معاشرتی اصلاح اور فلاح کا ضامن مضبوط ومستحکم خاندان
دنیا میں جہاں بھی کوئی آزادی کی تحریک چلی، کوئی انقلاب آیا،خواتین کا اس میں بڑا نمایاں کردار رہا ہے۔
دنیا بھر میں 8مارچ کو یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے۔اس دن خواتین کے حقوق کے تحفظ اورانھیں ہر طرح کے ظلم و استحصال سے بچانے کے عہد و پیمان باندھے اور ان کا اعادہ کیا جاتا ہے۔
کرہ ٔارض پر اللہ تعالیٰ نے جو سب سے پہلارشتہ قائم کیا وہ میاں بیوی کا تھا، حضرت آدم علیہ اسلام اور حضرت حوا کو میاں بیوی کے رشتے میں باندھ کر پہلے جنت میں رکھا گیا اور پھر خلافت ارضی قائم کرنے کے لیے انھیں زمین پر بھیج دیا گیا۔اسی رشتے سے دوسرے رشتے قائم ہوئے، خاندان کی بنیاد پڑی اور پھر انسانی معاشرہ وجود میں آیا۔ایک مضبوط اور مستحکم خاندان ہی سے بہترین معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔ان رشتوں کی حفاظت مضبوط معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ جہاں عورتیں اور بچے محفو ظ نہ ہوں وہاں ریاست مستحکم ہوسکتی اور نہ قائم رہتی ہے۔
سیاست بے شک ہوتی ہے لیکن معاشرہ مضبوط نہیں ہوتا۔ خاندان میں عورت کا ایک بنیادی اور کلیدی کردار ہے۔ عورت محفوظ ہوتو خاندان بھی مستحکم ہوتا ہے۔خاندانی نظام کی بنیادی اکائی مرد اور عورت ہیں اور معاشرے کی اکائی خاندان ہے۔نوع انسانی کو آگے بڑھانے کے لیے خاندان اللہ کی طرف سے ایک مقدس ادارہ ہے۔ خاندان انسانی نسل کے تسلسل کا ذریعہ ہے۔عورت اور مرد میں ذمے داریوں کاتعین اور تقسیم بھی خاندان کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کی ذمے داریوں میں معیشت کوسنبھالنا اور آگے بڑھانا رکھا ہے جب کہ عورتوں کو نسلوں کی تربیت کا عظیم کام سونپاگیا ہے۔
خاتم النبیین حضرت محمدﷺ محسن انسانیت ہیں۔حضورﷺ نے عورت کو اس کا جائز مقام دلوایا۔ آپ ﷺ نے عورت کو گھر کی ملکہ بنانے کے ساتھ ساتھ اسے ماں بہن بیٹی کا مقدس رشتہ اور مرتبہ عطا کیا۔ جس معاشرے میں لوگ عورت کو انسان ہی نہیں سمجھتے تھے آپﷺ نے اس معاشرے میں یہ مرتبہ اور مقام دلایا۔ عورتوں کو زندہ درگور اور میلوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح بولیاں لگا کران کی خرید و فروخت کرتے تھے۔بیٹی کی پیدائش پر باپ منہ چھپاتا پھرتاتھا اور اسے منحوس سمجھا جاتا تھا ،باپ کی وراثت میں بیٹی کا کوئی حق نہیں تھا۔آپ ﷺ نے دنیا کو جو نظام دیا اس میں عورت کو نہ صرف باپ اور شوہر کی وراثت میں بھی حصہ دلایا بلکہ فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں میں ہے۔شریعت نے وہ تمام حقوق عورت کو دیے جس سے اسے صدیوں سے محروم رکھا گیا تھا۔
آپﷺ نے بیواؤں اور یتیموں کو معاشرے میں عزت دی اور ان کے حقوق کی ادائیگی کو مقدم قراردیا۔جو حقوق اللہ تعالیٰ نے عورت کو دیے تھے آپ ﷺ نے ان تمام عزتوں اور رفعتوں سے عورت کو سرفراز کیا لیکن آج عورت کو اس عظیم مرتبے ،عزت واحترام اور وقار سے ایک بار پھر محروم کردیا گیا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کو اعتماد دیا جارہا ہے اور نہ اس پر اعتماد کیا جارہا۔برابری کے نام پر عورت کا استحصال کیا جارہا ہے۔
آج کی دنیا میں عورت کی بہت بڑی آبادی ہے۔بین الاقوامی اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا قریباً نصف خواتین ہیں۔ خواتین کے حقوق کے نام پر دنیا میںبہت سے ادارے اور انجمنیں کام کررہی ہیں۔ لیکن عورت مظلوم ہے ،عزت و وقار ،تعلیم اور تحفظ سے محروم ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ عورت کے تحفظ کے نام پر کام کرنے والی این جی اوزہی عورتوں کے خلاف سازشوں میں شریک ہیں۔ان سازشوں کے نتیجے میں خاندانی نظام کو تباہ کیا گیا۔
عورت اور مرد کے درمیان اللہ نے جو ایک مقدس رشتہ قائم کیا تھا ،اس رشتے کو تارتار کیا گیا۔آج اپنے آپ کو مہذب سمجھنے والے معاشرے میں عورت تنہا ،بے لباس اور بے توقیر ہوگئی ہے۔ اسی بنا پرہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت قومی اور بین الاقوامی سطح پرعورت کو جن مسائل کا سامنا ہے انھیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔
مغرب اور یورپ کی تقلید میںہمارے ملک میں بھی خاندانی نظام اس وقت شدید خطرات سے دوچار ہے۔ایک سروے کے مطابق طلاق اور خلع کے مقدمات میں سات سوگنا اضافہ ہوا ہے۔فیکٹریوں،دفاتر اور دیگر اداروں میں کام کرنے والی عورتیں ڈری ، سہمی اور خوفزدہ رہتی ہیں اور انھیں ہراساں کرنے کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں،بلکہ شرم کی بات یہ ہے کہ اب تو مخلوط تعلیم والی یونیورسٹیوں اور کالجز میں بھی ہماری بچیاں محفوظ نہیں ہیں۔
ایک سال میں خواتین اور بچیوں پر مجرمانہ حملوں کے تین ہزارواقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر جماعت اسلامی نے خواتین کے عزت و وقار اور تحفظ اور انھیں تعلیم ،صحت، وراثت کے حقوق دلانے کے لیے جامع پروگرام ترتیب دیا ہے جس پر عمل درآمد کے لیے قومی سطح پر ایک بڑی تحریک کا آغاز کردیاگیا ہے۔یہ تحریک 11فروری سے ملک بھر میں جاری ہے۔جماعت اسلامی قومی ترقی میں عورت کے فعال کردار کی حامی ہے۔ جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ جب تک عورت زندگی کے ہر شعبہ میں فعال کردار ادا نہیں کرے گی، معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ہم جانتے ہیں کہ یو این او کے تحت بہت سارے ادارے قائم ہیں۔
گزشتہ عرصے میں عورت کے حقوق کے نام سے ان کے کئی کنونشنز بھی ہوئے ہیں۔ان کنونشنز میں بھی جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین کی ذمے دار بہنوں نے شرکت کی ہے۔بین الاقوامی سطح پر ہونے والی کانفرنسز میں ہمارے خواتین ونگ نے اپنی تجاویز بھی دی ہیں۔ عورت کو بہتر معیشت اور روز گار کا حق ملنا چاہیے۔عورت پر تشدد کا ہر راستہ بند کیا جائے۔عورت کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے اور عورت ہونے کے ناتے اس کے انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔لیکن یہ تمام تجاویز لکیر برآب ثابت ہوئیںاس لیے کہ دنیا بھر میں عورتوں کو حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔
دنیا میں جہاں بھی کوئی آزادی کی تحریک چلی، کوئی انقلاب آیا،خواتین کا اس میں بڑا نمایاں کردار رہا ہے ،اسلامی تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، خواتین نے دست بدست ہونے والی لڑائیوں اور جنگوں میں بھی حصہ لیا۔ملکی ترقی ہو یا معاشرتی اصلاح یا آزادی کی کوئی تحریک ہو ،عورتوں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان کی آزادی کی جدوجہد میں افغان ماؤں نے بھرپور حصہ لیا۔کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی طویل تحریکوں کی تاریخ خواتین کے بے مثال کارناموں سے بھری پڑی ہیں۔
جماعت اسلامی خواتین کے حقوق کی محافظ اور ترجمان جماعت ہے۔8مارچ کو عالمی یوم خواتین کے موقعے پر جماعت اسلامی ملک بھر کے ضلع ہیڈکوارٹرز میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بڑے بڑے جلسے ،جلوس،ریلیاں،سیمینارز اور کانفرنسیں منعقد کرے گی۔ان اجتماعات میں ہزاروں خواتین شریک ہونگی اور ملک بھر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کی جائے گی۔اس مہم میں نہ صرف جماعت اسلامی کی خواتین بلکہ تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی شریک ہونگی۔
سیاست، تعصبات، نسلی،لسانی،علاقائی امتیازات سے بالا تر ہوکرحقوق نسواں کے لیے ملک کی تمام خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے گا۔ 14فروری کو ملک گیر یوم حیا منایا گیا تاکہ معاشرے میں حیا کے کلچر کو عام کیا جائے اور فحاشی و عریانی اور بے حیائی کے سیلاب پر بند باندھا جاسکے۔
کرہ ٔارض پر اللہ تعالیٰ نے جو سب سے پہلارشتہ قائم کیا وہ میاں بیوی کا تھا، حضرت آدم علیہ اسلام اور حضرت حوا کو میاں بیوی کے رشتے میں باندھ کر پہلے جنت میں رکھا گیا اور پھر خلافت ارضی قائم کرنے کے لیے انھیں زمین پر بھیج دیا گیا۔اسی رشتے سے دوسرے رشتے قائم ہوئے، خاندان کی بنیاد پڑی اور پھر انسانی معاشرہ وجود میں آیا۔ایک مضبوط اور مستحکم خاندان ہی سے بہترین معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔ان رشتوں کی حفاظت مضبوط معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے۔ جہاں عورتیں اور بچے محفو ظ نہ ہوں وہاں ریاست مستحکم ہوسکتی اور نہ قائم رہتی ہے۔
سیاست بے شک ہوتی ہے لیکن معاشرہ مضبوط نہیں ہوتا۔ خاندان میں عورت کا ایک بنیادی اور کلیدی کردار ہے۔ عورت محفوظ ہوتو خاندان بھی مستحکم ہوتا ہے۔خاندانی نظام کی بنیادی اکائی مرد اور عورت ہیں اور معاشرے کی اکائی خاندان ہے۔نوع انسانی کو آگے بڑھانے کے لیے خاندان اللہ کی طرف سے ایک مقدس ادارہ ہے۔ خاندان انسانی نسل کے تسلسل کا ذریعہ ہے۔عورت اور مرد میں ذمے داریوں کاتعین اور تقسیم بھی خاندان کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مرد کی ذمے داریوں میں معیشت کوسنبھالنا اور آگے بڑھانا رکھا ہے جب کہ عورتوں کو نسلوں کی تربیت کا عظیم کام سونپاگیا ہے۔
خاتم النبیین حضرت محمدﷺ محسن انسانیت ہیں۔حضورﷺ نے عورت کو اس کا جائز مقام دلوایا۔ آپ ﷺ نے عورت کو گھر کی ملکہ بنانے کے ساتھ ساتھ اسے ماں بہن بیٹی کا مقدس رشتہ اور مرتبہ عطا کیا۔ جس معاشرے میں لوگ عورت کو انسان ہی نہیں سمجھتے تھے آپﷺ نے اس معاشرے میں یہ مرتبہ اور مقام دلایا۔ عورتوں کو زندہ درگور اور میلوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح بولیاں لگا کران کی خرید و فروخت کرتے تھے۔بیٹی کی پیدائش پر باپ منہ چھپاتا پھرتاتھا اور اسے منحوس سمجھا جاتا تھا ،باپ کی وراثت میں بیٹی کا کوئی حق نہیں تھا۔آپ ﷺ نے دنیا کو جو نظام دیا اس میں عورت کو نہ صرف باپ اور شوہر کی وراثت میں بھی حصہ دلایا بلکہ فرمایا کہ جنت ماں کے قدموں میں ہے۔شریعت نے وہ تمام حقوق عورت کو دیے جس سے اسے صدیوں سے محروم رکھا گیا تھا۔
آپﷺ نے بیواؤں اور یتیموں کو معاشرے میں عزت دی اور ان کے حقوق کی ادائیگی کو مقدم قراردیا۔جو حقوق اللہ تعالیٰ نے عورت کو دیے تھے آپ ﷺ نے ان تمام عزتوں اور رفعتوں سے عورت کو سرفراز کیا لیکن آج عورت کو اس عظیم مرتبے ،عزت واحترام اور وقار سے ایک بار پھر محروم کردیا گیا ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کو اعتماد دیا جارہا ہے اور نہ اس پر اعتماد کیا جارہا۔برابری کے نام پر عورت کا استحصال کیا جارہا ہے۔
آج کی دنیا میں عورت کی بہت بڑی آبادی ہے۔بین الاقوامی اعداد و شمار کے مطابق دنیا کی کل آبادی کا قریباً نصف خواتین ہیں۔ خواتین کے حقوق کے نام پر دنیا میںبہت سے ادارے اور انجمنیں کام کررہی ہیں۔ لیکن عورت مظلوم ہے ،عزت و وقار ،تعلیم اور تحفظ سے محروم ہے، افسوسناک امر یہ ہے کہ عورت کے تحفظ کے نام پر کام کرنے والی این جی اوزہی عورتوں کے خلاف سازشوں میں شریک ہیں۔ان سازشوں کے نتیجے میں خاندانی نظام کو تباہ کیا گیا۔
عورت اور مرد کے درمیان اللہ نے جو ایک مقدس رشتہ قائم کیا تھا ،اس رشتے کو تارتار کیا گیا۔آج اپنے آپ کو مہذب سمجھنے والے معاشرے میں عورت تنہا ،بے لباس اور بے توقیر ہوگئی ہے۔ اسی بنا پرہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت قومی اور بین الاقوامی سطح پرعورت کو جن مسائل کا سامنا ہے انھیں حل کرنے کی ضرورت ہے۔
مغرب اور یورپ کی تقلید میںہمارے ملک میں بھی خاندانی نظام اس وقت شدید خطرات سے دوچار ہے۔ایک سروے کے مطابق طلاق اور خلع کے مقدمات میں سات سوگنا اضافہ ہوا ہے۔فیکٹریوں،دفاتر اور دیگر اداروں میں کام کرنے والی عورتیں ڈری ، سہمی اور خوفزدہ رہتی ہیں اور انھیں ہراساں کرنے کے واقعات مسلسل بڑھ رہے ہیں،بلکہ شرم کی بات یہ ہے کہ اب تو مخلوط تعلیم والی یونیورسٹیوں اور کالجز میں بھی ہماری بچیاں محفوظ نہیں ہیں۔
ایک سال میں خواتین اور بچیوں پر مجرمانہ حملوں کے تین ہزارواقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر جماعت اسلامی نے خواتین کے عزت و وقار اور تحفظ اور انھیں تعلیم ،صحت، وراثت کے حقوق دلانے کے لیے جامع پروگرام ترتیب دیا ہے جس پر عمل درآمد کے لیے قومی سطح پر ایک بڑی تحریک کا آغاز کردیاگیا ہے۔یہ تحریک 11فروری سے ملک بھر میں جاری ہے۔جماعت اسلامی قومی ترقی میں عورت کے فعال کردار کی حامی ہے۔ جماعت اسلامی سمجھتی ہے کہ جب تک عورت زندگی کے ہر شعبہ میں فعال کردار ادا نہیں کرے گی، معاشرہ ترقی نہیں کرسکتا۔ہم جانتے ہیں کہ یو این او کے تحت بہت سارے ادارے قائم ہیں۔
گزشتہ عرصے میں عورت کے حقوق کے نام سے ان کے کئی کنونشنز بھی ہوئے ہیں۔ان کنونشنز میں بھی جماعت اسلامی کے حلقہ خواتین کی ذمے دار بہنوں نے شرکت کی ہے۔بین الاقوامی سطح پر ہونے والی کانفرنسز میں ہمارے خواتین ونگ نے اپنی تجاویز بھی دی ہیں۔ عورت کو بہتر معیشت اور روز گار کا حق ملنا چاہیے۔عورت پر تشدد کا ہر راستہ بند کیا جائے۔عورت کو فیصلہ سازی میں شامل کیا جائے اور عورت ہونے کے ناتے اس کے انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔لیکن یہ تمام تجاویز لکیر برآب ثابت ہوئیںاس لیے کہ دنیا بھر میں عورتوں کو حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔
دنیا میں جہاں بھی کوئی آزادی کی تحریک چلی، کوئی انقلاب آیا،خواتین کا اس میں بڑا نمایاں کردار رہا ہے ،اسلامی تاریخ تو ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، خواتین نے دست بدست ہونے والی لڑائیوں اور جنگوں میں بھی حصہ لیا۔ملکی ترقی ہو یا معاشرتی اصلاح یا آزادی کی کوئی تحریک ہو ،عورتوں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ افغانستان کی آزادی کی جدوجہد میں افغان ماؤں نے بھرپور حصہ لیا۔کشمیر اور فلسطین کی آزادی کی طویل تحریکوں کی تاریخ خواتین کے بے مثال کارناموں سے بھری پڑی ہیں۔
جماعت اسلامی خواتین کے حقوق کی محافظ اور ترجمان جماعت ہے۔8مارچ کو عالمی یوم خواتین کے موقعے پر جماعت اسلامی ملک بھر کے ضلع ہیڈکوارٹرز میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے بڑے بڑے جلسے ،جلوس،ریلیاں،سیمینارز اور کانفرنسیں منعقد کرے گی۔ان اجتماعات میں ہزاروں خواتین شریک ہونگی اور ملک بھر خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز بلند کی جائے گی۔اس مہم میں نہ صرف جماعت اسلامی کی خواتین بلکہ تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی شریک ہونگی۔
سیاست، تعصبات، نسلی،لسانی،علاقائی امتیازات سے بالا تر ہوکرحقوق نسواں کے لیے ملک کی تمام خواتین کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے گا۔ 14فروری کو ملک گیر یوم حیا منایا گیا تاکہ معاشرے میں حیا کے کلچر کو عام کیا جائے اور فحاشی و عریانی اور بے حیائی کے سیلاب پر بند باندھا جاسکے۔