ڈاکٹررشید امجد

میرے نزدیک ابھی تک اُردو افسانہ ستّر کی دہائی کے ان بے مثال افسانہ نگاروں کی نسل سے آگے نہیں نکل پایا

Amjadislam@gmail.com

حال ہی میں ہم سے جُدا ہونے والے ڈاکٹر رشید امجد مرحوم سے پہلا تعارف 1968 میں ایم اے اُردو کے نتائج کے حوالے سے ہوا کہ وہ انور سدید مرحوم کے ساتھ اُن دو پرائیویٹ طلبہ میں سے تھے جو پہلی پانچ پوزیشنوں پر فائز ہوئے، اُس زمانے میں ایم اے اُردو کی باقاعدہ کلاسیں پورے پاکستان میںگنتی کے چند اِداروں میں ہی ہوا کرتی تھیں اور اُن میں داخلے یا اُن کی بنیاد پر امتحان میں بیٹھنے کے لیے شرائط کا ایک سخت اور طویل سلسلہ ہُوا کرتا تھا، یہی وجہ ہے کہ بہت سے دوست جو ان شرائط کو بوجوہ پورا نہیں کرپاتے تھے، وہ پرائیویٹ اُمیدواروں کے طور پر امتحان دیتے تھے۔

رشید امجد بھی انور سدید کی طرح ملازمت کررہے تھے سو انھیں بھی یہی راستہ اختیار کرنا پڑا چونکہ اُس زمانے میں زیادہ تر پوزیشنز باقاعدہ طالب علم ہی لیا کرتے تھے اس لیے ان دونوں کی نمایاں کامیابی کو بہت حیرت اور توجہ سے دیکھا گیا۔

اوریینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے اس فہرست میں میرا اور مرحومہ خورشید زہرا (بیگم ڈاکٹر سیّد معین الرحمن مرحوم) کا نام شامل تھا ۔یہ تھا وہ پس منظر جو اس پہلی ملاقات کا سبب بنا۔پتا چلا کہ وہ سیلف میڈ انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے افسانہ نگار بھی ہیں اور حالات سے ہار ماننے کے بجائے اس کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا نہ صرف حوصلہ رکھتے ہیں بلکہ اس ضمن میں کسی قسم کے احساسِ کمتری کو بھی نزدیک نہیں پھٹکنے دیتے۔ وہ ماشاء اللہ خاصے طویل قامت تھے۔

اس لیے سب سے پہلے اُن کی یہی خصوصیت کسی اجنبی کو زیادہ متوجہ کرتی تھی، فطرتاً کم گو اور قدرے شرمیلے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ تنقیدی بحثوں کے دوران اور اپنے افسانوں میں وہ اس تاثیر سے بہت مختلف نظرآتے تھے۔ ملاقات کے بعد جب ذرا بے تکلفی بڑھی تو میں نے انھیں اسی طوالتِ قد کے حوالے سے غالب کا ایک شعر اور غلام محمد قاصر سے متعلق ایک واقعہ سنایا جس سے وہ نہ صرف بہت محظوظ ہوئے بلکہ اکثر اس کا ذکر بھی کیا کرتے تھے۔ غالب کا وہ شعر کچھ یوںتھا ،

اسدؔ اُٹھنا قیامت قامتوں کا وقتِ آرائش

لباسِ نظم میں بالیدنِ مضمونِ عالی ہے


جب کہ اس لطیفہ نما واقعے کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ایک بار ہم سب ''فنون'' کے انارکلی بازار والے دفتر میں بیٹھے تھے۔احمد ندیم قاسمی صاحب کی میزبانی میں چائے اور گفتگو کا دور چل رہا تھا، اتفاق سے غلام محمد قاصر (واضح رہے کہ مرحوم قاصربھائی بھی خاصے طویل قد کے مالک تھے جو اُن کے دُبلا پتلا ہونے کی وجہ سے اور بھی زیادہ طویل لگتا تھا) ایسی جگہ بیٹھے تھے جہاں کُھلی کھڑکی سے سورج کی تیزروشنی براہ راست اُن کی آنکھوں میں پڑرہی تھی ،کچھ دیر تو وہ اپنا سَراِدھر اُدھر کرکے گزار ا کرتے رہے مگر جب بات نہ بنی تو وہ قدرے جھنجھلا کر کھڑکی بند کرنے کے لیے اُٹھے گلزار وفا چوہدری مرحوم (جو خاصے پست قامت تھے ) بے ساختہ بولے ''قاصر بھائی بس کھڑکی ہی بند کیجیے گا، سُورج کو کچھ نہ کہیئے گا۔'' رشید امجد بہت کم کُھل کر ہنستے تھے مگر یہ منظر اور اُس پر کیا جانے والا برجستہ تبصرہ ایسا تھا کہ زندگی بھر وہ اس کا مزا لیتے رہے۔

ملاقاتیں تو اُن سے بہت ہیں اور یادوں کا بھی ایک طویل سلسلہ ہے مگر ان کے مزید ذکر کو کسی اور موقعے پر اُٹھا رکھتے ہوئے اب کچھ بات اُن کے افسانوں کے بارے میں بھی ضروری ہیں کہ اگرچہ بطور نقاّد اور محقق بھی ان کی تحریریں بہت وقیع اور اہم ہیں لیکن ادب کے میدان میں اُن کی پہلی بنیادی اور مرکزی پہچان اُن کی افسانہ نگاری ہی ہے۔

اُن کا تعلق ستّر کی دہائی میں سامنے آنے والی نسل سے تھا جس کے پیچھے منٹو، بیدی، عصمت چغتائی، کرشن چندر ، غلام عباس، قرۃ العین حیدر، بلونت سنگھ ، احمد ندیم قاسمی، انتظارحسین ، اشفاق احمد، بانوقدسیہ ، انور، ابوالفضل صدیقی ، عبداللہ حسین اور ان سے قدرے کم درجے کے مگر بہت عمدہ اور تخلیقی قلم کاروں کی ایک طویل اور شاندار فہرست تھی جس نے فنِ افسانہ نگاری کو اس اوج پر پہنچا دیا تھا کہ بیسیویں صدی کے پہلے نصف کے روسی اور دوسرے نصف کے لاطینی امریکی افسانہ نگاروں کے درمیان وہ ایک پُل کی طرح نظر آنا شروع ہوگئے تھے، اس عظیم اور کمرتوڑ دباؤ کے باوجود ستّر کی دہائی میں جن افسانہ نگاروں نے اپنی پہچان کرائی ، ان میں پہلے تین نام محمد منشا یاد، مظہرالاسلام اور رشید امجد کے ہی ہیں اور اتفاق سے ان تینوں کا تعلق ایک ہی شہر یعنی اسلام آباد سے ہے۔

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں، دو عالمگیر جنگوں کے بعددنیا وہ نہیں رہی جو اس سے پہلے تھی اور یہ تبدیلی ایسی ہمہ گیر ہے کہ زندگی کا کوئی بھی شعبہ اس سے محفوظ نہیں رہا ۔ کارل مارکس، فرائڈ اور برٹرینڈرسل ایک طرح سے قصہ پارینہ بن کر رہ گئے کہ اُن کے فلسفہ حیات کے بہت سے ایسے پہلو کُرہ ارض پر موجود اس انسان نامی مخلوق کی زندگی کا حصہ بن گئے جو ان عظیم دانشوروں کی زندگیوں میں ایک ان دیکھی دنیا کی مثال تھے کہ جو تھی بھی اور نہیں بھی تھی۔

کمپیوٹر ،ا نٹرنیٹ ، انسانی حقوق، آزادی اظہار، میرا جسم میری مرضی، میڈیا کے عمل دخل، اسلاموفوبیا، روس کے زوال اور چین کے فروغ، سائنسی انکشافات اورتیسری دنیا کے معاشروں کے مخصوص مسائل ا ور کمپلیکسز Complexes نے مل جُل کر ایک ایسی فضا بنا دی کہ انسانی رشتے(جو افسانہ نگاروں کا محبوب ترین موضوع ہوتے ہیں) ایک بالکل نئی شکل میں ڈھلنا شروع ہوگئے اور اظہار کے پیرایوں میں بھی تفصیل کی جگہ اختصار اور کردارنگاری کی جگہ علامت پسندی نے لی۔ رشید امجد کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ا س دم بدم بدلتی ہوئی دنیا میں ایک متوازن اورمستحکم نظر یہ حیات کی معرفت ایسی کہانیاں اور کردار تخلیق کیے جن میں ماضی کی بازگشت کے ساتھ ساتھ حال اور مستقبل کی گونج بھی بہت سلیقے ، خوش اسلوبی اور وضاحت سے ایک جگہ پر جمع ہوگئی ہیں ۔

انسانی نفسیات ،ر شتے اور تیسری دنیا کے معاشروں کی مخصوص پیچیدہ صورتِ حال اُن کے افسانوں کے مرکزی موضوعات تھے وہ علامتی انداز کو استعمال کرتے تھے مگر عام طور پر اُسے ابہام کے گرداب کا حصہ نہیں بننے دیتے تھے ۔ شعبہ تعلیم سے وابستگی کے باعث ان کی تنقیدی تحریروں میں تو درسی انداز کہیں کہیں جھلک مارتا ہے مگر افسانہ نگاری میں وہ بہت بے باک نظر آتے ہیں ۔

ا گرچہ اُن کے بعد بھی اب افسانہ نگاروں کی کم و بیش دو نسلیں اپنا ظہور کر چکی ہیں مگر میرے نزدیک ابھی تک اُردو افسانہ ستّر کی دہائی کے ان بے مثال افسانہ نگاروں کی نسل سے آگے نہیں نکل پایا جس کے رشید امجد بجا طور پر ایک اہم ترین نمایندے تھے میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ ہماری اکادمی ادبیاتِ پاکستان بھی دیگر ترقی یافتہ معاشروں کی طرح ایک باقاعدہ ''ہال آف فیم'' بنائے تاکہ ہمارے آنے والی نسلیں کل کے ساتھ ساتھ آج کے اہم اور تاریخ ساز لکھاریوں کے نام اور کام سے بخوبی واقف ہوسکیں اور یقینا اس ہال میں اُ ن کی ملاقات رشید امجدمرحوم سے بھی ہوگی کہ وہ بجا طور پر اس مقام کے مستحق تھے اور ہیں۔
Load Next Story