سیاست میں جاہلانہ طرز عمل
جماعت کا سربراہ پارلیمنٹ کے اندر مخالفین کو للکارتا رہا اور پیروکار پارلیمنٹ کے باہر بداخلاقی کا مظاہرہ کرتے رہے
یوسف رضا گیلانی کو کامیاب کروانے کے صرف تین دن بعد پی ٹی آئی کے معزز ارکین اسمبلی نے عمران خان کو اعتماد کا ووٹ دے کر موجودہ نظام کے کرپٹ ہونے پر مہر ثبت کردی۔ عمران خان نے اعتماد کا یہ ووٹ آئین کے آرٹیکل 91 کی شق سات کے تحت حاصل کیا۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر سینیٹ الیکشن بھی اعتماد کے ووٹ کی طرز پر ہوتے تو یوسف رضا گیلانی پر ایوان بالا کے دروازے کبھی نہ کھلتے۔ اعتماد کا ووٹ بظاہر ایک رسمی کارروائی تھی لیکن اس کی اہمیت اس لحاظ سے زیادہ تھی کہ ملکی تاریخ کے مطابق 30 سال بعد کسی وزیراعظم کو اعتماد کے ووٹ کی ضرورت پڑی اور پھر انہی لوگوں سے پڑی جنہوں نے صرف تین دن قبل ہی پارٹی کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ جن 16 ارکان اسمبلی نے سینیٹ الیکشن میں پارٹی کے خلاف ووٹ دیا، اعتماد کا ووٹ دے کر وہ دودھ کے دھلے قرار پائے۔ شو آف ہینڈ کے ذریعے اعتماد کے ووٹ نے عمران خان کے اوپن بیلٹ موقف کی تائید کردی۔ سینٹ الیکشن کے دوران معزز اراکین اسمبلی کے طرز عمل نے اس نظام کے بدلنے کی ضرورت پر مہر ثبت کردی۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر یہ نظام نہ بدلا گیا تو خریدو فروخت کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ آج اگر مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی نے اپنے ٹکٹ اور نوٹ کے ذریعے خریدو فروخت کی، تو عین ممکن ہے کل پی ٹی آئی اس عمل کو دہرائے۔ اگر اس نظام کو درست نہ کیا گیا تو ہمارے قانون ساز ادارے دنیا بھر میں ملک کی جگ ہنسائی کا باعث بنتے رہیں گے۔
آپ اندازہ لگائیے کہ اب یہ کرپٹ ترین نظام اس قدر طاقت ور ہوچکا ہے کہ ملک کا سربراہ بھی دہائی دینے اور نظام کے گندے پن کی نشاندہی کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ غور طلب امر یہ ہے اگر وزیراعظم بھی اس گندے نظام کو بدلنے سے قاصر ہیں تو کون اسے ٹھیک کرے گا؟ وزیراعظم کے بیانات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں خفیہ ایجنسیوں نے معزز اراکین اسمبلی کی خریدو فروخت کے بارے میں آگاہ کردیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے پہلے وقت ہاتھ سے نکل جائے، جیسے آج ''ن لیگ'' احتساب قوانین میں ترامیم نہ کرنے پر کف افسوس ملتی ہے، ایسے ہی ہماری سیاسی جماعتیں کل کو اس گندے نظام کو نہ بدلنے پر افسوس کررہی ہوں۔ بہتر ہوگا تمام سیاسی جماعتیں ایسے شفاف انتخابی نظام پر اتفاق رائے کرلیں جو نہ صرف ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہو، بلکہ وطن عزیز کی جگ ہنسائی کا باعث بھی نہ بن سکے۔ بصورت دیگر غلاظت کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور ہمارے معززین اس سے آلودہ ہوتے رہیں گے۔
اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم قوم کو جوڑنے کی باتیں کرتے، خلیج کو دور کیا جاتا، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا منصوبہ پیش کیا جاتا، سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی جاتی، ماضی سے سیکھ کر مستقبل کی پیش بندی کی جاتی۔ مگر افسوس صد افسوس کہ پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت کا سربراہ پارلیمنٹ کے اندر مخالفین کو للکارتا رہا تو ان کے پیروکاروں نے پارلیمنٹ کے باہر عمر اور رتبے کا لحاظ کیے بغیر اپنے مخالفین کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ قلم کی حرمت کے پیش نظر لکھنے سے قاصر ہوں۔
یہاں پر میں حکمران جماعت کے پڑھے لکھے اور سمجھدار پیروکاروں سے صرف ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے جو سلوک احسن اقبال کے ساتھ کیا، اگر کوئی ایسا آپ کے باپ یا بھائی کے ساتھ کرے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ جو سلوک مریم اورنگزیب کے ساتھ کیا گیا، کیا ہم اپنی بہن بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک پسند کریں گے؟ میری عاجزانہ التماس ہے کہ براہِ کرم اس ملک کو جنگل نہ بنائیے۔ سیاست میں جاہلانہ طرز متعارف نہ کروائیے۔ خدارا! اختلاف کیجئے، مخالفت نہ کیجئے۔
بہرحال خوش آئند امر یہ ہے کہ اسپیکر اسد قیصر نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا اعلان کردیا ہے۔ امید ہے کہ وہ ذمے داران کا تعین کرنے کے بعد سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر انہیں نشان عبرت بنائیں گے، تاکہ مستقبل میں ایسی غلیظ حرکت کا اعادہ نہ ہو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں سیاست میں مثبت روایات کو فروغ دیں۔ ووٹ کو نوٹ اور ٹکٹ کے ذریعے چوری جیسے واقعات کا خاتمہ کیا جائے۔ اگر آپ کے نزدیک کوئی چور، ڈاکو، لٹیرا ہے تو قانون کی مدد سے اس کا قلع قمع کیا جائے، نہ کہ تھپڑ اور جوتوں سے اس کی تواضع کی جائے۔ موقع ملنے پر کم ازکم اتنا تو پرفارم کریں کہ دوسرے آپ سے آکر ملیں نہ ملیں، اپنے تو آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ اگر سینیٹ الیکشن بھی اعتماد کے ووٹ کی طرز پر ہوتے تو یوسف رضا گیلانی پر ایوان بالا کے دروازے کبھی نہ کھلتے۔ اعتماد کا ووٹ بظاہر ایک رسمی کارروائی تھی لیکن اس کی اہمیت اس لحاظ سے زیادہ تھی کہ ملکی تاریخ کے مطابق 30 سال بعد کسی وزیراعظم کو اعتماد کے ووٹ کی ضرورت پڑی اور پھر انہی لوگوں سے پڑی جنہوں نے صرف تین دن قبل ہی پارٹی کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ جن 16 ارکان اسمبلی نے سینیٹ الیکشن میں پارٹی کے خلاف ووٹ دیا، اعتماد کا ووٹ دے کر وہ دودھ کے دھلے قرار پائے۔ شو آف ہینڈ کے ذریعے اعتماد کے ووٹ نے عمران خان کے اوپن بیلٹ موقف کی تائید کردی۔ سینٹ الیکشن کے دوران معزز اراکین اسمبلی کے طرز عمل نے اس نظام کے بدلنے کی ضرورت پر مہر ثبت کردی۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اگر یہ نظام نہ بدلا گیا تو خریدو فروخت کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ آج اگر مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی نے اپنے ٹکٹ اور نوٹ کے ذریعے خریدو فروخت کی، تو عین ممکن ہے کل پی ٹی آئی اس عمل کو دہرائے۔ اگر اس نظام کو درست نہ کیا گیا تو ہمارے قانون ساز ادارے دنیا بھر میں ملک کی جگ ہنسائی کا باعث بنتے رہیں گے۔
آپ اندازہ لگائیے کہ اب یہ کرپٹ ترین نظام اس قدر طاقت ور ہوچکا ہے کہ ملک کا سربراہ بھی دہائی دینے اور نظام کے گندے پن کی نشاندہی کے سوا کچھ نہیں کرسکتا۔ غور طلب امر یہ ہے اگر وزیراعظم بھی اس گندے نظام کو بدلنے سے قاصر ہیں تو کون اسے ٹھیک کرے گا؟ وزیراعظم کے بیانات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ انہیں خفیہ ایجنسیوں نے معزز اراکین اسمبلی کی خریدو فروخت کے بارے میں آگاہ کردیا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس سے پہلے وقت ہاتھ سے نکل جائے، جیسے آج ''ن لیگ'' احتساب قوانین میں ترامیم نہ کرنے پر کف افسوس ملتی ہے، ایسے ہی ہماری سیاسی جماعتیں کل کو اس گندے نظام کو نہ بدلنے پر افسوس کررہی ہوں۔ بہتر ہوگا تمام سیاسی جماعتیں ایسے شفاف انتخابی نظام پر اتفاق رائے کرلیں جو نہ صرف ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ہو، بلکہ وطن عزیز کی جگ ہنسائی کا باعث بھی نہ بن سکے۔ بصورت دیگر غلاظت کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا اور ہمارے معززین اس سے آلودہ ہوتے رہیں گے۔
اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم قوم کو جوڑنے کی باتیں کرتے، خلیج کو دور کیا جاتا، ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا منصوبہ پیش کیا جاتا، سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بات کی جاتی، ماضی سے سیکھ کر مستقبل کی پیش بندی کی جاتی۔ مگر افسوس صد افسوس کہ پڑھے لکھے لوگوں کی جماعت کا سربراہ پارلیمنٹ کے اندر مخالفین کو للکارتا رہا تو ان کے پیروکاروں نے پارلیمنٹ کے باہر عمر اور رتبے کا لحاظ کیے بغیر اپنے مخالفین کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ قلم کی حرمت کے پیش نظر لکھنے سے قاصر ہوں۔
یہاں پر میں حکمران جماعت کے پڑھے لکھے اور سمجھدار پیروکاروں سے صرف ایک سوال کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے جو سلوک احسن اقبال کے ساتھ کیا، اگر کوئی ایسا آپ کے باپ یا بھائی کے ساتھ کرے تو آپ کا ردعمل کیا ہوگا؟ جو سلوک مریم اورنگزیب کے ساتھ کیا گیا، کیا ہم اپنی بہن بیٹی کے ساتھ ایسا سلوک پسند کریں گے؟ میری عاجزانہ التماس ہے کہ براہِ کرم اس ملک کو جنگل نہ بنائیے۔ سیاست میں جاہلانہ طرز متعارف نہ کروائیے۔ خدارا! اختلاف کیجئے، مخالفت نہ کیجئے۔
بہرحال خوش آئند امر یہ ہے کہ اسپیکر اسد قیصر نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے تحقیقات کا اعلان کردیا ہے۔ امید ہے کہ وہ ذمے داران کا تعین کرنے کے بعد سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر انہیں نشان عبرت بنائیں گے، تاکہ مستقبل میں ایسی غلیظ حرکت کا اعادہ نہ ہو۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں سیاست میں مثبت روایات کو فروغ دیں۔ ووٹ کو نوٹ اور ٹکٹ کے ذریعے چوری جیسے واقعات کا خاتمہ کیا جائے۔ اگر آپ کے نزدیک کوئی چور، ڈاکو، لٹیرا ہے تو قانون کی مدد سے اس کا قلع قمع کیا جائے، نہ کہ تھپڑ اور جوتوں سے اس کی تواضع کی جائے۔ موقع ملنے پر کم ازکم اتنا تو پرفارم کریں کہ دوسرے آپ سے آکر ملیں نہ ملیں، اپنے تو آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔