وہ ولن جو ہیرو بنے ہوئے ہیں

جب تم ان کے قریب جاؤگے اور ان کی باتیں سنوگے تو وہ لوگ تمہارے مقدرکی باتیں کررہے ہوں گے۔

aftabkhanzada2@yahoo.com

ڈیکارٹ کہتا ہے '' میں سوچتا ہوں، اس لیے میں ہوں'' ایک بڑا سوال جو آج سب کی زبان پر ہے کہ آخر پاکستان میں جمہوریت کیوں نہیں پنپ رہی ہے۔ ملک میں ادارے مستحکم کیوں نہیں ہورہے ہیں، ملک معاشی طورپر مضبوط کیوں نہیں ہو رہا ہے۔ ملک سے کرپشن ، لوٹ مار، مہنگائی ، غربت ، بے روزگاری ، دہشت گردی ، بد امنی ، بجلی،گیس پانی کا بحران کیوں نہیں ختم ہو پارہے ہیں۔

اس کا جواب اصل میں بالکل سیدھا سادہ سا ہے کہ پاکستان میں ابھی تک ایسے سماج نے جنم نہیں لیا جو جمہوریت ، اداروں کے استحکام ، معاشی طور پر خوشحال ، آزاد اور ترقی کے لیے سازگار ہو ۔ سماج لوگوں سے بنتا ہے جو اس میں بستے ہیں اور ریاست لوگوں کا عکس ہوتی ہے یعنی جیسا لوگوں کا کردار اور سو چ ہوگی ویسے ہی سماج ہوگا اور ویسے ہی ریاست ہوگی۔ سقراط نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ انسان سماج میں تفرقہ اور نزاع کی اصل وجہ انفرادیت ہے۔

ایک فرد کی ذاتی خوشی یا ذاتی پسند و ناپسند ذاتی مفاد سے انسانی سماج کے مسائل حل نہیں ہوسکتے ۔ بلکہ اصل حقیقت سماجی انصاف کا اصول ہے جس کی بنیاد سماجی اور انسانی اخلاق ہے ہم اس کی مثال یوں پیش کرسکتے ہیں کہ ایک چورکی ذاتی خوشی، ذاتی مفاد اور ذاتی پسند یہ ہوتی ہے کہ اس کی چوری کا راز نہ کھلے اور وہ چوری کے مال سے مزے اڑاتا رہے جب کہ اس شخص جس کی حلال اور محنت مزدوری کی کمائی چوری ہوئی ہے کی ذاتی خوشی ، ذاتی مفاد اور ذاتی پسند یہ ہوتی ہے کہ اس کا چوری شدہ مال اسے واپس مل جائے ۔ یہاں ایک طریقہ یہ ہے کہ دونوں اپنی اپنی کوشش کریں اوردونوں میں سے جو طاقتور، ذہین یا با رسوخ ہو وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے تو اسے ہم کیا کہیں گے کیا ہم اسے سماجی انصاف کہیں گے۔

اس کا جواب نفی میں ہے اگر چور اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے تو یہ سماجی ناانصافی اور زیادتی ہے اس کا مطلب ہے جس کی لاٹھی اس کی بھینس، دوسری طرف اگر وہ شخص اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے ، جس کا حلال اور محنت مزدوری سے کمایا ہوا مال چوری ہوا تھا تو ہم کہیں گے کہ یہ سماجی انصاف کے عین مطابق ہے لہٰذا مسائل کا حل فردکی خوشی، پسند یا مفاد کی خوشی ، پسند یا مفاد میں مضمر نہیں ہے بلکہ ان مسائل کا حل سماجی انصاف کے اصول میں مضمر ہے۔


یہ ہے وہ واحد نکتہ ہے جس نے ہمارے سماج کے بخیے ادھیڑکے رکھ دیے ہیں۔ عدم سماجی انصاف نے ہمارے پورے سماج کی مٹی پلید کرکے رکھ دی ہے ۔ پاکستانی سماج میں موجود تمام عذابوں، برائیوں ، خرابیوں اور المیوں کی جڑ یہی عدم سماجی انصاف ہے ۔ اجڑے اور برباد ہونے کی تمام صورتوں میں کی سب سے بدترین صورت پاکستان کی ہے اور اس کی تمام تر ذمے داری اس ٹولے پر عائد ہوتی ہے جو اپنے آپ کو ہر قانون، آئین ، ہر پابندی ، ہر ڈسپلن سے مبرا سمجھے بیٹھے ہیں وہ اپنے ہر عمل اور اپنے ہر لفظ کو قانون کا درجہ دیے بیٹھے ہیں۔

اس ٹولے میں کرپٹ سیاست دان ، جاگیردار، سرمایہ دار، بلڈرز، بزنس مین ، بیوروکریٹس ، کے اکابرین شامل ہیں۔ اصل میں ان لوگوں کی اکثریت حادثاتی طورپر سماجی لحاظ سے بڑے بڑے عہدوں ، منصبوں اور حیثیتوں پر آکر فائز ہوگئی ہے اس لیے ان کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ کیا سے کیا کردیں ۔ ان کی مثال کچھ اس طرح سے لے لیں کہ اگر کسی معصوم بچے کوکھیلنے کے لیے موم کی گڑیا دے دی جائے تو وہ اس کا کیا حال کردے گا یہ ہی حال ان تمام حضرات کا ہے۔ دراصل یہ بیماروں کا ایک ٹولہ ہے جو اپنے آپ کو سب سے زیادہ صحت مند تصورکرتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انھیں یہ احساس تک نہیں ہے کہ وہ کتنی خوفناک بیماری میں مبتلا ہیں۔

یہ تمام حضرات احساس برتری کا شکار ہیں، جو اپنے علاوہ ملک کے 22کروڑ انسانوں کوکیڑے مکوڑوں کا درجہ دیتے ہیں اگر ان کا بس چلے تو وہ ان کیڑے مکوڑوں کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کردیں۔ دنیا کے تمام ماہر نفسیات اس بات پر متفق ہیں کہ احساس برتری نام کی کوئی چیزکا وجود ہے ہی نہیں۔ بلکہ احساس برتری دراصل احساس کمتری کی ہی شکل ہے، احساس برتری میں مبتلا لوگ اصل میں احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اصل میں یہ سب کے سب وہ ولن ہیں جو ہیروکا بہروپ دھارے ہوئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ اول درجے کے ڈھونگی ہیں جن کا مقصد ہر خوبصورت چیز پر اپنا قبضہ کرنا ہے جو چیزوں کی محبت میں تمام محبتوں کو بھلائے بیٹھے ہیں۔ زمانہ قدیم سے لے کر آج تک کے فلسفی یہ ثابت کرتے آئے ہیں کہ غریبوں میں جہالت اس قدرعبرتنا ک نہیں ہوتی جتنی کہ امیروں میں ہوتی ہے۔

عظیم فلسفی شوپہنارکہتا ہے ''ہرشخص اپنے شعورکی حدود میں گھرا ہوا ہے اور وہ ان حدودکو پارنہیں کرسکتا جیسے وہ اپنی جلد سے باہر نہیں آسکتا '' حصول املاک وروپے پیسے وجائیداد کا جنون صدیوں سے انسان کے ذہن ودماغ پر مسلط ہے اور یہ زہر اس کے رگ و پے میں سرایت کرگیا ہے۔ اسی جنون نے انسانی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیا ہے اور انسانی معاشرے میں عدل وانصاف کوقتل کرکے رکھ دیا ہے۔ طاقتوروں، بااختیاروں اور امیروں نے پاکستان کے 22کروڑانسانوں کو ناقابل برداشت نقصان کی بھٹی میں جھونک دیا ہے جس کی آگ میں آج نہیں توکل ان کو ضرور بھسم ہوہی جانا ہے۔

اب بائیس کروڑ انسانوں کا غصہ یا طیش وغضبناکی ایک آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑنے کو تیار ہے۔ کیونکہ جتنی طاقت سے اس جذبے کو دبایا جاتاہے اتنی ہی طاقت سے یہ ابھرتا ہے۔ میرے ملک کے استحصالی لوگوں تمہیں اس کی گہرائی میں اترنا چاہیے تم اندھیرے میں صرف چندہی قدم آگے بڑھوگے تو تمہیں تمہارے ہم وطن، ہم زبان لوگ بیٹھے نظرآئیں گے جب تم ان کے قریب جاؤگے اور ان کی باتیں سنوگے تو وہ لوگ تمہارے مقدرکی باتیں کررہے ہوں گے۔
Load Next Story