اعجاز درانیلالی وڈ کا رانجھا چل بسا MG12 KALAKAAR

30 سالہ کیرئیر کے دوران 130 اُردو اور پنجابی فلموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا


Qaiser Iftikhar March 07, 2021
30 سالہ کیرئیر کے دوران 130 اُردو اور پنجابی فلموں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ فوٹو : فائل

اعجاز درانی،پاکستانی فلم انڈسٹری کے مایہ نازخوبصورت اور لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے اداکارتھے، جنہوں نے بطور اداکار، ہدایتکار اور پروڈیوسر تین دہائیوں تک پاکستان فلم انڈسٹری پر راج کیا۔

گزشتہ دنوں شدید علالت کے بعد یکم مارچ کو 88 برس کی عمر میں لاہور میں وہ انتقال کر گئے۔ انہوں نے اپنے فنکارانہ کریئر میں کئی لازوال کردار نبھائے مگر انہیں رانجھا کے کردار میں بے پناہ شہرت ملی۔اگر یہ کہا جائے کہ اس عظیم فلمی ہیرونے رانجھے کا لازوال کردار ادا کر کے فلمی تاریخ میں اپنا نام سنہرے حروف میں لکھوایا لیا تو غلط نہ ہو گا!

کسی بھی فنکار کو خراج تحسین پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ اس کے فن پاروں کا ذکر کرنا ہوتا ہے۔ اعجاز کا فلمی کیرئر بڑا متاثر کن رہا ہے۔ اپنے تیس سالہ فلمی کرئیر میں انہوں نے 130 فلموں میں کام کیا جن میں سے 70 اردو اور 60 پنجابی فلمیں تھیں۔ ان کی پہلی فلم "حمیدہ1956ء'' میں جبکہ آخری فلم "جھومرچور1986ء'' میں سینما گھروں کی زینت بنی تھی۔ وہ لوک داستانوں پر بنائی گئی رومانٹک فلموں کے سب سے آئیڈیل ہیرو تھے۔ انہیں پاکستان کا پہلا ڈائمنڈ جوبلی ہیرو ہونے کا ناقابل شکست اعزاز بھی حاصل ہے۔ پاکستانی فلمی تاریخ کے عروج کے دور میں سدھیراورحبیب کے بعد تیسرے ہیرو تھے جو بیک وقت اردو اور پنجابی فلموں میں کامیاب تھے۔ اعجاز ایک کامیاب فلمساز بھی تھے۔

اعجاز، جن کا خاندانی نام اعجازدرانی تھا ، اداکاری اور فلمسازی کے علاوہ "سنگیت پکچرز" اور "پنجاب پکچرز" کے بینر تلے فلم ڈسٹری بیوٹر بھی تھے۔ شاہدرہ (لاہور) اور راولپنڈی کے سنگیت سینماؤں کے مالک بھی تھے۔ 1935ء میں ضلع گجرات میں جلال پورجٹاں کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوئے ، گجرات اور جہلم سے تعلیم حاصل کی۔ بی اے کی ڈگری ہونے کے باوجود اردو تلفظ کسی دیہاتی کی طرح ہوتا تھا لیکن ایک ریڈی میڈ ہیرو تھے ، اس لئے فلم کی ضرورت ہوتے تھے۔ اعدادوشمار ، حقائق کی زبان میں خود بولتے ہیں کہ کوئی کتنا کامیاب یا ناکام ہے اور جب حقائق سامنے ہوں تو کسی کی ذاتی رائے یا خیال قطعاً کوئی اہمیت نہیں رکھتا ، چاہے وہ خود کو کتنا ہی بڑا افلاطون سمجھتا ہو!

1956ء میں ہدایتکارمنشی دل نے اردو فلم "حمیدہ"میں نوجوان اداکاراعجازکو ایک ثانوی کردار میں پیش کیا تھا جو فلم کی ہیروئن صبیحہ خانم کا بھائی اور پاکستان کے سب سے سینئر ہیرونذیرکا بیٹا ہوتا ہے۔ یہ فلم

کامیاب رہی،اسی سال اعجاز فلم"مرزا صاحباں" میں مہمان اداکار کے طور پر بھی نظر آئے تھے۔

1957ء میں اعجازکی اکلوتی فلم "بڑا آدمی" ریلیز ہوئی تھی جس میں ان کی پہلی ہیروئن مینا شوری تھی۔1958ء میں اعجازکی چاروں ریلیز شدہ فلمیں ناکام ہوئیں۔ فلم"دل میں تو"میں صبیحہ خانم کے ساتھ پہلی بار ہیرو آئے تھے جو اس وقت کی سب سے مقبول ترین ہیروئن تھیں۔ فلم "تمنا"میں یاسمین کے مقابل ہیرو تھے، فلم "ستاروں کی دنیا"میں مینا شوری کے ساتھ ہیرو تھے جبکہ"واہ رے زمانے"میں پہلی بارشمیم آراکے ساتھ ہیرو آئے جو اس وقت ایک نئی اداکارہ تھیں۔

ان کی پہلی کامیاب فلم"راز"تھی جس کے ہدایتکارہمایوں مرزا تھے۔ اس فلم میں پہلی بار ان کا ساتھ وقت کی دوسری مقبول ترین ہیروئن مسرت نذیرنے دیا۔ پاکستان کے پچاس کے عشرہ کے کامیاب ترین فلمساز اور ہدایتکار انور کمال پاشا کی فلم" گمراہ"کے ہیرو بھی اعجاز تھے۔ اسی سال اعجاز کی پہلی پنجابی فلم"سچے موتی" ریلیز ہوئی تھی اس فلم کی ہیروئن نیلوتھیں۔

1961ء میں اعجاز کی صرف دو فلمیں سامنے آئی تھیں جن میں فلم "دوراستے"میں ان کی ہیروئن نیلوتھیں۔ اس فلم میں سلیم رضا کا ایک گیت بڑا مقبول ہوا تھا"بنا کے میرا نشیمن جلا دیا تو نے''۔ اس سال کی سب سے یادگار فلم "فرشتہ" تھی جو ایک روسی ناول پر بنائی گئی ایک آرٹ فلم تھی۔فلم کا مرکزی کرداراعجازہے جو ایک فرشتہ بن کر ایک عصمت فروش عورت کو سہارا دیتا ہے جو اپنے غریب خاندان کی کفالت کے لئے اس مکروہ دھندے پر مجبور ہوتی ہے۔ ہدایتکارلقمان کی یہ شاہکار فلم پاکستانی فلمی تاریخ کا فخر ہے لیکن ایسی آرٹ فلمیں باکس آفس پر کامیاب نہیں ہوتی تھیں کیونکہ فلم ایک تفریح کے طور پر لی جاتی تھی اور آرٹ فلموں میں تفریح کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی۔

1962ء کا سال اعجاز کے لئے بڑا یادگار سال تھا جب ان کی پانچ میں سے دو فلمیں کامیاب ، دو اوسط اور صرف ایک فلم ناکام تھی۔ اس سال کی سب سے بڑی فلم ہدایتکارخلیل قیصر کی "شہید" تھی جو ایک عالمی معیار کی فلم تھی۔ اس فلم میں رشید عطرے کی موسیقی میں فیض احمد فیض کی لکھی ہوئی یہ انقلابی نظم اعجاز صاحب پر فلمائی گئی تھی جسے منیر حسین نے گایا تھا "نثار میں تیری گلیوں پہ اے وطن کے جہاں ، چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے" اس فلم کا ٹائٹل رول مسرت نذیر نے کیا تھا جس پر نسیم بیگم کا یہ شاہکار گیت فلمایا گیا تھا "اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو" طالش نے اس فلم میں بین الاقوامی معیار کی اداکاری کا مظاہرہ کیا تھا۔

عرب کے صحراؤں میں انگریزوں نے کس طرح سے تیل کی دولت تلاش کی تھی ، اس موضوع پر بنائی گئی یہ ایک انتہائی متاثر کن فلم تھی۔اسی سال کی فلم "عذرا" ایک اور کامیاب فلم تھی جس کا ٹائٹل رول نیلو نے کیا تھا۔ یہ ایک عربی لوک داستان تھی جس میں عذرا کے عاشق کا رول اعجاز نے بخوبی کیا تھا اور ان پر سلیم رضا کا گایا ہوا ایک سپرہٹ گیت "جان بہاراں ، رشک چمن ، غنچہ دہن ، سیمیں بدن" فلمایا گیا تھا۔ فلم"اجنبی"جنگ و جدل والی فلم تھی جس میں اعجاز کی جوڑی بہارکے ساتھ تھی۔

فلم "گہرا داغ" کا شمار ان کی کامیاب ترین فلموں میں ہوتا ہے۔ اس فلم میں اعجاز پرمہدی حسن کا ایک بڑا خوبصورت گیت فلمایا گیا تھا "گر تم حسین نہ ہوتے اور میں جوان نہ ہوتا۔" اس گیت کے دوران اعجاز بغیر مونچھوں کے نظر آئے جو بڑا عجیب سا لگتا تھا کیونکہ ان کہ خوبصورت مونچھیں ان کی باوقار شخصیت کا خاصا تھیں جو اس وقت کے نوجوان طبقے میں فیشن کے طور پر مقبول تھیں۔

اعجاز کی اداکارہ فردوس کے ساتھ پہلی فلم "لائی لگ" 1964ء میں ریلیز ہوئی تھی۔ ٹائٹل رول علاؤالدین نے کیا تھا۔ وٹہ سٹہ کی شادی پر بنائی گئی یہ ایک بڑی بامقصد اور اعلیٰ پائے کی فلم تھی جس میں لوک فنکار عالم لوہار نے پہلی بار کوئی فلمی گیت گایا تھا۔

"بدنام "ان کی یادگار فلم سمجھی جاتی ہے، جو ایک عالمی معیار کی فلم ثابت ہوئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس فلم کو تاشقند کے فلمی میلے میں پیش کیا گیا تھا اور اتنی پسند کی گئی تھی کہ روس کی سترہ زبانوں میں ڈب کر کے مختلف ریاستوں میں پیش کی گئی تھی۔ اس فلم میں پہلی باراعجاز پرمسعودرانا کے تین گیت فلمائے گئے تھے جن میں سب سے اعلیٰ میعار کا گیت "ابھی تو دل میں ہلکی سی خلش محسوس ہوتی ہے" تھا ۔جبکہ ایک دوگانا "اک اور بات مانی'' بھی بڑے اعلیٰ پائے کا گیت تھا۔

1966ء میں آنے والی فلم "سوال"میں اعجازنے پہلی بار ایک ولن کا رول کیا تھا جوسلونی کے ایک ناجائز بچے کا باپ ہوتا ہے اور فلم کے آخر میں اس کی گولی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ فلم "جلوہ"بھی ان کی ایک یادگار نغماتی فلم تھی جس میں لکھنو اور پنجابی تہذیب کو موضوع بنایا گیا تھا۔ اس فلم کے ہیرو درپن تھے اوراعجازنے سائیڈ ہیرو کے طور پر پنجابی بولی تھی۔

1967ء میں اعجاز کے عروج کا دور شروع ہوا جب ان کی ایک سال میں 8 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ اس سال کی سب سے بڑی فلم "لاکھوں میں ایک" تھی۔ پاکستان کی ٹاپ ٹین فلموں کا جب بھی ذکر ہوگا ، اس فلم کا ذکر لازمی ہوگا۔ ہندو مسلم لو سٹوری پر بنائی گئی یہ ایک بے مثل فلم تھی جس کا ہر شعبہ لاجواب تھا۔ اعجاز کی ہیروئن شمیم آرا تھی جب کہ اس اردو فلم میں پہلی بار معروف ولن مصطفی ٰقریشی کو متعارف کرایا گیا تھا۔ اس فلم کے سپرہٹ گیتوں کی وجہ سے نثار بزمی صاحب نے اپنا نام عظیم موسیقاروں کی صف شامل کروا لیا تھا۔ اس سال کی دوسری بڑی فلم "مرزاجٹ" تھی جو اعجاز کی اب تک کی تیسری لیکن پہلی سپرہٹ پنجابی فلم تھی۔ اس فلم میں ان کی جوڑی فردوس کے ساتھ تھی۔ اس کلاسیک جوڑی نے 37 فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا جن میں صرف ایک اردو فلم تھی۔

برصغیر کی فلمی تاریخ میں" مرزاصاحباں" کی لوک داستان پر بہت سی فلمیں بنائی گئی ہیں جن میں صرف پاکستان میں چار باربنیں یعنی"مرزا صاحباں" (1956) میں مسرت نذیر اور سدھیر ، فلم "جٹ مرزا"میں

انجمن اور یوسف خان اور فلم "مرزاجٹ" میں خانم اور شاہد نیمرکزی کردارکئے تھے لیکن ان میں کوئی ایک بھی فردوس اور اعجاز والی "مرزاجٹ"کے معیار تک نہیں پہنچ سکا تھا۔

1968ء کا سال اعجاز کے انتہائی عروج کا سال تھا جب ان کی ایک کیلنڈر ایئر میں 16 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں۔ ان میں 12 اردو اور 4 پنجابی فلمیں تھیں۔ اردو فلموں میں"بہن بھائی" سب سے بڑی فلم تھی جس میں انہوں نے ایک بار پھر ولن کا رول کیا تھا۔ 1969ء کا سال اعجاز کے فلمی کریئر کا سب سے یادگار سال تھا جب مقبولیت اور مصروفیت میں انہوں نے دیگر سبھی بڑے بڑے اداکاروں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ اس سال اعجاز نے ریکارڈ توڑ 20 فلموں میں کام کیا تھا جن میں سے 6 اردو اور 14 پنجابی فلمیں تھیں۔ اردو فلموں میں ریاض شاہد کی اکلوتی کامیاب فلم "زرقا"سال کی سب سے بڑی فلم ثابت ہوئی تھی۔ فلسطین کے موضوع پر بنائی گئی اس فلم نے ملک گیر کامیابی حاصل کی تھی اور کراچی میں پہلی بار سو ہفتے چلنے والی اولین ڈائمنڈ جوبلی فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔

نیلو نے ٹائٹل رول کیا تھا جس کی اعجاز کے ساتھ دس فلمیں تھیں جو تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ تھیں۔ اس فلم کی ہائی لائٹ مہدی حسن کا شاہکار گیت "رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے" تھا جو اعجاز پر فلمایا گیا تھا۔ اعجاز کی فلم"دیا اور طوفان"بھی ایک گولڈن جوبلی سپرہٹ اردو فلم تھی جس میں رنگیلا کا گایا ہوا امر گیت "گا میرے منوا گاتا جارے" بھی اعجاز پر فلمایا گیا تھا۔ یہ واحد اردو فلم تھی جس میں اعجاز کی جوڑی نغمہ کے ساتھ تھی حالانکہ اس جوڑی نے کل چودہ فلموں میں ایک ساتھ کام کیا تھا اور فردوس ، اعجاز کی جوڑی کے بعد نغمہ ، اعجاز کی جوڑی بڑی کامیاب رہی تھی۔ یادگار نغماتی فلم"درد"ایک اوسط درجہ کی تھی جس میں اعجاز کی ہیروئن دیبا تھی۔

1970ء کا سال اعجاز کے لئے ایک اور یادگار سال تھا جب پاکستان کی فلمی تاریخ کی سب سے بڑی فلم "ہیر رانجھا" ریلیز ہوئی تھی۔ ہدایتکارمسعودپرویز نے عظیم صوفی شاعر وارث شاہ ؒکے کلاسیک فن پارے کو احمدراہی کی فلمی تمثیل کی شکل میں سلور سکرین پر پیش کر کے امر کردیا تھا۔ پندرہ برسوں میں اس موضوع پر بنائی جانے والی یہ تیسری فلم تھی۔ ہدایتکار نذیر کی فلم ہیر (1955) اپنے نغمات کی وجہ سے یادگار تھی لیکن اس میں اداکاری کا معیار بڑا کمزور تھا۔سورن لتا اور عنایت حسین بھٹی نے مرکزی کردار کئے تھے۔

ہدایتکار جعفر بخاری کی فلم "ہیرسیال"کی موسیقی اچھی تھی لیکن سپرہٹ نہیں تھی۔ فردوس نے پہلی بار اس فلم میں ہیر کا رول کیا تھا لیکن اکمل کو رانجھے کے کردار میں قبول نہیں کیا گیا تھا۔ ہیر رانجھانے ایک ایسا معیار مقرر کر دیا تھا کہ جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ فردوس نے ہیر ، اعجاز نے رانجھے ، اجمل نے کیدو اور منورظریف نے سیدے کھیڑے کے کردار میں انمٹ نقوش مرتب کئے تھے۔ دیگر اداکار بھی اپنے اپنے کرداروں میں فٹ تھے۔ خواجہ خورشید انور کی لازوال موسیقی میں میڈم نورجہاں کی "میں تاں ہو ہو گئی قربان" نے تاریخ رقم کر دی تھی۔ اس فلم کے فلمساز اعجاز خود تھے جن کی یہ بطور فلم ساز تیسری فلم تھی ، اس سے قبل وہ ، مراد بلوچ(1968) اور دلا حیدری (1969) بنا چکے تھے۔

1970ء میں کل 12 فلمیں ریلیز ہوئی تھیں جن میں صرف 3 اردو اور 9 پنجابی فلمیں تھیں۔ اعجاز کی بطور ہیرو فلم انورا (1970) پہلی پنجابی فلم تھی جس نے کراچی میں پلاٹینم جوبلی کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاہور میں یہ فلم صرف سلورجوبلی ہوئی تھی۔

1977ء میں اعجاز کی اپنے پہلے دور کی آخری اور اکلوتی فلم"اپریل فول"ریلیز ہوئی تھی جس میں انہوں نے ایک ولن کا رول کیا تھا۔ 3 مارچ 1978ء کو اعجاز کو فلم "ہیررانجھا"کے فلم رولز میں منشیات چھپا کر لندن ایئرپورٹ پر پکڑے جانے پر پانچ سال کے لئے جیل کی سزا ہوئی تھی جو انہوں نے 1983ء تک کاٹی تھی۔ جیل سے واپسی کے بعد 1984ء میں انہوں نے فلمسازی کا آغاز کیا اور سپرہٹ فلم "شعلے"بنائی جس میں انجمن اور سلطان راہی مرکزی کرداروں میں تھے جبکہ اعجاز نے اس فلم میں ایک پولیس افسر کا رول کیا تھا۔ ان کی آخری ریلیز ہونے والی فلم "جھومر چور" تھی جس میں وہ شبنم اور جاوید شیخ کے مقابل ثانوی کردار میں تھے۔

اعجاز کی ازدواجی زندگی پر نظر دوڑائیں تو 19 اکتوبر 1959ء کو اعجاز نے ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ پہلی شادی کی تھی جو میڈم کی دوسری جبکہ اعجاز کی پہلی شادی تھی۔ بارہ سالہ ازدواجی زندگی میں میڈم کے بطن سے اعجاز کی تین بیٹیاں پیدا ہوئی تھیں۔ 28 اپریل 1971ء کو ان میں طلاق ہوگئی تھی۔ اعجاز نے دوسری شادی اداکارہ فردوس کے ساتھ کی جو بہت کم عرصہ چلی۔ اعجاز نے اسی سال تیسری شادی ہدایتکار شریف نیر کی لے پالک بیٹی سے کی تھی جو کامیاب رہی تھی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں