی نہیں ہے، مسائل یا بحران کا حل سیاستدانوں کو سیاسی نظام میں مضمر خرابیوں میں ڈھونڈھنا چاہیے۔

یہ وہ المیے نہیں جنھیں ہم باہر کی طاقتوں کے سر منڈھ دیں، جو کچھ ہوا اس کے ذمے دار سیاست دان، حکمراں اور ہم خود ہیں، بحران یا داخلی سیاسی کیمسٹری کی خرابی اتنی زیادہ تھی کہ اہل سیاست ادراک بھی نہ سکے کہ سینیٹ کے الیکشن میں کوئی اپ سیٹ ہونے والا ہے، کیا کوئی ٹروجن ہارس تھا؟ سیاسی مدبرین کو سوچنا چاہیے کہ پی ٹی آئی کی حکومت تین سال کا عرصہ گزار چکی ہے اور اس کے اہداف اور ترجیحات میں دو سال باقی ہیں جس میں اسے اپنی میعاد مکمل کرتے ہوئے ملک میں عوام کے مسائل بھی حل کرنے ہیں۔

سیاسی نظام کی قلب ماہیت بھی کرنی ہے، تبدیلی کا ایک اہم مینڈیٹ اور کرپشن فری سوسائٹی کی قوم کو نوید بھی دینی ہے، یہ ساری بزم ایک سینیٹ الیکشن نے کیسے اجاڑ دی ؟ اتنا بڑا طوفان کیا سیاسی دانشوروں کی ''پیالی میں'' چھپا ہوا تھا، جی نہیں، تسلیم کرنا چاہیے کہ ملکی سیاسی مسائل اپنی ایک الم ناک سیاسی اور سماجی تاریخ رکھتے ہیں، اہل سیاست اس تلخ حقیقت کو مان لیں کہ ہماری سیاست تاریخی اور عصری حقائق سے ناآشنا رہی، ہمارے سیاسی مشاہیر، اہل منطق اور سیاسی بصیرت رکھنے والے چشم کشا سچائیوں سے واقف ہونا ہی نہیں چاہتے تھے۔

انھوں نے عوام کے درد کو کبھی اپنا درد محسوس نہیں کیا، عوام، میڈیا اور سیاسی کسک اور تڑپ نے آخر کار اس عوامی رد عمل کو طشت از بام کر دیا جس نے وزیر اعظم کو عوامی مسائل کے ''بھانبھڑ'' نے سیاسی طور پر جگا دیا ہے، بعض غریب ووٹرز کا کہنا ہے کہ ہمیں اوپر لانے کی کوشش کی گئی ہوگی مگر وزیر اور مشیر وزیر اعظم کو پوری طرح حقائق سے آگاہ نہیں کررہے، حقیقت عوام تک آنے نہیں دی گئی، غربت، مہنگائی اور بیروزگاری سمیت ہر مسئلہ حکومت سے چھپایا گیا، عوام اور ووٹرز سے حکمرانوں کے جذبہ وابستگی کو سبوتاژ کر دیا گیا، وہ لوگ جن کو عوام کے دکھوں سے چوبیس گھنٹے کا ساتھ ہونا چاہیے تھا وہ ''سب اچھا ہے'' کی رٹ لگاتے رہے۔ وزیراعظم عمران کو حفیظ شیخ کی ہار سیجو دھچکا لگا اور پھر انھیں اعتماد کا جو ووٹ ملا ہے وہ منیر نیازی کے اس شعر کی ہو بہو تفسیر ہے کہ

پھر ایک دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو


میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

وزیر اعظم نے دیکھ لیا کہ سیاست کے سینہ میں دل نہیں ہوتا، اس میں You Too Brutus کا کسی کو موقع نہیں دینا چاہیے۔ سیاسی ماحول ابھی بھی خدشات سے لبریز ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ الیکشن پر وزیر اعظم اور ان کی کابینہ کے بعض وزراء کی طرف سے تبصروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین اور قانون کو نظر انداز نہیں کرسکتے اور نہ ہی ترمیم کر سکتے ہیں، لہٰذا ہمیں آزادانہ کام کرنے دیں اور کیچڑ نہ اچھالیں۔

چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت بلائے گئے خصوصی اجلاس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا کہ سینیٹ کے الیکشن آئین اور قانون کے مطابق کرانے پر ہم اللہ تعالیٰ کے شکر گزار ہیں کہ وہ خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہوئے۔ الیکشن رزلٹ کے بعد میڈیا کی وساطت سے جو خیالات ہمارے مشاہدے میں آئے ان کو سن کر دکھ ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن کا کام قانون سازی نہیں ہے بلکہ قانون کی پاسبانی ہے، دو وفاقی وزراء کا کہنا ہے کہ ڈسکہ سے سینیٹ انتخابات تک الیکشن کمیشن سے کوتاہیاں ہوئیں۔

الیکشن کمیشن اپنے مؤقف پر نظر ثانی کرتے ہوئے اپنے اقدامات سے آزادی، خود مختاری اور غیر جانبداری ثابت کرے۔ گزشتہ روز ایک حکومتی وزیر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے دو اراکین کی جانب سے سینیٹ انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن میں ریفرنس فائل کیا گیا لیکن اس پر کارروائی نہیں ہوئی لیکن ڈسکہ کے معاملے پر رات تین بجے الیکشن کمیشن نے اقدامات اٹھائے۔ یہ کہنا کہ کسی ادارے پر تنقید نہیں کر سکتے درست بات نہیں، وزیر اعظم عمران خان اور پی ٹی آئی الیکشن کمیشن اور تمام اداروں کا احترام کرتے ہیں ان خبروں میں صداقت نہیں کہ ہم الیکشن کمیشن کے باہر احتجاج کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن ادارے پریس ریلیز سے نہیں اقدامات سے اپنی غیر جانبداری آزادی اور خودمختاری کا اظہار کرتے ہیں۔

ادارے کی جانب سے وزیر اعظم کے بیان پر پریس ریلیز جاری کرنا مناسب نہیں۔ دوسری طرف گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ( جی ڈی اے ) نے وزیر اعظم عمران خان کو سندھ میں سینیٹ الیکشن میں ہونے والے معاملات کی تحقیقات کے لیے خط لکھ دیا ہے جس میں ضمیر فروشوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ جی ڈی اے کے ارکان اسمبلی نے سندھ اسمبلی میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں دھاندلی کے تمام ثبوت وزیر اعظم کو ارسال کر دیے ہیں۔ اب اپنے ان 6 ضمیر فروش ایم پی ایز کی انکوائری کرائیں۔

سوالات کی بڑی طویل فہرست ہے، سیاست میں سنجیدگی، اعتدال اور دور اندیشی کی ضرورت ہے، ایک نئے سیاسی معاہدہ عمرانی اور نئے زمینی بیانیہ کی اشد ضرورت ہے، یہ کہنا آسان ہے کہ نیا عمران آ گیا ہے، لیکن مصیبت یہ ہے کہ اپوزیشن وہی پرانی ہے، عوام کے مسائل ختم نہیں ہوئے، مہنگائی نے ان کی زندگی اجیران کر دی ہے، جرائم انتہائی ہولناک ہو گئے ہیں، ملکی کلچر اپنی تہذیبی مرکزیت سے ہٹ گیا ہے، سیاسی فکر جو متوسط طبقہ کی شناخت اور سماج کی تعمیر کی اساس ہوتی ہے، اس کی شیرازہ بندی کا خیال بھی مدھم پڑ گیا ہے، ہمارے ڈرامے دھرتی کے کرداروں کی ساخت کا مذاق اڑاتے ہیں:

کہانی آپ الجھی ہے کہ الجھائی گئی ہے

یہ عقدہ کب کھلے گا جب ڈرامہ ختم ہوگا

ضرورت ملکی سیاست کو تند و تیز کشمکش، ٹکراؤ اور جمہوریت کش اقدامات اور خطرات سے محفوظ رکھنے کی ہے، اس دلدل سے نکالنے کی ہے جس میں وہ برسوں سے پھنسی ہوئی ہے، ایک تدبر اور حکمت و دانش اہل سیاست کو اس کھائی سے نکال سکتی ہے، عوام اپنی آنکھوں سے اس سیاسی بحران کو دیکھ رہے ہیں، کچھ کر بھی نہیں سکتے۔ صرف یہ سن رہے ہیں کہ دنیا میں کورونا کی کوئی نئی لہر آ رہی ہے جو گزشتہ لہروں سے بہت اونچی سطح پر ہے، عالمی میڈیا اور عالمی ادارہ صحت کے سربراہ اور ماہرین کا کہنا ہے کہ جو کورونا نے عالم انسانیت کے ساتھ اب تک کیا ہے اس کی ہلاکت خیزی دوسری جنگ عظیم کی ہلاکتوں کو بھی مات دیدے گی۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
Load Next Story