بے اعتمادی پر اعتماد
ملک میں پہلی بار وزیر اعظم کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا۔
صرف تین روز قبل عبدالحفیظ شیخ پر عدم اعتماد کرکے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو 169 ووٹ دے کر منتخب کرنے والے پی ٹی آئی اور حکومتی حلیف جماعتوں کے ارکان قومی اسمبلی نے قومی اسمبلی کے یک طرفہ اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان پر 178 ووٹوں کے ساتھ اعتماد کا اظہار کرکے یہ ثابت کر دکھایا کہ ان میں کوئی ضمیر فروش، کرپٹ اور غدار نہیں ہے بلکہ سب وزیر اعظم کے وفادار ہیں۔
ان 169 ممبران قومی اسمبلی نے وزیر اعظم کے سخت ناپسندیدہ یوسف رضا گیلانی کو شیخ عبدالحفیظ پر ترجیح دے کر اپنے وزیر اعظم کے فیصلے کو تسلیم نہیں کیا تھا اور آئین کے مطابق ہونے والی خفیہ ووٹنگ میں اپنے ضمیر یا کسی اور وجہ سے عبدالحفیظ شیخ کو مسترد کردیا تھا جو حکومتی اتحادیوں کی توقعات کے برعکس الیکشن ہار گئے جس پر وزیر اعظم نے غصے کا اظہار اپنی نشری تقریر اور بیانات میں برملا کیا تھا اور حکومتی امیدوار کی شکست پر ووٹ نہ دینے والوں کے ساتھ الیکشن کمیشن پر بھی کڑی تنقید کی تھی جو آئینی طور پر ایک خودمختار ادارہ ہے اور حکومت کے کنٹرول سے باہر ہے اور اس کا فیصلہ ایک ہائی کورٹ کے فیصلے جیسا ہے جس پر تنقید توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہے مگر حکومتی وزیروں نے الیکشن کمیشن کا احترام نہیں کیا اور آئین پر عمل کرنے پر اسے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ الیکشن کمیشن پر یہ حکومتی غصہ صرف سینیٹ کی ایک نشست ہارنے کا نہیں بلکہ این اے 79پر حکومتی امیدوارکوکامیاب قرار نہ دینے اور متعلقہ حلقے میں دوبارہ پولنگ کا فیصلہ دینے پر بھی تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سینیٹ الیکشن پر وزیر اعظم اور ان کے بعض وزیروں کی طرف سے کیے گئے تبصروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ہم کسی کی خوشنودی کی خاطر آئین اور قانون کو نظرانداز نہیں کرسکتے اور نہ آئین میں ترمیم کرسکتے ہیں، لہٰذا ہمیں آزادانہ طور پرکام کرنے دیں اور کیچڑ نہ اچھالیں۔ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی زیر صدارت بلائے گئے خصوصی اجلاس کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنے اعلامیے میں کہا کہ جس کو بھی الیکشن کمیشن کے احکامات یا فیصلوں پر اعتراض ہے وہ آئینی راستہ اختیار کرے اور ہمیں آزادانہ طور پر کام کرنے دیں۔
الیکشن کمیشن کے اجلاس میں کہا گیا کہ یہ حیران کن بات ہے کہ ایک ہی روز ایک ہی چھت کے نیچے ایک ہی الیکٹرول میں ایک ہی عملے کی موجودگی میں جو ہار گئے وہ نامنظور اور جو جیت گئے وہ منظور۔کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ جب کہ باقی صوبوں کے رزلٹ قبول۔ جس رزلٹ پر سرکاری تبصرے کیے گئے اور ناراضگی کا اظہار کیا گیا ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان اس کو مسترد کرتا ہے۔ہر سیاسی جماعت اور شخص میں شکست تسلیم کرنے کا حوصلہ ہونا چاہیے۔
الیکشن کمیشن کے اعلامیے کے گزشتہ روز قومی اسمبلی کے ایوان میں وزیر اعظم نے اپنی پارٹی کے ارکان اور حکومتی اتحادیوں سے جو ووٹ لیے ہیں اس سے ثابت ہوا ہے کہ انھی حکومتی حامیوں نے وزیر اعظم کو حکومتی خاتون امیدوار سے دو ووٹ زیادہ دے کر ثابت کردیا ہے کہ وہ کرپٹ، غدار اور بکے ہوئے نہیں تھے بلکہ انھیں ایک ایسے حکومتی امیدوار اور وزیر اعظم کی پسند پر اعتماد نہیں تھا جو غیر سیاسی اور منتخب لوگوں کو اہمیت نہیں دیتا تھا تو ایک امیدوار کو وہ کیسے منتخب کرلیتے۔ اس نامزدگی کو قومی اسمبلی کے ارکان نے مسترد کیا اور وزیر اعظم کو اپنے اعتماد کا ووٹ دے دیا ہے۔
حکومتی امیدوار پر بے اعتمادی کے بعد وزیر اعظم پر اعتماد حکومتی ارکان قومی اسمبلی کے باضمیر ہونے کا ثبوت ہے کہ انھوں نے تین روز قبل بھی اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دیے تھے اور تین روز بعد بھی اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ دے کر ثابت کردیا کہ ان کا فیصلہ درست اور حکومت کی طرف سے عبدالحفیظ شیخ کی نامزدگی کا فیصلہ غلط تھا اور حکومتی ارکان پر حکومتی حلقوں نے غلط الزامات لگائے تھے۔ وزیر اعظم کے پسندیدہ نامزد امیدوار کی شکست پہلی بار نہیں ہوئی بلکہ میاں نواز شریف کے دور حکومت میں ان کے پسندیدہ نامزد امیدوار شکست سے دوچار ہوچکے ہیں مگر اس وقت حکومتی حلقوں کی طرف سے ایسی اشتعال انگیزی ہوئی نہ ہی الیکشن کمیشن پر موجودہ حکومت جیسے الزام لگائے گئے تھے۔
ملک میں پہلی بار وزیر اعظم کی طرف سے الزام لگایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے جمہوریت کو نقصان پہنچایا اور اگر الیکشن کمیشن بیلٹ پیپرز پر بار کوڈ لگا دیتا تو بکنے والے 16-15لوگوں کا پتا چل جاتا کہ انھوں نے پیسہ لے کر حکومت مخالف امیدوار کو ووٹ دیے۔
مسلم لیگی رہنما مریم نواز کا کہنا ہے کہ عمران خان جنھیں بکاؤ کہتے تھے انھی سے اعتماد کا ووٹ لیا گیا۔ مرضی کے فیصلے آئیں تو ادارے اچھے ورنہ برے۔ ہر سیاسی جماعت کا سربراہ الیکشن ٹکٹ دینے کے موقع پر اپنے ہی پسندیدہ امیدوار کو ٹکٹ دیتا ہے اس وقت نہ پارٹی کی متعلقہ کمیٹی کی سنی جاتی ہے نہ پارٹی میں مشاورت کی جاتی ہے۔ عام انتخابات میں عوام کی مرضی کے بجائے اپنی مرضی چلائی جاتی ہے جس کا نتیجہ پارٹی سربراہ کے نامزد امیدوار کی شکست کی صورت میں نکلتا ہے اور عوام اپنی مرضی کے خلاف نامزد امیدوار کو مسترد کرنے کا حق رکھتے ہیں اور 3 مارچ کو بھی یہی ہوا اور منتخب ارکان نے عمران خان کے نامزد امیدوار کو مسترد کرکے اپنی مرضی کے مطابق ووٹ دیا۔